ستمبر کی سرسراہٹ میں کشمیر کی گمشدہ گونج

مقبوضہ کشمیر میں بہتا خون اقوام متحدہ کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے

بھارتی سامراج کی بربریت نے کشمیر کو دنیا کے نقشے پر المیہ بنا دیا

ستمبر کی خاموش وادی میں کشمیری عزم اور صبر کی عالمی صدا گونج رہی ہے

یاسین ملک اور حریت قائدین کی رہائی بغیر عالمی انصاف نامکمل ہے

پاکستان حکومت کو وقت ہے، بیانات نہیں، مقدمہ کشمیر عالمی عدالت میں پیش کریں

کشمیر کا نوحہ عالمی سطح پر صبر، عزم اور مظلومیت کا زبردست پیغام ہے

ستمبر کی یہ وادی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی اور آزادی کی صدا سناتی ہے

سید عمر اویس گردیزی

مقبوضہ وادیٔ کشمیر کی زمین، جو کبھی قدرت کے سبز گلدستوں اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونجتی تھی، آج بھارتی ظلم و بربریت کی چادر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ہر وادی، ہر پہاڑ، ہر درخت، ہر ندی، اور ہر گھر ایک درد بھری صدا بلند کرتا ہے، ایک نوحہ جو سالہا سال کے خون، خوف اور انتہا پسندی کی گواہی دیتا ہے۔ وہاں کی ہوا، جو کبھی آزادی کی خوشبو لے کر آتی تھی، اب خوف اور ظلم کی بازگشت بن گئی ہے۔ چھتوں کے کچے در و دیوار، خالی بازار، اور خاموش گلیاں سب اس مظلومیت کی صدا ہیں، جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بربریت کے جلوے اجاگر کرتی ہیں۔ یہ مظلوم وادی، جہاں نسلوں نے امن اور محبت میں زندگی بسر کی، آج مسلسل بھارتی فوجی مظالم، گھریلو محاصروں، رات کے اندھیرے میں گھریلو تباہیوں، اور انسانی حقوق کی مسلسل پامالیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ خواتین پر تشدد، نوجوانوں کی گرفتاریاں اور ہر انسان کی زندگی کو خوفزدہ کرنے والی پابندیاں، سب ایک منظم ظلم کی کہانی کا حصہ ہیں۔ ہر آنکھ جو خوف میں لرزتی ہے، ہر دل جو امید سے سرشار رہتا ہے، اور ہر سانس جو صبر اور عزم کے ساتھ جیتا جاتا ہے، یہ سب مظلوم دلوں کی عالمی صدا ہیں جو دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے چیختی ہیں۔ ستمبر کی ٹھنڈی ہوا، جو وادی کے کناروں سے گزرتی ہے، اس ظلم و بربریت کی بازگشت کے ساتھ ہر لمحہ یہ پیغام دیتی ہے: ’’یہ زمین صرف جغرافیہ نہیں، یہ انسانی حق، آزادی اور وقار کی علامت ہے۔ یہ نوحہ ہر نسل، ہر انسان، اور ہر قوم کے لیے ہے جو انصاف، صبر اور آزادی کی قدر جانتی ہے‘‘ ہر گلی، ہر پہاڑی اور ہر ندی اس نوحے کا حصہ ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مظلومیت اور صبر کا امتزاج کبھی ختم نہیں ہوتا، اور ظلم کی طاقت ہمیشہ عزم اور حوصلے کے سامنے کمزور ہے۔

