وسیم حجازی
(گذشتہ سے پیوستہ)
میرا ایک خاندان تھا، میرے رشتہ دار، ہمسائے اور دوست احباب تھے جنکے درمیان میں بچپن سے زندگی گزارنے کا عادی تھا۔ میں ایک طالب علم تھا اور ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ زندگی بھی عیش و آرام میں گزر رہی تھی۔ لیکن جونہی میں نے میدانِ جہاد کا رْخ کیا تو آناً فاناً سب کچھ بدل گیا۔ مجھے اپنوں کو اور اپنے سپنوں کو چھوڑنا پڑا۔ مجھے ایک تنظیم کی شکل میں ایک نیا خاندان مل گیا۔ مجھے نئے دوست مل گئے۔ مجھے ایک نیا وطن مل گیا۔ میرا طرزِ زندگی بدل گیا۔ میرا مقصدِ زندگی ہی بدل گیا. عیش و آرام کی زندگی سخت کوشی میں بدل گئی۔
کتابوں کی دنیا میں رہنے والا جب میدانِ عمل میں اْتر گیا تو مصائب و مشکلات کے بلند کوہساروں کو روند کر اسے آگے بڑھناپڑا۔ نازونخروں سے پلے بڑھے نوجوان کو آزمائش اور امتحانوں کی پْرخار وادی سے گذرنا پڑنا۔ راتوں کو نرم و گداز بستر پر سونے والے کو اب نہ جانے کتنی راتیں یخ بستہ ہواؤں کے درمیان، کبھی برفیلے کوہساروں پر ، کبھی خارزار گھاٹیوں میں، تو کبھی چٹیل میدانوں میں ننگے آسمان تلے گزارنی پڑی۔ اب وہ گھر کے نخرے کہاں تھے۔ جو کھانے کو دیا گیا، کھایا۔ جو پہننے کو دیا گیا پہنا۔ اب اپنی مرضی کی زندگی جینے کا تصور بھی محال تھا۔ اب میں ایک بہت بڑے کارواں کا حصہ تھا۔ قافلہِ سخت جاں کا رْخ جس طرف تھا، اْسی جانب میرا بھی رْخ تھا۔ اب میں نے نئے خواب آنکھوں میں سجائے تھے، نئے ارمان دل میں بسائے تھے۔ اب تو میں نے اپنی زندگی کا سودا اپنے رب سے کیا تھا۔ کیا ہی اچھا سودا تھا وہ۔


میری زندگی کا پہلا Turning پوائنٹ ایک الگ تفصیل موضوع طلب ہے۔ اس وقت میرا اصل موضوع میری زندگی کا دوسرا ا Turning پوائنٹ ہے جو کہ میرے ساتھ پیش آنے والا حادثہ تھا۔ اس حادثے کے نتیجے میں بھی دفعتاً سب کچھ بدل گیا۔ گزشتہ ڈھائی برسوں سے میں فکری و عسکری تربیت میں مشغول تھا۔ میں انسانی آبادیوں سے دور جنگلوں میں، خیموں میں رہنے کا عادی بن چکا تھا۔ میں دین کے سینکڑوں جانثاروں کے ساتھ اپنی زندگی ایک اعلیٰ مقصد کیلئے گزار رہا تھا۔ میرا طرز زندگی مجاہدانہ تھا۔ میرے سینے میں جذبوں کا ایک نہ ختم ہونے والا طوفان جنم لے چکا تھا جو مجھے میدانِ کارزار کی طرف دکھیلنے کی وجہ بن رہا تھا۔ میری منزل اب میدانِ کارزار تھی جہاں آنے والے کچھ مہینوں کے اندر اندر میں جانے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔جو انسان سوچتا ہے ،اللہ کا منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے ۔میں اپنے لئے ایک منصوبہ بنا رہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ میرے لئے کوئی اور ہی منصوبہ بنا رہا تھا۔ لیکن اب کی بار آزمائش پہلے سے ہزار گنا بڑی تھی۔ پہلے تو گھر، کیریئر اور وطن سب کچھ چھوٹ گیا لیکن اب کی بار اسکے ساتھ ساتھ اپنے آدھے جسم کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔اب جو نئے دوست بن گئے تھے جن کے ساتھ حسین لمحات گزارے تھے، ان کا ساتھ بھی ہمیشہ کیلئے چھوٹ رہا تھا کیونکہ ان میں سے اکثر و بیشتر ایک ایک کر کے میدان کارزار کا رْخ کر رہے تھے اور جام شہادت نوش کرتے جا رہے تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہنے کا عادی بن چکا تھا لیکن اب مجھے ہسپتال کی چار دیواری میں شدید تکلیف دہ اور بے بسی کی حالت میں زندگی کے لمحات گزارنے پڑ رہے تھے۔ یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔میرے قریبی ساتھی گو کہ مجھ سے بچھڑ رہے تھے لیکن میرے اور انکے احساسات کیا تھے اسکی عکاسی یہ نظم کرتی ہے:
محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا یہ طے ہوا تھا
بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا
یہ کیا کہ سانسیں اْکھڑ گئی ہیں سفر کے آغاز سے ہی یارو
کوئی بھی تھک کر نہ راستے میں نڈھال ہو گا یہ طے ہوا تھا
جْدا ہوئے ہیں تو کیا ہوا پھر یہی تو دستورِ زندگی ہے
جدائیوں میں نہ قربتوں کا ملال ہو گا یہ طے ہوا تھا
چلو کہ فیضان کشتیوں کو جلا دیں گْمنام ساحلوں پر
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہو گا یہ طے ہوا تھا
ایک دن میرا ایک جگری دوست شہید توصیف منصورہ ہسپتال میری عیادت کو آیا تو ایک خوبصورت ماضی پلٹ کر میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسورواں ہوئے۔ توصیف کے ساتھ میں نے بیس کیمپ میں کافی وقت اکٹھے گزارا تھا۔ ہم کھانا بھی ایک ساتھ کھاتے اور جمعہ کے دن کپڑے دھونے بھی اکھٹے جاتے ۔اس دوران ہم دونوں ایک لمحے کیلئے بھی جْدا نہ ہوتے تھے۔ بیس کیمپ میں قرآن کی تفسیر بھی اساتذہ سے اکٹھے پڑھتے تھے اور سورتیں بھی اکٹھے یاد کیا کرتے تھے۔ غرض اسکے ساتھ حسین یادوں کا ایک خوبصورت ماضی گزرا تھا۔ لیکن ہسپتال میں یہ اسکے ساتھ آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ہسپتال میں میرے پاس جو ڈائری تھی اس پر توصیف نے جاتے جاتے یہ شعر لکھا تھا:
جو رْکے تو کوہِ گراں تھے ہم ،جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
اس نے مجھے اشارہ دیا تھا کہ حْکمِ ربانی اور منشائے الٰہی یہی ہے کہ مجھے اب ایسے رْکنا ہے جیسے پہاڑ رْکا ہوا ہوتا ہے اور اْسے اب ہمیشہ کیلئے جانا ہے۔ ہم بھی کس راہ کے راہرو تھے کہ جسے رْکنے کا حکم ہوا وہ ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا اور جسے جانے کا حکم ہوا وہ قبر میں جاکر ہی رْک گیا۔یہ رْکنا بھی کتنا صبر آزما تھا کہ میرے قدم آج تک رْکے ہوئے ہیں۔ یہ قدم شائد روز محشر ہی دوبارہ اْٹھ سکیں۔
منصورہ ہسپتال میں ایک دن بیس کیمپ سے شاکر صاحب کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ میدانِ کارزار سے ڈسٹرکٹ کمانڈر شہید مصعب صاحب نے ہم دونوں کو یہ کہہ کر طلب کیا ہے کہ شاید اب انکا وقت قریب آچکا ہے لہٰذا اپنے ساتھ وسیم کو بھی لانا اور فیلڈ کو سنبھالنا۔ مصعب صاحب کا یہ خط تو کچھ مہینے پہلے ہی شاکر صاحب کو موصول ہوا تھا لیکن انہوں نے مجھے تاخیر سے اس لیے بتایا تاکہ کہیں میرا دل نہ ٹوٹے۔ یہ خط موصول ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد مصعب صاحب کی شہادت کی خبر موصول ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انکی شہادت قبول فرمائے۔ آمین مصعب صاحب بچپن میں ہمیں یسرناالقرآن پڑھایا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے وہ میرے استاد تھے۔ انہیں شاکر صاحب سے اور مجھ سے کافی امیدیں وابستہ تھیں کیونکہ ہجرت سے پہلے ہم دونوں اسلامی جمیعتِ طلبہ سے وابستہ تھے۔
