راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی

جور ُکے تو کوہ گرِاں تھے ہم۔۔۔۔

(گذشتہ سے پیوستہ)

وسیم حجازی

میں جس شاعرِ حریت مرحوم سلیم ناز بریلوی کا شیدائی تھا اور جسکے ترانےسننے کا عادی ہو چکا تھا وہ نوے کی دہائی کے ایک ایسے انقلابی شاعر اور صداکار تھے جنہوں نے اپنے ترانوں کے ذریعے تحریکِ آزادیِ کشمیر میں ایک نئی روح پھونکی ۔سلیم ناز کراچی کے رہنے والے تھے لیکن کشمیر کی تحریک کی محبت انہیں کراچی سے لاہور اور پھر لاہور سے راولپنڈی کھینچ لائی ۔فکری طور پر وہ سید ابوالاعلی مودودی ؒسے متاثر تھے اسی لئے جماعتِ اسلامی پاکستان سے وابسطہ تھے۔انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز اس وقت کیا جب افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں روسی افواج شکست کھا رہی تھی ۔پھر انہوں نے اپنی شاعری کا رخ اس وقت کشمیر کی طرف موڑ دیا جب کشمیر کے افق سے بھی جہاد کا سورج طلوع ہوا۔
ایک طرف کشمیر کے کوہساروں سے مجاہدین نمودار ہوئے تو دوسری طرف سلیم ناز کے ترانوں کا البم ’’اب کشمیر کی باری ہے‘‘کے نام سے منظرِ عام پر آیا جسکی کیسٹس بیس کیمپ سے مجاہدین ساتھ لے کر گئے اور کشمیر کے طول و عرض میں سلیم ناز کے ترانےگونجنے لگے۔یوں سلیم ناز نے تنِ تنہا کشمیر جہاد کے صوتی محاذ کی ابتدا کرکے اسے سنبھالا۔انہوں نے بڑی جانفشانی سے اس محاذ کو سالہا سال تک سنبھالا۔وہ ترانے خود ہی لکھتے،خود ہی کمپوز کرتے اور خود ہی گاتے تھے۔پھر انکی آڈیو کیسٹس بنا کر انہیں ریلیز کرتے تھے۔انکا ہر ترانہ مجاہدین میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کرتا۔انکے کلام اور انکی آواز میں وہ جادو اور وہ اثرتھا کہ سننے والامسحور ہو جاتا اور انکا کلام سیدھے دل میں اتر جاتا۔
انہوں نے مجاہدینِ اسلام کے جذبات کی ترجمانی کر کے انکے جذبوں کو سمندر جیسی گہرائی اور انکے حوصلوں کو آسمان جتنی رفعت بخشی۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو اجاگر کیا بلکہ ظلم و ستم کے خلاف سینہ سپر ہونے کی بھی ترغیب دی۔اس عظیم شاعر کے انقلابی ترانوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو گرمائے رکھا۔اسی لئے ایک دفعہ گورنر جگموہن نے سلیم ناز کے ترانوں کے متعلق کہا تھا کہ ان ترانوں کو مردے بھی قبروں میںسن لیں تو اٹھ کر آزادی کے نعرے لگانا شروع کردیں۔انکی ساری زندگی جہادِ کشمیر کیلئے خوبصورت ترانے تخلیق کرنے میں گزری۔انہوں نے قلمی جہاد اور لسانی جہاد کے حوالے سےجو فریضہ انجام دیا وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

