وسیم حجازی
(گذشتہ سے پیوستہ)
فاطمہ باجی کسی اور ہی مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ ایثار و ہمدردی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ غالباً 1995 کی بات ہے جب خونی لکیر کے آس پاس ہمارے ایک ساتھی عابد بھائی کے سر میں گولی لگی۔ شدید زخمی حالت میں دوسرے ساتھیوں نے سخت کوششوں کے انہیں بحفاظت واپس لایا۔ راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں وہ کئی ہفتے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے اور بالآخر ایک دن اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کی۔ اس دوران فاطمہ باجی نے مسلسل انکی نگہداشت کی۔ عابد بھائی کی اس تکلیف دہ حالت کے بارے میں جب بھی وہ مجھے بتایا کرتی تو اْنکی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ انہوں نے راہِ حق کے مْسافروں کے درد کو ہمیشہ اپنا درد سمجھا۔ ہمدردی کا یہی جذبہ انہیں سرگودھا سے کھینچ کر لاہور لایا جہاں وہ منصورہ ہسپتال میں مہینوں تک میری خبرگیری کرتی رہی۔
فاطمہ باجی روحانیت کی طرف زیادہ مائل تھیں۔ وہ جب منصورہ ہسپتال میں آتیں تو انکے ہاتھ میں ہمیشہ ایک ڈیجٹل تسبیح ہوتی۔ تسبیحاتِ الٰہی انکے وردِ زبان رہتی۔ بسا اوقات وہ یہ تسبیحات میری خاطر پڑھتی تاکہ مجھے اس تکلیف سے کسی حد تک راحت ملے۔ وہ ہمارے سالارِ اعلیٰ کو اپنا رہبر و رہنما مانتی تھیں جن سے انکا روحانی تعلق تھا اور یہ تعلق باپ اور بیٹی جیسا تھا۔ چونکہ پیر صاحب نے انہیں adopt کیا تھا اسی لئے فاطمہ باجی انہیں باباجان کہہ کر پکارتیں جبکہ ہم لوگ انہیں پیر صاحب کہہ کر پکارتے. پیر صاحب سے انہیں والہانہ عقیدت تھی۔ انکا تذکرہ کرتے ہوئے اکثر و بیشتر وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح اپنی خوشی کا اظہار کرتیں۔ وہ اکثر و بیشتر انکے پاس اسلام آباد دفتر جایا کرتیں اور ان سے نہ صرف علمی و روحانی فیض حاصل کرتیں بلکہ اپنی زندگی کے معاملات میں بھی ان سے مشاورت لیتی رہتیں۔
فاطمہ باجی روانی سے انگریزی زبان بولتی تھی اور بعض دفعہ وہ میرے ساتھ انگریزی زبان میں ہی بات کیا کرتی جسکی وجہ سے انگریزی زبان پر میری گرفت مضبوط ہوتی گئی۔غیر محسوس طریقے سے سکھانے کا انکا یہ ہنر بھی کیا خوب تھا۔ آنے والے برسوں میں فاطمہ باجی کے ہی مشورے سے میں نے Software Engeenering کی پڑھائی شروع کی تو فیس کا سارا خرچہ انہوں نے خود برداشت کیا اور یہ سلسلہ مسلسل چار برسوں تک جاری رہا۔ یہی وقت میری process Rehabilitation کا نقطہ عروج تھا اور مجھے اس عروج تک پہنچانے میں فاطمہ باجی کا ہی ہاتھ تھا۔ یقیناً دنیا میں وہی لوگ اچھے ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں، جو بے غرض ہو کر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں اور انکی مشکلات کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فاطمہ باجی جیسے لوگ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
