(گذشتہ سے پیوستہ)
وسیم حجازی
بیس کیمپ میں قیام کے دوران میں نے سید مودودیؒ کی درج ذیل کتب کا مطالعہ کیا،الجہاد فی الاسلام ،خطبات ،تحریک اور کارکن ،پردہ ،تفہیمات، تنقیہات ،تصریحات ،استفسارات ،رسائل و مسائل ،تفہیم القرآن کی تفسیر تو زیرِ مطالعہ رہتی ہی تھی۔اسکے علاوہ انکی کتاب ’’خلافت اور ملوکیت ‘‘میں نے خوست افغانستان کے معسکر میں پڑھی ۔ تربیت کے دوران جب بھی مجھے فرصت ملتی تو میں اسے بیٹھے بیٹھے اور کبھی کبھی کھڑے کھڑے ہی پڑھا کرتا۔میرے مدِنظر ہمیشہ یہ بات رہی کہ ایک مجاہد کو جتنی ضرورت عسکری تربیت کی ہے اس سے کہیں زیادہ ضرورت اسے فکری تربیت کی ہے۔جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت محاذِ جنگ کا اولین تقاضا ہے۔بہرحال بالواسطہ یا بلاواسطہ بیس کیمپ میں قیام کے دوران ہر مجاہد کی فکری تربیت میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر کا کلیدری کردار رہا ہے۔علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودی ؒکے علاوہ جس قلمکار نے مجھے بیحد متاثر کیا وہ اردو کے مشہور و معروف تاریخی ناول نگار نسیم حِجازی ہیں جنکی ناولوں نے نہ صرف مجھے مسلمانوں کی درخشاں تاریخ کے عروج و زوال سے روشناس کرایا بلکہ میرے دل میں جذبہِ جہاد اور شوقِ شہادت کی چنگاریوں کو شعلوں میں بدل دیا۔نسیم حِجازی کا تعارف مجھے ان کی لکھی ہوئی پہلی ناول ’’داستانِ مجاہد‘‘کے ذریعے ہوا جو انہوں نے 1938 میں لکھی تھی۔انکی اس ناول کو میں نے پہلی بار 1988 میں پڑھا جب میں ساتویں جماعت کا طالبِ علم تھا۔ ہمارے گھر میں دیگر اسلامی کتب کے علاوہ نسیم حِجازی کی دو ناولز ’’داستانِ مجاہد‘‘اور’’محمد بن قاسم ‘‘موجود تھی ۔لیکن سب سے پہلے میری نظرِ انتخاب ’’داستانِ مجاہد‘‘پر پڑی اور اسی ناول نے میری آئندہ زندگی کے خدوخال طے کئے۔جس طرح ’’داستانِ مجاہد‘‘نسیم حجازی کی پہلی ناول تھی جس کو انہوں نے ضبطِ تحریر میں لایا تھا اسی طرح یہ ناول میری زندگی کی پہلی ناول تھی جسکو میں نے پڑھا اور پھر اپنی زندگی میں اس ناول کو میں نے تقریباً دس بارہ مرتبہ پڑھا۔ یہ کتاب میرے لڑکپن کی یادگار کتاب ہے جس نے میرے دل کے تاروں کو چھوا۔میں نے زندگی میں بہت ساری کتابیں پڑھیں لیکن یہ وہ پہلی کتاب تھی جو میرے لڑکپن میں مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبرکرکے مجھے اس دور میں لے کر جاتی جب مسلمانوں کا اوڑھنا بچھونا صرف جہاد تھا۔ اسی کتاب کی وجہ سے مجھے اس مقدس لفظ سے عشق ہوچکا تھا۔ بہرحال جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس جہادی ناول کی پرچھائیاں میری زندگی پر بھی پڑنے لگیں اور اسکے بعد میری زندگی ناول کے مرکزی کردار ’’نعیم ‘‘کا پیچھا کرنے لگی۔
ہجرت سے پہلے میں نے نسیم حِجازی کی دوسری ناول ’’محمد بن قاسم ‘‘بھی پڑھ لی تھی جو کہ بنو امیہ دور کے سترہ سالہ عظیم جرنیل محمد بن قاسم کی سندھ میں راجہ داہر کے خلاف فوج کشی کے متعلق تھی ۔جبکہ ہجرت کے بعد بیس کیمپ میں جو پہلی کتاب میں نے پڑھی وہ بھی نسیم حِجازی کی ناول ہی تھی جسکا نام ’’خاک اور خون ‘‘ہے۔اس ناول میں انہوں نے اس زمانے کی منظر کشی کی ہے جب دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان ہندوستان سے علیحدہ ہوا تھا جسکے نتیجے میں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لاکھوں مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔اس ہجرت کے دوران ان پر کیا کیا قیامتیں گذریں،اس ناول نے ان تمام قیامت خیز مراحل کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ انسان کو خون کے آنسؤ رونے پر مجبورکر دیتی ہے۔