محمد شہباز
جی 20 اجلاس میں چین اور دیگر ممالک کا بائیکاٹ مقبوضہ کشمیرکے مظلوم مگر حریت پسند عوام کے ساتھ یکجہتی کیلئے ایک بہادرانہ ا قدام ہے
بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ خطے میں جی 20 اجلاس کا انعقاد اقوام متحدہ کی ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف تھا
سرینگر میں جی 20 اجلاس کا انعقاد ہی بھارت کا دوغلا پن ثابت کرتا ہے۔ یہ مذموم حربہ زمینی حقائق کوتبدیل نہیںکر سکتا
22مئی کو پورے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔بھارتی فوجیوں اور ان کی گاڑیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا
بھارتی مبصرین بھی بول اٹھے کہ کانفرنس میں بھارتی کمانڈوز کی تعیناتی اور چار دائروں پر مشتمل سیکورٹی حصار سے دنیا کو کیا پیغام گیا
مقبوضہ جموں وکشمیر پر اپنے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو دوام بخشنے کی بھارتی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے کیونکہ G20 ممالک کے متعدد سربراہاں اور وفود نے سرینگر میں منعقدہ اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ چین نے متنازعہ علاقے میں اجلاس منعقد کرنے کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر میں G20 اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی پہل کی تھی۔جس سے بھارت کو سفارتی دھچکا پہنچا ہے۔ چین، ترکیہ، سعودی عرب، انڈونیشیا،مصر اورمیکسکو سرینگر میں منعقدہ جی 20 اجلاس سے پہلے دستبردارہوئے۔ سرینگر میں جی 20 اجلاس کا چین اور دیگر ممالک کا بائیکاٹ مقبوضہ جموں و کشمیرکے مظلوم مگر حریت پسند عوام کے ساتھ یکجہتی کیلئے ایک بہادرانہ ا قدام ہے۔ بہت سے ممالک کی طرف سے سرینگر میںG20 اجلاس کے بائیکاٹ کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے غیر قانونی اور ناجائز قبضے کو طول دینے کی ناکام بھارتی سفارتی کوششوں کے طور پر اب دیکھا جا رہا ہے۔برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا ہے کہ G20 فورم کی بھارتی صدارت تنازعات میں گھری ہوئی ہے کیونکہ چین اور دیگر ممالک نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں فورم کی تقریب کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا۔ سرینگر میں جی 20 اجلاس کا انعقاد ہی بھارت کا دوغلا پن ہے اور یہ مذموم حربہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں زمینی حقائق کو بدل نہیں سکتا۔صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (Committee to Protect Journalists) کا بھی عین اجلاس کے موقع پرکہنا تھا کہ ایک جانب جب بھارت نے سرینگر میں جی 20 سربراہی اجلاس کا انعقاد عمل میں،تو دوسری جانب مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی صحافت پر حملے بھی جاری ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں G20 اجلاس سے پہلے ہی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، چھاپوں، تلاشیوں،ڈرون کیمروں کے ذریعے نگرانی اور ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ دو ہزار سے زائد حریت رہنمائوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں بند کیا گیا۔ جی 20 اجلاس سے پہلے ہی پورے مقبوضہ کشمیر باالخصوص سرینگر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کیا گیا تھا۔بھارتی میرین کمانڈوزاور نیشنل سیکورٹی گارڈز کو کئی روز قبل ہی سرینگر میں تعینات کیا گیاتھا۔نہ صرف رہائشی مکانوں بلکہ تجارتی مراکز کی بار بار تلاشی لی جاتی رہی۔لوگوں کو ہراساں و پریشان کیا گیا۔ڈرونزکے ذریعے فضائی نگرانی کی جا تی رہی۔ جبکہ جھیل ڈل کے پانیوں پر بھی پہرے بٹھائے گئے تھے،کشمیری نوجوانوں کی سینکڑوں موٹر سائکلیں ضبط کی گئی تھیں،تعلیمی ادارے بند کرائے گئے تھے۔ہر طرف ہو کا عالم تھا۔سرینگر میںجی 20اجلاس کے انعقاد کے خلاف پہلے دن یعنی 22مئی کو پورے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔جس کے نتیجے میں تمام کاروباری مراکز،بازار،دکانین،تعلیمی ادارے،بینک اور عدالتیں بند جبکہ ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہی۔بھارتی فوجیوں اور ان کی گاڑیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ مقامی لوگوں نے اپنی نقل و حرکت بھی محدود کرکے گھروں کے اندر ہی اپنے آپ کو مقید کیے رکھا تھا۔
