جور ُکے تو کوہ گرِاں تھے ہم۔۔۔۔
(گذشتہ سے پیوستہ)
وسیم حجازی
منصورہ ہسپتال میں قیام کے دوران میں نے ان جذبوں کو سرد نہ ہونے دیا جن جذبوں کو میں نے گذشتہ اڑھائی برسوں کے دوران اپنے سینے میں پروان چڑھایا تھا۔میں نے اپنے سینے میں جذبوں کے جو بیج بوئے تھے وہ پچھلے ان ایام میں تناور درختوں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ہسپتال میں انتہائی تکلیف دہ حالت میں بھی میں نے جذبوں کے ان تناور درختوں کو سرسبز و شاداب رکھنے کی پوری کوشش کی۔ ترانوں نے ہمیشہ ہر دور میں اسلام کے سپاہیوں کے جوش و جذبے اور ولولوں کو مہمیز بخشی ہے۔میں نے اپنے وطن سے ہجرت کے آغاز سے ہی اپنے آپ کو ترانے سننے کا عادی بنایا تھااور اب ہسپتال میں بھی اس عادت کو نہیں بھولاتھا۔درجنوں ترانے مجھے زبانی یاد تھے جنہیں میں اکثر و بیشتر بستر پر لیٹے لیٹے گنگنایا کرتا تھا۔
کبھی کبھار جب میں بیڈ پر لیٹا ہوتا اور ترانے سننے کا موڈ بن جاتا تو ٹیپ ریکارڈر آن کر لیتا۔ترانوں کی آواز جب میری سماعت سے ٹکرانے لگتی تو میں اپنی آنکھیں بند کر لیتا اور ماضی کی یادوں میں کھو جاتا اور اور990 سے 1993 تک کی وہ ریلیاں،وہ جلسے جلوس اور شہداء کے جنازوں کے سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے چھا جاتے جن میں فلک شگاف نعروں کے ساتھ ساتھ لہو کو گرما دینے والے ترانے بھی فضاؤں میں گونجنے لگتے،جیسے مرحوم سیلم ناز ؒکا یہ ترانہ:
ہم سبز پرچم وادئ کشمیر میں لہرائیں گے
لبیک ہم دہلی تلک لبیک کہتے جائیں گے
ہم برف کے اونچے پہاڑوں سے اتر کر آئے ہیں
ہاں ہم یہاں تک خوں کے دریا سے گذر کر آئے ہیں
اور ماؤں کے آنچل کو ہم اشکوں سے بھر کر آئے ہیں
لبیک ،لبیک ،لبیک لبیک،لبیک،لبیک
کبھی جماعت اسلامی کے رکن شہید عبدالرشید فرحت صاحب ؒ پلہالن کا لکھا ہوا وہ ترانہ یاد آجاتا جو کبھی کبھار ہماری بستی کے ہائی سکول میں صبح مارننگ اسمبلی کے وقت پڑھا جاتا اور جسے میں نے کاغذ پر لکھ کر پھر زبانی یاد بھی کیا تھا:
’’میرے شہید تم پر،تم پر میرا سلام
تاریک آندھیوں میں اپنے شباب سے
مشعل جلا رکھے ہیں جنرل شعیب نے
ناظم سلیم کا ہے کتنا بلند مقام
میرے شہید تم پر ،تم پر میرا سلام‘‘
پھر میں تصور کی آنکھوں سے دیکھنے لگتا کہ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کشمیر کی حسین وادیوں سے گزرتا ہوا،گھنے جنگلوں کا سینہ چیرتا ہوا اور فلک بوس برفیلے کوہساروں کو روندتا ہوا خونی لکیر عبور کر رہا ہوں جبکہ مرحوم سلیم ناز ؒکا یہ ترانہ ہم گنگنا رہے ہیں:
یہ دیس جگمگائے گا نورِ لا الہ سے
