راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی میری زبانی

جور ُکے تو کوہ گرِاں تھے ہم۔۔۔۔

وسیم حجازی

(گذشتہ سے پیوستہ)

پھر اللہ نے مجھ پہ ایک احسان کیا کہ ایک شاہین صفت نوجوان استاد مجھے میسر آگیا جس سے میں نے اقبالیات پڑھی ،سیکھی اور سمجھی ۔یوں مجھے کلام اقبال کے اسرارورموز سے آشنائی حاصل ہوئی۔ میرے اس استاد کا نام شہید حیدر علی تھا جو مقبوضہ کشمیر کے علاقے اسلام آباد کے رہنے والے تھے۔ 1996 میں میرے حادثے سے کچھ مہینے قبل وہ پررونق محفلیں میں کبھی نہیں بھلا سکتا جب میں نماز عشاء کے بعد مسجدِ پاک میں اپنے دیگر شاہین صفت ساتھیوں کے ساتھ حیدر صاحب سے اقبالیات پڑھا کرتا تھا۔حیدر صاحب جب ہمیں کلامِ اقبال پڑھاتے تو ہم کسی اور ہی دنیا میں کھو جاتے۔کبھی کبھار آنکھوں سے آنسوئوں کی دھار بہہ جاتی۔مسجد کے ساتھ ہی بہتی ہوئی ندی کا پانی جب قریبی پہاڑ کی چوٹیوں سے اتر کر ہماری مسجد کے پاس سے گذرتا تو اسکا ترنم اقبال کے اشعار کے ساتھ فطری موسیقی کا روپ دھار کر ہماری روح کو تازگی بخشتا۔اقبال کی شاعری کا اثر ہم پر ایسا ہوا کہ ہم نے تہجد کی نماز کو اپنا معمول بنایا۔میرا معمول تھا کہ اقبال کے جو بھی اشعار حیدر صاحب ہمیں پڑھاتےمیںانہیں بعد میں ایک کاپی پر لکھا کرتا اور انہیں یاد کرنے کی کوشش کرتا۔پھر میں تربیت کیلئے چلا گیا جسکے دوران مجھے حادثہ پیش آیا اور تقدیر مجھے ایک بار پھر اقبال کے اسی شہر لاہور لے آئی جہاں سے اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے امتِ مسلمہ کو شبِ تاریک میں نویدِ سحرسنائی تھی۔
شہرِ لاہور کی مٹی میں اقبالؒ کے علاوہ ایک ایسی عظیم ہستی محوِ استراحت ہے جس کی تحریروں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس عظیم ہستی کا نام سید ابولاعلیٰ مودودی ؒہے۔مفکرِ اسلام ،مجدد اسلام مفسرِ قرآن سید ابوالاعلی مودودیؒ دراصل فکرِ اقبال کو ہی لیکر آگے بڑھے۔جس انقلابی فکر کی آبیاری علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے کی اسی انقلابی فکر کو سید مودودیؒ نے اپنی عالمانہ اور محققانہ تحریروں سے نہ صرف جلا بخشی بلکہ اسی انقلابی فکر کی بنیاد پر انہوں نے ایک اسلامی تحریک عملاً قائم کرکے اور چلا کر دکھائی۔سید مودودی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔آپ نے عمر بھر باطل نظریات کے خلاف چومکھی لڑائی لڑی اور اس لڑائی میں ہر محاذ پر کامیابی حاصل کی۔سید مودودیؒ نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کی راہنمائی کی جب دنیا کے طاقتور ترین ممالک اپنا اپنا نظام دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کررہے تھے۔غلامی کی زنجیریں توڑنے والے مسلمان جب کیمونزم ،سوشلزم ،سکیولرزم ،کیپٹلزم اورلبرلزم کا طوقِ غلامی پہننے کیلئے بے چین اور بیتاب نظر آ رہے تھے تو سید مودودیؒ نے اس نئی مصیبت کا بروقت ادراک کرکے مسلمانوں کو ان ازموں کی اصل حقیقت اور انکے بھیانک نتائج سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے مغرب کے ان باطل نظریات کا پورسٹ مارٹم کرکے انکو دفن کیا۔نیز انہوں نے اسلامی نظام کی پرزور وکالت کرکے اسے عملاً نافذ کرنے کیلئے عملی جدوجہد شروع کی۔سید مودودیؒ نے اسلام کے چہرے پر صدیوں سے پڑی گردوغبار کو صاف کیا اور امت کے سامنے اسلام کا وہی اصلی چہرہ پیش کیا جس چہرے کو صحابہ کرام ؓنے دیکھا تھا۔سید مودودی نے اپنی زندگی میں سو سے زیادہ کتابیں لکھی جن میں قرآن پاک کی شہرہ آفاق تفسیر ’’تفہیم القرآن ‘‘بھی شامل ہے۔ آپکا تحریری سرمایہ قیامت تک امت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ اس کام کیلئے آپکو سخت تحقیقی مشقت سے گذرنا پڑا۔اس تحریری کام کی خاطر آپ نے راتوں کو اپنی نیندیں حرام کیں۔آپ ساری ساری رات مطالعہ اور تحقیق میں گذارتے۔ایک دفعہ فرمایا کہ میرا بس چلتا تو میں اپنی قبر میں اینٹوں کے بدلے کتابیں رکھواتا۔اپنی تحریروں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سید مودودی نے 26 اگست1941 کو لاہور میں جماعتِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ جماعتِ اسلامی لوگوں کو اپنی انفرادی زندگی میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی دعوت دیتی ہے جبکہ اجتماعی صورت میں اس دین کو عملاً نافذ و قائم کرنے اور مانع و مزاحم قوتوں کو اسکے راستے سے ہٹانے کیلئے جدوجہد کرنے کی دعوت دیتی ہے۔جماعت اسلامی کی بنیاد قرآن پاک کی آیت ادخلو فی السلم کافہ (دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ) پر رکھی گئی۔ یعنی جماعت اسلامی کا مقصد اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنا ہوگا۔بیسویں صدی میں اسلامی دنیا میں جو اسلامی احیاء کی تحریکیں شروع ہوئیں ان میں برصغیر میں سرگرم جماعتِ اسلامی کا کردار نمایاں رہا ہے۔جماعتِ اسلامی کو برصغیر میں ہر جگہ کٹھن مراحل سے گذرنا پڑا۔امتحانوں اور آزمائشوں کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ جماعت اسلامی کے کارکنان کا مقدر رہا ہے۔رزمگاہِ حق وباطل میں جماعت اسلامی کے کارکنان کبھی دین کے داعی بن کر اور کبھی دین کے سپاہی بن کر تاریخ رقم کرتے رہے۔کبھی زندانوں کی زینت بنے،کبھی تختِ دار پر لٹکائے گئے،بھی مقتلوں میں ابدی نیند سلا دئیےگئے۔کہیں پہ کسی کا گھر جلا،کہیں پہ کوئی گھر سے بےگھر ہوا، کہیں پہ کسی کو ہجرت کرنی پڑی کہیں پہ کسی کو اہل و عیال کی قربانی دینی پڑی ۔کسی کی نوکری گئی ،کسی کا روز گار چھن گیا۔کسی کو اپنوں نے ٹھکرایا،کسی کو غیروں نے دھتکارا،کوئی اپنوں میں ہی اجنبی ٹھہرا،کسی کے نصیب میں در در کی ٹھوکریں تھی۔غرض جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کو اپنی منزل کی خاطر ہر جگہ پرخار راستوں سے گذرنا پڑامگر پرعزم انسانوں پر مشتمل یہ قافلہِ سخت جان نہ رکا ہےنہ تھکا ہے بلکہ بے خوف و خطر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔باطل قوتیں ہر بار مختلف شکلوں میں اسکی راہ میں مزاہم ہوئی، وقت کے نمرود اور فرعون ہاتھ دھو کر انکے پیچھے پڑ گئے مگر حق پرستوں کو جھکانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔جماعت اسلامی بارہا باطل کے تیروں کا نشانہ بنتی رہی۔لیکن ان شکستہ تیروں نے سینے تو چھلنی کئے لیکن سینوں میں چھپے عزم اور ولولے ان تیروں کی زد سے باہر تھے۔سید مودودی کی تحریروں سے متاثر ہونے والے افراد نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں ایک ناقابل فراموش تاریخ رقم کی ہے۔
سید مودودیؒ کے لٹریچر سے میرا تعارف اسلامی جمیعتِ طلبہ کی وساطت سے 1990 میں اس وقت ہوا جب ہمیں اجتماعات میں درسِ قرآن کی تیاری میں سید مودودی کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘کا سہارا لینا پڑتا۔یوں مجھے اس عظیم مفسر قرآن اور مفکرِ اسلام کی تحریروں کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ہمارے گھر میں اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کی کوئی کتاب موجود نہیں تھی کیونکہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا نام لینا ہمارے گھر میں ممنوع تھا۔ لیکن پھر بھی سید مودودی نے غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ میرے دل میں جگہ بنا لی۔نویں جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک سید مودودیؒ کا نظریہ میرے دل و دماغ تک رسائی حاصل کر چکا تھا گر چہ اس دوران انکا زیادہ تر لٹریچر میری نظروں سے اوجھل ہی رہا۔

