رودادِ سفر منصورہ لاہور

حماد شاہین

ایسا یادگارسفر جسے بھولنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔۔

مجھے 3جنوری 2023 کو کشمیر الیوم کے چیف ایڈیٹر شیخ محمد امین صاحب کی کال موصول ہوئی کہ آپ جلد اسلام آباد پہنچیں، ہمیں جماعت اسلامی کی قیادت اور کچھ دیگر حضرات سے انٹرویوز ریکارڈ کرنے ہیں، یہ انٹرویوز امام سید علی گیلانی شہید اور تحریک آزادی کشمیر سے متعلق ہوں گے۔ قائدین جماعت اسلامی سے قائد تحریک امام سید علی گیلانی ؒاور کشمیرکے متعلق بات چیت ہوگی تو میں نے ایک لمحہ بھی توقف نہ کیا اور اسلام آباد کی طرف محو سفر ہوا۔ رات کشمیر الیوم کے دفتر پر گزاری اور اگلے دن 4 جنوری کو شیخ صاحب، چیف ایڈیٹر کشمیر الیوم کی قیادت میں ہم چند افراد کا ایک گروپ لاہور کے لیے نکلا، جس میں میرے برادر عزیز ڈاکٹر بلال صاحب اور طفیل احمد بھائی بھی شامل تھے۔ پانچ گھنٹے کا طویل سفر طے کرنے کے بعد ہم جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ لاہور پہنچ گئے۔ جہاں پر ہمارے میزبان محترم میاں شفیق صاحب ہمارے منتظر تھے۔ مہمان خانہ میں ہمارے لیے پہلے سے کمرے کا انتظام کیا گیا تھا۔

تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لیے اپنے ذمہ داران کے ہمراہ مسجد کی طرف نکلے۔ راستے میں محو گفتگو تھے کہ ہم نے کسی اہم شخصیت سے انٹرویو کے لئے ٹائم نہیں لیا نہ جانے ان کی مصروفیات کی وجہ سے ہماری ملاقات ہو بھی سکے گی یا نہیں، تاہم شیخ صاحب پر امید تھے انہوں نے تسلی دی کہ ہر لحاظ سے ان شا ء اللہ بہتر ہوگا۔مغرب کی نماز کی ادائیگی میں بڑا روح پرور منظر تھا۔موذن کی اذان اور امام صاحب کی قرأت نے ایک روح پرور سماں باندھ دیا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہم باہر نکلے اور مسجد کے صدر دروازہ کے سامنے رک گئے اتنی دیر میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب مسجد سے باہر تشریف لائے اور براہ راست ہمارے پاس آ گئے، سلام دعا کے بعد شیخ صاحب نے اپنے تمام ساتھیوں کا تعارف کروایا اور منصورہ آنے کی وجہ بتائی۔ سراج الحق صاحب کے چہرے کی وہ مسکراہٹ قابل دید تھی جب انہیں تعارف کراتے کراتے یہ پتہ چلا کہ یہ ساتھی مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے دونوں خطے سے ایک خاص موضوع پر گفتگو کے سلسلے میں آئے ہیں۔انہوں نے بے ساختہ فرمایا کہ ”میرے پرسنل سیکرٹری سمیع الحق شیر پاو کو مطلع کریں، وہ اس نشست کیلئے باقاعدہ انتظام کرینگے۔ اس کاز کے لیے میں ہر وقت حاضر ہوں۔”

سراج الحق صاحب ہم سے رخصت ہوئے توکچھ ہی لمحوں میں سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم صاحب نمودار ہوئے۔ انہوں نے مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں شیخ صاحب کو آواز دی کہ شیخ صاحب۔۔۔ آپ آہی گئے۔ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ جناب ہم آگئے ہیں،اب آپ تعاون فرمائیں۔ امیرالعظیم صاحب شیخ صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے دفتر جماعت کی جانب چل پڑے اور ہم ان دونوں کے ہمراہ سمیع الحق شیر پاو صاحب کے کمرے میں جا پہنچے۔ وہاں امیر العظیم صاحب نے انہیں امیر جماعت کے ساتھ انٹرویو کا وقت مقرر کرنے اور ہر ممکنہ تعاون کرنے کا حکم دیا۔اس کے بعد وہ ہم سے رخصت ہوئے اور مسلسل رابط رکھنے کی تاکید فرمائی۔ دوسری طرف ہمارے میزبان محترم میاں شفیق صاحب ہمارے منتظر تھے چنانچہ ہم سیدھے انہی کی طرف گئے۔ اپنے ہاتھوں سے تیار کئے سادہ لیکن لذیذ کھانوں سے انہوں نے ہماری خوب پر تکلف تواضع فرمائی۔ عشاء کی نماز کے بعد ہم نے آرام کا فیصلہ کیا۔ایک تو سفر کی تھکاوٹ بھی تھی اور اگلے دن ہمیں کافی کام بھی کرنا تھا۔

