راہ حق میں ہوئے میرے حادثے

(گذشتہ سے پیوستہ)

وسیم حجازی

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چار سورتوں میں حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا ہے خاصکر سورہ الانبیاء اور سورہ’ ص‘ میں۔ آپ حضرت اسحٰق علیہ السلام کے بیٹے عیسو کی نسل سے تھے اور غالباً نویں صدی قبل مسیح میں مبعوث ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ملکِ شام کی ایک قوم حوران کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ علاقہ آجکل عمان میں ہے۔ آپ بہت زیادہ مالدار تھے۔آپ کے پاس سات ہزار بھیڑیں، تین ہزار اونٹ، پانچ سو جوڑے بیل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات بیٹے اور سات بیٹیاں عطا کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمانا چاہا تاکہ بعد میں آنے والوں کیلئے آپ صبر کی ایک عظیم مثال بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کا سارا مال و متاع چھین لیا۔ آپ کے تمام مال مویشی ہلاک ہو گئے۔ آپ کی تمام اولادیں انتقال کر گئیں۔ آپ کا جسمِ مبارک سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا۔
سب کچھ چِھن جانے کے باوجود بھی حضرت ایوب علیہ السلام کی زبان پر حرفِ شکایت نہ آئی۔سُکھ میں تو سب ساتھ تھے لیکن دُکھ میں ہر کسی نے آپ سے منہ پھیر لیا۔ آپ کے سب دوست احباب گر چہ آپ کو تنہا چھوڑ گئے لیکن آپ کی وفاشعار بیوی نے اس مشکل وقت میں بھی آپکا ساتھ نہ چھوڑا بلکہ آپکی تیمارداری اور خدمت گزاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آپکی اس زوجہ محترمہ کا اسمِ گرامی بی بی رحمت (عبرانی میں ایلیہ) تھا۔ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی تھی اسلئے حسن و جمال میں بھی لاثانی تھی۔آپ نے رہتی دنیا تک دنیا بھر کی خواتین کیلئے ایک عظیم مثال قائم کی کہ کس طرح مشکل وقت میں اپنے سرتاج کا ساتھ نبھانا چاہیے۔ بیماری اور تیمارداری میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بیمار شوہر کی تیمارداری کرکے آپ نے وفاشعاری کی لازوال داستان رقم کی۔
لوگوں کی بے توجہی اور طرح طرح کی باتوں کی وجہ سے حضرت بی بی رحمت حضرت ایوب علیہ السلام کو بستی سے دور ایک جگہ لے گئی جہاں انہوں نے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں قیام کیا۔ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے گھر گھر جا کر کام کاج شروع کیا۔ محنت و مشقت کی وجہ سے انکے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ ادھر شدید جسمانی بیماری کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام صاحب فراش ہوگئے تھے۔ انکے لئے ہلنا جلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس حال میں بی بی رحمت ہی انکو اپنے ہاتھوں سے کھلا پلایا کرتی اور دیگر بشری حاجات میں انکی مدد کیا کرتی۔ بی بی رحمت باریک ریت لے کر آتی اور اپنے شوہر کے بدن کے نیچے بچھاتیں تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو۔ غرض یہ وفاشعار خاتون مثالی بیوی بن کر روئے زمین کی تمام خواتین کیلئے مشعلِ راہ بن گئی۔جب ماہ و سال اسی طرح گزرتے گئے تو ایک دن بی بی رحمت نے حضرت ایوب علیہ السلام سے کہا کہ ’’اگر آپ اپنے پروردگار سے دْعا کریں تو وہ آپ کو ان مصائب سے نجادت دلانے پر قادر ہے‘‘ اس پر اولوالعزم پیغمبر نے حیرت انگیز جواب دیا کہ ’’کیا میں اس بیماری اور تنگدستی میں اپنے رب کیلئے صبر نہ کروں کہ جس رب نے مجھے سالہال سال تک تندرستی اور خوشحالی سے نوازا۔ مجھے تو اپنے رب سے اب یہ سب کچھ مانگنے میں حیا آتی ہے‘‘۔ شیطان اس صبر و رضا کے پیکر کے صبر سے بہت جلتا تھا۔ ایک دن وہ بی بی رحمت کے پاس حکیم کے روپ میں آیا اور اسے کہا کہ کیا تم نہیں چاہتی کہ تمہارا شوہر صحتیاب ہو۔ میں اسے شفاء دے سکتا ہوں۔ بس شرط یہ ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو اسے کہنا کہ اسے میں نے (حکیم) نے شفاء دی ہے۔ بدلے میں مجھے کسی نذرانے کی ضرورت نہیں۔
بی بی رحمت کی زبانی یہ بات سنتے ہی حضرت ایوب علیہ السلام نے سخت طیش میں آ کر اپنی بیوی سے کہا کہ وہ تو شیطانِ مردود تھا جو تجھے حکیم بن کر ملا تھا تاکہ ہمارے ایمان اور توکل علی اللہ کو خطرے میں ڈالے۔پیغمبر نے جب محسوس کیا کہ شیطان نے اس کی گھر والی کو شرک کی طرف آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے تو اْس نے غصے میں آ کر قسم کھا کر اپنی بیوی سے کہا کہ جب میں صحتیاب ہو جاؤں گا تو تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔اسکے بعد انہوں نے اپنے رب سے وہ دعا مانگی جسکا تذکرہ قرآن میں سورہ’ ص‘ کی آیت نمبر 41 میں آیا ہے: ’’اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے‘‘۔یعنی شیطان اپنے وسوسوں سے مجھے تنگ کرکے تیری رحمت سے مایوس کرنا چاہتا ہے تاکہ میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دوں۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کو تیرہ یا اٹھارہ برس گذر چکے تھے کہ ایک دن اسکے دو بھائی اسکا حال پوچھنے ان کے پاس آئے۔ حوصلہ دینے کے بجائے تھوڑی دور ہی کھڑے کھڑے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ ایوب میں کوئی خیر یا بھلائی دیکھتا تو اسے اسطرح تکلیف میں مبتلا نہ کرتا‘‘۔ اس بات سے حضرت ایوب علیہ السلام کا تو جیسے کلیجہ ہی کٹ گیا۔ وہ انتہائی غمزدہ ہو گئے اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کیلئے ہاتھ بلند گئے۔ اس موقعہ پر انہوں نے اپنے رب سے جو دْعا مانگی اسکا تذکرہ سورہ الانبیاء آیت نمبر 83 میں آیا ہے۔ ’’اور یاد کرو جب ایوب علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور توسب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

