راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی

وسیم حجازی

(گذشتہ سے پیوستہ)

میری جسمانی تکلیف کا دورانیہ ابھی تک تو کچھ مہینوں پر ہی محیط تھا لیکن آثار تو یہی نظر آرہے تھے کہ اسکا دورانیہ زندگی کی آخری سانسوں تک طویل ہو سکتا ہے لیکن رب کی رحمت سے نااُمید ہونا بھی مجھے منظور نہ تھا اسلئے میں نے حضرت ایوبؑ کی دعا کو اپنی معمول کی دعائوں کا حصہ بنایا اور ساتھ ہی کٹھن امتحانوں کیلئے کمر کس لی۔
اس سلسلے میں کچھ اور باتوں کو احادیث کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دنیوی مصیبتوں پر صبر کا بدلہ جنت ہے۔ حضرت عطا بن ابی رباح ؓسے روایت ہے،فرماتے ہیں: ’’ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: کیا تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ فرمایا یہ سیاہ فام عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے جسکی وجہ سے میں بے پردہ ہو جاتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دْعا کیجئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر صبر کر سکو تو تمہارے لئے جنت ہے اور اگر چاہو تو میں تمہاری صحت کیلئے اللہ سے دعا کروں۔ اس نے کہا کہ میں صبر کروں گی لیکن میرے لئے دعا کیجئے کہ میں بے پردہ نہ ہوا کروں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے یہ دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جسمانی بیماری انسان کو جنت میں لے جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس بیماری کے نتیجے میں ہونے والی تکلیف اور پریشانی پر صبر کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ کبھی کوئی بیماری ایسی ہوتی ہے جسکی شفایابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس لیے انسان کو ایسی صورتحال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ رحیم و کریم ذات اس دائمی تکلیف کا بدلہ جنت کی صورت میں دیگا۔ جنت میں جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ لوگوں نے جنت پانے کیلئے بڑی سے بڑی تکلیفیں جھیلیں ہیں۔ کچھ لوگوں کی زندہ کھالیں کھینچیں گئیں، کچھ آروں سے چیرے گئے۔ کچھ زندہ آگ میں جلائے گئے۔ غرض اللہ کے نیک بندوں پر یہ زمین تنگ کی گئی مگر انہوں نے ہر تکلیف برداشت کی تاکہ آخرت میں جنت کے حقدار بن سکیں۔
بندہِ مومن کے حق میں امراض و تکالیف اور مصائب و آلام خیرو بھلائی کا باعث ہے کیونکہ یہ اس کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں اور روزِ قیامت وہ اس حال میں اْٹھے گا کہ وہ گناہوں سے بالکل صاف ستھرا ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صالحین پر سختی کی جاتی ہے اور مسلمان کو کسی کانٹے کے ذریعے یا اس سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اسکے ذریعے اسکی ایک خطا مٹا دی جاتی ہے اور ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے‘‘۔ ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کو جو بھی تھکن، رنج وغم یا بیماری پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اسے کوئی فکر بھی لاحق ہوتی ہے تو اسکے ذریعے اللہ تعالیٰ اسکی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے۔
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالی کی طرف سے کسی بندے کیلئے کوئی درجہ مقرر کیا جاتا ہے جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پا سکتا تو اللہ تعالیٰ اسکے جسم یا اسکے مال یا اسکی اولاد کو مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اسے صبر کی توفیق بھی عطا کرتا ہے حتیٰ کہ اسے اس درجے پر پہنچا دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کیلئے مقرر ہوتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جب اہلِ ابتلا کو ثواب دیا جا رہا ہوگا تو اہلِ عافیت یہ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں انکی کھالوں کو قینچیوں سے کاٹا جاتا‘‘ اسلئے بیماریوں اور تکلیفوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ وہ گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔
ان احادیث مبارکہ کے مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک بندہِ مومن کیلئے جسمانی تکالیف اسکے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے حتیٰ کہ اگر اسکے پاؤں میں ایک معمولی سا کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بھی اسکے کسی گناہ کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نیک بندے کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے تو اسے رنج و غم اور تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ اگر کسی انسان کو سال بھر میں کوئی ذہنی یا جسمانی تکلیف نہ پہنچے تو وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس سے شاید ناراض ہے اسی لئے ایک منافق کو یا تو گناہوں کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ گناہوں سے لت پت ہو کر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے یا پھر اس دنیا میں بھی اسکو گناہوں کی سزا دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی اسکو عذاب دیا جائے گا۔
میں اب منصورہ کی ساری گلیوں سے واقف ہوچکا تھا۔ کبھی کبھار میں اکیلئے ہی ان گلیوں میں وہیل چئیر پر گھومتا رہتا۔ کبھی لائبریری تو کبھی پارک میں چلا جاتا۔ ٹہلتے ٹہلتے کبھی مبشر بھائی کے گھر بھی چلا جاتا جو منصورہ ہسپتال سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ وہاں انکے چھوٹے چھوٹے بچے علی، حمزہ، عائشہ کے علاوہ انکے چھوٹے بھانجے بھی ہوتے تھے۔ ان سب بچوں سے ہنسی مذاق کر کے میں اپنے دل کو بہلایا کرتا تھا اور اپنا غم وقتی طور پر بھول جاتا تھا۔ اس دوران ان بچوں کے دادا نانا یعنی صفدر صاحب بیچ بیچ میں کوئی لطیفہ سنا کر ہم سب کو خوب ہنسایا کرتے تھے۔ صفدر صاحب کے بیٹے مبشر بھائی، منور بھائی اور مدثر بھائی بھی جب کبھی اس موقعہ پر وہاں ہوتے تو پھر مزہ دوبالا ہو جاتا۔ اسطرح سے منصورہ میں میرے لیل و نہار گزرتے گئے۔
کبھی کبھار منصورہ پارک میں ایک شخص کیساتھ ملاقات ہوتی تھی۔ سرینگر کا رہنے والا یہ شخص غالباً 1965 یا 1971 کی جنگ کے دوران ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ اسکی عمر 60 اور 70 کے درمیان تھی۔ شاید وطن کی یاد اور وطن کی جدائی نے اسکے کلیجے کو کاٹ کے رکھ دیا تھا اسلئے وہ جب بھی آتا تو کبھی بھارت کو برا بھلا کہتا، کبھی پاکستان کو نشانہ بناتا اور کبھی مقبوضہ کشمیر کے سیاستدانوں کو آڑھے ہاتھوں لیتا۔ وہ اندر کا سارا غصہ باہر نکال کر ہی دم لیتا۔ میں چپ چاپ اسکی باتیں سنتا رہتا اور اسکو دل کی بھڑاس نکالنے کا پورا موقعہ دیتا۔ ہماری ہی طرح اسکا جسم تو پاکستان میں تھا لیکن اسکا دل مقبوضہ وادی کشمیر کی سرسبز وادیوں میں اٹکا ہوا تھا۔ بقولِ اقبال:
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
یہاں پر وطن کی محبت اور وطن سے ہجرت کے موضوع پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ جسطرح انسان کو اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور اولاد سے فطری طور پر محبت ہوتی ہے، اسی طرح انسان کو اپنے مسکن، اپنے وطن اور اپنے آس پاس کے ماحول سے فطری لگاؤ ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے، بچپن اور لڑکپن گزارتا ہے اور اپنی زندگی کے نشیب و فراز دیکھتے ہوئے زندگی کے مراحل طے کرتا ہے۔ جو مٹی اسے رزق فراہم کرتی ہے، قدرتی طور پر اس مٹی کی محبت اس کی رگوں میں سرایت کر جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے موقعہ پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’اے مکہ تو کتنا پاکیزہ شہر ہے، تو مجھے کس قدر محبوب ہے، اگر میری قوم یہاں سے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا‘‘۔
صحابہ کرامؓ جب مدینہ ہجرت کرکے آئے تو مدینہ کی فضاء انہیں راس نہ آئی۔ کچھ بخار کی وجہ سے بیمار اور لاغر ہو گئے۔ انہی دنوں شدید بخار کی حالت میں جب حضرت بلال حبشی کو مکہ کی یاد ستانے لگتی تو یہ شعر گنگنانے لگتے: ’’کاش مجھے معلوم ہوتا کہ آیا میں کوئی رات مکہ میں بسر کرسکوں گا جبکہ میرے ارد گرد (خوشبودار گھاس) ازخر اور جلیل ہو۔ کیا میں کسی دن مقامِ مجنہ میں پہنچ کر اسکا پانی پیوں گا اور کیا شامہ اور طفیل پہاڑ میرے سامنے ہونگے؟ اپنے صحابہ کی یہ بیقراری دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء مانگی:’’ اے اللہ مدینہ کو ہمارے لئے ایسا ہی محبوب بنا دے جیسا ہمیں مکہ محبوب ہے یا اس سے بڑھ کر۔ اے اللہ ہمارے صاع اور مد (ناپ تول کے پیمانے) میں برکت دے اور مدینہ کی آب و ہوا کو ہمارے لیے صحت بخش بنا اور اسکے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کردے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ منورہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر کسی دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر سے واپس لوٹے تو راستے میں احد پہاڑ کو دیکھ کر فرمایا: ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ پھر اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:’’ اے اللہ میں اسکی دونوں پہاڑیوں والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما‘‘۔

