راہ حق میں ہوئے میرے حادثے

وسیم حجازی

منصورہ ہسپتال میں ایک دن علاج کے سلسلے میں آئی ہوئی ایک کشمیری خاندان سے ملاقات ہوئی جو غالباً 1947 یا 1965 میں ہجرت کر کے لاہور میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔انہوں نے ایک دن مجھے شام کے کھانے پر بلایا جہاں مرحوم محمد اشرف قریشی صاحب پہلے سے ہی تشریف فرما تھا۔اشرف صاحب کا تو نام پہلے سے ہی سْنا تھا، اس دن سے ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔انکے ہاتھوں میں کپکہاہٹ تھی۔ یہ اس انٹروگیشن کی وجہ سے تھی جو انہیں 1971 میں گنگا جہاز کے اغواء کے نتیجے میں بھگتنا پڑا۔اشرف صاحب نے اپنے کزن محمد ہاشم قریشی کے ساتھ مل کر 30 جنوری 1971 کو سرینگر سے بھارتی مسافر بردار جہاز گنگا ہائی جیک کر کے اسے لاہور میں اتارا تھا۔اس معاملے نے ان دنوں عالمی شہرت حاصل کی اور دونوں ممالک کے بیچ پہلے ہی چل رہا تناؤ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔
اس ہائی جیکنگ معاملے کا ماسٹر مائنڈ محمد ہاشم قریشی تھا جس نے شہید محمد مقبول بٹؒ کی ہدایت پر اس کاروائی کو انجام دیا تھا۔ ہاشم قریشی اور اشرف قریشی کی عمر اس وقت 17 اور 18 سال کے درمیان تھی اور دونوں طالب علم تھے اور لال بازار سرینگر کے رہنے والے تھے۔ 1969 میں ہاشم قریشی کی ملاقات مقبول بٹؒ سے اس وقت پشاور میں ہوئی جب وہ وہاں اپنے ماموں سے ملنے گئے تھے۔ہاشم قریشی نے مقبول بٹ کی تنظیم ’’جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ ایک سابقہ پائلٹ سے ہائی جیکنگ کی تربیت لی اور سیالکوٹ بارڈر سے واپس چلے گئے جہاں وہ BSF کے ہتھے چڑھ گئے۔ یہاں سے کہانی نے وہ رْخ اختیار کیا جسکے متعلق ہمیشہ متضاد موقف سامنے آتے رہے۔ ہاشم قریشی نے BSF کو اپنے پلان کے بارے میں بتایا۔

ہاشم قریشی کے مطابق پکڑے جانے کی صورت میں مقبول بٹ کی ہدایت پر انہیں ہائی جیکنگ پلان ظاہر کرنا تھا اور یہ بھی کہنا تھا کہ مزید دو بندے اس سلسلے میں سرینگر پہنچ چکے ہیں تاکہ وہ یعنی ہاشم عتاب سے بچ سکیں اور مناسب موقعہ پاکر واردات انجام دے سکیں.BSFنے ہاشم قریشی کو سرینگر ائرپورٹ پر ان دو بندوں کی پہچان کیلئے وقتی طور پر BSF میں بھرتی کر لیا تاکہ ہاشم پر کوئی شک نہ کر سکے۔اس دوران ہاشم قریشی نے اپنے کزن اشرف قریشی سے رابطہ کیا اور ان پر اپنا پلان ظاہر کیا۔اس دوران دونوں کسی نہ کسی بہانے رابطہ میں رہے اور ہاشم قریشی اشرف قریشی کو ضروری قسم کی تربیت دیتا رہا،چونکہ ہاشم کا پستول اور گرینیڈ BSF نے بارڈر پر ہی چھین لئے تھے ۔اب انہوں نے نقلی پستول خریدا اور لکڑی کا ایک نقلی گرینیڈ بنایا۔
ائیرپورٹ پر BSF کو چکمہ دینے کیلئے اپنے نام بدل کر ہاشم نے اشرف کا ٹکٹ خریدا اور اشرف نے ہاشم کا ٹکٹ خریدا۔ ان دنوں ائیرپورٹ پر سیکورٹی زیادہ سخت نہیں ہوتی تھی۔ 30 جنوری 1971 کو وہ ایک چھوٹے سے فوکر طیارے میں سوار ہوئے جو سرینگر سے جموں جانے والا تھا۔ اس میں کل 30 افراد سوار تھے جونہی جہاز جموں ائیر پورٹ پر اترنے والا تھا تو ہاشم اور اشرف تیزی سے کاک پِٹ کی طرف دوڑے۔ ہاشم پستول لے کر کاک پِٹ کے اندر چلا گیا جبکہ اشرف ہاتھ میں گرینیڈ لئے کاک پٹ کے باہر مسافروں کی طرف منہ کر کے کھڑا رہا۔ اشرف نے سب مسافروں کو ہاتھ اوپر اْٹھانے کی ہدایت کی، سوئے اتفاق جن میں اسکا پرنسپل بھی اسکے سامنے تھا۔ کاک پِٹ میں ہاشم نے پائلٹ کیپٹن کاچرو کی گردن پر پستول رکھا جسکے ساتھ ہی کو-پائلٹ کیپٹن اوبرائے بیٹھا تھا۔