لیکن اس نظریہ نے اس وقت میرے دل و دماغ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا جب میں نے بیس کیمپ میں سید مودودیؒ کا لٹریچر تفصیل سے پڑھنا اور سمجھنا شروع کیا۔بیس کیمپ میں ہمیں فکری تربیت کے مراحل سے گزرنا پڑتا تھا اور اس فکری تربیت میں سید مودودی ؒکے لٹریچر نے اہم کردار ادا کیا۔ہمارے فکری تربیت کے نصاب میں سید مودودیؒ کی کئی کتابیں شامل تھیں جن میں ’’خطبات ‘‘اور’’تحریک اور کارکن ‘‘کے علاوہ ’’تفہیم القرآن‘‘میں سے سورہ البقرہ،سورہ انفال،سورہ نوراورسورہ الاحزاب قابلِ ذکر ہیں۔ ان دنوں تفہیم القرآن کی یہ سورتیں ہمیں شہید مسعود صاحب ،شہید عبدالباسط صاحب اور عبدالماجد صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ شہید مسعود صاحب علم و فہم میں اپنی ثانی نہیں رکھتے تھے۔وہ ڈبل ایم اے تھے اور جماعت اسلامی کے رکن بھی رہ چکے تھے۔اسکے علاوہ میں اور میرا دوست شہید توصیف قرآن پاک کی اٹھائیسویں پارے کی کچھ سورتیں (سورہ الحشر،سورہ الممتحنہ ،سورہ الصف ،سورہ الجمعہ سورہ المنافقون) ظہور احمدناز سے ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھا کرتے تھے جنہیں ہم زبانی یاد بھی کیا کرتے تھے۔(جاری ہے )