اتنا عظیم کام کرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنی زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزاری۔اس سفید پوش انقلابی شاعر کی ذاتی زندگی میں صرف ڈیڑھ مرلے کے پلاٹ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔اس پلاٹ پر وہ اپنا گھر بھی کبھی تعمیر نہ کر سکے۔لاہور میں آئس کریم کی ایک چھوٹی سی مشین لگائی لیکن اسے چلا نہ پائے۔پھر ایک پرانی سوزوکی پک اپ چلاتے جسکے ذریعے لاہور کے گلی کوچوں میں مختلف اداروں کی اشیاء سپلائی کرتےتھے۔اس کام سے کچھ کما لیتے تو ترانوں کی تیاری کیلئے نکل جاتے۔وہ عرصہِ دراز سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔انکے دل کے ایک والو میں سوراخ تھا۔جب اس مرض نے شدت اختیار کی تو انہیں اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا۔یہاں پر انہوں نے حالتِ مرض میں ہی اپنا آخری ترانہ لکھا: جبیں سے نور برساتی چلی آتی ہے آزادی مچلتی جھومتی گاتی چلی آتی ہے آزادی۔لیکن زندگی نے انہیں اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اسے خود گا سکتے۔اس کے بعد ہی ان کے جسم کے بائیں حصہ پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔بالآخر 4 اکتوبر 1999 میں کشمیر کی آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے یہ مایہ ناز جواں سال شاعر ہمیں جوانی میں ہی داغِ مفارقت دے گیا۔یہ شاعرحریت راولپنڈی کے ڈھوک کالا خان قبرستان میں محوِ استراحت ہے۔انہوں نے پہلے سے ہی وصیت کر رکھی تھی کہ اگر میری وفات کشمیر کی آزادی سے پہلے ہوئی تو انکو پاکستان میں امانت کے طور پر دفن کیا جائے اور جب کشمیر آزاد ہو جائے تو انکو سرینگر کے مزارِ شہدا میں دفن کیا جائے۔
اْنکو دو دفعہ دیکھنے کا شرف مجھے حاصل ہوا تھا۔ایک بار 1994 میں جب وہ جنگل منگل کیمپ میں آئے تھے اور دوسری دفعہ جب 1997 میں انہوں نے منصورہ جامع مسجد کے احاطے میں اپنی ایک نظم پڑھی تھی ۔اس انقلابی شاعر کو میں نے اپنی ایک نظم میں یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:

شاعر حریت مرحوم سلیم ناز بریلوی کے نام …

شاعرِ حریت ’’ناز‘‘ترانے جب لکھتے اور گاتے تھے
سننے والے سنتے تھے تو سنتے ہی رہ جاتے تھے
وہ الفاظ کے تیروں سے ہر دل کو چیر کے رکھ دیتے
اْنکے ترانے تو سیدھے دل میں ہی گھر کر جاتے تھے
پر تاثیر اگر اشعار تھے تو آواز میں جادو تھا
آزادی کے متوالوں کے خون کو وہ گرماتے تھے
جذبہِ جہاد اور جذبہِ حریت کی جب آگ لگاتے وہ
پھر سینوں میں اِن جذبوں کی آگ کو وہ دہکاتے تھے
اْنکے ترانے سنتے تھے میدان میں جب غازی ہر سو
جوش میں آکےمشاعرہ لگا کے دشمن سے ٹکراتے تھے
انکے ترانے وادی میں جب ہر سو گونجا کرتے تھے