یہ شہر جگمگائے گا نورِ لا الہ سے
کفر تلملائے گا نورِ لا الہ سے
اْٹھے ہیں،زورو جبر کی ہر اک روش مٹائیں گے
چلے ہیں اہلِ عشق اب قیامتیں اْٹھائیں گے
سرِ غرور بھی ستمگروں کا ہم جھکائیں گے
سکون و چین آئے گا نورِ لا الہ سے


ماضی کے دریچوں سے جھانکتا تو بیس کیمپ کی مساجد سے گونجتے ترانے یاد آ جاتے جو فجر کی نماز کے بعد فضاؤں میں ایک نیا حوصلہ اور عزم پیدا کرتے:
اے وادئ کشمیر،اے وادئ کشمیر
اب بن کے رہے گی تیری بگڑی ہوئی تقدیر
اللہ کا فرمان ہے ایمان ہمارا
ہم سے تو کہتا ہے یہی قرآن ہمارا
جنت کبھی ہو سکتی نہیں کفر کی جا گیر
اے وادئ کشمیر،اے وادئ کشمیر
کبھی معسکر یاد آتا جہاں ترانے ہمارے جذبوں کی چنگاریوں کو شعلوں میں بدل دیتے:
اے کاشمیر تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
قرآن لے کے زمانے پہ چھائیں گے اک دن
کبھی کیمونکیشن کورس کا وہ دن یاد آ جاتا جب میں نے وہاں مرحوم سلیم ناز ؒکا یہ ترانہ ساتھیوں کے سامنے پیش کیا تھا:
اندھیری شب ہے روشن چاند تارو جاگتے رہنا
سحر ہونے تلک اے پہرے دارو جاگتے رہنا
وہ دن بھی یاد آتے جب میںضلع کمانڈربارہمولہ شہیدشاکر صاحب کے ہمراہ دورہِ ڈیرہ غازی پر تھا جہاں ہم مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے گئے تھے۔اس دوران ہم نے عوامی پروگرامات کے علاوہ سکول اور کالجز میں تقاریر کی تھیں اور کسی پروگرام میں ایک ترانہ میں گایا کرتا:
مظلوم میری وادی جب لوٹ کے آؤں گا میں
تیری جدائی سہنا اے ارضِ پاک مشکل
ہندو کی بھی خدائی مانے گا کیسے یہ دل
کبھی خوست افغانستان کے البدر معسکر کے وہ مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے جب ہر روز نمازِ مغرب سے نمازِ عشاء تک معسکر کی مسجد پاک میں تقریری مقابلےشعر و شاعری کے مقابلے اور نعت خوانی کے مقابلوں کے علاوہ ترانوں کے مقابلے بھی ہوا کرتے:
بہارِ تازہ کب آئے گی تو خزاں کا موسم گزر چکا ہے
میرا لہو اب شفق کی صورت ہر اک افق پر چمک رہا ہے
میں کوہساروں کی سرزمیں کو لہو سے سیراب کر چکا ہوں
میں کامیابی سے آزمائش کی بھٹیوں سے گزر چکا ہوں
شہید ہو کے نکھر چکا ہوں بشکلِ خوشبو بکھر چکا ہوں
اور اب ان ترانوں کی آوازیں جب ہسپتال میں میرے کمرے کی دیواروں سے ٹکرانے لگتی تو میرا دل تڑپ کے رہ جاتا۔سلیم ناز مرحوم کے ترانے اس بار بھی میرے لہو کو گرماتے اور میرے جذبوں میں آگ لگاتے لیکن میں تڑپنے کے سوا کچھ بھی نہ کر پاتا ’’ابھی تو دنیا کو یاد ہوگا کہ امتحاں گاہ میں آئے تھے ہم ۔۔۔اٹھا کے عزم و یقیں کے پرچم لہو میں اپنے نہائے تھے ہم مہیب طوفاں کی حشر سامانیوں میں بھی ہم ڈٹے ہوئے تھے ۔۔۔ہمارا سینہ چِھدا ہوا تھا،ہمارے بازو کٹے ہوئے تھے