شیخ صاحب کو شیر پاو صاحب کی رات کو کال آ ئی کہ آپ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب کا انٹرویو کل صبح ساڑھے دس بجے لے سکتے ہیں۔اگلے دن 5 جنوری 2023 کو صبح فجر کی نماز جامع مسجد منصورہ میں ادا کی۔ناشتے سے فارغ ہو کر ہم سارے لوگ شیخ صاحب کے ہمراہ ضروری ساز و سامان کے ساتھ امیر جماعت کے دفتر پہنچے۔

لائٹنگ اور کیمرہ سیٹنگ کے بعد امیر جماعت کمرے میں داخل ہوئے۔ اس سے پہلے کئی بار امیر جماعت سے ملاقات ہوئی البتہ یہ ملاقات طویل تھی۔ کم از کم ایک گھنٹے پر مشتمل یہ نشست منفرد نوعیت کی تھی اور انتہائی اہم بھی۔ ہم سب خوش تھے کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم ایسی تحریک سے وابستہ ہیں جس کا امیر اپنے کارکنوں کے سروں پر نہیں بلکہ دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔

بہرحال انٹرویو شروع ہوا۔ چیف ایڈیٹر کشمیر الیوم شیخ محمد امین امیر جماعت اسلامی کا انٹرویو لینے میں مگن ہوگئے اور میں، ڈاکٹر بلال اور طفیل صاحب نے کیمروں پر فوکس کیا۔ شیخ صاحب نے پہلے مرد لا زوال امام گیلانی صاحب کی ڈاکیومینٹری کے لئے چند سوالات پوچھے۔اس کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کا آغاز ہوا۔ واضح رہے کہ امام سید علی گیلانی صاحب کے حوالے سے ڈاکومینٹری کاحصہ اول پچھلے سال ریلیز ہو چکا تھا اور اب حصہ دوئم کی تکمیل جاری ہے۔

امیر جماعت نے شاندار الفاظ میں امام سید علی گیلانی کو خراج عقیدت پیش کیا اور گیلانی صاحب کی زندگی کے متعلق سیرحاصل گفتگو کی۔تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور جماعت کے کردار پر شیخ صاحب نے کچھ ذرا سوالات تلخ بھی کئے لیکن امیر محترم نے بہت ہی خندہ پیشانی سے جوابات دئیے اور یہ واضح کیا کہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ کوئی کھڑا ہو یا نہ ہو ہم آخری دم تک اس تحریک کی کا میابی کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ انٹرویو سے ہٹ کر بھی امیر جماعت سے طویل نشست ہوئی،انٹرویو مکمل کرنے کے بعد ہم امیر جماعت کے دفتر سے نکلے تو مین دروازے پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب لیاقت بلوچ صاحب سے ملاقات ہوگئی انہوں نے صرف اتنی بات سنی کہ مہمان کشمیر سے ہیں اور بات سید گیلانی ؒ کے حوالے سے کرنا چاہتے ہیں تو ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر حامی بھر لی اور اپنے متعلقہ افراد کو فورا اپنے آفس میں انتظامات کرنے کا حکم دیا۔حالانکہ ان کی صدارت میں اس وقت ایک میٹنگ بھی ہونے والی تھی اور میٹنگ کے شرکاء انتظار بھی کر رہے تھے۔ بہرحال امام سید علی گیلانی کے حوالے سے انہوں نے پر مغز گفتگو فرمائی۔ گفتگو کے اختتام پر چیف ایڈیٹر کشمیر الیوم نے لیاقت صاحب کو تجویز دی کہ امام سید علی گیلانی کے نام پر کوئی انسٹیٹیوٹ، لائبریری،یا کوئی ادارہ جماعت کے اہتمام سے ہونا چائیے جس پر لیاقت بلوچ صاحب نے شیخ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ واقعی ایسا ہونا چائیے۔اس طرف توجہ کبھی مبذول نہیں ہوئی۔بہر حال جلد ہی ان شا ء اللہ کوئی ادارہ امام سید علی گیلانی ؒکے نام سے منسوب کیا جائیگا۔

