وسیم حجازی
(گذشتہ سے پیوستہ)
عیدالاضحٰی کے اس دن جب ہم کھانا کھانے لگے تو مسرت کی کیفیت میرے تیماردار ساتھیوں کے چہروں سے مفقود تھی۔ یقیناً اس وقت وہ میری ہی طرح اپنے گھر والوں کو یاد کر رہے ہونگے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ بیس کیمپ میں مقیم اپنے سینکڑوں ساتھیوں سے دور رہ کر یہ عید ہسپتال کی چار دیواری کے اندر منا رہے تھے۔ میری وجہ سے انکی عید بھی پھیکی پڑ چکی تھی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آنے والے وقت میں میری وجہ سے بہت سارے لوگ آزمائش میں پڑنے والے تھے۔ کچھ لوگ مجھ سے جان چھڑانے والے تھے اور کچھ لوگ میرا ہاتھ تھامنے والے تھے ۔کچھ لوگ میری زندگی میں زحمت بن کر آنے والے تھے اور کچھ لوگ رحمت بن کر آنے والے تھے۔ میری جسمانی معذوری کچھ لوگوں کیلئے دردِ سر بننے والی تھی اور کچھ لوگوں کیلئے دردِ جگر بننے والی تھی۔ نت نئے امتحان میرے منتظر تھے۔ مجھے آزمائش کی سخت گھاٹیوں کو عبور کرنا تھا. مجھے اِبتلاء کی نئی وادیوں کو طے کرنا تھا۔
جس طرح غریب انسان امیر انسان کا محتاج ہے اور امیر انسان کیلئے آزمائش بن جاتا ہے، اسی طرح معذور شخص صحتمند شخص کا محتاج ہے اور صحتمند شخص کیلئے آزمائش بن جاتا ہے۔ اس کائنات میں ہر شے ایک دوسرے سے جْڑی ہے۔ ہر شے کسی نہ کسی شکل میں دوسری شے کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو سورج کا محتاج بنایا،لہلہاتی فصلوں کو بارش کا محتاج بنایا، سمندروں کو دریاؤں کا محتاج بنایا۔ اس کائنات میں ہر شے ایک دوسرے کی معاون و مددگار ہے، ہر کوئی دوسرے سے فائدہ اٹھاتا ہے جسکی وجہ سے اس کائنات کا نظام مربوط و مستحکم ہے۔ ہر شے اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے ۔کوئی بھی شے فضول پیدا نہیں کی گئی، کوئی کسی سے کمتر نہیں، یہی حال انسانوں کا ہے۔ انسان کہ جس کیلئے یہ ساری کائنات وجود میں لائی گئی، اِس باہمی ربط و ضبط کے اصول سے ہرگز بھی مبراء نہیں۔ انسان ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ وہ اپنی ہر مخلوق کی تخلیق کسی منصوبے کے تحت کرتا ہے۔ انسان اسکی تخلیق کا شاہکار ہے۔ لہٰذا جس انسان کو بھی اس نے بنایا، بے مقصد اور فضول نہیں بنایا۔ اس نے اگر کسی انسان میںنقص بھی رکھا تو یقیناً اس میں بھی اسکی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوگی۔ اپنے کس بندے سے وہ کیا کام لینا چاہتا ہے، اس کا علم صرف اس اللہ کو ہے۔ دنیا کی اس عارضی قیام گاہ میں ہم اسکے منصوبے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے وجود میں لائے گئے ہیں، جس طرح ایک مشین میں چھوٹے بڑے پُرزے مل کر کام کرکے اس مشین کے مقصد کو پورا کرتے ہیں، اسی طرح یہ کائنات ایک مشین کی طرح ہے اور ہم سب اس میں کام کرنے والے پُرزوں کی طرح ہیں۔ لہٰذا یہاں کوئی بھی شے بے مقصد نہیں،کوئی بھی مخلوق غیر اہم نہیں۔
تخلیقِ ربانی میں کمتری اور برتری کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ انسان یقیناً اشرف المخلوقات ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب چاہے انسان کو دوسری مخلوق کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ وائرس جیسی نظر نہ آنے والی حقیر مخلوق دنیا کا سارا نظام تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مچھر جیسی کمزور مخلوق کے ذریعے اپنے وقت کے طاقتور ترین شخص نمرود کا جینا حرام کرا سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اوجِ ثُریا سے تحت الثریٰ تک گر سکتا ہے۔ امیر شخص غریبی کا شکار ہو سکتا ہے۔ صحتمند انسان آناً فاناً بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ چلتا پھرتا انسان کسی بھی لمحے حادثے کا شکار ہو کر معذوری کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہاں کب کس کے ساتھ کیا ہو، رب العالمین کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
