ریاست کشمیر اور بیس کیمپ

محمد احسان مہر

ہم پاکستانی نصابی کتب میں جس طرح کشمیر کا تذکرہ پڑ ھتے ہیں۔ اور پھر قومی راہنماء اپنے سیاسی، جلسے، جلوسوںمیں،بہ قدرے ضرورت،”اس کا ذکر کرتے ہیں، اور عوامی سطح پر پزیرائی حاسل کرنے کے لیے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کے طور پر پیش کرکے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیںکشمیری پاکستان کے دفا ع کی جنگ لڑرہے ہیں۔ان خوش نماء دعوئوںکا پس منظراور کشمیر کی جنت نظیر کے مناظرکو حقیقت میں دیکھنے کے لیے ہر پاکستانی کے دل میں ارمان مچلتے ہیں۔ مقبوضہ ریاست کشمیر کا آزاد خطہ جِسے ایک حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن سیاسی عدم استحکام اور غیر ضروری سیاسی مداخلت کی وجہ سے وہ کردار ادا نہیںکر پا رہا جس کی کشمیری قوم اس سے توقع رکھتے ہیں۔ظاہر ہے اس تمام صورتِ حال کے منفی اثرات کا سامنا مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ عمومی طو ر پر پوری ریاست کو اس کا خمیازہ ادا کرنا پڑتا ہے۔جب تک بیس کیمپ سیاسی پختگی اور عسکری عزم کے ساتھ ساتھ کھڑا نہیں ہوتاعالمی سطح پر ریاست کشمیر کا تشخص بحال کرنا ایک چیلنج بنا رہے گا۔

اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری قانونی ، آئینی، سیاسی اور اخلاقی طور پر بیس کیمپ کے کردار میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیںبن سکتی، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں بیس کیمپ کا کردار محدود کر دیا گیا ہے۔تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان منقسم ریاست کشمیر ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔جس کا پُر امن حل نا گزیر ہو چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا پر امن اور پائیدار حل ہی علاقائی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔چند سال قبل دوستوںکے ساتھ بیس کیمپ جانے کا موقع مِلا یہ 1990ء کی دہائی کے شروع کی بات ہے۔اُن دِنوںروزگار کے سلسلے میں لاہور میں سکونت تھی ۔جہاں روزگار کی نوعیت کے مطابق کبھی کبھار رہا ئش بھی تبدیل کرناپڑتی تھی۔۔۔ وہ خوشگوار شام تھی، ہم کچھ دوست کام سے فراغت کے بعد سڑک کنارے ٹہلنے لگے۔۔۔۔ کہ دونوجوان لڑکے ہمارے پاس آکر رُکے ، دونوں نے ہاتھوں میں رسائل اور جرائد اُٹھا رکھے تھے اتنے میں ایک نے مخاطب ہو کر پوچھا ۔۔۔ کیا آپ پڑھ سکتے ہیں ؟ اسی اثناء میں دوسرے لڑکے نے ہماری طرف ایک رسالہ بڑھا دیا، میں نے ٹائیٹل کو بغور دیکھا۔ وہ دینی مدارس کا ترجمان ایک ماہنامہ رسالہ تھا۔۔۔ ”المصباح”میری منہ سے بے اختیار نکلا، وہ لڑکے مسکرائے اوران کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ دونوں نے گرم جوشی سے ہمارے ساتھ مصافحہ کیااور چند اور شمارے دے کر آگے بڑھ گئے۔

سچی بات یہ ہے کہ ان رسائل کے مطالعہ نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس کے بعد میں جب تک لاہور میں رہا”مشکواۃالمصباح”کی سا لانہ خریداری کی ممبر شپ کا حصہ رہا ۔کیا مسافر تھے جو اس رہگذر سے گزرے کے مصداق ۔۔۔ہزاروں کشمیری ریاست کشمیر کی آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے اور دلوں میںشوق شہادت لیے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے رہے۔ جن میں سے کئی خوش نصیب اللہ کی راہ میں شہادت کے بلند رُتبے پر فائز ہوئے اور کئی آج بھی انتظار میںہیں۔ وعا گوء ہے کہ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معیوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