لیاقت بلوچ صاحب کے انٹرویو کے بعد ہم ذاتی کام کے لیے باہر نکلے۔اور پھر مغرب کی نماز کے لیے منصورہ واپس آئے۔مغرب نماز کی ادائیگی کے بعد ہم نے شعبہ تنظیم جماعت اسلامی کے دفتر جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں کے کئی دوستوں کے ساتھ ہمارا رابطہ کرایا گیا تھا ابھی شعبہ تنظیم کے دفتر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک سفید ریش انسان پر نظر پڑی جو چادر اوڑھے ہوئے تھے غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہ محترم حافظ محمد ادریس صاحب ہیں۔ انتہائی ملنسار انسان،کہنے لگے کہ میں ابھی ملتان سے پہنچا ہوں اور گھر بھی نہیں گیا۔ہم نے اپنی بات اور آمد کی وجہ عرض کی تو فرمایا ضرور۔ ان شاء اللہ کل صبح گیارہ بجے ہماری ملاقات ادارہ معارف اسلامی میں ہوگی۔ان سے رخصت ہو کر ہم پھر اپنے میزبان محترم شفیق صاحب کے پاس پہنچ گئے جو ہمارا انتظار فرما رہے تھے۔ دوسرے دن اپنے وقت پر ہم محترم حافظ محمد ادریس صاحب کے دفتر ادارہ معارف اسلامی پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر میں حافظ محمد ادریس صاحب بھی وہاں تشریف لے آئے۔ اس درویش صفت انسان کے چہرے پر ایسی حسین مسکراہٹ تھی دل کرتا تھا کہ دیکھتا ہی رہوں جب شیخ صاحب نے ان کاانٹرویو لیناشروع کیا تو میرا تمام تر فوکس حافظ محمد ادریس صاحب کے چہرے کی طرف رہا۔ بار بار ذہن میں خیال آتا تھا کہ اللہ تعالی نے اس تحریک میں کیسے کیسے ہیرے رکھے ہوئے ہیں،جو اعلائے کلمۃ اللہ اور مخلوق خدا کی فلاح میں ہمہ تن مصروف ہیں، انٹرویو کے دوران شیخ صاحب مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے سوال کرتے رہے ہم پر اس دوران یہ احساس غالب رہا کہ جیسے یہ حافظ ادریس صاحب سے نہیں بلکہ گفتگو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی سے ہو رہی ہے۔

انٹرویوکے اختتام پر حافظ صاحب نے ہم تمام ساتھیوں کو اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ دو دو کتابیں تحفے میں دیں۔تحفے میں دی جانے والی کتابوں میں ”دختر کشمیر” اور” سربکف،سربلند” شامل تھیں یاد رہے کہ حافظ محمد ادریس صاحب متعدد کتب کے مصنف ہیں اور ایک مستند عالم دین ہیں۔ آپ سے الوداع ہو کر ہم واپس شعبہ تنظیم میں آگئے جہاں ہمیں جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی پاکستان محترم امیرالعظیم صاحب کا انٹرویو لینا تھا ان کے انٹرویو کے لیے ہمیں کچھ وقت انتظار کرنا پڑا، کیونکہ ان کی کوئی میٹنگ جاری تھی۔میٹنگ ختم ہوتے ہی امیر العظیم صاحب کا انٹرویو شروع ہوگیا ۔امام سید علی گیلانی کے حوالے سے شیخ صاحب اور امیرالعظیم صاحب کے درمیان سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ہر انٹرویو میں ایک بات گویا قدر مشترک تھی کہ جب امام سید علی گیلانی کا نام آتا تو انٹرویو دینے والے کا سینہ چوڑا ہو جاتا اور وہ پھر بھرپور انداز میں امام سید علی گیلانی کو خراج تحسین پیش کرتا۔گیلانی صاحب کا نام آتے ہی ایک جوش اور ولولہ پایا جاتا، اسی دوران نماز جمعہ کا وقت ہوگیا اور ہم نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے منصورہ مسجد چلے گئے۔خطبہ جمعہ حافظ محمد ادریس صاحب نے ارشاد فرمایا۔حافظ صاحب نے خطبہ جمعہ میں بھی ہماری میڈیا ٹیم کا ذکر کیا کہ میرے پاس کشمیر سے کچھ مہمان آئے ہیں انہوں نے گیلانی صاحب کے حوالے سے اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنے خطاب میں بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا اور اللہ تعالی کی تائید و نصرت ضرور آئے گی،نماز جمعہ کے بعد شیخ صاحب نے کہا کہ آج ہم لوگ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی مرقد پر انوار پر حاضری دیں گے۔ اس مقصد کے لیے ہم تمام ساتھی اچھرہ پہنچے جہاں اس عظیم تحریک کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر ہے۔ پہلے ہم نے نماز عصر اچھرہ کی جامع مسجد میں ادا کی۔ وہاں جمعیت طلبہ عربیہ کے امین عام سے ملاقات بھی ہوئی اور ساتھ ہی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلی اور ناظم اسلامی جمعیت طلبہ خیبرپختونخواہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر حاضری ہوئی۔وہاں پر رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔عقیدت و محبت اس قدر کہ شیخ امین صاحب کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ محبت۔۔ رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہو تو بے مثال ہوتی ہے۔