اِس دعا کی تفسیر میں مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒرقمطراز ہیں: ’’دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے۔مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اسکے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ’’توالرحم الراحمین ہے‘‘۔آگے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں، کوئی عرض مدعا نہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرزِ دعا میں ایسی شان نظر آتی ہے کہ جیسے کوئی انتہائی صابر و قانع اور شریف و خوددار آدمی پے در پے فاقوں سے بیتاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ ’میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں‘ آگے کچھ اس کی زبان سے نکل نہ سکے‘۔

اِدھر حضرت ایوب علیہ السلام نے دعا مانگی، ادھر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور جو وحی ان پر اُتری اسکا تذکرہ سورہ’ ص‘ آیت نمبر 43 میں کچھ اسطرح ہے: ’’(ہم نے اْسے کہا) اپنا پاؤں زمین پر مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کیلئے اور پینے کیلئے‘‘۔ یعنی اللہ کے حکم سے زمین پر پاؤں مارتے ہی ایک چشمہ نکل آیا جس کے پانی پینے اور غسل کرنے سے حضرت ایوب شفایاب ہوگئے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت ایوب علیہ السلام غسل فرما رہے تھے تو ان پر آسمان سے تتلیوں کی شکل میں سونا برسنے لگا۔ جب آپ انکو کپڑے میں سمیٹنے لگے تو اللہ نے پکارا کہ اے ایوب کیا میں نے تجھے اس سے بے نیاز نہیں کر دیا تھا۔ عرض کیا کیوں نہیں میرے رب،لیکن میں آپکی برکت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا‘‘۔ یعنی جب آپ بن مانگے دے رہے ہیں تو میری بندگی کا تقاضا ہے کہ میں محتاج بن کر اس کو لوں۔
چشمے کے پانی سے غسل کرنے کے بعد اور اس چشمے کے پانی کو پینے کے بعد حضرت ایوب علیہ السلام شفایاب ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو اس موقعہ پر جبکہ وہ غسل کرچکے، جنت کا جوڑا پہنایا۔ پھر وہ ہٹ کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ انکی بیوی جب وہاں آئی تو انہیں پہچان نہ سکی۔ انہوں نے آپؑ سے پوچھا: ’’اے اللہ کے بندے یہاں ایک بیمار شخص تھا، وہ کہاں گیا؟ کہیں اسے بھیڑئے تو نہیں لے گئے؟’’ یہ بات سن کر حضرت ایوب علیہ السلام نے ان سے کہا کہ میں ہی ایوب ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے بندے! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں؟ حضرت ایوب نے جواب دیا کہ میں مذاق نہیں کررہا۔ میں ہی ایوب ہوں۔ اللہ تعالی نے مجھے شفایاب کیا ہے۔ یہ سن کر بی بی رحمت بھی اللہ کا شکر بجا لائیں۔
حضرت ایوب علیہ السلام کو اب ایک اور نازک مرحلہ درپیش تھا۔ انہوں نے صحتیاب ہونے پر اپنی شریک حیات کو سو کوڑے مارنے کی جو قسم کھائی تھی اسے پورا کرنا اب ان کیلئے لازم ہو چکا تھا۔ ایک طرف اپنی قسم پوری کرنا انکی مجبوری تھی تو دوسری طرف انکی بیوی کی تابعداری، فرمانبرداری،تیمارداری، خدمت گزاری انکی نگاہوں کے سامنے تھی جو وہ ان کے لئے سالہال سال سے انجام دیتی آرہی تھی۔وہ کس طرح سے اپنی اس وفاشعار بیوی کو کوڑے مار سکتے تھے جس نے اس مشکل وقت میں انکا ساتھ نبھایا تھا۔ اسی سوچ میں جبکہ انکا دل و دماغ ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھا اللہ کی طرف سے وحی آئی جسکا تذکرہ سورہ’ ص‘ آیت نمبر 44 میں اسطرح ہے:’’اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لے اور اس سے مار اس کو اور اپنی قسم نہ توڑ‘‘۔اسطرح سے حضرت ایوبؑ کی قسم بھی پوری ہوئی اور انکی بیوی کو بھی کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صبر کے عوض پہلے سے کہیں زیادہ مال و دولت اور اہل و عیال سے نوازا۔ حضرت ایوبؑ کے اس پورے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوتے سید مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’ اس واقعہ میں ایک صاحب عقل آدمی کیلئے یہ سبق ہے کہ انسان کو نہ اچھے حالات میں خدا کو بھول کر سرکش بننا چاہیے اور نہ برے حالات میں اس سے مایوس ہونا چاہیے۔ تقدیر کی بھلائی اور برائی سراسر واحدہ لاشریک کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہے تو آدمی کے بہترین حالات کو بدترین حالات میں تبدیل کردے اور چاہے تو برے سے برے حالات سے اسکو بخیریت گزار کر بہترین حالت پر پہنچا دے۔ اسلئے بندہِ عاقل کو ہر حال میں اسی پر توکل کرنا چاہیے اور اسی سے آس لگانی چاہیے‘‘۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے صاحبِ تفہیم القرآن مزید فرماتے ہیں: ’’اللہ کے نیک بندے جب مصائب و شدائد میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے رب سے شکوہ سنج نہیں ہوتے بلکہ صبر کے ساتھ اسکی ڈالی ہوئی آزمائش کو برداشت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ انکا یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ اگر کچھ مدت تک خدا سے دعا مانگتے رہنے پر بلا نہ ٹلے تو پھر اس سے مایوس ہو کر دوسروں کے آستانوں پر ہاتھ پھیلانا شروع کردیں۔بلکہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ملنا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملنا ہے۔ اسلئے مصیبتوں کا سلسلہ چاہے کتنا ہی دراز ہو، وہ اسی کی رحمت کے امیدوار بنے رہتے ہیں۔ اسی لئے وہ ان الطاف و عنایات سے سرفراز ہوتے ہیں جنکی مثال حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے‘‘۔