یہ نوحہ صرف کشمیر کی کہانی نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا ایک عالمی فلیش پوائنٹ ہے۔ یہ ہر دل میں ایک للکار پیدا کرتا ہے، ایک صدا بلند کرتا ہے: ’’ہم ظلم کے سامنے جھکیں گے نہیں، ہم اپنے حق کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے، اور ہم آزادی کے لیے ہمیشہ کھڑے رہیں گے!‘‘ ہر لمحہ، ہر سانس، اور ہر چپ ہر انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف جدوجہد صرف مقامی نہیں بلکہ عالمی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ نوحۂ وادیٔ کشمیر آج بھی زندہ ہے، ہر درخت، ہر پتہ، ہر پہاڑ اور ہر ندی میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ نوحہ صرف آواز نہیں بلکہ ایک تاریخی عزم، انسانی حوصلے، اور آزادی کی صدا ہے، جو دنیا کو ہلا دیتی ہے، انسانی دلوں میں ہمدردی جگاتی ہے، اور عالمی انصاف کے لیے ایک غیر متزلزل یاد دہانی بن کر ابھرتی ہے۔ ستمبر کی ہوا میں ایک نہاں سا درد اور خاموشی موجزن ہے، جو کشمیر کی وادیوں کے ہر پتّے، ہر ندی، اور ہر پہاڑی کی چھاؤں میں بسا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس نے تاریخ کے صفحات پر اپنے خون کے نشانات چھوڑے ہیں، قربانیوں اور انسانی حوصلے کے ہر لمحے کی داستان سنائی ہے۔ ستمبر کی ٹھنڈی ہوا اور خزاں کے سنہرے پتے کشمیری مظلومیت اور امید کی ایک عجیب ہم آہنگی کی تمثیل ہیں، اور ہر قارئین کی روح کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ خاموشی کے اس سمندر میں غوطہ زن ہو کر غور کرے۔ یومِ دفاع پاکستان کے دن، جب پورے ملک میں جشن کا سماں ہوتا ہے، مقبوضہ وادی کے دلوں میں ایک درد بھرا سوال رہتا ہے: کیا یہ دن واقعی ہمیں آزادی کی خوشبو دے گا یا یہ محض ایک یاد دہانی ہے کہ ہماری تقدیر کسی اور کے فیصلوں کے محتاج ہے؟ ستمبر کے مہینے کے جمالیاتی رنگ، جو خزاں کی سنہری پتیوں، برف پوش پہاڑوں، اور سنجیدہ ندیاں کی ہم آہنگی سے مکمل ہوتے ہیں، کشمیری درد اور انسانی امید کی عجیب ہم آہنگی کو عیاں کرتے ہیں، اور ہر قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ خاموشی اور غور کے ساتھ مظلوم دلوں کی صدا سنے۔ یہ ہوا، جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان سے گزرتی ہے، کشمیری دکھ اور حوصلے کو ہر گھاٹ، ہر وادی، اور ہر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں تک پہنچاتی ہے۔ ستمبر کا یہ مہینہ صرف موسم کی تبدیلی یا خزاں کے آغاز کا نمائندہ نہیں بلکہ تاریخی اور انسانی اہمیت کا حامل ہے، جو ہر لمحے میں انسان کی جدوجہد، قربانی، اور امید کی علامت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس مہینے میں ہر درخت، ہر پتہ، اور ہر ندی، کشمیری صبر، حوصلہ اور قربانی کی داستان بیان کرتی ہے، اور یہ قاری کو ایک غیر مرئی سفر پر لے جاتی ہے جس میں وہ کشمیری عوام کے ہر درد اور امید کو محسوس کرتا ہے۔ ستمبر کی ہوا اور سنہرے پتے انسانی جذبات، تاریخی حقائق، اور مظلوم کشمیری عوام کے درد کو ایک پیچیدہ مگر ادبی اور تمثیلی رنگ میں پیش کرتے ہیں، جو عام قاری کے لیے سمجھنا مشکل، مگر اثر انگیز اور دل دہلا دینے والا ہے۔ کشمیر کی زمین، جو صدیوں سے مختلف تہذیبوں، حکمرانیوں، اور ثقافتوں کی گواہ رہی ہے، برصغیر کی تقسیم کے بعد ایک غیر معمولی اور پیچیدہ مسئلے کا شکار ہوئی۔ 1947 میں جب دو نئی ریاستیں وجود میں آئیں، کشمیری عوام نے اپنی خود ارادیت کے لیے آواز بلند کی، اپنے وطن کی سرحدوں کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کی، اور اپنی ثقافت، زبان، اور مذہبی آزادی کے لیے جدو جہد کی۔ پاکستان اور بھارت کے موقف نے اس جدوجہد کو عالمی سطح پر پیچیدہ اور حساس بنا دیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، تاریخی معاہدے، اور وعدے کشمیری عوام کی امیدوں اور حوصلے کا محور بنے، مگر حقیقت میں کشمیری دل آج بھی اس حق خودارادیت کے حصول کی راہ میں آنے والے ہر رکاوٹ کی گونج سنتے ہیں۔ کشمیر کی تاریخ، جو شاعری، موسیقی، اور انسانی قربانیوں سے بھری ہوئی ہے، آج بھی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آزادی کی جدوجہد صرف ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی، اخلاقی، اور عالمی امتحان بھی ہے۔ یہاں ہر گلی، ہر مکان، اور ہر پہاڑی یہ سوال کرتی ہے کہ کیا انصاف اور آزادی کا راستہ واقعی ممکن ہے، یا ظلم اور جبر ہمیشہ اس زمین پر چھایا رہے گا؟ برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر کی وادیوں میں شروع ہونے والے واقعات، پالیسیوں کی پیچیدگی، اور سیاسی فیصلوں کی گونج نے کشمیری عوام کے ہر لمحے کو متاثر کیا، اور ہر نسل نے اپنے اندر یہ سوال اٹھایا کہ آیا انسانی حقوق، آزادی، اور امن کبھی ان کی تقدیر کا حصہ بن پائیں گے۔ یہ تاریخی پس منظر، جو ستمبر کے مہینے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے صبر، قربانی، اور حوصلے کی گہرائی کو سمجھے۔ یہ ایک ایسا محور ہے جو نہ صرف انسانی جذبات کو اجاگر کرتا ہے بلکہ قاری کو عالمی اور اخلاقی شعور کی طرف بھی راغب کرتا ہے، تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کشمیری مسئلہ صرف ایک خطہ یا ملک کا نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی حق کا معاملہ ہے۔

