راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی

راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی میری زبانی
جور ُکے تو کوہ گرِاں تھے ہم۔۔۔۔

(گذشتہ سے پیوستہ)

وسیم حجازی

حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ دورِ جاہلیت میں عرب کے چوٹی کے شعراء میں شمار ہوتے تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی شاعری اسلام کیلئے وقف ہوگئی ۔اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن رواح ؓنے یہ شعر کہا:لو لم تکن فیہ آیت مبینہ۔۔کانت بدیھتہ تنبیک بالخیر’’اگر آپﷺ کی ذات کے بارے میں کھلے کھلے نشانات اور روشن معجزات نہ بھی ہوتے تو بھی آپﷺ کی ذات ہی حقیقتِ حال کی آگاہی کیلئے کافی تھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے اشعار بہت پسند تھے اور کئی موقعوں پر آپؐ نے عبداللہ بن رواحہؓ کے اشعار پڑھے ہیں۔مسجدِ نبوی کی تعمیر کے دوران جب آنحضورﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ اینٹیں اور گارا اٹھا رہے تھے تو زبانوں سے عبداللہ بن رواحہ ؓ کے یہ اشعار بھی ادا ہو رہے تھے:ترجمہ:(الٰہی! اجر تو بس آخرت کا اجر ہے۔۔۔پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔جنگِ احزاب کے موقعہ پر آنحضورﷺبلند آواز سے انکے یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔۔۔ترجمہ: اے اللہ اگر تیری مدد نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پاتے،نہ زکوٰۃدیتے اور نہ نماز پڑھتے۔پس تو ہم پر اپنی سکینت نازل فرما اور معرکہ میں ہم کو ثابت قدم رکھ ۔جن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔اب وہ فتنہ کا ارادہ کریں گے تو ہم اسکا انکار کریں گے۔
جنگِ احزاب کے موقعہ پر ہی خندق کھودتے ہوئے جب صحابہ مٹی کو اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کردیتے تو اس دوران وہ عبداللہ بن رواحہؓ کے یہ رجزیہ اشعار (ترانے) پڑھتے جاتے:’’نحن الذين بايعوا محمدا على الاسلام ما بقينا ابدا‘‘ ۔’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک جہاد کرتے رہنے کیلئے محمدﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے‘‘۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شعر کے جواب میں یہ شعر کہتے جاتے تھے:اللهم لا عيش إلا عيش الآخره، فاغفر الانصار والمهاجره’’ اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ پس توانصار و مہاجرین کو بخش دے‘‘غزوہِ خندق کے بعد مسجدِ نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اب قریشیوں کو حوصلہ نہیں ہوگا کہ وہ ہم پر حملہ کریں۔انکا آخری زور لگ چکا ہے۔قریشیوں کو ہمارے خلاف اب تلوار کی جنگ کا حوصلہ نہیں ہوگا لیکن اب وہ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے،ہمارے خلاف پروپیگنڈا کریں گے،شعر و شاعری کے ذریعے زہر اگلیں گے اور سارے عرب میں ہمارے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کریں گے۔پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ تلوار کی جنگ میں تم سب میرے ساتھ تھے،اب اس زبان کی جنگ میں میرے ساتھ کون کون ہوگا؟ اس موقعہ پر حضرت حسان بن ثابتؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ کے علاوہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے شعر و شاعری کے ذریعے اس جنگ کو لڑنے کی ذمہ داری اٹھائی اور قریش کے زہریلے پروپیگنڈے کا جواب شعر و شاعری کے ذریعے دینے کا اعلان کیا۔

