راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی میری زبانی

(گذشتہ سے پیوستہ)

وسیم حجازی

دشمنوں نے شہید برہان الدین صاحب کی نماز جنازہ میں کسی کو بھی شرکت کی نہیں کرنے دی سوائے انکے گھر والوں کو، انہیں رات کی تاریکی میں دفنایا گیا۔ یوں گْمنامی کو پسند کرنے والے کا آخری سفر بھی گمنامی کی نذر ہوا۔
ایک دن شہید شاہد بشیر میری عیادت کو آیا۔ شاہد ایک تنومند، ہنس مْکھ نوجوان تھا، شاہد میٹرک تک میرا کلاس فیلو تھا، ہجرت بھی ہم نے ایک ساتھ ہی کی تھی، ابتدائی عسکری تربیت بھی ایک ساتھ ہی حاصل کی تھی، جاتے وقت شاہد نے اپنا ایک تصویر میرے ہاتھ میں تھما دی جسکے بیک پر اْس نے خود ہی لکھا: ” شہید شاہد بشیر، مقامِ شہادت، کنٹرول لائن، تاریخِ شہادت سال ’’1997‘‘
پھر مجھ سے کہا کہ جب میں شہید ہوجاؤں تو اس تصویر پر دن اور مہینہ کی تاریخ خود لکھنا۔ اسکے آٹھ مہینے بعد یعنی ستمبر 1997 میں، وہ ایک دن مجھ سے رخصت لینے آیا کیونکہ اسے میدانِ کارزار جانا تھا۔ اْن دنوں میں مظفر آباد منتقل ہو چکا تھا۔ اس بار اْس نے ایک Knife Bayonet تحفہ کے طور پر دی جسے میں نے وطن واپسی تک سنبھال کے رکھا۔
قریباً ایک یا دو ہفتے بعد ایک دن شاہد کی شہادت کی خبر موصول ہوئی۔ وہ ایک خونریز جھڑپ میں جامِ شہادت نوش کر گئے تھے۔ اس جھڑپ میں دشمن کا بھی بہت جانی نقصان ہوا تھا۔ بدلے میں دشمن نے غصے میں آکر انکا سر کاٹ کر جسم سے علیحدہ کیا تھا۔ تین برس قبل اْس نے ایک دن بیس کیمپ میں اپنی پاکٹ ڈائری میں یہ شعر لکھا تھا’’جْھکایا تھا سر بارگاہِ خْدا میں، وہیں سر قلم ہوگیا کربلا میں‘‘ میں نے اْسکی وہ تصویر نکالی اور تاریخ شہادت اور مقامِ شہادت دیکھ کر حیران رہا گیا، شہید شاہد بشیر کا بڑا بھائی لیاقت بشیر بھی اکتوبر 1990 میں کلا روس کپواڑہ میں ایک جھڑپ میں شہید ہوا تھا ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی شہادت قبول کرے ۔آمین
جب میں بارہویں جماعت میں زیر تعلیم تھا تو ہماری انگریزی کی کتاب میں ایک باب تھا “Scotts Last Expedition”. سکاٹ ایک مہم جْو کوہ پیما تھا۔ ایک بار وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ برفانی طوفان میں پھنس گئے۔ انکے پاس جو خوراک تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ ایک ایک کرکے سکاٹ کے سارے ساتھی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ سکاٹ یہ سارے واقعات اپنی ڈائری میں درج کر رہا تھا۔ بالآخر ایک دن سکاٹ بھی زندگی کی بازی ہار گیا۔
کافی عرصے کے بعد کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم وہاں سے گذری تو انہیں وہ ڈائری ملی، یوں دنیا کو سکاٹ کے اس سانحہ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ۔سکاٹ کی یہ کہانی مجھے وہاں بار بار اْس وقت یاد آتی جب میرے ساتھی ایک ایک کرکے مجھ سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ کر جامِ شہادت نوش کرتے جارہے تھے، میں بھی وہ واقعات وہاں ڈائری پر درج کرتا جارہا تھا۔
جسطرح ’’قیامت‘‘ دنیا کا خاتمہ کرکے انسان کو آخرت میں پہنچا دے گی اور انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دے گی، اسی طرح مجھے زندگی میں دو قیامتوں کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں قیامتوں نے میری ایک طرزِ زندگی کا خاتمہ کر کے مجھے دوسری طرزِ زندگی میں پہنچا دیا۔ پہلی قیامت خونی لکیر کو پار کرنا تھا جس نے میری طالبِ علمی کی زندگی کا خاتمہ کرکے مجھے عسکری زندگی میں پہنچا دیا۔ اس قیامت نے مجھے ایک وطن سے نکال کر دوسرے وطن میں پہنچا دیا۔ دوسری قیامت میرا حادثہ تھا جس نے میری عسکری زندگی کا خاتمہ کر کے مجھے پھر سے طالبِ علم بنا دیا اور بالآخر مجھے اْس وطن سے نکال کر پھر سے واپس اپنے وطن پہنچا دیا۔ دونوں قیامتوں نے مجھے بے پناہ تکلیف سے گزارا، پہلی قیامت میرے لئے گر قیامت صغرٰی تھی تو دوسری قیامت میرے لئے قیامتِ کْبرٰی ثابت ہوئی۔