جسمانی طور معذور افراد میں بھلے ہی کتنی صلاحیتیں موجود ہوں لیکن عام طور پر لوگ انکی صلاحیتوں کو نظر اندز کرکے انکی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں حتیٰ کہ بعض معذور افراد کے اپنے گھر والے بھی ایسے افراد کو ناکارہ سمجھ کر انہیں صرف کھانے پینے اور سونے کا مشورہ دیتے ہیں۔لیکن اللہ کا شکر ہے کہ مجھے حادثے کے فوراً بعد ایسے منحوس لوگوں سے واسطہ نہیں پڑا بلکہ میری حوصلہ افزائی کیلئے برہان الدین صاحب، مقبول صاحب،شاکر صاحب،مبشر بھائی, فاطمہ باجی کے علاوہ میرے تیماردار ساتھی پیش پیش تھے۔اسکے علاوہ میری عیادت کو آنے والے ساتھی میری ہمت بڑھاتے رہتے۔اس معاملے میں فاطمہ باجی نے شروع سے لیکر آخر تک مجھے کبھی بھی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونے دیا بلکہ انہوں نے میری خود اعتمادی کو پرواز کا راستہ دکھایا۔
عیدالاضحٰی آنے والی تھی۔ اس لیے فاطمہ باجی کی امی انہیں واپس لے جانے کیلئے لاہور آئی تھیں۔ 1997میں یہ منصورہ ہسپتال لاہور میں میری انکے ساتھ آخری ملاقات تھی۔ پھر وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور ماہ و سال گذرتے گئے۔ میں لاہور سے مظفرآباد، مظفرآباد سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے راولپنڈی منتقل ہوا۔ اس دوران فاطمہ باجی بھی میرے پاس آتی رہیں اور دامے، درمے،سخنے میری مدد کرتی رہیں۔ ان سے میری آخری ملاقت اکتوبر 2007 میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر ہوئی جب میں وطن واپس جانے والا تھا۔ میں لاہور امرتسر ٹرین میں سوار ہو چکا تھا اور انہیں آخری بار الوداع کہہ رہا تھا۔ جاتے جاتے بھی ایک آخری کام وہ میرے لئے کر گئی۔احسانات کی لمبی فہرست میں فاطمہ باجی کا مجھ پر آخری احسان بھی یادگار ہے۔ ہوا یوں کہ امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر نے امریکہ سے مجھےCushion Roho بھیجا تاکہ میں وہیل چئیر پر بیٹھے بیٹھے Pressure Sores سے بچ سکوں۔اسکی قیمت تقریباً بیس ہزار روپے تھی.یہ Cushion اب لاہور کسٹم آفس سے قانونی لوازمات کے بعد اْسی دن، دن کے گیارہ بجے Release ہونے والا تھا جس دن میں لاہور سے امرتسر جارہا تھا، لیکن میری ٹرین صبح آٹھ بجے روانہ ہونے والی تھی۔ عصر کے وقت امرتسر ریلوے سٹیشن پر کسٹم والوں نے مجھے ڈھونڈ کر یہ Cushion میرے حوالے کیا. یہ Cushion فاطمہ باجی نے ہی لاہور کسٹم آفس سے نکال کر لاہور ریلوے سٹیشن سے امرتسر ریلوے سٹیشن بھجوایا تھا۔میں نے فوراً باجی کو فون پر Recieved thanks کہا اور مختصر بات کر کے فون کاٹ دیا۔