آزاد کشمیر اور پوری دنیا میں مقیم کشمیریوںنے بھی یوم سیاہ منایا۔جس کا مقصد عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سنگین صورتحال کی جانب مبذول کرانا تھی۔دکانداروں بالخصوص لال چوک، ریذیڈنسی روڈ، بڈشا ہ چوک، مائسمہ اورسرینگرکے دیگر علاقوں کے دکانداروں کو بھارتی فوجیوں اور پولیس نے اپنے کیمپوں اور تھانوں میں طلب کرکے22مئی کو اپنی دکانیں کھولنے کی ہدایت کی تھی۔ حکم کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں انہیں سنگین نتائج سے خبردار کیا گیا تھا۔ تاہم دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کشمیری تاجر برادری نے 22مئی کو اپنی دکانیں بند رکھیں تاکہ متنازعہ خطے میں گروپ 20 اجلاس کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا جا سکتا تھا۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں G20 اجلاس کے انعقاد کا مقصد محض پروپیگنڈہ پھیلانا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش تھی، کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ خطے میں G20 اجلاس کے ذریعے اپنے معمول کے جھوٹے اور بے بنیاد دعوئوں کو تقویت دینا چاہتی تھی،جس کی تصدیق اقوام متحدہ کے اقلیتی امور کے خصوصی نمائندہFernand de Varennes نے بھی اپنے ایک غیر معمولی بیان میں کی ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں گروپ 20 اجلاس کے انعقاد کے بھارتی اقدام کا بنیادی مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارتی قبضے کو جائز ٹھراناہے۔ بھارت نے سرینگرمیں G20 اجلاس کا انعقاد کرکے کشمیری عوام کی لازوال جدوجہد آزادی کے بارے میں حقیقت کو مسخ اور5 اگست 2019 میں اپنے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو قانونی حیثیت دینا چاہتا تھا۔جس میں بھارت نہ صرف مکمل طور پر ناکام بلکہ اس سے عالمی سطح پر رسوائی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارت اس طر ح کے تماشوں سے کشمیری عوام کی آزادی کی آواز کو نہ پہلے دبا سکا اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔کیونکہ گزشتہ 76 برسوں سے اہل کشمیر نہ جانے خون کے کتنے دریا عبور کرچکے ہیں اور سوا پانچ لاکھ جانیں قربانیں کشمیری عوام کا وہ سرمایہ ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے۔بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ خطے میں جی 20 اجلاس کا انعقاد اقوام متحدہ کی ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف تھا۔G20 ممالک کو چاہیے کہ وہ بھارت سے تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر مجبور کریں۔ طاقتور G20 ممالک کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے غیر قانونی اور غاصبانہ قبضے کو دوام بخشنے کے لیے بھارت کے مذموم اقدام پر سخت اعتراض کرنا چاہیے،تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔ کشمیری عوام نے مودی کو سرینگر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد کے نام پر جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

بھارت جودنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی کرتا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کے حقوق غصب کر رہا ہے تو دنیا کس طرح خاموش تماشائی بن سکتی ہے؟ بھارت کیسے یہ دعوی کر سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں حالات معمول پر آ گئے ہیں جب سرینگر کو G20 اجلاس کے انعقادکیلئے ایک فوجی قلعے میں تبدیل کیا گیا تھا۔سخت سیکورٹی پر بھارتی مبصرین بھی بول اٹھے کہ سیاحت کے فروغ کیلئے ہونے والی کانفرنس میں بھارتی کمانڈوز کی تعیناتی اور چار دائروں پر مشتمل سیکورٹی حصار سے دنیا کو کیا پیغام گیا۔