راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی

وسیم حجازی

(گذشتہ سے پیوستہ)

شہید بیشک زندہ ہوتے ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پاتے ہیں۔شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے سینوں میں داخل کر دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اسکی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ عرش کی قندیلیں ان کیلئے ہیں۔ ساری جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں اور ان قندیلوں میں آرام کرتے ہیں۔شہید تمنا کرتے ہیں کہ دنیا میں دوبارہ لوٹائے جائیں اور دوبارہ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں۔کچھ شہداء جنت کے دروازے کے پاس دریا کے کنارے والے محل میں ہوتے ہیں اور جنت سے صبح و شام ان کی روزی آتی ہے۔ کچھ شہداء فرشتوں کے ساتھ جنت میں اْڑتے پھرتے ہیں جیسا کہ جعفر طیارؓکے بارے میں اللہ کے نبی علیہ اسلام نے فرمایا تھا۔ شہادت سے پہلے جسکا ایمان جتنا بلند ہوگا، شہادت کے بعد اللہ کے ہاں اسکا مقام اتنا ہی بلند ہوگا۔ جنگ اْحد کے موقعہ پر شہداء کی تدفین کے بعد اللہ کے رسول ﷺنے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے لوگو! تم ان(شہداء) کے پاس آیا کرو، انکی زیارت کیا کرو، ان کو سلام کیا کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی ان کو سلام کہے گا یہ اسکا جواب دیں گے۔ شہداء کے فضائل بے شمار ہیں جنکا احاطہ کرنا یہاں ناممکن ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی سعات کی زندگی اور شہادت کی موت دے ۔آمین
شاہراہِ حیات پر لوگوں کا ملنا اور بچھڑنا ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا زندگی میں ہر کسی کو کرنا پڑتا ہے۔ ان ملنے اور بچھڑنے والوں میں کچھ لوگ ذہن سے نکل جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہماری یادوں پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔تقدیر مجھے اس راہ پر لے آئی تھی جہاں میں ہر روز ملنے اور بچھڑنے کا دردناک منظر دیکھتا تھا۔ کتنے آئے، ملے اور ایسے بچھڑے کہ روزِ محشر ہی ان سے ملنا نصیب ہو گا۔ ہمدرد اور غمخوار لوگوں سے بچھڑنا انسان کا دل چھلنی کر دیتا ہے اور میرا دل میرے غمخواروں کی جدائی سے بار بار چھلنی ہوتا رہا۔ میں اس غم کو اپنے دل میں چْھپاتا رہتا لیکن دل پر جو گذرتی تھی اسے میں ہی جانتا تھا۔ کبھی وطن سے، گھر سے اور بچپن کے دوستوں سے جْدا ہوئے تو کبھی راہِ حق کے راہیوں سے بچھڑ گئے۔ آہ میں بار بار زہرِ جْدائی پیتا رہا، پیتا رہا مگر پھر بھی جیتا جیتا رہا۔
راہِ حق پہ گامزن میرے ساتھی طوفانی ہواؤں سے لڑتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے اور میں رشک اور حسرت بھری نگاہوں سے انکی طرف دیکھتا رہتا۔ کبھی میں بھی انکا ہمسفر تھا لیکن اب میں چوٹ کھا کے گر پڑا تھا۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے اور پھر نگاہوں سے ہمیشہ کیلئے اوجھل ہو جاتے۔ ایسے میں میرا دل تڑپ اْٹھتا۔ میرا دل کرتا کہ میں انکے قدموں سے لپٹ جاؤں اور انہیں کہہ دوں کہ مجھے بھی اپنے ساتھ وہاں لے کر جاؤ جہاں شہادت کی نیلم پری تمہاری منتظر ہے۔ شہادت کی اس نیلم پری کو پانے کیلئے میں اپنے بدن پر ایک تو کیا بلکہ ہزاروں زخم کھانے کو تیار تھا۔ میں رزمگاہِ حق و باطل میں اترنے والے اپنے ساتھیوں کی قسمت پر گر چہ نازاں تھا لیکن اس سعادت سے محرومی پر میں خود بہت افسردہ و دل گرفتہ تھا۔