ایک دن ہمارے ایک مجاہد ساتھی اپنے والد صاحب کے ساتھ میری عیادت کو آئے۔ انکے والد صاحب ویزاء پر ان سے ملنے سرینگر سے آئے تھے۔کوٹ پینٹ میں ملبوس سرینگر سے آئے ہوئے اس مہمان کی شخصیت کافی پُرکشش تھی۔ انکی باتوں میں کافی تاثیر تھی، انکے دینی فہم نے مجھے کافی متاثر کیا، انہوں نے مجھے کافی دلاسہ دیا، حوصلہ دیا اور حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کا وہ واقعہ سُنایا جس کا تذکرہ قرآن نے سورہ الکہف میں کیا ہے۔ اس واقعہ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح مشیئتِ الٰہی کے پیچھے پوشیدہ حکمتیں کام کرتی ہیں۔ اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کیسے اور کن مصلحتوں کے تحت ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کی ظاہری شکل و صورت اصل حقیقت سے مختلف ہوتی ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے سفر کے دوران تین واقعات پیش آئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت سے اس کائنات کا نظام کس طرح چلا رہا ہے، نیز دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے پیچھے کیا حکمتیں کارفرما ہیں۔ پہلا واقعہ یہ تھا کہ وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے لیکن کشتی والوں نے ان سے کرایہ نہیں لیا لیکن پھر بھی خضر علیہ السلام نے اس میں شگاف ڈال کے اسے عیب دار کردیا۔ دوسرے واقعہ میں خضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو بلاوجہ قتل کیا۔ تیسرے واقعہ میں وہ ایک ایسی بستی سے گذرے جنہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کیا لیکن اس کے باوجود خضر علیہ السلام نے بستی کی ایک ایسی دیوار کو سیدھا کیا جو گرنے ہی والی تھی۔
بعد میں خضر علیہ السلام نے موسٰی علیہ السلام کو بتایا کہ یہ سب امور میں نے اللہ کی مرضی سے انجام دئے۔ پہلے واقعہ کے بارے میں خضر علیہ السلام نے موسٰی علیہ السلام کو بتایا کہ وہ کشتی چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ میں اسے عیب دار کردوں کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ یوں خضر علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ان غریبوں کو ایک چھوٹی سی تکلیف میں ڈال کر ایک بہت بڑی مصیبت سے بچایا کیونکہ ظالم بادشاہ کسی عیب دار کشتی کو قبضے میں نہیں لیتا تھا۔ یوں ان غریبوں کے روزگار کا واحد ذریعہ ظالم بادشاہ کی دسترس سے محفوظ رہا۔ لہٰذا کبھی کبھار کوئی چھوٹی مصیبت اسلئے پیش آتی ہے کہ کوئی بڑی مصیبت ٹل جائے۔
لڑکے کے قتل کے بارے میں خضر علیہ السلام نے موسٰی علیہ السلام کو بتایا کہ اْس لڑکے کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں تنگ کرے گا۔ اس لئے ہم نے چاہا کہ انکا رب اسکے بدلے انکو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان اولاد سے بھی بڑی نعمت ہے۔ دوسری بات یہ کہ کبھی کبھار اولاد ہی مومن کے ایمان کی دشمن بن جاتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ التغابن آیت نمبر 15 میں فرمایا کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔ ایک حدیث میں ابو مالک اشعری ؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ تیرا اصل دشمن تیرا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صلب سے پیدا ہوا ہو۔