ہاشم نے پائلٹ کو جہاز راولپنڈی لے جانے کی ہدایت کی لیکن ایندھن کی کمی کے باعث جہاز کا رْخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز نے لاہور ائیرپورٹ پر لینڈ کیا۔ دونوں نے ائیرپورٹ اتھارٹیز کو اپنا تعارف کروایا اور ہائی جیکنگ کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں قید JKNLF کے 36 افراد کو رہا کر کے پاکستان میں پناہ دی جائے۔ انہوں نے مقبول بٹؒ سے بات کرنے کی درخواست کی لیکن انکے بدلے انکے قریبی ساتھی ڈاکٹر فاروق حیدر سے فون پہ بات ہوئی جس میں اشرف نے انکو بتایا کہ ’’میں فیروز(کوڈ نام) ہوں اور ہم پرندہ لے کر آئے ہیں‘‘۔ اسکے بعد بچوں اور عورتوں کو جہاز سے اترنے کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ خوف کی وجہ سے رو رہے تھے۔
اسکے بعد ائیرپورٹ پر حکام نے انہیں باقی مسافروں کو بھی رہا کرنے پر آمادہ کیا۔ یوں انکی نادانی کی وجہ سے انکے کنٹرول میں صرف طیارہ رہ گیا۔ اس بات کا انہوں نے بعد میں اعتراف بھی کر لیا کہ کم عمری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ طیارے سے زیادہ اہم مسافر تھے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ ذولفقار علی بھٹو نے ائیرپورٹ پر انہیں جہاز اغواء کرنے پر داد دی۔ مقبول بٹ اور آزاد کشمیر کے صدر کے-ایچ خورشید نے بھی ان دونوں سے ملاقات کی۔ 80 گھنٹے تک طیارے پر قبضہ جمانے کے بعد دونوں ہائی جیکرز نے طیارے کو آگ لگا دی جس کے دوران اشرف قریشی کا ہاتھ جل گیا اور ہاشم قریشی بھی زخمی ہوئے۔ اسکے بعد دونوں کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں دونوں کا علاج ہوا۔
دونوں ہائی جیکرز جب ہسپتال سے فارغ ہوئے تو لاہور سے آزاد کشمیر تک جگہ جگہ انکا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ لیکن کہانی نے اس وقت نیا موڑ لیا جب بھارت نے پاکستانی جہازوں پر اپنی فضائی حدود میں پابندی لگائی۔ بھارت کے اس فیصلے سے پاکستانی حکام کے کان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ہائی جیکنگ کے پیچھے بھارتی سازش کی بْو سونگھ لی۔ کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی پاکستانی میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی اور بھارت اس تحریک کی پشت پناہی کر رہا تھا تاکہ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کر کے ایک الگ ملک بنگلہ دیش کی بنیاد ڈالی جائے۔ اب فضائی پابندی سے مغربی پاکستان کے جہازوں کو مشرقی پاکستان جانے کیلئے سری لنکا کے راستے جانا پڑا جو کہ تین گنا لمبا راستہ تھا۔ یوں پاکستان کیلئے مسائل پیچیدہ ہو گئے۔