چونکہ ہماری ہجرت بھی اسی ہجرت کا ایک تسلسل تھا اور ہم اسی نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کیلئے گھروں سے ہجرت کرکے نکلے تھے اس لئے اس ناول نے میرے ذہن کے بند دریچے کھول دئے اور مجھے اپنی ہجرت کا اصل پسِ منظر سمجھا دیا۔بیس کیمپ میں قیام کے دوران وقتاً فوقتاً میں نے نسیم حِجازی کی دیگر ناولوں کا مطالعہ بھی جاری رکھا جن میں قافلہ حِجاز،قیصر و کسرٰی شاہین ،اندھیری رات کے مسافر ،لیسا اور آگ ،یوسف بن تاشفین ،آخری چٹان، آخری معرکہ ،معظم علی اور تلوار ٹوٹ گئی قابلِ ذکر ہیں۔ملتِ اسلامیہ کے اس غمخوار کی وفات کی خبر 2 مارچ 1996کو جب ریڈیو صدائے حریت کشمیر سے نشر ہوئی تو میں انتہائی غمزدہ ہوا۔ان دنوں میں ایک نامعلوم جگہ پر ایک معسکر میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ عسکری تربیت لے رہا تھا۔اسکے بعد 19 جون 1996 کو ایک اور عسکری تربیت کے دوران جب میرے ساتھ حادثہ پیش آیا توان دنوں بھی میرے زیرِ مطالعہ نسیم حجازی کی ہی ایک ناول ’’شاہین ‘‘تھی۔یوں اتفاق سے نسیم حجازی کا انتقال بھی اسی سال ہوا جس سال میرے ساتھ حادثہ پیش آیا۔اس حوالے سے سال 1996 میرے لئے ’’عام الحْزن یعنی غم کا سال‘‘قرار پایا۔
اقبال نے جو پیغام اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو دیا،وہی پیغام نسیم حجازی نے اپنی ناولوں کے ذریعے قوم کو دیا۔عراق ،ہسپانیہ ،ہندوستان میں مسلمانوں پر جو کچھ بیتی نسیم حجازی کا قلم اپنی ناولوں میں اسکا نوحہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔انہوں نے اسلامی تاریخ کے ہیروز کی شجاعت کی داستانیں سنا کر مسلم نوجوانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کی پوری کوشش کی اور انکے ہاتھوں میں شمشیرِ عمل تھما کر انہیں رزم گاہِ حق و باطل میں کود جانے کیلئے آمادہ کیا۔انہوں نے اپنی تاریخی جہادی ناولوں کے ذریعے کئی نسلوں کو متاثر کیا۔جہادِ افغانستان سے لیکر جہادِ کشمیر میں حصہ لینے والے سرفروشوں کے جذبوں اور ولولوں کو زندہ و تابندہ رکھنے میں انکی لکھی ہوئی ناولوں کا اہم کردار رہا ہے۔
نسیم حِجازی خود اپنی تحریروں کے بارے میں رقمطراز ہیں:’’بہتی ہوئی ندیوں کی قوت و دلکشی کناروں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی ۔جو موجیں ٹوٹے ہوئے کناروں سے باہر نکل جاتی ہیں انکو جوہڑ اور دلدل جذب کر لیتے ہیں۔اگر میں اپنے ادب کو شفاف پانی سے تشبیہ دینے کی جسارت کر سکتا ہوں تو مجھے اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودیؒ میرے وہ مضبوط کنارے تھے جنہوں نے مجھے آلودگیوں سے پاک رکھا اور میرے بہاؤ کا رخ متعین کر دیا اور مولانا شبلی نے مجھے تاریخِ اسلام کی وہ دلکش جھلکیاں دکھائیں جن سے میری داستان رنگین ہوئی‘‘۔
جون 1996 سے جون 1997 تک منصورہ ہسپتال لاہور میں میرے قیام کو اب ایک سال مکمل ہو چکا تھا۔یہ ایک سال میری زندگی کا سب سے مشکل ترین اور سب سے تکلیف دہ سال تھا۔یہ ایک سال کیا گذرا جیسے ایک صدی گذر گئی۔اس ایک سال کا ایک ایک لمحہ میرے لئے ایک ایک قیامت تھی۔19 جون 1996 کے اس بھیانک لمحے سے شروع ہونے والا یہ سال میرے لئے شدید درد،شدید بخار،شدید پریشانی،شدید غم کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بے بسی لیکر آیا جس نے میرے ہوش و حواس اڑا کے رکھ دئے۔اس ایک سال نے میری ہمت اور میرے حوصلے کا وہ امتحان لیا جس نے میرے وجود کو لرزہ براندام کیا۔وہ ایک سال میرے لئے کس قدر صبر آزما تھا اسکی شدت کا احاطہ کرنے کیلئے الفاظ کا ایک سمندر چاہیے۔وہ ایک سال میری زندگی میں رنج و الم کا جو طوفان لیکر آیا اسکا مقابلہ کرتے کرتے اب تک میرے قلب و جگر میں ہزاروں چھید ہو چکے ہیں۔