سورہ التغابن آیت نمبر 14 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو و درگذر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ اسکی تفسیر میں سیدمودودیؒ فرماتے ہیں کہ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اسے ایسی ملتی ہے جو اسکی دیانت و امانت اور اسکی راست بازی کو اپنے حق میں بدقسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ انکی خاطر جہنم مول لے اور ان کیلئے حرام و حلال کی تمیز چھوڑ کر ہر طریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے اور اسکے برعکس بسااوقات ایک مومن عورت کو ایسے شوہر اور اولاد سے واسط پڑتا ہے جو اپنی گمراہی سے اسکی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اسکے بال بچے اسکی ساری نیکیاں کھا گئے۔
تیسرے واقعہ کے بارے میں خضر علیہ السلام نے موسٰی علیہ السلام کو بتایا کہ وہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی اور اس دیوار کے نیچے ان دونوں کیلئے خزانہ مدفون تھا اور انکا باپ ایک صالح انسان تھا۔ اس لئے تمہارے رب نے چاہا کہ دونوں بچے بالغ ہو کر اپنا خزانہ نکال لیں۔ اس واقعہ سے یہ بات سمجھ آتی ہے اللہ تعالیٰ کمزور، بے بس اور لاچار انسان کے ساتھ جب بھلائی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسکی مدد کیلئے ایسے اسباب فراہم کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ اگر وہ دیوار گر جاتی تو انکا خزانہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجاتا اور دوسرے لوگ اسے لے جاتے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انکی جوانی تک انکے چھپے خزانے کو محفوظ بنانے کیلئے مستقل بندوبست کیا۔ اسطرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کے یتیم بچوں کو غیبی مدد فراہم کی۔
زندگی میں انسان کو جن سانحات اور جن حادثات سے سابقہ پیش آتا ہے، اس میں اس انسان کیلئے خیر ہے یا شر، اسکے بارے میں صرف اللہ کی ذات ہی واقف ہے۔کبھی کبھار انسان جسے اپنے لئے خیر سمجھتا ہے وہ اس کیلئے شر ثابت ہوتا ہے اور کبھی کبھار انسان جسے اپنے لئے شر سمجھتا ہے وہ دراصل اس کیلئے سراسر خیر ہوتا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ آیت نمبر 16 میں فرمایا کہ ’’تمہیں جنگ کا حْکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے ‘‘لہٰذا انسان کو اللہ تعالی کی مصلحتوں اور حکمتوں پر سوال نہیں اْٹھانا چاہیے بلکہ انسان کو اس علیم و خبیر ذات سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔
ایک دن منصورہ لائبریری میں میری نظر ایک رسالے پر پڑھی جس میں پیغمبروں کا تذکرہ تھا۔ ورق گردانی کرتے کرتے میری نظر ان صفحات پر پڑی جن میں حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ تھا۔میں اس عظیم پیغمبر کے بارے میں پڑھ رہا تھا کہ آزمائش و امتحان میں جس کے صبر و شکر کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا کہ ’’صبرِ ایوب‘‘ دنیائے انسانیت کیلئے قیامت تک ایک مثال بن گئی۔ میں صبر و شکر کے اس پیکر کے بارے میں پڑھتا گیا اور میری ہمت بڑھتی گئی، میں اس صابر و شاکر پیغمبر کی جسمانی تکلیف کو محسوس کر رہا تھا کیونکہ میں خود کئی مہینوں سے اذیت ناک جسمانی تکلیف سے گزر رہا تھا، میں اس عظیم پیغمبر کی سُنت پر عمل پیرا تھا جسکی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورہ ’ص‘ میں فرمایا کہ ’’ہم نے اسے صابر پایا، بہترین بندہ، رب کی طرف رجوع کرنے والا‘‘۔
باقی آئندہ
٭٭٭