اِس دوسری قیامت نے پہلے پہلے میرے جسم کو ایک زندہ لاش بنا دیا اور مجھے ایسی بے بسی کی حالت میں پہنچا دیا کہ اگر میرے جسم پر مکھی بھی بیٹھ جاتی تو اسے اْڑانے کی طاقت بھی مجھ میں نہ تھی۔ میرا ایک ایک لمحہ مجھ پر ایک ایک قیامت ڈھا کر گزر جاتا اور مجھے ایسے درد میں سے گزار کر چلا جاتا جیسے کوئی میرے جسم کا گوشت کاٹ کاٹ کر زخموں پر نمک مرچ چھڑک رہا ہو۔ پہلے چھ مہینے ایسی شدید تکلیف میں گذرے کہ جسے یاد کر کے آج بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔میرے جسم کا رْواں رْواں شدید عذاب میں مبتلا تھا۔ اک ذرا سی کروٹ بدلنا بھی میرے لئے ناممکن تھا۔103بخار نے مسلسل مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، ایسے میں فاطمہ باجی آتی اور کہتی’’ وسیم، حوصلہ رکھو! یہ مشکل وقت بھی گذر جائے گا۔ ان شاء اللہ‘‘
تْو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
علامہ اقبالؒکے اِس شعر نے بارہا مجھے بے پناہ حوصلہ دیا۔ انسان کا دل راہِ وفا میں جتنا جتنا ٹوٹتا جائے وہ اللہ کی نگاہوں میں پسندیدہ ہوتا جاتا ہے۔ راہِ حق میں چوٹیں کھا کھا کر انسان کا بدن جتنا جتنا زخمی ہوتا جائے، وہ اپنے خالق و مالک کو محبوب ہوتا جاتا ہے۔ انسان کا دل اور اسکا بدن وہ آئینہ ہے کہ جو جس قدر ٹوٹتا جائے تو بنانے والے کی نظر میں اسکی قدروقیمت بڑھتی جاتی ہے۔ بیشک دنیا والوں کی نظروں میں ایسے ’’ٹوٹے آئینے کی کوئی اہمیت ہو نہ ہو لیکن اللہ کی نظر میں یہی ٹوٹا آئینہ بہت اہمیت رکھتا ہے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے دورِ خلافت میں ایک دفعہ جب حضرت عمرِ فاروق ؓ بیت المال سے صحابہ میں مال تقسیم کر رہے تھے تو ایک صحابی کو مال دیتے وقت انہیں انکے چہرے پر نظر پڑی جس پر تلوار کی گہری چوٹ کا واضح نشان تھا جس نے انکے چہرے کی شکل کو ہی بگاڈ دیا تھا۔ یہ چوٹ انہیں کسی جنگ کے دوران لگی تھی۔ فاروقِ اعظمؓ انکے زخم کو دیکھتے جاتے اور انہیں مال دیتے جاتے ۔وہ صحابی یہ دیکھ کر وہاں سے شرم کے مارے کھسک گیا۔ فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر یہ یہیں رْکتے تو میں انہیں بیت المال کا سارا مال دے دیتا۔ یہ تھی اسلاف کی نظروں میں راہِ جہاد میں لگے زخموں کی اہمیت۔ انہوں نے تو زخموں پہ زخم اور چوٹوں پہ چوٹیں کھا کر ہی قیصر و کسرٰی کے تخت و تاج گرائے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں لشکرِ اسلام نے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کی قیادت میں جب شام (Syria) فتح کیا تو شکرانے کے نوافل ادا کرنے کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ نے مجاہدینِ اسلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’ یہ ساری زمین اللہ کی ہے۔ روئے زمین پر حْکم صرف اللہ کا چلے گا۔ شہیدوں نے اللہ کی راہ میں اسکی خوشنودی کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ شہیدوں کو تو اللہ نے اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ قربانی اْنکی دیکھیں جو بازوؤں یا ٹانگوں یا بینائی سے محروم ہو چکے ہیں اور زندہ ہیں اور باقی عمر معذوری میں گزاریں گے لیکن وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے۔ اللہ نے اْنکا اور اْنکے بال بچوں کا اور اْنکے بوڑھے والدین کا رزق اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ شہیدوں اور معذور ہونے والوں کے بیوی بچوں اور لواحقین کو یہ زمین رزق دے گی جس زمین کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا ہے‘‘۔
بحوالہ کتاب ’’اور نیل بہتا رہا‘‘ جلد اول، صفحہ نمبر 267 ، از عنایت اللہ التمش