میری کمر پر لگنی والی چوٹ محض ایک چوٹ نہ تھی بلکہ یہ چوٹ ایک ایسی داستان کا دیباچہ تھا جسکا ایک صفحہ گر چہ آنسوؤں سے تر تھا اور رنج و غم سے پر تھا تو دوسرا صفحہ ہمت اور حوصلے،صبر اور توکل علی اللہ کی سیاہی سے لکھا ہوا تھا۔اس داستان نے اس راز کو افشاء کیا کہ اللہ کے فضل سے ایک کمزور انسان کس طرح پہاڑ جیسی آزمائش کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اپنے رب کے کرم سے اپنے حوصلوں سے کس طرح اپنی زندگی کی جنگ کو شکست سے بچاتے ہوئے فتح سے ہمکنار کر سکتا ہے۔وہ نامعلوم ملٹری ہسپتال، اتفاق ہسپتال اور منصورہ ہسپتال میری اس درد بھری داستان کے چشم دید گواہ ہیں جنہوں نے ایک چلتے پھرتے انسان کو بسترِ مرض پہ بےبسی کی تصویر بنتے دیکھا اور درد سے نا آشنا انسان کو درد سے تڑپتے ہوئے دیکھا۔ان ہسپتالوں کی جن چار دیواریوں نے مجھے شدید تکلیف میں بے انتہا صبر کرتے ہوئے دیکھا یقیناً روزِ محشر وہ میرے صبرورضا کی گواہی بھی دینگے. انشاءاللہ
ٹوٹ کر،بکھر کر،جاں گداز مراحل سے گذر کر میرا وجود اب اس نئی طرز زندگی کو اپنا چکا تھا۔اب یہ بات طے تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اب مجھے اپنی بقیہ زندگی وہیل چئیر پر ہی گذارنی ہے۔تقدیر الٰہی میں یہی لکھا تھا کہ میری ٹانگوں نے صرف بیس سال کی عمر تک ہی میرا ساتھ دینا ہے۔اب میری زندگی کے سفر میں مختلف پڑاؤ آنے تھے جن میں پہلا پڑاؤ تو لاہور تھا اور اب دوسرا پڑاؤ مظفرآباد تھا۔منصورہ ہسپتال میں مزید رکنا مناسب نہ تھا کیونکہ مجھے اب مزید کسی علاج کی ضرورت نہ تھی۔دوسری وجہ یہ تھی کہ لاہور شہر بیس کیمپ کے مرکز مظفرآباد سے کافی دوری پر تھا،مجھے لاہور سے مظفرآباد منتقل کرنے کا فیصلہ کرناپڑا۔ حادثے کے بعد منصورہ لاہور میں پورا ایک سال گذارنے کے بعد میرا اگلا پڑاؤ اب مظفرآباد تھا۔مبشر بھائی نے لاہور سے اسلام آباد تک ہوائی ٹکٹ کا بندوبست کیا۔چونکہ میرے ساتھ اس وقت دو ساتھی (شہید اعجاز اور شہید اشرف غزنوی) میری تیمارداری کا فریضہ انجام دے رہے تھے لیکن میرے ساتھ سفر میں ایک ہی ساتھی کو میرے ساتھ آنے کی اجازت ملی۔چونکہ دونوں ساتھیوں کو ہوائی سفر کا شوق تھا اسلئے مبشر بھائی نے دونوں میں قرعہ اندازی کی اور قرعہِ فال شہید اعجاز کے نام نکلا۔شہید اشرف زمینی سفر طے کرکے مظفرآباد پہنچ گئے اور شہید اعجاز میرے ساتھ ہوائی سفر کے ذریعےسوئے منزل روانہ ہوئے۔جب میں لاہور ائیرپورٹ پہنچا تو مجھے وہ منظر رہ رہ کے یاد آیا جب پچھلے سال مجھے سٹریچر پر انتہائی نازک حالت میں اسلام آباد سے یہاں لایا گیا تھا۔سٹریچر سے اب وہیل چیئر تک کا یہ ایک سال کا سفر کتنے قیامت خیز مرحلوں سے گذرا تھا اسکو یاد کرتے ہی اب بھی میرے رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔دو بندوں کی مدد سے مجھے جہاز میں بٹھایا گیا اور جہاز مقررہ وقت پر ہوا میں اڑان بھرنے لگا۔اب کی بار میں نے نیچے نظر دوڑائی تو شہر لاہور میری نگاہوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔تاحدِ نگاہ مکان ہی مکان،کتنا گنجان شہر۔آہ! یہی تو وہ شہر ہے جہاں میرے دو روحانی مرشد علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودی ؒآسودہ خاک ہیں۔ میرا دل ،میرا دماغ میری زبان کا ساتھ دےکر جیسے بہ زبانِ حال کہہ رہے تھے’’الودع ،اے شہرِ لاہور،الوداع۔تیرے ساتھ جڑی یادیں میری کتابِ زندگی کا اہم ترین باب ہے جسکو پڑھنے والے جب پڑھیں گے تو اپنے آنسؤ روک نہ پائیں گے۔‘‘قریباً ایک گھنٹے کا ہوائی سفر طے کرکے ہم اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچ گئے۔یہاں سے ہم ایک چھوٹے سے فوکر طیارے کے ذریعے پہاڑوں کے اوپر سے گذرتے ہوئے مظفرآباد پہنچ گئے۔