ایک دن منصورہ میں بشیر احمد ڈار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ سوپور سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد ڈار صاحب میدان کارزار سے واپس لوٹے تھے لیکن بدقسمتی سے انکے دونوں گْردے خراب ہو گئے۔ منصورہ میں مختصر قیام کے بعد وہ یہاں سے واگہہ بارڈر کے ذریعے وطن واپس چلے گئے جہاں پولیس نے انہیں گرفتار کرکے صورہ میڈیکل ہسپتال میں داخل کرایا جہاں وہ تقریباً ایک برس ایڈمٹ رہے۔ اس دوران انہوں میرے بارے میں میرے ایک پڑوسی کو بتایا تھا جو اتفاقاً وہاں اپنی بیمار بہن کی تیمارداری کے سلسلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔کسی طرح میرے والد صاحب نے بھی ان سے ملاقات کی تھی تاکہ میری صورتحال کے بارے میں جانکاری حاصل کرسکیں۔ بشیر صاحب نے ایک دن اچانک ہسپتال میں ہی اپنی جان, جان آفرین کے حوالے کی۔ انہیں سوپور کے مزار شہداء میں دفن کیا گیا۔
ایک دن منصورہ ہسپتال میں میری عیادت کیلئے مرحوم سید عبدالحمید دیوانی صاحب کی بیٹی شبنم صاحبہ اور دیوانی صاحب کا بیٹا جہانزیب بھائی تشریف لائے۔ غالباً انکے ساتھ انکی امی بھی تھیں۔ یہ لوگ بانڈی پورہ کے رہنے والے ہیں۔ لیکن 1991 میں اپنے والدِ محترم دیوانی صاحب سے ملنے یہ لاہور آگئے۔ پھر لاہور میں ہی مستقل سکونت اختیار کی۔ اس سے پہلے دیوانی صاحب کا تعارف تو مجھے تھا لیکن بہت مختصر سا۔ دونوں بہن بھائیوں نے اس عظیم شخصیت کے بارے میں مجھے تفصیل کیساتھ بتایا۔ جہانزیب بھائی کے پاس اس زمانے کے اخباری تراشے بھی موجود تھے جب دیوانی صاحب نے 10 ستمبر 1976 میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ملکر بھارت کا طیارہ بوئنگ 737 اغوا کیا تھا تاکہ ساری دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کروائی جا سکے۔
سید عبدالحمید دیوانی صاحب کنن بابا گنڈ بانڈی پورہ کے رہنے والے تھے انکے آباء واجداد ایران کے شہر ختلان،دیوان سے ہجرت کر کے بانڈی پورہ آئے تھے۔ اسی نسبت سے ’’دیوانی‘‘ کہلائے۔
جموں یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران ہی ’’فریڈم فائٹرز فار مدر لینڈ‘‘ نامی ایک زیر زمین تنظیم بنائی۔ بھارتی افواج میں 1957 میں شامل ہوئے اور کیپٹن کے عہدے پر فائض ہوئے۔ لیکن ایک برس کے بعد ہی ڈیوٹی کے دوران کنٹرول لائن عبور کرکے پاکستان داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں دیوانی صاحب نے پاک افواج میں شمولیت اختیار کی اور پانچ برسوں تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر بارڈر کراس کر کے واپس مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔
وطن واپسی کے بعد دیوانی صاحب 1965 میں گرفتار ہوئے اور 1968 میں رہا ہوئے۔ اس دوران جیل میں ہی انکی ملاقات شہید مقبول بٹ اور انکے ساتھیوں سے ہوئی جنہوں نے الفتح تنظیم بناکر مقبوضہ وادی کشمیر میں 1965 میں عسکری کاروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ رہائی کے بعد دیوانی صاحب نے1969 میں جموں ہیرا نگر کے کیپٹین شیر سنگھ کو اغوا کر کے خود کیپٹین شیر سنگھ کا روپ دھار کر بھارتی فوج میں شمولیت اختیار کی اور خفیہ کام انجام دیتے رہے جس میں الفتح تنظیم کیلئے اسلحہ جمع کرنا بھی شامل تھا۔ راز فاش ہوا تو 1971 میں گرفتار ہوئے اور 1973 میں رہا ہوئے۔