حادثے کے بعد دوسرے آپریشن تک (چھ ماہ) میری حالت انتہائی نازک تھی۔ لیکن دوسرے آپریشن کے بعد میری جسمانی حالت کسی حد تک سنبھلنے لگی۔اللہ تعالیٰ کسی بندے پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اب میں نے بھی بہت زیادہ تکلیف سہہ لی تھی۔ اب اللہ کو بھی مجھ پر رحم آیا۔ میری ریڈھ کی ہڈی اب چھ مہینوں کے بعد زنحیروں سے آزاد ہو چکی تھی۔ ابsore Pressure بھی ٹھیک ہوچکا تھا۔ بخار بھی اب کبھی کبھار ہوتا۔اب میں اپنی کمر میں بھی کافی حد تک راحت محسوس کر رہا تھا۔ لیکن ابھی اگلے چھ ماہ مجھے منصورہ ہسپتال میں ہی گز ارنے تھے۔ یہ مرحلہ میری جسمانی بحالی (Physical Rehabilitation) کا مرحلہ تھا۔ جسطرح ایک شیرخوار بچہ آہستہ آہستہ اپنے جسم سے متعلق سارے کام خود سیکھتا ہے ،اسی طرح اب مجھے بھی اپنے سب کام خود سیکھنے تھے۔
جس طرح ایک ملک میں جب جنگ کے دوران اسکا بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure) تباہ ہوجاتا ہے تو پھر وہ ملک جنگ کے فوراً بعد نئے سرے سے اپنے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنا شروع کر دیتا ہے تاکہ اس ملک کا سارا نظام پھر سے کام کرنا شروع کردے،اسی طرح میرے جسم کو بھی ایک بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا. میرے جسم کا ترسیلی نظام communication system بری طرح متاثر ہوچکا تھا جسکی وجہ سے میرا آدھا جسم میرے دماغ کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ میرے آدھے جسم کو اب شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ سب کچھ درہم برہم ہوچکا تھا۔ میں نے اس ہنگامی صورتحال کو سمجھنا تھا اور پھر اپنے Plan Rehabilitation کو ترتیب دینا تھا۔ ایک ایک کرکے مجھے سارے مسائل سے نمٹنا تھا۔ اس کیلئے مجھے ہمت اور حوصلہ کیساتھ ساتھ رہنمائی بھی درکار تھی۔