شاعرِ حریت سلیم ناز میرے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا لیکن میں بےبسی کی تصویر بن کےانکے ترانے سنتا رہتا تھا۔‘‘کبھی تو آئے گا ایسا دن بھی جب اپنی جنت میں جاؤں گا میں ۔۔۔سِسکتی آنکھوں میں مثلِ کاجل وہاں کی مٹی لگاؤں گا میں۔اے میری وادی ترس رہا ہوں میں مدتوں سے تیری مہک کو ۔۔۔میں دربدر پھر رہا ہوں کب سے دبا کے سینے میں ہر کسک کو۔۔مگر تیری بینی بینی خوشبو کبھی تو من میں سماؤں گا میں ۔۔۔تمام راہوں میں اپنی پلکیں اور اپنے آنسؤ بچھاؤں گا میں۔۔میں اپنے ہی گھر سے بے دخل ہوں کہ جرم میرا ہے بے گناہی میں ۔۔۔دور رہ کر بھی تجھ سے لیکن تیرا ہی غازی تیرا سپاہی ۔۔جلاوطن ہوں جو میں تو کیا ہے تیرا ہی نعرہ لگاؤں گا میں ۔۔جہاں جہاں میں رہوں گا زندہ تیرا ہی پرچم اٹھاؤں گا میں۔’’کبھی مفکرِ اسلام سید ابولاعلی مودودیؒ پر لکھے ہوئے سلیم ناز کے ترانے سنتا تو آنکھوں سے آنسؤ رواں ہو جاتے۔وہ سید مودودی کہ جسکی انقلابی تحریروں نے لاکھوں مسلمانوں کی سوچوں میں اک ایسا انقلاب برپا کیا تھا جسکے اثرات پاکستان سے لیکر بنگلہ دیش تک اور وہاں سے لیکر افغانستان تک اور مصر سے لیکر فلسطین تک محسوس کئے جا سکتے ہیں۔سلیم ناز بذاتِ خود سید مودودی کی انقلابی فکر سے کافی متاثر تھے۔انہوں نے سید مودودی پر جو ترانے لکھے تھے انہیں جب میں سید مودودی کی ہی قائم کردہ بستی منصورہ میںسنتا تو دل کی کیفیت ہی بدل جاتی ‘‘اک ہمالہ جسکے قد سے پوری دنیا آشنا۔۔۔اک سمندر اپنی گہرائی سے خود نا آشنا۔۔اِسکا ماتم کیا کہ اب ہم میں ابوالاعلیٰ نہیں ۔۔روشنی رہتی ہے لیکن روشنی والا نہیں۔۔چاند غائب ہی سہی موجوداسکا نور ہے ۔۔روشنی مرکز بدلنے کیلئے مجبور ہے۔۔کیا مورخ بھول سکتا ہے کبھی اِس کام کو ۔۔مرنے والا دے گیا تابندگی اسلام کو۔‘‘
کیاتم گم گشتہ و گم کردہ اپنی جاگیر خریدو گے
منظر میں کشادہ سینے ہیں اور پس منظر میں گولی ہے
ہر ایک تصویر میں مظلوموں کے گرم لہو کی ہولی ہے
سڑکوں پہ جو ہیں جو فریاد کناں ان ماؤں کی ڈنڈا ڈولی ہے
کھچتی ہے جو میرے تصور میں غم کی تصویر خریدو گے
میں تعبیروں کا تاجر ہوںکیا تم تعبیر خریدو گے
ڈل جھیل کے خون ملے پانی سے بھر کر کچھ جگ لایا ہوں
پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ہیرے موتی اور نگ لایا ہوں
گلیوں میں سسکتی لاشوں نے جو دی ہے و ہ شہ رگ لایا ہوں
اُن سب نے بس اتنا پوچھا ہے تم کب کشمیر خریدو گے؟
میں تعبیروں کا تاجر ہوںکیا تم تعبیر خریدو گے
(جاری ہے)