اسلام ہمیں جذبہ حب الوطنی سے نہیں روکتا کیونکہ وطن کی محبت انسانی خمیر میں رکھ دی گئی ہے اور یہ ایک فطری جذبہ ہے لیکن اسلام ہمیں وطن پرستی کی اجازت نہیں دیتا۔ وطن پرستی کا مطلب ہے کہ انسان شریعت کو چھوڑ کر حق و ناحق کا معیار محض اپنے وطن کو بنا لے جسکی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں۔ وطن پرستی شرک ہے۔ ایک وطن پرست وطن کے ہر جائز و ناجائز مفادات کیلئے اسکی خاک سے چپکا رہتا ہے جبکہ اسلام اس تصور کو راسخ کرتا ہے کہ انسان خاکی ضرور ہے مگر اسکی نسبت خاک سے نہیں بلکہ اللہ پاک سے ہے۔ بندہِ مومن کے نزدیک یہ ساری زمین اللہ کی ہے اور سارا جہاں اسکا وطن ہے۔ بقولِ علامہ اقبال: ’’مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔ یا’’ پھر ‘‘ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست یعنی ہر ملک میرا ملک ہے کیونکہ وہ خدا کا ملک ہے‘‘۔
وطن پرستی پر کاری ضرب لگاتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشید ِ تہذیبِ نوی ہے
غارت گر کاشانہِ دینِ نبوی ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تومصطفوی ہے
نظارہ دیرینہِ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

اسلام رنگ و نسل، قومیت اور وطنیت کے بتوں کو توڑنے کا حکم دے کر انسان کو امت کے وسیع تر تصور سے آشنا کراتا ہے۔ امت جغرافیائی حدودوقیود سے پرے ایک تصور ہے جو ایک خدا کے ماننے والوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ رنگ و نسل، زبان یا وطن کی بنیاد پر ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کے رہ جاتا ہے اور تنازعات کی بنیاد پر نفرتیں جنم لیتی ہیں اسکے بالمقابل امت یا ملتِ اسلامیہ کا تصور اسلام کی بنیاد پر ایک وسیع انسانی برادری قائم کرتا ہے۔ اسلام دیگر مذاہب کے برعکس ایک عالمگیر ملت کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ ہر کوئی خدائی قوانین کے تابع رہ کر زندگی گزار سکے اور پوری دنیا اس نظام سے مستفید ہو سکے جسکی بنیاد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ساڑھے پندرہ سو برس پہلے ڈالی تھی جسکی برکات سے صدیوں تک انسانیت فیضاب ہوتی رہی۔
اسلام مغرب کے تصورِ وطنیت کے برعکس تصورِ ہجرت کا قائل ہے۔ وطن پرست شخص کنویں کے مینڈک کی طرح ہوتا ہے جو کنویں سے باہر نکلنا نہیں چاہتا اور کنویں کی دیواروں تک ہی زندگی کو محدود رکھنا چاہتا ہے جبکہ بندہِ مومن سمندر کی مچھلی کی طرح ہوتا ہے جو اس بحرِ بیکراں میں جہاں چاہے رہ سکتا ہے، جہاں چاہے جا سکتا ہے۔ جب ایک خطہِ زمین پر اسلام کی پیروی کرنا ایک مسلمان کیلئے مشکل ہو جائے تو اس خطِ زمین کو خیر آباد کہہ کر دوسری جگہ نقلِ مکانی کرنا ایک مسلمان پر لازم آتا ہے۔ ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنا دین و ایمان بچانے کیلئے اس سرزمین سے ہجرت کر جائے جہاں اللہ کی بندگی کرنا انسان کیلئے مشکل یا نا ممکن ہو جائے۔
(جاری ہے)
٭٭٭