وہاں سے واپس منصورہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر ایک بار پھر محترم شفیق صاحب کے پاس پہنچ گئے انہوں نے ہماری بھرپور تواضع فرمائی۔ شیخ صاحب کا حکم تھا ہمیں مولانا صلاح الدین حنیف صاحب کا بھی انٹرویو کرنا ہے انتہائی ملنسار شخصیت ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ انتہائی شائستہ گفتگو کے مالک ہیں اور دارالاخواہ کے انچارج ہیں۔،معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے آفس میں موجود نہیں ہیں۔

فیصلہ کیا گیا کہ اب واپسی کا سفر ہوگا اور ہم اگلی صبح نکلتے وقت ان کی گفتگو ریکارڈ کریں گے۔ صبح نکلنے سے پہلے ان کے آفس میں گئے تو پتہ چلا کہ ابھی وہ کسی کام کے سلسلے میں باہر ہیں۔ہم باہر نکلے اپنی گاڑی میں سامان رکھنے لگے تو اچانک عبدالاکبر چترالی صاحب پر نظر پڑی جو دارلاخواہ سے نکل رہے تھے۔ شیخ صاحب نے چترالی صاحب سے سلام دعا کی۔ تعارف ہوا اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو انہوں نے بات چیت کرنے کے لیے حامی بھر لی۔ کیمرہ لگادیا گیا اور چترالی صاحب نے بھی بھرپور الفاظ میں گیلانی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا اور ساتھ ہی یہ عہد دہرایا کہ کشمیر کی آزادی تک ہم کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ رہیں گے۔

ان کے انٹرویو کے بعد ہم ریکارڈنگ کا سامان لپیٹ رہے تھے کہ اچانک وہ ہنستا مسکراتا چہرہ نمودار ہوا جن کو نہ ملنے کی وجہ سے ہم بوجھل قدموں سے منصورہ سے نکل رہے تھے۔مولانا صلاح الدین حنیف صاحب۔۔۔۔ جی ہاں مرد مجاھد مولانا حنیف صاحب۔ انہوں نے امام سید علی گیلانی اور تحریک آزادی کے حوالے سے جاندار اور شاندار گفتگو فرمائی۔اس کے بعد ہم نے ان سے اجازت لی اور منصورہ کو الوداع کہتے ہوئے اردو بازار کی طرف روانہ ہوئے،جہاں ہمیں ادارہ ترجمان القرآن کے دفتر جانا تھا،جہاں پر ہماری آخری ملاقات مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند خالد فاروق مودودی صاحب سے طے تھی۔ خالد فاروق مودودی صاحب اور شیخ صاحب کے درمیان کم از کم تیس منٹ گفتگو جاری رہی۔ خالد مودودی صاحب کا کہنا تھا کہ گیلانی صاحب آخری سانس تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔سید مودودیؒ کے روحانی فرزند تھے۔میں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں گیلانی صاحب کشمیری نوجوانوں سے عہد لے رہے ہیں کہ آپ لوگ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تفہیم القرآن ضرور پڑھیں گے۔

اس دورے کا یہ آخری انٹرویو تھا اس کے بعد ہم واپس اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم لوگ جماعت اسلامی کی قیادت یا کارکنان سے بخوبی واقف تھے لیکن کافی وقت کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اس لیے سارا راستہ جماعت کی قیادت اور دعوت کے موضوع بحث ہوتی رہی ان حضرات سے مل کر ہمارے ایمان کو تقویت ملی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایسی تحریک سے جوڑا ہے جو لسانی ،قومی اور مسلکی تعصبات سے بالاتر ہے جس کا امیر آپ کو محلوں میں نہیں بلکہ مسجد کی پہلی صف میں ملے گا۔۔۔میں نے اب تک کی زندگی میں کئی سفر کئے۔کئی طویل اور کئی مختصر۔۔لیکن یہ سفر اب تک میرا بہت ہی یادگار سفر تھا۔الحمد للہ

٭٭٭