جنگِ خیبر کے موقعہ پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ ؓسے فرمایا کہ وہ لشکر میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کیلئے اشعار پڑھیں اور جب انہوں نے اشعار پڑھے تو آپﷺ دعا کی: ’’یا اللہ عبداللہ بن رواحہ پر رحمت نازل فرما۔‘‘ صلح حدیبیہ کے بعد عمرۃ القضاکے موقعہ پر باقی صحابہ لبیک لبیک کی صدائیں بلند کررہے تھے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ اللہ کے رسول ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑے یہ رجزیہ اشعار پڑھ کر کفارِ مکہ کے دلوں کو چھلنی کر رہے تھے:
’’اے کافروں کے بیٹو! سامنے سے ہٹ جاؤ۔آج جو تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار چلائیں گے۔ہم تلوار کا ایسا وار کردیں گے جو سر کو اسکی خوابگاہ سے الگ کردے اور دوست کی یاد دوست کے دل سے بھلا دے۔‘‘
اس پر جب حضرت عمر فاروق ؓ نے انہیں کہا کہ خدا کے بندے تم رسول اللہ اور حرم کے سامنے بھی اپنے اشعار کہہ رہے ہو. یہ سن کراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ انہیں اشعار پڑھنے دو کیونکہ انکے اشعار کافروں پر تیرونشتر کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔
جنگ موتہ کے موقعہ پر جب مسلمانوں نے اس جنگ پر جانے والے لشکر کو مدینہ سے رخصت کرتے ہوئے انکی سلامتی اور واپسی کی دعا کی تو حضرت عبداللہ بن رواحہؓ (جو کہ اس لشکر میں شریک تھے) نے اس پر کچھ اشعار پڑھے جنکا ترجمہ کچھ اسطرح ہے: ’’لیکن میں خدائے رحمٰن سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تلواروں کا ایسا وار کرنے کی توفیق مانگتا ہوں جو کشادہ گھاؤ والاہو اور تازہ خون نکالنے والاہو جس میں جھاگ اٹھ رہی ہو اور دشمن کے ہاتھوں نیزے کا ایسا حملہ جو پوری تیاری سے خون کے شدید پیاسے ہاتھوں سے کیا گیا ہوجو انتڑیوں اور جگر کے پار ہو جائے اور یوں خدا کی راہ میں جان کی بازی لگا کر جب دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو لوگ میری قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے کہیں کہ اے جنگ میں شامل ہونے والے! اللہ تیرا بھلا کرے اور اس خدا نے بھلا کر دیا ہو‘‘۔پھر مدینہ کی طرف رخ کرکے آنحضورﷺ کی شانِ اقدس میں یہ نعتیہ شعر کہتے ہوئے حضرت عبداللہؓ مدینہ کو الوداع کہہ گئے: ’’کھجوروں کے درختوں سے آباد اس شہر سے میں اس شخص سے جدا ہو کر جا رہا ہوں جو بہترین سر پرستی کرنے اور محبت بانٹنے والا ہے۔اے اللہ! ان ﷺ پر ہمیشہ اپنی سلامتی کا نزول فرمانا‘‘۔غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ اور حضرت جعفر طیار ؓ کی شہادت کے بعد اسلامی لشکر کی قیادت جب حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے سنبھالی تو وہ یہ رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ترجمہ’’ اے نفس! اگر قتل نہ ہوا تو بھی مرے گااگر آج باقی ہے تو آئندہ فوت ہوگا یا عافیت کی درازی میں تیری آزمائش ہوگی ۔اسلئے موت کے حوض خالی ہو رہے ہیں اور جو تیری تمنا تھی مل رہی ہے۔اے نفس! بیوی ،بچے اور مکان کا خیال فضول ہے۔وہ سب آزاد ہیں۔مکان اللہ اور رسول کا ہے۔ اے نفس! جنت میں جانے سے کراہت کیوں لیے۔خدا کی قسم تو ضرور اس میں داخل ہوگا،خواہ برضا و رغبت خواہ جبر سے۔تو نہایت مطمئن تھا‘‘۔ بالآخر یہ شاعرِ رسولﷺ اور موتہ کا شہسوار دشمنوں سے مردانہ وار لڑتے ہوئے اور زخم پہ زخم کھاتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوا۔
حضرت کعب بن مالک ؓ اپنے اشعار میں اللہ کی صفات ،توحید کی اہمیت ،کفر و شرک کی مخالفت اور اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ رجزیہ ،رزمیہ (ترانے) لکھتے اور پڑھتےتھے۔

مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پورے جزیرۃالعرب میں اسلامی نظام قائم کیا اور پھر اس نظام کو پوری دنیا میں قائم کرنے کیلئے روئے زمین کے چاروں اطراف پھیل گئے۔ پھر چشمِ فلک نے مسلمانوں کا وہ عروج بھی دیکھا کہ دنیائے انسانیت دنگ رہ گئی ۔پھر صدیاں گزر گئیں اور آہستہ آہستہ یہ عروج زوال میں بدل گیا۔پھر اغیار ہر جگہ مسلمانوں پر مسلط ہوگئے اور غلامی کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا۔ایسے میں امت مسلمہ میں کچھ مفکر اٹھے جنہوں نے مسلمانوں کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر غفلت کی نیند سے بیدار کرنے سعی کی اور انکے ذہنی جمود کو توڑنے کی پوری کوشش کی ۔مسلمانوں کو عہدِ رفتہ کی درخشاں تاریخ یاد دلائی اور انہیں جدوجہد کی وہ راہ دکھائی جس پر چل کر وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔
انہی مفکروں میں برصغیر کے ایک عظیم مفکر شاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ بھی تھے جو بیسوی صدی میں اس وقت امتِ مسلمہ کے فلک پر ایک روشن ستارے کی طرح جگمگانے لگے جب غلامی کی سیاہ رات نے ہر مسلمان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعےمسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی ۔انکی لازوال شاعری زمان و مکان کی سرحدوں سے بالاتر تھی ۔انکی شاعری اس زمانے کی روایتی شاعری سے ہٹ کر تھی ۔غلامی کی لمبی سیاہ رات کی وجہ سے مسلمانوں میں ناامیدی اور شکست خوردگی کا احساس جنم لے چکا تھا۔اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی جوت جگائی۔اقبال کے انقلابی شاعرانہ تخیل کا سرچمشہ قرآن ہے۔اسی لئے مرحوم ڈاکٹر اسرار احمدؒ انہیں مفسرِ قرآن کہتے تھے کیونکہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے قرآن کی تفسیر کی اور قرآن کے اسرار و رموز امت پر آشکار کیے۔مفسرِ قرآن مولانا امین احسن اصلاحی ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن فہمی میں جہاں ہماری پرواز ختم ہوتی ہے وہاں سے علامہ اقبال کی پرواز کا آغاز ہوتا ہے۔اقبال نے بار بار مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ انکی کامیابی و کامرانی اور سربلندی کا راز قرآنِ پاک میں مضمر ہے۔ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ مسلمانوں کو قرآن سے رشتہ جوڑنے کی تلقین کرتے تھے تاکہ وہ اپنے اندر اسلاف کا سا کردار پیدا کرکے روئے زمین پر پھر سے وہی نظام برپا کر سکیں جسکا مشاہدہ دنیائے انسانیت نے دورِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ صحابہؓ میں کیا تھا۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے دوسرے شاعروں کی طرح شوقیہ شاعری نہیں کی ۔دوسرے شاعروں کی طرح اپنی ذات کے گرد نہیں گھومے۔زمانے بھر کی شکایتیں اور فریادیں اںکی شاعری کا موضوع نہیں رہا۔بلکہ اپنی شاعری کے ذریعےانہوں نے اسلام کی ترجمانی کی ۔اپنی شاعری کے ذریعے امتِ مسلمہ کو بھولاہوا سبق یاد دلایا۔اقبال نے اسلام کے پیغام کو روح پرور اشعار کے سانچے میں ڈال کر ایسی لازوال ،باکمال اور بے مثال شاعری تخلیق کی جو ہمیشہ شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی بن کر راہِ انسانیت کو منور کرتی رہے گی ۔اقبال وہ شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کو مقصدیت عطا کرکے اسے باشعور انسانوں کی روح کی غذا بنا دیا۔انہوں نے اپنی شاعری کا رخ متعین کرکے ملتِ اسلامیہ کو اسکی کھوئی ہوئی منزل دکھائی۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کاشجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی


ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر


علامہ اقبالؒ کا کلام پہلی بار اس وقت میری سماعتوں سے ٹکرایا جب بچپن میں سکول کی مارننگ اسمبلی میں علامہ اقبال کی یہ دْعا پڑھی گئی:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
پھر بارہا علامہ اقبالؒ کا نام اور انکی نظمیں سکول کی کتابوں کی وساطت سے پڑھنے کو ملی ۔جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تو اسلامی کتب کی طرف میرا رجحان بڑھتا گیا۔ہمارے گھر میں علامہ اقبال کی شاعری کی تین کتابیں موجود تھیں۔بانگِ دِرا،بالِ جبریل، ضربِ کلیم ۔میں نے ان تینوں کتابوں کی ورق گردانی شروع کی ۔اس وقت کچھ کچھ اشعار تو میری سمجھ میں آتے تھے لیکن اکثر و بیشتر اشعار سر کے اوپر سے گزر جاتے۔لیکن ان مشکل اشعار کو پھر بھی پڑھنے میں جو لطف اور جوسرور آتا تھا وہ بیان سے باہر ہے۔میں ان کتابوں سے اپنے پسندیدہ اشعار کاغذ پر لکھ کر انہیں اپنی جیب میں رکھا کرتا اور انہیں زبانی یاد کرتا جنہیں میں اسلامی جمیعتِ طلبہ کے ہفتہ وار اجتماعات کے پروگراموں کے دوران حسبِ ضرورت پڑھا کرتا۔یوں اقبال کی شاعری سے میری دلچسپی بڑھتی گئی۔پھر تقدیر مجھے وطن سے دور برفیلے کوہساروں سے کھینچی گئی خونی لکیر کے اس پار لے گئی جہاں اب مجھے ان اشعار کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی کیونکہ اقبال نے اپنی شاعری میں جن شاہین صفت نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے میں انہی شاہینوں کے قبیل سے اب وابستہ ہو چکا تھا۔میرے لئے وہ لمحہ کسی نعمتِ عظمٰی سے کم نہ تھا جب 1995 میں لاہور میں جماعتِ اسلامی کے اجتماعِ عام کے دوران مجھے اس رجلِ عظیم کے مقبرے پر حاضری دینے کا موقعہ نصیب ہوا۔ کیسا خوش نصیب لمحہ تھا کہ جس اقبال سے مجھے شدت سے محبت تھی اس اقبال کے شہر لاہور میں بادشاہی مسجد کے پاس ہی اسکے تربت کے پاس کھڑا میں دنیا و مافیہا سے بےخبر امت مسلمہ کے اس عظیم محسن کیلئے دعائیں مانگ رہا تھا۔
(جاری ہے)