جی 20کے مندوبین کے سری نگر پہنچتے ہی ان کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی، بھارتی حکومت نے سیکورٹی خدشات کے باعث مندوبین کاسرینگر سے51 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع مشہور صحت افزا مقام گلمرگ کا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ پہلے شیڈول کے مطابق مندوبین 24مئی کا پورا دن صحت افزا مقام گلمرگ میں گزارنے والے تھے،مگر ایک بھارتی ٹی وی نے خبردی کہ گلمرگ میں مندوبین پر حملہ ہو سکتا تھا۔ دنیا کی بیس عالمی معاشی طاقتوں کے گروپ جی20 کا سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا تین روزہ اجلاس22 مئی کوسری نگر میں شروع ہوکر 24 مئی کو اختتام پذیر ہوا۔ جی بیس کے مندوبین نئی دہلی سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سری نگر پہنچے تھے تاہم ان میں جی بیس کا کوئی سربراہ شامل نہیں تھا۔ جی 20تنظیم کے رکن ممالک میں بھارت، امریکہ، چین، برطانیہ، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، ارجنٹائن، برازیل انڈونیشیا،میکسیکو، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور ترکیہ سمیت یورپی یونین شامل ہے۔جبکہ مصر کو مبصر کا درجہ حاصل ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جس فورم کی تشکیل کا مقصد عالمی اقتصادی مسائل تھا لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے ا س کی میزبانی متنازعہ خطے میں کی جا رہی تھی۔ بھارت نے G-20 کی صدارت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔بلاول بھٹو زرداری 22 مئی کو احتجاج میں شرکت کیلئے آزاد کشمیر آئے تھے۔انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جی20 کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کر رہا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ہے، یہ ہماری چوائس نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداوں اور کشمیر ی عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم بھارت سمیت تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تاہم اچھے تعلقات متنازعہ اقدامات سے قائم نہیں ہوسکتے ہیں، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے حل سے وابستہ ہے۔بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے، شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں شرکت کے دوران بھی بھارت پر زور دیا گیاکہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میںحالات 5اگست 2019 سے پہلے کی طرح بحال کرے تاکہ آگے بڑھا جائے۔خود بھارت نواز پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی بھی جی 20 اجلاس کے نام پر کشمیری عوام کو یرغمال بنائے جانے پر پھٹ پڑیں اور بھارتی شہر بنگلورو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو سچ بتائوں، اگر آپ آج جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ جگہ جس کو آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا گیا تھا، اب گوانتاناموبے جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ گھروں پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ تین، چار، پانچ سطحوں کی سیکیورٹی ہے، گھروں میں سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جی 20 اجلاس سے بی جے پی کی تشہیرتو ہو سکتی ہے، لیکن جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن یعنی سارک کے اجلاس سے خطے کے مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں جی 20اجلاس کی چین کی مخالفت پر محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ آئین کی دفعہ370کو منسوخ کرنے کا نتیجہ ہے۔اب تنازعہ کشمیر پرچین بھی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔بی جے پی کہتی ہے کہ دفعہ 370کی منسوخی سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اب چین بھی یہاں قدم جما رہا ہے۔ وہ تنازعہ کشمیر کی بات کر رہاہے جس پر پہلے صرف پاکستان بات کرتا تھا۔ چین کو مسئلے میں لانے کا سہرا بی جے پی کو جاتا ہے۔دنیا کب تک مسئلہ کشمیر کی حساسیت پر اپنی آنکھیں بند کیے رکھ سکتی ہے۔