منصورہ ہسپتال میں ایک دن شہید سیف اللہ بھائی میری عیادت کو آئے۔ انہیں دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا کیونکہ میرا اندازہ تھا کہ وہ میدانِ کارزار میں ہی ہیںانہوں نے کافی وقت ہمارے علاقے میں گزارا تھا اور ہمارے علاقے کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ تمہارے گھر میں جو Reading ڈیسک تھی اسکے اندرونی حصے پہ تم نے ایک شعرلکھا تھا ’’یہ راہِ حق ہے سنبھل کے چلنا، یہاں ہے منزل قدم قدم پر‘‘ ایکدم سے مجھے میرے گھر کا وہ کمرہ یاد آگیا جہاں میں کتابوں کی دنیا میں گْم ہو جایا کرتا
تھا۔ یہ شعر اس بات کی بھی پیشگوئی تھی کہ میری آنے والی زندگی کا رخ کس طرف ہوگا۔ سیف اللہ بھائی اسی سال واپس فیلڈ میں چلے گئے اور آپریشنل کمانڈر کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایک دن دورانِ حراست شہید ہوئے۔ اللہ انکی شہادت قبول فرمائے۔ آمین
ایک دن مست گْل میری عیادت کو منصورہ ہسپتال آیا۔ انہیں دیکھ کر میں حیران رہ گیا کیونکہ مست گْل اْس زمانے میں چرارِ شریف واقعہ کی وجہ سے شہرت کے ساتویں آسمان پر تھا۔ چونکہ مست گْل کھانے پینے کا بہت شوقین تھا اسلئے دوچار باتیں کر کے مست گْل نے کہا کھانے میں کیا پکا ہے اورکچن کا رْخ کیا۔ ہمارے پاس تو اْس کے مزاج کے حساب سے کچھ بھی پکا نہیں تھا۔ اس نے بھی مذاق مذاق میں ہی پوچھا اور چلا گیا۔ مست گْل جب 1995 میں واپس پاکستان پہنچا تو جگہ جگہ اسکا استقبال ہزاروں لوگوں نے کیا۔ اسی سال جماعت اسلامی پاکستان کے کْل سالانہ اجتماع عام میں مینار پاکستان کے احاطے میں مست گل نے تقریر کی۔ اس اجتماع میں، میں نے بھی شرکت تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ مست گل بھی نہ جانے کہاں گْم ہو گیا۔
ایک دن میرا ایک پاکستانی دوست شہید انصر محمود میری عیادت کو آئے۔ انصر سے میری ملاقات اکتوبر 1995 میں ہوئی تھی جب میں وہاں تربیت کیلئے گیا ہوا تھا۔ چونکہ پاکستان کے بہت سارے طلباء جن میں اکثر کا تعلق اسلامی جمیعتِ طلبہ سے ہوتا تھا، گرمی کی چھٹیوں میں یا پھر امتحانوں کے بعد عسکری تربیت کیلئے جایا کرتے تھے۔ اسلئے انصر بھی انہی دنوں بارہویں جماعت کا امتحان دے کر وہاں تربیت لینے آیا تھا۔ ہماری تربیت انتہائی سخت ہوتی تھی اور کھانا بھی کم ہی ملتا۔ہمارا خیمہ ایک چھوٹے سے ٹیلے پر تھا۔ ایک دن شام کو انصر اپنے ایک دوسرے ساتھی کے ساتھ ہمارے خیمے کے پاس آیا اور چْپکے سے مجھے اشارہ کیا اور کھانا مانگنے لگا کیونکہ وہ تین دن سے بھوکے تھے جو کہ انکی تربیت کا ایک حصہ تھا۔ میں نے انہیں کھانا دیا اور وہ شکریہ ادا کرکے چل دیئے۔ (جاری ہے)
یہیں سے ہماری دوستی ہوئی۔ واپسی کے بعد انہوں نے میرے حادثے کے بارے میں سْنا تو وہ لاہور میری عیادت کو آئے۔ پھر دو برس تک مجھے انکے بارے میں پتہ نہیں چلا۔ ایک دن میں ایک رسالہ “جہادِ کشمیر” پڑھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر تذکرہ شہداء عنوان پر پڑی جس میں انصر کی زندگی اور شہادت کا تذکرہ تھا۔ انصر سوناواری کے کسی علاقے میں ایک معرکے میں شہید ہوئے تھے اور وہیں پر کہیں دفن ہیں۔ اللہ انکی شہادت قبول کرے۔ آمین