ہاشم اور اشرف کو گرفتار کیا گیا۔ اسکے علاوہ مقبول بٹ اور ساری JKNLF قیادت کو بھی گرفتار کیا گیا۔ مقدمے میں سب کو جیل کی سزا ہوئی لیکن دو سال کے بعد ہاشم قریشی کے علاوہ سب کو رہا کیا گیا جبکہ ہاشم قریشی کو 1980 میں رہا کیا گیا۔ اسکے بعد وہ یورپ چلے گئے اور دسمبر 2000 میں وہ کشمیر واپس لوٹے۔ اشرف نے رہائی کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھی اور پنجاب یونیورسٹی سے کشمیری زبان پر PHD کی ڈگری حاصل کی اور اسی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ بالآخر 3 فروری، 2012 کو راولپنڈی میں انکا انتقال ہوا۔ انہیں انکی وصیت کے مطابق میرپور آزاد کشمیر میں دفن کیا گیا۔ اس ہائی جیکنگ کے پس پردہ اصل محرکات کیا تھے یہ اب تک ایک راز ہی رہا۔ ہاشم قریشی نے اپنے دفاع میں بہت کچھ کہا جبکہ بھارت اسے پاکستانی ایجنٹ سمجھتا رہا اور پاکستان اسے بھارتی ایجنٹ سمجھتا رہا۔
منصورہ کی پارک میں کبھی کبھار ایک افغانی نو عمر لڑکے سے ملاقا ت ہوتی رہتی تھی جو طالب علم تھا۔ اس کے والد صاحب انجینئر تھے اور یہ لوگ افغانستان پر روسی حملے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ایک دن اْس نے مجھے اور میرے تیماردار ساتھیوں کو کھانے پر بلایا۔ اس موقعہ پر وہاں جماعت اسلامی پاکستان کے شیخ القرآن و شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک صاحب بھی تشریف فرما تھے۔افغانیوں کے کھانے پینے اور انکے طرز زندگی کا یہاں میں نے قریب سے مشاہدہ کیا۔ امیر خاندان ہونے کے باوجود بھی انکا طرز زندگی سادہ تھا۔کشمیری،افغانی اور پاکستانی ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے جنکے درمیان صرف اسلام کی بنیاد پر اخوت کا رشتہ قائم تھا۔ بقول شاعر:
اخوت اسکو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو دہلی کا ہر اک پیروجواں بیتاب ہو جائے
مبشر بھائی کے خاندان والوں کے ساتھ لاہور کی ایک فیملی کے دوستانہ تعلقات تھے جس کی وجہ سے یہ لوگ بھی میرے پاس ہسپتال میں آتے رہتے تھے۔اس فیملی میں انور صاحب،انکی اہلیہ اور انکے دو بیٹے علی، احمد تھے۔ عیدالاضحٰی کے دن قریب تھے۔ ایک دن یہ لوگ مجھے کپڑے کی دْکان پر لے کر گئے اور مجھ سے کہا کہ اپنی پسند کا کوئی کپڑا دیکھ لو تاکہ عید پر پہن سکو۔ انکی اس محبت بھری پیشکش کو میں ٹھکرا نہ سکا۔ ویسے بھی ان دنوں تنظیم کی طرف سے سب مجاہدین کو ماہانہ صرف 300 روپے جیب خرچہ ملتا تھا جس میں اپنے لئے پہننے کیلئے کوئی کپڑا خریدنا ناممکن تھا۔ ہمیں ہر چھ ماہ بعد سِلے ہوئے بے ڈھنگ کپڑے ملا کرتے تھے۔ میں نے دکان سے کپڑا لیا اور انور صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ یوں نہ جانے کتنے مہینوں کے بعد مجھے ڈھنگ کا کوئی کپڑا پہننے کو ملا۔
بالآخر عیدالاضحٰی کا دن آگیا۔ عیدالفطر تو میں نے بغیر نہائے بیڈ پر لیٹے لیٹے اداسی کی حالت میں گذاری تھی۔ اس کے برعکس اِس دن عیدالاضحٰی کے روز میں نے نہایا اور نئے کپڑے پہنے جو کہ انور صاحب کی وساطت سے مجھے ملے تھے۔ میرے تیماردار ساتھی اپنے ساتھ مجھے منصورہ کی جامع مسجد کے وسیع صحن میں لے کر گئے جہاں ہم نے عید کی نماز ادا کی۔ عید کی اس نماز کی امامت کے فرائض امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان مرحوم قاضی حسین احمد صاحب نے انجام دئے۔ حادثے کے بعد پہلی بار مجھے نمازِ باجماعت ادا کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔زہے نصیب اس نماز کی امامت بھی اپنے وقت کا ایک عظیم مردِ مجاہد کر رہا تھا جس نے افغانستان اور کشمیر کے جہاد کی پشت پناہی کی اور 1987 سے 2003 تک جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت کی۔
کافی عرصے کے بعد میں نے خود کو لوگوں کے جمِ غفیر میں پایا جو ایک دوسرے سے گلے مل کر عید کی خوشیاں بانٹ رہے تھے۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اسلام کا تصورِ اخوت اپنے اندر کسقدر اپنائیت اور جاذبیت رکھتا ہے۔ ہسپتال کی تکلیف دہ زندگی کے دوران خوشی کے یہ چند لمحات میرے لئے کسی نعمتِ کْبرٰی سے کچھ کم نہ تھے۔اسلام اپنے اندر اجتماعیت کا جو عالمگیر تصور رکھتا ہے اسکے اندر ہزاروں حکمتیں پنہاں ہیں۔ ان حکمتوں کی اہمیت وہی شخص جان سکتا ہے جسے تنہائیوں کے سانپ بار بار ڈستے رہتے ہوں۔ بہرحال عیدِ قربان کا وہ دن میرے غموں کے اندھیروں میں خوشی کی اک کرن بن کر آیا، گر چہ انسانی فطرت کے عین مطابق اس دن مجھے بھی اپنے وطن اور اپنے گھر کی یاد بہت ستانے لگی۔ وطن سے دور، گھر سے دوریہ میری چھٹی عید تھی۔
عید نماز پڑھ کر ہم واپس ہسپتال پہنچے۔ لوگ تو قربانی کے جانور قربان کرنے لگے لیکن ہم غریب الوطن لوگوں کے پاس قربان کرنے کیلئے کچھ بھی نہ تھا۔ ہمارے پاس بس ہماری جانیں تھی جنہیں اللہ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے ہم اسی دن سے بیتاب تھے جس دن ہم نے اپنے گھروں کو چھوڑا تھا۔ہم خلیل اللہ و ذبیح اللہ علیہ السلام کے وہ روحانی بیٹے تھے جو انکی قربانی کے پیغام کو عملانے کیلئے میدانِ عمل میں اْتر چکے تھے۔کہیں کوئی میدانِ کارزار کی سرسبز وادیوں میں اپنا لہو بہا رہا تھا،کہیں کوئی تعذیب خانوں میں اذیت ناک مراحل سے گذر رہا تھا،کہیں کوئی برف پوش کوہساروں پر بے گوروکفن پڑا چیل کوؤں کی غذا بن رہا تھا، کہیں کوئی تربیت گاہوں میں تربیت لے رہا تھا، کہیں کوئی میری طرح ہسپتال میں پڑا زخموں سے چْور ہو کر کراہ رہا تھا۔