منصورہ لائبریری میں جب میں نے حضرت ایوب علیہ السلام کی کڑی آزمائش اور سخت امتحان کا یہ واقعہ پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ سارا واقعہ میرے لئے ایک paper Guess کی طرح ہے جس میں میری زندگی میں آئیندہ آنے والے کئی سارے امتحانات کا خلاصہ درج ہے ۔مجھے ان سارے امتحانات کی تیاری کیلئے اب خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا تھا جنکا تعلق میری جسمانی تکلیف کے علاوہ میری معاشرتی اور معاشی زندگی سے تھا۔ میری جسمانی تکلیف کا دورانیہ ابھی تک تو کچھ مہینوں پر ہی محیط تھا لیکن آثار تو یہی نظر آرہے تھے کہ اسکا دورانیہ زندگی کی آخری سانسوں تک طویل ہو سکتا ہے لیکن رب کی رحمت سے نااُمید ہونا بھی مجھے منظور نہ تھا اسلئے میں نے حضرت ایوبؑ کی دعا کو اپنی معمول کی دعائوں کا حصہ بنایا اور ساتھ ہی کٹھن امتحانوں کیلئے کمر کس لی۔

٭٭٭

عرش کی قندیلیں انکے لئے ہیں. ساری جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں اور ان قندیلوں میں آرام کرتے ہیں۔شہید تمنا کرتے ہیں کہ دنیا میں دوبارہ لوٹائیں جائیں اور دوبارہ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں۔
کچھ شہدا جنت کے دروازے کے پاس دریا کے کنارے والے محل میں ہوتے ہیں اور جنت سے صبح و شام ان کی روزی آتی ہے۔ کچھ شہداء فرشتوں کے ساتھ جنت میں اْڑتے پھرتے ہیں جیسا کہ جعفر طیارہؓکے بارے میں اللہ کے نبی نے فرمایا تھا۔ شہادت سے پہلے جسکا ایمان جتنا بلند ہوگا، شہادت کے بعد اللہ کے ہاں اسکا مقام اتنا ہی بلند ہوگا۔ جنگ اْحد کے موقعہ پر شہداء کی تدفین کے بعد اللہ کے رسول ﷺنے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے لوگو! تم ان(شہدا) کے پاس آیا کرو، انکی زیارت کیا کرو، ان کو سلام کیا کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی ان کو سلام کہے گا یہ اسکا جواب دیں گے۔ شہداء کے فضائل بے شمار ہیں جنکا احاطہ کرنا یہاں ناممکن ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی سعات کی زندگی اور شہادت کی موت دے.آمین
(جاری ہے)