1965 میں انجام دیا گیا آپریشن جبرالٹر کشمیری عوام کے دلوں میں آزادی کی روشنی کی ایک کرن لے کر آیا۔ اس آپریشن میں تربیت یافتہ کمانڈوز اور مجاہدین نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہو کر فوجی اور حکومتی ہدفوں کو نشانہ بنایا۔ پلوں کی تباہی، فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملے، اور عوامی شعور کو جگانے کے اقدامات اس آپریشن کا حصہ تھے۔ کشمیری عوام کے دلوں میں یہ عمل ایک امید کی لہر پیدا کرنے والا لمحہ تھا، جو انہیں یہ یقین دلاتا تھا کہ قربانی اور عزم کے بغیر آزادی ممکن نہیں۔ تاہم، عملی مشکلات، محدود وسائل، اور بھارتی فوج کی بھرپور مزاحمت نے اس آپریشن کو مکمل کامیابی سے محروم رکھا۔ اس ناکامی کے باوجود، آپریشن جبرالٹر نے 6 ستمبر 1965 کو ایک عالمی جنگ کے دروازے کھول دیے، جسے آج پاکستان یومِ دفاع کے طور پر یاد کرتا ہے۔ کشمیری عوام کے لیے اس دن کی اہمیت صرف تاریخی نہیں بلکہ ایک علامتی دن ہے، جو انہیں یاد دلاتا ہے کہ قربانی اور جدوجہد آزادی کے بنیادی ستون ہیں۔
پاکستان میں ہر سال 6 ستمبر کو یومِ دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے، مگر مقبوضہ کشمیر کے دلوں میں اس دن کا منظر ایک مختلف اور پیچیدہ رنگ رکھتا ہے۔ کشمیری عوام اس دن کو محض یادگار کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ ایک نشانیِ قربانی، عزم، اور انسانی صبر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ نوجوان، بزرگ، اور خواتین سب مل کر محسوس کرتے ہیں کہ آزادی کی راہ میں قربانی لازمی ہے، اور یہ دن انہیں یاد دلاتا ہے کہ حوصلہ اور صبر کے بغیر امن اور خودمختاری ممکن نہیں۔ یہ دن کشمیری عوام کے لیے ایک روحانی علامت بھی ہے، جو انہیں یاد دلاتی ہے کہ پاکستان کی حمایت کے باوجود حقیقی خودمختاری ان کے اپنے عزم اور قربانی میں پوشیدہ ہے۔ ہر دل، ہر آنکھ، اور ہر آواز اس دن ایک چھپی ہوئی دعا کے ساتھ دھڑکتی ہے کہ ایک دن یہ وادی بھی آزاد ہوگی اور اپنی تقدیر خود لکھ سکے گی۔ یومِ دفاع کا یہ کشمیری زاویہ قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ صرف تاریخی اور سیاسی حقائق پر غور نہ کرے بلکہ انسانی جذبات اور قربانی کی گہرائی کو بھی محسوس کرے۔ کشمیری عوام کی زندگی، روزمرہ کے خوف، ظلم، پابندیوں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے بوجھ تلے دب کر بھی کبھی مدھم نہیں ہوئی۔ ہر دن ان کی جدوجہد کا ایک نیا باب لکھتا ہے، ہر لمحہ ان کے عزم اور حوصلے کا امتحان ہوتا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں، جب ہوا میں خزاں کی خوشبو گھل مل جاتی ہے اور سنہرے پتّے ہر وادی میں بکھر جاتے ہیں، کشمیری دلوں میں امید اور درد کی ایک عجیب ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہی امید ہے جو انہیں صبح کے اجالے میں یہ یقین دلاتی ہے کہ ایک دن یہ وادی آزاد ہوگی، اور ظلم و جبر کے سائے ہمیشہ کے لیے ہٹ جائیں گے۔ یہ امید اور جدوجہد صرف سیاسی یا جغرافیائی معاملہ نہیں بلکہ ایک انسانی حق اور اخلاقی ذمہ داری ہے جو ہر کشمیری دل کے ہر دھڑکن میں موجود ہے۔ بزرگ، نوجوان، خواتین اور بچے سب اس جدوجہد میں حصہ لیتے ہیں، اور ہر دل میں یہ دعا چھپی ہوتی ہے کہ ان کی قربانی، ان کی چیخیں اور ان کا درد دنیا تک پہنچے۔ ہر گلی، ہر پہاڑی اور ہر ندی ان کے احساسات کی گواہ ہے، اور ہر لمحہ یہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ حوصلہ اور صبر کے بغیر آزادی ممکن نہیں۔
ستمبر کا یہ مہینہ کشمیری دکھ اور امید کی عجیب تمثیل ہے، جو قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ خاموشی اور غور کے ساتھ مظلوم دلوں کی صدا سنے اور انسانی ہمدردی کے نئے پیمانے پر سوچے۔ عالمی برادری، جسے انصاف، انسانی حقوق، اور امن کے علمبردار ہونا چاہیے، اکثر کشمیری مسئلے میں خاموش رہتی ہے یا اپنی سیاست کی چالاکیوں میں الجھی رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، یورپی پارلیمنٹ کے بیانات، اور امریکی موقف کشمیری عوام کے لیے ایک تنازعہ زدہ ماحول پیدا کرتے ہیں۔ عالمی میڈیا میں بھارت کی پروپیگنڈا مشینری اور حقیقت کے پردے کشمیری عوام کی صدا کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے حق خودارادیت کو نظرانداز کرنے کی سازشیں چلائی جاتی ہیں۔ یہ خاموشی اور عدم توجہ کشمیری عوام کے درد اور قربانیوں کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد عالمی امن، انسانی حقوق، اور بین الاقوامی قانون کی ایک زندہ عکاسی ہے، اور دنیا کو اس پر غور کرنا ناگزیر ہے۔ ہر لمحہ، ہر دن، اور ہر جدوجہد ان کے لیے ایک پیغام ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری صرف وعدوں کی چیز نہیں بلکہ عملی اقدام کی ضرورت ہے۔