ہم لوگ اپنی جانوں کی قربانی کا تصور لے کر اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ اس لئے یہ عیدِ قربان میرے لئے اسی تناظر میں اہم تھی کہ اللہ کی راہ میں اپنے آدھے جسم کو قربان کر کے ہی میں یہ عید منا رہا تھا۔ اس عید پر لوگ قربانی کے جانوروں کا خون بہا کر اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے فرزندِ ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی گردن پر چْھری پھیری تھی۔ خلیل اللہ اور ذبیح اللہ کی اس سْنت کو زندہ رکھنے کی خاطر ہی ہم نے اپنے آپ کو قربان گاہ میں پیش کیا تھا۔ یومِ نحر کے روز جانوروں کی قربانی محض ایک رسم نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ سے ایک وعدہ ہے کہ وقت آنے پر تیرے دین کی سربلندی کیلئے ہم اپنی گردنیں بھی پیش کریں گے. عیدِ قربان کا حقیقی فلسفہ بھی اس نکتہ کے گِرد گھومتا ہے۔
اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے والے ہی دراصل اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں.۔قربانی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں ہر قوم میں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی رہا ہے۔ لیکن قربانی کے اس تصور کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے اس واقعہ نے عظمت بخشی جو چار ہزار سال پہلے وادیِ غیر زی زرعِ میں پیش آیا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی مختلف شکلیں ہیں لیکن اسکی راہ میں جان و مال کی قربانی ایک ایسی عبادت ہے جسے تمام عبادتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اسی پیغام کو لے کر عیدالاضحٰی ہر سال آتی ہے۔ پوری دنیا سے مسلمان اس موقع پر حج کا فریضہ ادا کرنے مکہ مکرمہ میں اسی لئے جمع ہوتے
ہیں تاکہ خلیل اللہ کی قربانیوں کی داستان انکے دل و دماغ پر نقش ہو جائے اور وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ کر ایک نئے جذبے کے ساتھ سنتِ ابراہیمی کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ مگر افسوس آجکل کے حاجی صاحبان اس تصور سے ناآشنا ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے عید کے دن قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کا حْکم دیا ہے۔ اگر قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کے بجائے انکی ٹانگیں کاٹ کر انکو زندہ رکھنے کا حْکم دیا جاتا تو تصور کیجئے یہ منظر نامہ کس قدر دردناک ہوتا۔ بس سمجھ لیجئے کہ میری حالت قربانی کے اس جانور سے کچھ کم نہ تھی جسے ذبح کرنے کے بجائے اسکی ٹانگیں کاٹ دی گئی ہو اور وہ تڑپ تڑپ کر زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہو۔ موت کے وقت چند لمحوں کی تکلیف برداشت کرنا تو آسان تھا لیکن عمر بھی کی یہ جسمانی تکلیف ہزار بار مرنے سے بھی شدید تر تھی. بقولِ شاعر:
ذبح کرنا تھا تو کیوں نہ میری گردن پر
زور سے پھیر دیا آپ نے خنجر اپنا
نیم بسمل ہی چلے چھوڑ کے تم کیوں پیارے
زور یہ تم نے دکھایا ہمیں جوہر اپنا

(جاری ہے)
٭٭٭