حادثے سے پہلے ترانے سننا میرے لئے ایک خاص معنی رکھتا تھا۔یہ تو بس لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ تھا کیونکہ جھپٹنے اور پلٹنے کیلئے میں ہمیشہ بے قرار رہتا تھا۔لیکن حادثے کے بعد جب پَر ہی کٹ گئے تو پھر کیا جھپٹنا اور کیا پلٹنا۔ترانے اب بھی میرے لہو کو گرماتے تھے لیکن میری حالت اس پر کٹے شاہین کی طرح تھی جو صرف پھڑپھڑانے کی کوشش کر سکتا ہو لیکن اڑنا اسکے نصیب میں نہ ہو۔اس کیفیت سے میں افسردہ ہو جاتا اور گہری سوچوں میں ڈوب جاتا۔لیکن میں اس وقت اس بات سے بالکل بے خبر تھا کہ میرے اندر بھی ایک انقلابی شاعر چھپا ہوا ہے جو ٹھیک بیس سال بعد نمودار ہوگا اور اللہ کے فضل سے نوک قلم کو جننش دے کر سینکڑوں ترانے صفحہِ قرطاس پر رقم کرکے اوروں کے لہو کو گرمانے کا اک سبب بنے گا۔اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
شاعری دراصل انسان کےخیالات احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے جن کو ایک شاعر اسی طرح مرتب کرتا ہے جسطری ایک پرندہ تنکا تنکا اکٹھاکرکے اپنا آشیانہ ترتیب دیتا ہے۔جسطرح ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’برتن سے وہی ٹپکے گا جو اسکے اندر ہو گا‘‘اسی طرح ایک شاعر کی سوچ جسطرح کی ہوگی اسکی شاعری بھی اسی انداز کی ہوگی۔ایک شاعر جو دین سے کوسوں دور ہوجسکے دل میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہ ہوامت کی فکر نہ ہو،اسلام کی درخشندہ تاریخ کا دلدادہ نہ ہو،اسلام کے مستقبل کی فکر نہ ہو،مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار پر تڑپتا نہ ہو تو اسکی شاعری کا موضوع عشقِ مجازی کے سوا اور کیا ہو گا۔وہ خیالوں میں صرف انہی وادیوں میں بھٹکتا پھرے گا جہاں لیلیٰ مجنوں کی داستانوں نے جنم لیا تھا۔
عشقِ مجازی کے دلداہ شاعروں کی شاعری جب سنگیت کے ساتھ مل کر گیتوں کی شکل اختیار کرتی ہے تو معاشرے کو اخلاقی طور پر تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتی ہے۔اسطرح کی شاعری کی دھنوں پر جب جسم تھرکنے لگتے ہیں تو رقصِ ابلیس بھی مات کھا جاتا ہے۔سفلی جذبات کو مشتعل کرنے والی یہ شاعری نوجوان نسل میں بے راہروی بے حیائی اور بیہودگی کو فروغ دیتی ہے لہٰذا سارا معاشرہ اخلاقی طور پر تنزل کا شکار ہو کر بالآخر صفحہِ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔لہٰذا اسلام میں اسطرح کی شاعری کی بالکل بھی اجازت نہیں جو معاشرے کی اخلاقی قدروں کو تباہ کرنے کا باعث بنے۔ایسی شاعری غلاظت کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں جسکے تعفن سے انسانیت کے گلستان کی مہک ماند پڑ جاتی ہے اور ذی شعور انسانوں کا جینا محال ہو جاتا ہے۔
اسکے برعکس جو شاعری عشقِ حقیقی یعنی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے گرد گھومے،ایمان کو تازگی بخشے،مسلمانوں کے سینوں میں جذبہِ جہاد اور شوقِ شہادت کی تمنا بیدار کرے،اسلام دشمنوں کے سینوں میں تیر بن کر اترے،تو ایسی شاعری اسلام کی نظر میں نہ صرف مستحسن ہے بلکہ بسا اوقات اسلام کی ضرورت بن جاتی ہے اور جو شعراء کفر کے مقابلے میں اسلام کے دفاع میں شاعری لکھتے ہیں وہ دراصل لسانی جہاد کے محاذ کے سرگرم مجاہد کہلانے کے مستحق ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پورے عرب میں ابلاغ کا واحد ذریعہ شعر و شاعری کو سمجھا جاتا تھا۔جب کوئی شاعر اپنی کوئی نئی نظم لوگوں کے سامنے پڑھتا تھا تو اسکا کلام چند دنوں کے اندراندر پورے عرب میں پھیل جاتا تھا۔بہترین کلام کو سونے کے پانی سے کپڑے پر لکھ کر خانہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا دیا جاتا اور اسکی عزت و تکریم کی جاتی ۔کہا جاتا ہے کہ جنگ کے دوران ایک عرب جنگجو کو اپنی تلوار اور گھوڑے سے اتنا حوصلہ نہیں ملتا تھا جتنا کہ اپنے حق میں کہے ہوئے رزمیہ اشعار سے ملتا تھا۔اسلام کے ظہور کے بعد کفر و اسلام کی معرکہ آرائی کے دوران تیغ زنی کے علاوہ جب شعروشاعری کے ذریعے بھی کفار نے اسلام کو زک پہنچانے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرکے عوام الناس کو دینِ اسلام سے بدظن کرنے کی کوششیں کیں تو جواباً اسلام کے شعراء نے تبلیغِ اسلام اور دفاعِ اسلام کیلئے ایسے شاہکار کلام تخلیق کئے کہ کفر کے علمبردار تلملا اٹھے اور اسلام کے نام لیواؤں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچی ۔کفر کے تقریباً دو سو شعراء کو جواب دینے کیلئے اسلام کے تین مشہور شعراء اس میدان میں اتر گئے اور اس محاذ کو سنبھالا۔حضرت حسان بن ثابت ؓحضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ اور حضرت کعب بن مالک ؓ۔تینوں شعرائے کرام نے کفار کے شاعرانہ حملوں کا دندان شکن جواب دے کر ان کے زہریلے پروپگنڈے کو ہوا میں تحلیل کردیا۔