منصورہ ہسپتال کے اْس بیڈ پر لیٹے لیٹے میں اکثر ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگتا۔ مجھے وہ ساری محنت و مشقت یاد آتی جو گزشتہ اڑھائی برسوں سے میں کر رہا تھا۔ میں نے خود کو میدان کارزار کیلئے مکمل طور پر تیار کیا تھا۔ میں نے خود کو ذہنی طور پر اْن امتحانوں کیلئے تیار کیا تھا جو میدانِ کارزار میں پیش آتے ہیں۔ لیکن جب اچانک ایک نئے طرح کے امتحان کا مجھے سامنا کرنا پڑا تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میرا حال اس طالب علم جیسا تھا جس نے Biology کے پرچے کی تیاری کی ہو لیکن امتحان حال میں Mathematics کا پرچہ اْسکے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہو۔ میری آزمائش دوسرے ساتھیوں کی نسبت بالکل مختلف اور سخت ترین تھی۔میرے ساتھیوں کو بھی اسکا بھرپور احساس تھا اور وہ میری ہمت اور حوصلے کی ہمیشہ داد دیتے تھے اور ساتھ ہی مجھے حوصلہ بھی دیتے تھے۔
یقیناً میرے تیماردار ساتھی میرے سب سے بڑے محسن ہیں کیونکہ اس حادثے کے بعد پورے گیارہ برسوں تک زندگی کے مشکل ترین مراحل میں میرے ان ساتھیوں نے میری جو بے لوث خدمت اور مدد کی وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے خاصکر منصورہ ہسپتال میں قیام کے دوران میرے ساتھیوں نے ایثار ،خلوص، ہمدردی، پیار، محبت، شفقت، مروت، اپنائیت اور قربانی کی ایک لازوال داستان رقم کی۔ جب میں ایک زندہ لاش کی طرح بیڈ پر بے حس و حرکت پڑا رہتا تھا تو یہی ساتھی مجھے سنبھال رہے تھے۔راتوں کو اْٹھ اْٹھ کے میری کروٹ بدلتے رہتے تھے. مجھ سے جْڑے سارے معاملات سنبھال رہے تھے۔ سائے کی طرح میرے ساتھ رہتے تھے۔ یہی تو راہِ حق کا خاصہ ہے کہ یہاں گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں ساتھی۔

وفا کے پیکر میرے یہ ہمسفر تیماردار ساتھی اْس وقت میرا سہارا بن گئے جب تقدیر نے مجھے شیر خوار بچے سے بھی زیادہ بے بس کر دیا تھا۔ میرے یہ غمخوار ساتھی کسی دنیاؤی لالچ کے بغیر میری ہر طرح کی خدمت کرنے میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ جسکا بدلہ چْکانے سے میں بالکل قاصر ہوں۔انکے احسانات کا بدلہ اْنہیں صرف اللہ عزوجل ہی دے سکتا ہے۔ میرے ان تیماردار ساتھیوں میں سے اکثر و بیشتر اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکی شہادت قبول کرے۔ آمین۔ میرے ان تمام غمخوار ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ اجرِ عظیم سے نوازے جو چاہے شہادت پاچکے ہیں یا پھر اس دنیا میں بقیدِ حیات ہیں۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
ایک دن شہید بُرہان الدین حجازی صاحب منصورہ ہسپتال میری عیادت کو تشریف لائے۔ پہلی بار تو وہ میرے پاس شہید میر احمد حسن صاحب کے ساتھ اُس نامعلوم ہسپتال میں آئے تھے جہاں میں حادثے کے فوراً بعد Admit ہوا تھا لیکن اُس وقت میری حالت بہت زیادہ ابتر تھی لہٰذا وہ تھوڑی دیر رْک کر چلے گئے تھے۔ اب کی بار انکے ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ برہان الدین صاحب نے شہید احمد حسن صاحب کے ساتھ ملکر گزشتہ برس بیس کیمپ میں تقریباً تمام ساتھیوں کا انٹرویو لیا تھا۔اس انٹرویو مہم کے دوران جب انہوں نے میرا انٹرویو لیا تھا تو وہ میرے جوابات سے کافی متاثر ہوئے تھے اور اسی بنیاد پر مجھے لیڈرشپ کورس کیلئے منتخب کیا گیا تھا (جسکے دوران بعد میں میرا حادثہ پیش آیا). اس کورس کیلئے اْن ساتھیوں کا انتخاب ہوا تھا جو فیلڈ میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے اہل تھے۔
دراصل شہید برہان الدین صاحب مجھے بھی اپنے اُس گروپ میں شامل کرنا چاہتے تھے جس گروپ کے ساتھ وہ آئندہ برس میدانِ کارزار جانا چاہتے تھے۔ اس گروپ میں شہید شاکر صاحب اور شہید توصیف شامل تھے۔ بعد ازاں میری جگہ شہید سجاد کو شامل کیا گیا۔ چونکہ میں تنظیم میں Communication System سے جڑا تھا لہٰذا میرا انتحاب بھی برہان صاحب نے اسی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر کیا تھا تاکہ میں انکے ساتھ بحیثیت وائرلیس آپریٹر رہوں۔ شہید سجاد بھی وائرلیس آپریٹر تھے لہٰذا میرے حادثے کی وجہ سے میری جگہ انہیں منتخب کیا گیا۔شہید سجاد میرے کلاس فیلو بھی تھے اور ہم نے 1994 میں اکھٹے ہی کیمونکیشن کا کورس کیا تھا۔ بہرحال یہ خوش قسمت گروپ اپریل 1997 میں میدانِ کارزار پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
شہید برہان الدین صاحب کی قیادت میں جانثاروں کا یہ گروہ جب سْوئے مقتل محوِ سفر تھا تو انکے ساتھ شریک سفر نہ ہونے کا قلق مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا اور میری آنکھیں پْرنم ہو رہی تھیں۔ میں ہمیشہ میدانِ کارزار جانے کیلئے تڑپتا رہتا تھا اور جب جانے کا وقت آگیا تو تقدیر نے میرے پاؤں میں بیڑیاں پہنا دی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تیس ہزار کا لشکر تبوک کی جانب روانہ ہوا تو اس موقع پر کچھ مخلص صحابہ مدینہ میں ہی رہنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ ان میں سے کچھ جسمانی طور معذور تھے، کچھ ضعیف العمر تھے اور کچھ لوگوں کو سواری میسر نہ تھی۔ لیکن اس غزوہ میں شرکت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھیں اشکبار ہو رہی تھیں۔
جس وقت آپ ﷺجنگ سے واپس آئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا:’’ اِس شہر میں تم ایسے افراد کو چھوڑ گئے تھے جو تمام راستے میں تمہارے ساتھ ساتھ تھے۔ جو قدم تم نے اْٹھایا اور جو مال تم نے اس راہ میں خرچ کیا اور جس زمین سے تم گذرے، وہ تمہارے ہمراہ تھے‘‘۔
صحابہ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ وہ کس طرح ہمارے ساتھ تھے جبکہ وہ مدینہ میں تھے‘‘۔
رسول اللہ نے فرمایا: ’’ اس بناء پر کہ وہ کسی عْذر کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہیں کر سکے (لیکن اْنکے دل ہمارے ساتھ تھے)‘‘۔
کسی مفسر نے اس واقعہ کا عْنوان باندھا ہے: ’’وہ معذور جو عشقِ جہاد میں آنسؤ بہاتے تھے‘‘۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 92 میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کیلئے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اسکے رسولﷺ کے وفادار ہوں۔ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں سید ابوالاعلیٰؒ رقمطراز ہیں: ’’ایک شخص ہے کہ جب اْس نے پْکار سْنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ’ بڑے اچھے موقعہ پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خومخواہ مصیبت بْھگتنی پڑتی‘ دوسرے شخص نے یہی پْکار سْنی تو تلملا اْٹھا کہ ’ہائے کیسے موقعے پر اس کمبخت بیماری نے آن دبوچا جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا، وہ کس بْری طرح اِس بستر پر ضائع ہو رہا ہے‘۔ مزید تفصیلات کیلئے دیکھئے تفہیم القرآن، سورہ توبہ (آیت نمبر 92)