میری حالت اْس شخص کی سی تھی جسکے گھر کو آگ لگ چکی ہو، اب یہ شخص آگ بْجھنے کے بعد انتہائی پریشانی کی حالت میں اس جلے ہوئے گھر کا کونہ کونہ چھان مارتا ہے تاکہ اْسے پتہ چلے کہ کیا کیا جلا ہے اور کیا کیا بچا ہے۔ وہ بچی کھچی چیزوں کو سمیٹتا ہے، اک حسرت بھری نگاہ سے اپنے جلے ہوئے گھر کو دیکھتا ہے اور پھر نئے سرے سے اسکی تعمیر میں جْٹ جاتا ہے۔ میری زندگی بھی اب اس جلے ہوئے گھر کی مانند ہی تھی۔ میں اسکی راکھ پر بیٹھا آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میرا بہت کچھ لْٹ چکا تھا اور جو بچا تھا وہ بھی اس راکھ کے نیچے دب چْکا تھا۔ مجھے اب زندگی کا اک نیا گھر اس راکھ کے دبے ملبے سے تعمیر کرنا تھا۔میرے سامنے ہزاروں چلینجزتھے جن سے مجھے ایک ایک کر کے نمٹنا تھا۔ زندگی کی اس تعمیر میں قدم قدم پہ میں دوسروں کی مدد کا بے حد محتاج تھا۔
زندگی صرف سانسوں کے تسلسل کا نام نہیں بلکہ زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ زندگی صرف کھانے پینے اور سونے کا نام نہیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا نام ہے۔ لیکن اب میں اپنی زندگی کی جدوجہد کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑا تھا۔ میں کبھی اپنے خستہ حال بدن کی جانب دیکھتا اور کبھی تخیل میں اْس انجان منزل کی جانب دیکھتا جسکی طرف اب مجھے سفر کرنا تھا۔ ہزاروں سوال میرے دل و دماغ سے اٹھ رہے تھے جنکا جواب میرے پاس نہ تھا۔ وسوسوں اوراندیشوں کے ایک طوفان نے مجھے ہر طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ آگے کا سفر اب کیسے گزرے گا؟اب راستہ کونسا ہے اور اب میری منزل کیا ہے؟ کیا میں اب وطن واپس جا سکوں گا کہ نہیں؟ کیا میں ہمیشہ اب دوسروں کی مدد کا محتاج رہوں گا؟ میری زندگی اب کسطرح گزرے گی؟ میرا خستہ حال بدن اب میرا ساتھ کس حد تک دے گا؟
میں اِنہی سوچوں میں کھویا رہتا تھا کہ ایک دن مبشر بھائی اپنے ساتھ جاوید صاحب کو لائے۔ جاوید صاحب کو بھی میری طرح ہی injury Spinal ہوئی تھی اور اب وہ بھی وہیل چئیر پر ہی زندگی گزارتے تھے ۔جاوید صاحب کراچی کے رہنے والے تھے اور لاہور میں Instaphone Telecommunication Company کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ جو سوالات میرے دماغ میں گونجتے رہتے تھے، انکا جواب جاوید صاحب کے پاس تھا۔ جاوید صاحب نے میری ہمت بڑھائی اور جہاں تک ان سے ہوسکا میری بھر پور رہنمائی کی، جاوید صاحب نے اپنی مثال دیتے ہوئے مجھے سمجھایا کہ کس طرح انسان معذوری کے باوجود زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھ سکتا ہے ۔وہ اگلے دن مجھے اپنی گاڑی میں اپنے آفس لیکر گیا اور مجھے اپنی مصروفیات کا نظارہ کروایا۔ یہ میری Rehabilitation کا پہلا سبق تھا۔
جاری ہے

٭٭٭