1976میں جب پاکستان سے مقبول بٹ واپس کشمیر لوٹے تو گرفتار ہوئے۔انکی رہائی اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے دیوانی صاحب نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ملکر بھارت کے ایک جہاز کی ہائی جیکنگ کا منصوبہ تشکیل دیا۔
یہ ستمبر 1976 کی بات ہے کہ ایک دن دیوانی صاحب اپنے دیگر پانچ ساتھیوں سمیت ہائی جیکنگ کے سلسلے میں سرینگر سے جموں روانہ ہوئے۔ اصل منصوبہ پٹھان کوٹ سے جہاز اغواء کرنے کا تھا لیکن انہوں نے یہ منصوبہ ترک کیا اور دہلی روانہ ہو گئے۔ پہلے انہوں نے دہلی ائیرپورٹ سے آگرہ کا سفر کیا تاکہ وہ دہلی ائیرپورٹ پر سیکورٹی کی صورتحال جان سکیں اور وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے تھے کہ آیا وہ دیوانی صاحب کا تبدیل شدہ (Modified) پستول جہاز میں لیکر جاسکتے ہیں کہ نہیں۔ 10 ستمبر 1976 کی صبح وہ سب بوئنگ 737 جہاز میں سوار ہوئے جو جئے پور کے راستے دہلی سے ممبئی جانے والا تھا۔ جہاز میں کْل 73 لوگ سوار تھے. جہاز 8000 فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز تھا. انہیں جہاز میں سوار ہوئے ابھی پانچ منٹ ہی ہوچکے تھے اور جہاز دہلی سے 35 میل کے فاصلے پر اڑان بھر رہا تھا۔
اسی دوران دیوانی صاحب اپنی سیٹ سے کھڑے ہو گئے اور تیزی سے کاک پِٹ کی طرف دوڑے اور پائلٹ کی گردن پر پستول رکھ کر جہاز کے ہائی جیک ہونے کا اعلان کر دیا۔ پائلٹ کو جہاز لیبیا لے جانے کا حکم دیا گیا۔لیکن جہاز میں اتنا ایندھن نہیں تھا اسلئے جہاز کا رْخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا۔ کچھ ہی منٹوں کے بعد جہاز نے لاہور ائیر پورٹ پر لینڈ کیا۔ ہائی جیکرز جہاز کو لیبیا لے جانا چاہتے تھے تاکہ وہ 1971 کے ہائی جیکنگ کے برے تجربے سے بچ سکیں۔ لاہور ائیرہورٹ پر حکام نے ایندھن کی فراہمی سے انکار کیا اور مطلوبہ ہوائی نقشے بھی فراہم نہیں کئے۔ پاکستانی حکام سے مذاکرات میں یہ طے پایا کہ اگلی صبح کو طیارہ جانے دیا جائے گا۔ رات کو حکام نے ہائی جیکرز کو پانی کے ساتھ بیہوشی کی دوا پلائی اور جہاز سے سارے مسافروں کو اْتارا۔
رات کے ساڑھے پانچ بجے پاکستانی آرمی جہاز میں داخل ہوئی اور دیوانی صاحب اور انکے پانچ ساتھیوں کو گرفتار کر کے لاہور قلعے میں منتقل کیا۔ بھارتی مطالبے کے باوجود بھی ہائی جیکرز کو بھارت کے حوالے نہیں کیا گیا اور نہ ہی انکی شناخت کو ظاہر کیا گیا۔ مختلف جیلوں میں رہنے کے بعد انہیں 1978 کے اواخر میں رہا کیا گیا جب ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا۔دیوانی صاحب اور انکے ساتھیوں نے اسکے بعد پاکستان میں ہی قیام کیا۔ 1991 میں 15 برسوں کے بعد انکی اہلیہ اور انکے دو بچے شبنم اور جہانزیب لاہور میں ان سے ملنے آئے اور پھر لاہور میں ہی سکونت اختیار کی۔ 4 جون 1993 میں آپ سرائے عالمگیر کے مقام پر ایک جلسے سے واپس آ رہے تھے کہ 57 برس کی عمر میں آپکا انتقال ہو گیا۔ آپکا جسد خاکی پہلے امانتاً لاہور میں دفن کیا گیا، اسکے بعد 21 جون کو مظفر آباد میں باضابطہ تدفین کی گی۔۔۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(جاری ہے)
٭٭٭