شہید برہان الدین حِجازی صاحب جنکا اصل نام علی محمد ڈار تھا، عسکری تحریک کے ایک مایہ ناز کمانڈر تھے جنہوں نے عسکری محاذ پر اپنا لوہا منوایا تھا۔ 1990 میں وہ عسکریت کی صفوں میں شامل ہونے سے قبل ایک پولیس آفیسر تھے۔ لیکن اعلیٰ و ارفع مقصد کیلئے انہوں نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ پہلی دفعہ انکے ساتھ میری ملاقات 1993 میں ہوئی تھی جب وہ ہمارے گھر آئے تھے۔میں اْن دنوں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں اسلامی جمیعتِ طلبہ سے وابستہ ہوں تو انہوں نے مجھ سے کچھ اسلامی کتب کے بارے میں پوچھا تھا کہ کیا میں نے انکا مطالعہ کیا ہے۔ دوسری بار انکے ساتھ میری ملاقات 1995 میں مظفرآباد کے دفتر میں ہوئی تھی جب وہ میدانِ کارزار سے واپس بیس کیمپ پہنچے تھے۔ اُس وقت میرے ہاتھ میں کُلیاتِ اقبال تھی جسکو دیکھ کر انہوں نے پھر سے کتابوں کے بارے میں ہی بات کی۔
ایک بار بیس کیمپ کے ایک خیمے میں کئی ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران انہوں نے ایک شعر کہا تھا’’ مقصدِ زندگانی کی خاطر زندگی کو بدلنا پڑے گا، جو بچاتے ہیں خاروں سے دامن، اْنکو کانٹوں پہ چلنا پڑے گا‘‘۔ اس وقت وہ ہمیں سخت جان بننے کی تاکید کر رہے تھے۔ وہ جب بھی ساتھیوں سے مصافحہ کرتے تو ہاتھوں کو زور سے دباتے حتیٰ کہ کئی ساتھیوں کہ چیخیں نکل جاتیں وہ یہ اسلئے کرتے تاکہ ہمارے ہاتھوں کی طاقت دیکھ سکیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ہمارے ہاتھ لوہے جیسے مضبوط ہوں۔ انہوں نے سخت جان مجاہدین کا ایک الگ کیمپ قائم کیا تھا جسکا نام انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کیمپ رکھا تھا۔ اس کیمپ کے ساتھیوں پر بہت سی پابندیاں عائد تھیں، جیسے کہ وہ صرف مجبوری کے وقت نہا سکتے تھے، بال اور داڑھی کاٹنے کی اجازت نہ تھی۔ ان سے سخت سے سخت کام لئے جاتے تھے۔ انکو اکثر و بیشتر سرحدی علاقوں میں کاروائیوں کیلئے بھیجا جاتا۔ برہان الدین صاحب کا یہ منصوبہ انکی عسکری حکمت عملیوں کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا۔
ایک اعلیٰ کمانڈر ہونے کے باوجود برہان صاحب سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ فولادی عزم رکھنے کے باوجود منکسرالمزاج تھے،گمنامی کو ترجیح دے کر نمودونمائش سے دوربھاگتے تھے۔ جب مینار پاکستان کے احاطے میں 1995 میں جماعتِ اسلامی پاکستان کا اجتماعِ عام منعقد ہوا تھا جہاں لاکھوں لوگ موجود تھے تو اْس وقت برہان الدین صاحب ہمارے ساتھ ہی تین دن تک اجتماع گاہ میں موجود تھے حالانکہ انہیں کئی بار خصوصی مہمانوں کے ساتھ سٹیج پر آنے کی دعوت بھی دی گئی لیکن انہوں نے عام مجاہد ساتھیوں کے ساتھ ہی بیٹھنے کو ترجیح دی۔ اس شہاہین صفت، سیماب صفت کمانڈر سے میری آخری ملاقات یٰبسین بھائی کی دعوتِ ولیمہ پر لاہور میں ہوئی تھی۔
جب 1997 میں برہان الدین صاحب نے میدانِ کارزار کا رْخ کیا تو اس وقت عسکری محاذ کو بدنامِ زمانہ اخوانیوں نے کافی نقصان پہنچایا تھا۔ اب اْنہیں نئے سرے سے اس محاذ کو متحرک کرنے کا کٹھن مشن سونپا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی عسکری حکمتِ عملیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑی جانفشانی سے اس محاذ کو ازسرِ نو متحرک کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ وہ بھیس بدل بدل کر ہر جگہ پہنچنے کی کوشش کرتے۔میرا جگری دوست شہید توصیف اس دوران سائے کی طرح انکے ساتھ ساتھ انکی معاونت اور انکی حفاظت پر معمور تھا۔ بالآخر 7 اور 8 اگست 1998 کی درمیانی رات وہ دونوں اپنے ایک معاون ساتھی علی محمد المعروف عنایت (علی فوجی) کے ساتھ اْنکی رہائش گاہ پر شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائض ہوئے۔ اللہ تعالیٰ تینوں کی شہادت قبول فرمائے۔ آمین
دشمنوں نے شہید برہان الدین صاحب کے جنازے میں کسی کو بھی شرکت نہیں کرنے دی سوائے انکے گھر والوں کو، انہیں رات کی تاریکی میں اپنے آبائی علاقے میں سپرد خاک گیا۔ یوںگمنامی کو پسند کرنے والے کا آخری سفر بھی گمنامی کی نذر ہوا۔
٭٭٭