ایک دن شاکر صاحب اپنی مصروفیت کے باوجود وقت نکال کر بیس کیمپ سے منصورہ ہسپتال تشریف لائے۔ وہ ایک سلیقہ شعار اور نفاست پسند انسان تھے ۔انہوں نے تمام کمرے کا معائنہ کیا، صفائی سْتھرائی کا جائزہ لیا اور ساری بے ترتیب چیزوں کو ترتیب میں رکھنا شروع کیا۔میرے پاؤں کے ناخنوں پر نظر پڑی تو انہیں اپنے ہاتھوں سے تراشا۔ دو تین بیڈ شیٹ کاٹ کر اْنکی سوئی دھاگے سے سلائی
کر کے میرے لئے ایک طرح کی دھوتیاں بنائی تاکہ شدید گرمی میں مجھے راحت ملے اور بیڈ پر بھی لیٹتے وقت دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سوئی دھاگہ، چاقو، ٹوپی، تسبیح، قلم، چھوٹی ڈائری ہمیشہ انکے پاس رہتی۔ درمیانی سائز کا ایک رومال وہ اپنے کندھے پر رکھا کرتے۔ انکی عادت تھی کہ وہ چھوٹے چھوٹے کام بھی ساتھیوں سے کہنے کے بجائے خود ہی کرتے۔ میرے حادثے کے بعد انہوں نے مجھے کبھی بھی اکیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا۔شاکر صاحب میری کتابِ زندگی کا ایک حسین باب ہے۔ میں تو انہیں بچپن سے ہی جانتا تھا لیکن انکے ساتھ تفصیلی تعارف اسلامی جمیعتِ طلبہ کے حوالے سے 1990 سے 1993 کے دوران ہوا۔ وہ جمیعت کے سرگرم کارکن تھے۔ دینی اجتماعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ درسگاہوں میں صباحی اور شبینہ قرآن کلاسوں کا اہتمام کرواتے۔ 1993 میں جب جمیعت کے سیکرٹری تحصیل کے منصب پر فائض ہوئے تو دن رات محنت کرکے طلباء میں دینی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ میں نے اْس دور میں بھی انہیں ہمیشہ سرگرمِ عمل پایا۔ انکی گوناگوں صلاحیتیں ہمیشہ دین کے کام آتی رہیں۔ 1993 میں جب ہم نے اکٹھے ہجرت کی تو مجھے انکی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بذاتِ خود مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا۔ انہیں جب ہمارے گروپ کا امیر مقرر کیا گیا تو میں نے انہیں انتہائی فرض شناس پایا۔انکی رفاقت میں گزرے تمام ایام میرے دل و دماغ میں نقش ہیں۔ انہوں نے اْس وقت بھی میرا اور دوسرے ساتھیوں کا بھرپور خیال رکھا جب ہم رات کی تاریکیوں میں سینکڑوں کوہساروں کو اپنے پاؤں تلے روند رہے تھے۔ دورانِ سفر وہ گروپ کے پچھلی صفوں میں اسلئے چل رہے تھے تاکہ کہیں کوئی ساتھی تھک کر رْک نہ جائے۔ رْکنے کا مطلب تھا بھیانک موت۔اُس مشکل وقت میں بھی انہوں نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی جبکہ موت قدم قدم پر ہمارے سروں پہ کھڑی تھی ۔ایک فرض شناس امیر کیسا ہونا چاہیے اس وقت شاکر صاحب نے اسکا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ دوران سفر ایک نازک موقعہ پر انہوں نے گروپ کے حوالے سے تنہائی میں ایک اہم مشورہ مجھ سے مانگا جس وقت ہم بہت مشکل میں گِھر گئے تھے۔ تب انہوں نے میرے مشورے پر عمل کیا اور سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔میری زندگی کے حلقہِ یاراں میں شہید شاکر صاحب کی حیثیت وہی ہے جو ستاروں کے جھرمٹ میں چودھویں کے چاند کی ہوتی ہے۔ جس طرح چاند سورج سے روشنی لیتا ہے اسی طرح میں نے شاکر صاحب سے علم اور تجربے کی روشنی لی۔ اکتوبر 1993 سے لیکر دسمبر 2001 تک دوستی کا یہ سفر خوبصورت اور انمول یادوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہجرت کا مرحلہ ہو یا بیس کیمپ میں فکری تربیت کا مرحلہ یا پھر معسکر میں عسکری تربیت کا مرحلہ ،وہ ہمیشہ نظم کی طرف سے امارت کی ذمہ داری کامیابی سے نبھاتے رہے۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہر طرح کے معاملات پر تبادلہِ خیالات کرتے رہتے تھے چاہے وہ نجی معاملات ہوں، تنظیمی یا تحریکی یا دینی معاملات ہوں یا پھر عالمی معاملات ،یہ سلسلہ انکی شہادت تک خطوط کے ذریعے بھی جاری رہا۔جب تک شاکر صاحب بیس کیمپ میں رہے ،انہوں نے میرے حادثہ سے پہلے بھی اور میرے حادثے کے بعد بھی میرا بھرپورخیال رکھا۔ جب وہ اپریل 1997 میں میدانِ کارزار کی طرف جانے والے تھے تو خونی لکیرسے مجھے خط لکھا جس میں ایک جملہ مجھے اب بھی یاد ہے ’’پیارے وسیم، میں اب جا رہا ہوں لیکن میرا ایک بازو یہیںد رہ گیا ہے۔ اگر زندگی رہی تو پھر ملیں گے ورنہ جنت میں ملاقت ہوگی، ان شاء اللہ۔‘‘ شاکر صاحب نے مجھے میدانِ کارزار میں بھی فراموش نہ کیا۔ مجھے انکے خطوط کا انتظار رہتا اور انہیں میرے خطوط کا۔ وہ میری ہمت بندھاتے اور میں اْنکی ہمت بندھاتا کیونکہ وہ بھی میدان کارزار میں بہت ساری آزمائشوں سے گزرے۔ کشمیری زبان میں اپنے لکھے گئے اشعار بھی مجھے بھیجتے رہتے۔ غرض “بچھڑ کے بھی اک دوسرے کا خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا” کا ہم دونوں نے عملی مظاہرہ کیا۔
میدانِ کارزار میں اُنکی عسکری صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ شمالی کشمیر کی ساری کمان انہی کے ہاتھوں میں تھی ۔انکے زیر کمان تربیت یافتہ جانثاروں کا ایک ایسا گروہ تھا جنہوں نے شمالی کشمیر میں عسکری محاذ کو بامِ عروج تک پہنچایا اور اخوان جیسی ناپاک گندگی کا شمالی کشمیر سے تقریباً مکمل صفایا کیا۔تقریباً پانچ برس میدانِ کارزار میں گزارنے کے بعد بالآخر 13 دسمبر (27 ماہ رمضان) 2001 میں وہ اپنے ہی علاقے میں ایک معرکے میں جام شہادت نوش کرگئے۔ دشمن اْس وقت حیرت زدہ رہ گیا جب اْنہوں نے اُس سے 32 لاکھ روپے برآمد کئے جبکہ اْنہوں نے جسم پر معمولی نوعیت کے کپڑے اور پاؤں میں پُرانے سستے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ شہادت کے تین ماہ بعد شہید شاکر غزنوی ؒاپنے سْسر کے خواب میں آئے اور ان سے کہا کہ انکی قبر میں پانی جمع ہو گیا ہے لہٰذا انہیں دوسری جگہ دفنایا جائے۔ جب قبر کھودی گئی تو انکی میت تروتازہ تھی اور جسم سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ انہیں پھر دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ شہداء کی روحیں جنت میں حاضر رہتی ہیں جبکہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن حاضر ہونگی۔ شہید بیشک زندہ ہوتے ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پاتے ہیں۔ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے سینوں میں داخل کر دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اسکی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں ۔ جاری ہے
٭٭٭