5 اگست 2019 کو بھارت کے ذریعہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، کشمیری عوام کی آزادی کا خواب مزید پیچیدہ اور مشکل ہو گیا۔ پابندیاں، مظالم، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روزمرہ کا حصہ بن گئیں۔ مقبوضہ وادی میں نوجوان، بزرگ، اور خواتین اپنے گھروں، اسکولوں، اور بازاروں میں خوف کے سائے کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، مگر ان کا حوصلہ اور عزم برقرار ہے۔ ستمبر کا مہینہ، جس میں خزاں کی سرسراہٹ اور ٹھنڈی ہوا ہر وادی میں محسوس ہوتی ہے، کشمیری جذبات کی پیچیدگی اور انسانی صبر کو اجاگر کرتا ہے۔ کشمیری عوام کی قربانیاں اور مسلسل جدوجہد عالمی سطح پر ایک مثال ہیں کہ ظلم کے باوجود انسانی حوصلہ اور عزم مر نہیں سکتا۔ ہر دن کی مشکلات اور رکاوٹیں انہیں مزید مضبوط بناتی ہیں، اور ہر لمحہ یہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی کی راہ میں صبر، قربانی اور عزم لازمی ہیں۔ یہ موجودہ حالات نہ صرف کشمیری عوام کے لیے بلکہ دنیا کے ہر انسان کے لیے ایک سبق ہیں کہ انصاف اور آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کبھی رُک نہیں سکتی، اور ہر نسل اپنی کوشش سے تاریخ کے صفحات پر اپنے حق کو ثبت کر سکتی ہے۔ ستمبر کا مہینہ کشمیر کی وادیوں میں ایک منفرد جمالیاتی اور تمثیلی رنگ لے کر آتا ہے۔ خزاں کے سنہرے پتے، ٹھنڈی ہوا، اور پہاڑی سلسلوں کی خاموشی کشمیری مظلومیت، امید اور قربانی کی عجیب ہم آہنگی کی عکاسی کرتی ہے۔ ہر درخت، ہر پتہ، اور ہر ندی کشمیری درد اور عزم کی داستان بیان کرتی ہے، اور یہ منظر قاری کو ایک ایسے سفر پر لے جاتا ہے جہاں وہ انسانی جذبات، تاریخی حقائق، اور اخلاقی ذمہ داری کو محسوس کرتا ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف موسمی تبدیلی کا نمائندہ ہے بلکہ کشمیری جدوجہد کی روحانی اور تمثیلی علامت بھی ہے۔ ہر سرسراہٹ، ہر پتہ، اور ہر خاموش پہاڑی کشمیریوں کے حوصلے، قربانی، اور امید کی داستان بیان کرتی ہے۔ ستمبر کی یہ تمثیلی روشنی قاری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کشمیری عوام کے دکھ، امید اور انسانی جذبات کی گہرائی کو سمجھے، اور یہ محسوس کرے کہ ہر جدوجہد، ہر قربانی، اور ہر لمحہ آزادی کی ایک کرن کے طور پر دنیا کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔
یومِ دفاع پاکستان، آپریشن جبرالٹر، اور مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات سب ایک ایسی کہانی بیان کرتے ہیں جسے دنیا کو سننا اور سمجھنا ناگزیر ہے۔ کشمیری عوام کی زندگی، قربانیاں، اور امیدیں ہر انسانی دل کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ انصاف کے لیے آواز اٹھائے، مظلوم دلوں کی صدا سنے، اور عالمی برادری کے کردار پر غور کرے۔ یہ ستمبر، خزاں کی ہوا، سنہرے پتّے، اور پہاڑی خاموشی کے ساتھ، کشمیری جدوجہد، امید، اور قربانی کی ایک تاریخ ساز تمثیل بناتا ہے۔ کشمیری خون سے رنگین وادی، جو ہزاروں سال سے قدرت کی حسن و جمال کی علامت رہی، آج بہتے خون، کچلے ہوئے خواب اور مظلومیت کے نوحے سے گونج رہی ہے۔ ہر ندی، ہر پہاڑ، اور ہر خاموش گلی ایک ایسا شور بلند کر رہی ہے جو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ یہ صرف ایک خطہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق، انصاف، اور اخلاقی ذمہ داری کا ایک عالمی معیار ہے، جسے نظر انداز کرنا نہایت سنگین انسانی جرم ہے۔ کشمیری بچوں، خواتین، اور بزرگوں کے زخمی جسم، خوفزدہ دل، اور بے سہارا عوام کی چیخیں، ہر جگہ، ہر لمحہ، دنیا کی نظریں اپنی طرف کھینچتی ہیں—اور اب وقت ہے کہ وہ سنیں، سمجھیں، اور عملی اقدام کریں۔