عرش کی قندیلیں انکے لئے ہیں. ساری جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں اور ان قندیلوں میں آرام کرتے ہیں۔شہید تمنا کرتے ہیں کہ دنیا میں دوبارہ لوٹائیں جائیں اور دوبارہ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں۔
کچھ شہدا جنت کے دروازے کے پاس دریا کے کنارے والے محل میں ہوتے ہیں اور جنت سے صبح و شام ان کی روزی آتی ہے۔ کچھ شہداء فرشتوں کے ساتھ جنت میں اْڑتے پھرتے ہیں جیسا کہ جعفر طیارہؓکے بارے میں اللہ کے نبی نے فرمایا تھا۔ شہادت سے پہلے جسکا ایمان جتنا بلند ہوگا، شہادت کے بعد اللہ کے ہاں اسکا مقام اتنا ہی بلند ہوگا۔ جنگ اْحد کے موقعہ پر شہداء کی تدفین کے بعد اللہ کے رسول ﷺنے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے لوگو! تم ان(شہدا) کے پاس آیا کرو، انکی زیارت کیا کرو، ان کو سلام کیا کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی ان کو سلام کہے گا یہ اسکا جواب دیں گے۔ شہداء کے فضائل بے شمار ہیں جنکا احاطہ کرنا یہاں ناممکن ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی سعات کی زندگی اور شہادت کی موت دے.آمین
(جاری ہے)