ایک طرف دنیا کے بڑے ٹھیکیدار عالمی برادری کو ایٹمی تباہی سے بچانے کیلئے ایک پرامن دنیا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ ابھی حال ہی میں جاپان میں منعقدہ جی 7 سربراہی اجلاس میں کیا گیا ہے مگر دوسری جانب ایٹمی جنگ کا باعث بننے والے تنازعات مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر انہی ممالک نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں،جو ان کے دوہرے معیار کی بھرپور عکاسی ہے۔اگر واقعی دنیا کو جنگ وجدل اور تباہی سے بچانا ہے تو ان دونوں تنازعات کو اولین فرصت میں حل کرنا پڑے گا۔اس کے سوا دنیا کے ٹھیکیداروںکے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔بھارت کو سرینگر میں جی 20 اجلاس کی ناکامی کے حوالے سے جہاں عالمی سطح پرہزیمت کا سامنا ہے وہیں بھارتی ایجنسیاں عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی کشمیر کے خلاف اپنی مذموم سازشوں اور حربوں سے باز آنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔15مئی کو جموں میں تین افراد کی گرفتاری عمل میں لاکر انہیں میر واعظ مولوی محمد فاروق کے قتل میں ملوث ٹھہراکران کی وابستگی لاکھوں شہدا کی وارث حزب المجاہدین کے ساتھ جوڑنے کی ناکام اور نامراد کوشش کی گئی،جس کا اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں ہوسکتا کہ کشمیری عوام کی اجتماعیت اور اتحاد کو ایک ایسے موقع پر پارہ پارہ اور اس میں رخنہ ڈالا جائے جب 5اگست2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد مودی اور اس کے حواری اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کو ختم اور اہل کشمیر کو ہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کے اعلانات کرتے نہیں تھکتے،مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ بھارت خود اپنے ہی پھیلائے گئے جال میں بری طرح پھنس چکا ہے۔جہاں عوامی مجلس عمل جس کے مولوی محمد فاروق ؒبانی سربراہ تھے نے بھارتی ایجنسیوں کے ان دعوئوں کو بے بنیاد بلکہ تحریک آزادی کشمیر کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے وہیں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین احمد نے اپنے بیانات میں میر واعظ مولوی محمد فاروق اور خواجہ عبدالغنی لون کو ان کی برسیوں پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دونوں رہنمائوں کی دور اندیشی اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کو قدم قدم پرناکام بنانے پر انہیں سراہا بھی ہے کہ یہ مذکورہ دونوں رہنماوں کی حکمت و تدبر ہی تھا کہ جس نے بھارت کو نہ صرف بار بار زچ کیا بلکہ تحریک آزادی کشمیر کو بڑے بحرانوں سے نکالنے میں اپنا بھرپور کرادار بھی ادا کیا۔اب بھارت اور اس کی بدنام زمانہ ایجنسیاں پھرا یک بار تحریک آزاد ی کشمیر اور کشمیری عوام کو انتشار و افتراق کا شکار بنانے کی مذموم کوششیں کررہی ہیں،جن کا بروقت تدارک کرنا ناگزیر ہے۔ورنہ مقدس خون سے سینچی تحریک آزادی کشمیر کسی حادثے کا شکار بھی ہوسکتی ہے۔حزب المجاہدین ایسے بیہودہ اور مذموم الزامات کو پہلے بھی مسترد کرچکی ہے اور آج بھی بلاکسی خوف و تردیدیہ بات ڈنکے کی چوٹ پرکہتی ہے کہ گھڑے مردے اکھاڑنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تحریک آزادی کشمیر میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والی حزب المجاہدین کو بدنام، اس کی شبیہ کو نقصان اور اہل کشمیر کو اس سے بدظن کرنا ہے۔الحمد للہ قوم اس طریقہ واردات کو پہلے بھی سمجھ چکی ہے اور آج بھی سمجھ رہی ہے ۔ ہاں!!! مودی اور اس کے حواریوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انہیں پہلے بھی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور آئندہ بھی رسوائی ہی ان کا مقدر ہے کیونکہ سرزمین کشمیر کا ایک ایک فرد بھارت کے
غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے حزب المجاہدین کے کردار سے بخوبی آگاہ ہے ۔حزب المجاہدین پر ایسے الزامات لگانا آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے جو تھوکنے والے کے اپنے ہی منہ پر آکر گرتی ہیں۔