اسی دوران، آزاد کشمیر کے بے ضمیر اور بے حس حکمران، سیاستدان اور بیس کیمپ کے ذمہ دار اب بھی ماضی کی خاموشی میں محض بیانات جاری کر رہے ہیں، لیکن یہ بیانات کشمیری خون کی گونج اور حق کی صدا کے سامنے ناکافی ہیں۔ انہیں جھنجوڑنے کا وقت آ چکا ہے، تاکہ وہ اپنے منصب اور ذمہ داری کا ادراک کریں، حقیقی قیادت کا ثبوت دیں، اور تحریک آزادی کشمیر کی رہنمائی میں اپنا کردار نبھائیں۔ نوجوانوں کے لیے بھی یہ پیغام واضح ہونا چاہیے کہ ان کی اصل ذمہ داری صرف ایک مخصوص دن یا محفل تک محدود نہیں، بلکہ یہ تحریک آزادی کو آگے بڑھانے، ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے، اور حق خودارادیت کے حصول کے لیے مستقل جدوجہد ہے۔ عالمی میڈیا کو بھی اس نوحے پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب خدارا کشمیری وادی کے بہتے خون، عورتوں اور بچوں کے زخمی جسم، اور نوجوانوں کی قربانی پر نظر ڈالیں۔ صرف بیان بازی یا بھارتی پروپیگنڈا پر یقین کرنے سے انصاف نہیں آئے گا۔ دنیا کو حقیقت دیکھنی ہوگی: ہر فوجی چھاپہ، ہر غیر قانونی گرفتاری، ہر محاصرے اور ہر پابندی بھارت کے سامراجی کھیل کا حصہ ہیں، جو نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ
ہے۔ یہ سامراجی کھیل اب عالمی عدالتوں اور اقوام متحدہ کے دائرہ کار میں لانے کا وقت ہے۔ یہ وقت ہے کہ یاسین ملک اور دیگر حریت قائدین کی رہائی کی عملی کوششیں کی جائیں۔ ان کی رہائی صرف ایک سیاسی مطالبہ نہیں، بلکہ کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد کا علامتی اور عملی پہلو ہے۔ اس کے بغیر تحریک آزادی مکمل نہیں ہو سکتی۔ حکومت پاکستان کو بھی جھنجوڑنا ضروری ہے کہ وہ محض بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کشمیر پیش کرے، بھارتی مظالم کے دستاویزی شواہد کے ساتھ، تاکہ عالمی سطح پر کشمیری عوام کے حق خودارادیت اور انسانی حقوق کی بنیاد پر انصاف کی راہ ہموار ہو۔ یہ اختتامیہ صرف ایک صدا نہیں، بلکہ تاریخی اور اخلاقی عزم کی کال ہے۔ یہ وادی کشمیر کی صبر و حوصلے کی عکاسی کرتی ہے، نوجوانوں کے عزم کو مضبوط کرتی ہے، عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑتی ہے
آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری یاد دلاتی ہے، عالمی میڈیا کو حقیقت دکھاتی ہے، اور پاکستان حکومت کو عملی اقدام کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب نوحۂ کشمیر، ظلم کے سامنے عزم، صبر، اور قربانی کی ایک تاریخی صدا کے طور پر بلند ہوتا ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوگی، کبھی دبائی نہیں جا سکتی، اور ہمیشہ حق، انصاف، اور آزادی کی علامت بن کر دنیا کے سامنے گونجتی رہے گی۔ ماہنامہ کشمیر الیوم کیلئے لکھا گیا اس ماہ ستمبر کا میرا کہ مضمون ایک تاریخی، ادبی، اور تمثیلی شاہکار کے طور پر نہ صرف کشمیری عوام کے دکھ اور امید کو اجاگر کرتا ہے بلکہ قارئین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ انسانی جذبات، قربانی، اور اخلاقی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ ستمبر کا یہ مہینہ ہر قاری کے لیے ایک دعوت ہے کہ وہ خاموشی، غور، اور ہمدردی کے ساتھ کشمیری عوام کی صدا سنیں، اور آزادی، انصاف، اور انسانی وقار کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