حضرت حسان بن ثابت ؓاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں نعتیں پڑھا کرتے تھے اور کافروں کےان اشعار کا جواب دیتے تھے جو وہ آنحضور ؐ کی ہجو میں کہتے تھے۔جنگِ بدر میں دشمنانِ اسلام کی شکست اور مسلمانوں کی فتح پر حضرت حسان ؓنے سولہ اشعار پر مشتمل ایک شاندار قصیدہ لکھا۔اسی طرح فتح مکہ کے موقعہ پر بھی انہوں نے ایک خوبصورت قصیدہ تخلیق کیا۔آنحضورؐان کیلئے مسجدِ نبوی میں منبر رکھواتے تھے جس پر کھڑے ہو کر حسان بن ثابت ؓ اللہ کے رسول ﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھتے اور کفار کے الزامات کا جواب دیتے۔آنحضور ﷺ یہ بھی فرماتے کہ اللہ تعالی روح القدس کے ذریعے سے حسان کی امداد فرماتے ہیں جب تک کہ وہ (اپنے اشعار کے ذریعے) دین کی امداد کرتے ہیں۔
جب دشمنانِ دین کی طرف سے زبانی حملے بڑھنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا:’’جو لوگ اپنے ہتھیاروں کے ذریعےاللہ کے رسول ﷺکی مدد کرتے ہیںانہیں زبانوں کے ذریعے مدد کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟‘‘اس موقع پر حسان بن ثابت ؓنے عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسولﷺ اس کام کیلئے میں حاضر ہوں‘‘۔اس موقعہ پر اس شاعرِ رسول ﷺنے اپنی زبان کے کنارے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ اس اعزاز کے بدلے اگر مجھے بصرٰی اور صنعاء کے بیچ کی زمین بھی دے دی جائے تو میں قبول نہیں کروں گا۔اسلام لانے سے قبل ایک دفعہ جب ابوسفیانؓ نے اپنے اشعار میں آنحضورﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ہجویہ اشعار کہے تھے تو اللہ کے رسول ﷺنے حسان بن ثابت ؓسے فرمایا:’’حسان ان اشعار کا جواب دو‘‘۔پھر اس شاعرِ رسولﷺ نے اپنے نبیؐ کی شان میں وہ شاہکار نعت لکھی جو آج تک عاشقانِ رسول ﷺکی آنکھوں کو نمناک کرتی ہےجسکا مطلع کچھ اسطرح ہے:جہاں میں‌ ان سا چہرہ ہے نہ ہے خندہ جبیں کوئی ابھی تک جن سکیں نہ عورتیں ان سا حسین کوئی)۔۔۔نہیں رکھی ہے قدرت نے میرے آقا کمی تجھ میں۔۔۔ جو چاہا آپ نے مولا وہ رکھا ہے سبھی تجھ میں)
حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ دورِ جاہلیت میں عرب کے چوٹی کے شعراء میں شمار ہوتے تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی شاعری اسلام کیلئے وقف ہوگئی ۔اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن رواح ؓنے یہ شعر کہا:لو لم تکن فیہ آیت مبینہ۔۔کانت بدیھتہ تنبیک بالخیر’’اگر آپﷺ کی ذات کے بارے میں کھلے کھلے نشانات اور روشن معجزات نہ بھی ہوتے تو بھی آپﷺ کی ذات ہی حقیقتِ حال کی آگاہی کیلئے کافی تھےآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے اشعار بہت پسند تھے اور کئی موقعوں پر آپؐ نے عبداللہ بن رواحہؓ کے اشعار پڑھے ہیں۔مسجدِ نبوی کی تعمیر کے دوران جب آنحضورﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ اینٹیں اور گارا اٹھا رہے تھے تو زبانوں سے عبداللہ بن رواحہ ؓ کے یہ اشعار بھی ادا ہو رہے تھے:ترجمہ:(الٰہی! اجر تو بس آخرت کا اجر ہے۔۔۔پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔جنگِ احزاب کے موقعہ پر آنحضورﷺبلند آواز سے انکے یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔۔۔ترجمہ: اے اللہ اگر تیری مدد نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پاتے،نہ زکوٰۃدیتے اور نہ نماز پڑھتے۔پس تو ہم پر اپنی سکینت نازل فرما اور معرکہ میں ہم کو ثابت قدم رکھ ۔جن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔اب وہ فتنہ کا ارادہ کریں گے تو ہم اسکا انکار کریں گے۔ (جاری ہے)