اویس بلال
دعوتی میدانوں سے لیکر جہاد کے لہو رنگ محاذوں تک جب علوم نبوت کے وارثین کی عزیمت،جرات اور بہادری کا تذکرہ چھڑے گا ایک نام جس کے بغیر مقبوضہ جموں و کشمیر کی یہ خونچکاں داستان تشنہ رہے گی وہ ہے سعد اللہ تانترے کا نام۔سعداللہ تانترے صاحب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رح کی تحریک کے وہ گل سرسبد تھے جنہوں نے اپنا اہلد وعیال لٹا کر آنیوالوں کے لئے مشعلِ راہ بن گئے۔ آپ نے اپنی اور اپنی نسلوں کی قربانی کے ذریعے مسلمانوں کی پستی سے نکلنے اور رفعتوں کی طرف سفر کے لئے بہترین عملی حل پیش کیا۔آپ سمجھتے تھے کہ مسلمان ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لے کر راہ جہاد پر نکلیں تو انہیں اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار پانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے کے سابق کنوینیر غلام محمد صفی کہتے ہیں۔
سابق امیر جماعت اسلامی صوبہ جموں کے سعد اللہ تانترے صاحب جموں وکشمیر کی آزادی کی تحریک اور اسلامی تحریک میں ایک بہت بڑا نام رہا ہے انہوں نے اپنی پوری زندگی مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانے میں صرف کیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جب آزادی کی تحریک کے حوالے سے لوگ سرگرم سفر ہوئے تو سعد اللہ تانترے صاحب بھی نہ صرف اس کارواں میں شامل تھے بلکہ کارواں کی قیادت بھی کرتے رہے اس سے قبل بھی جس وقت الیکشن کے ذریعے بھارت نے اور ان کے کٹھ پُتلی حکمرانوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے تسلط کو دوام بخشنے کے لئے اندرا عبداللہ ایکارڈ کو جوازیت فراہم کرنے کے لئے گاندربل اور دیوسر میں انتخابات کروائے اور شیخ محمد عبداللہ اور مرزا محمد افضل بیگ کو as candidate کو میدان میں اتار لائے۔اس موقع پہ جموں ریجن کے ضلع ڈوڈہ فرقان آباد سے سعداللہ تانترے صاحب کی ذمہ داری لگی کہ وہ سرینگر میں کام کریں اور محمد اشرف خان صحرائی جو اس وقت شیخ محمد عبداللہ کے مقابلے میں ایک امیدوار candidate کے طور پر جماعت اسلامی کی طرف سے میدان میں تھے ان کی الیکشن مہم چلانے کے لئے انہوں نے دن رات ایک کیا اور گاندربل کے اس حلقہ انتخاب میں نیشنل کانفرنس کے غنڈوں نے جو ظلم و زیادتی کا رویہ اختیار کیا،اس کے نتیجے میں سعد اللہ تانترے صاحب کی ایک آنکھ بھی شہید ہو گئی یہ وہ وقت تھا جب بندوق کے مقابلے میں صندوق جماعت اسلامی کی ترجیح تھی اور اس جدوجہد میں بھی جماعت کے افراد سختیاں برداشت کرتے رہے آنکھوں کی قربانیاں دیتے رہے جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے اور جب بندوق کا دور آیا،حق خود ارادیت کا غلغلہ گلیوں بازاروں چوکوں چوراہوں میں سنائی دینے لگا تو اس وقت بھی سعد اللہ تانترے صاحب مرد میدان کی حیثیت سے موجود تھے،نہ صرف وہ خود بلکہ ان کا بیٹا سہیل فرقانی وہ بھی میدان کار زار میں موجود تھا اور ان باپ بیٹوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے تحریک اسلامی کے لئے جو کچھ ان سے بن سکا بن پایا۔جو جدوجہد انہوں نے کی مئی2007 ء میں سعد اللہ تانترے صاحب اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے اور ان کے بیٹے کی شہادت کو بھی جو وہ بھارتی فوج کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان جاں آفریں کے حوالے کر گئے۔


ان کے قریبی عزیز اسلامی تحریک طلبہ کے ناظم مجاہد کمانڈر شبیر احمد فرقانی اپنے قائد کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیںــ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پید
ڈوڈہ جو کہ مقبوضہ جموں کا ایک بہت ہی خوبصورت ضلع ہے
1947 میں جب دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان دو الگ الگ ملک کی حیثیت سے معرض وجو میں آئے تو ہندوستان کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی مرضی کے خلاف 27 اکتوبر 1947 کو اپنی افواج کو کشمیر میں اتار کر ناجائز قبضہ کر لیا۔ جموں وکشمیر کے لوگوں نے روز اول ہی سے اس قبضے کے خلاف بھر پور تحریک شروع کی۔اس تحریک میں ضلع ڈوڈہ کے چند لوگوں کا بڑا اہم کردار رہا۔ ضلع ڈوڈہ جو کہ خوبصورت وادیوں، گھنے جنگلوں۔ بہتے چشموں اور سر سبز میدانوں کا مسکن ہے ۔ 1947ء سے قبل بھی یہاں مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے ہندوستانی افواج نے اپنے قبضے کے بعد بھی یہ مظالم نہ صرف جاری رکھے بلکہ مذہبی آزادی بھی چھین لی۔ اسلام اور آزادی کے نام لینے والوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔اس دور میں جب کہ ہر طرف ظلم وزیادتی کی ایسی داستانیں رقم کی جا رہی تھی اللہ کے نیک بندے اسلام کا پرچم تھامے آگے بڑھتے گئے نور اسلام کو ہر گلی ہر گھر اور ہر فرد تک پہچانے کیلئے غاصب حکمرانوں کا ہر ظلم سہتے گئے اسلام کے اس دئیے کو بجھنے نہ دیا بلکہ اپنا خون دے کر اس کو روشن رکھا۔ ان ہی برگزیدہ ہستیوں میں سر فہرست ہم سب کے محسن محترم سعداللہ تانترے کا نام آتا ہے۔

سعداللہ تانترے صوبہ جموں کے ضلع ڈوڈہ کے گاؤں گھٹ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے اسلام کی طرف رغبت رہے دوران تعلیم وہ تبلیغ اسلام کے کاموں میں پیش پیش رہے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے انھوں نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا اس دوران ان کو بے حد مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑا مگر ان تمام آزمائشوں کے باوجود نہ تو ان کے قدم کبھی ڈگمگائے اور نہ ہی ان کے ارادوں میں کوئی کمی آئی لوگ جو کہ دین اور دینی تعلیمات سے بہت دور تھے محترم سعداللہ تانترے نے گھر گھر اسلام کی روشنی کو پھیلایا۔ صوبہ جموں کے اندر ان کی انتھک محنت اور لگن سے جماعت اسلامی ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی۔ ان کی دن رات کی کوششوں سے لوگوں کے اندر دینی شعور بیدار ہوا دین کی روشنی چاروں طرف پھیلنے لگی۔ تبلیغ اسلام کے دوران سعداللہ تانترے صاحب پر وادی کے اندر جان لیوا حملہ ہوا جس میں ان کی ایک آنکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کے علاؤہ ان کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو ان کی قیادت میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوا، میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں کہ جس نے اپنا بچپن اور جوانی کا کچھ عرصہ ان کی صحبت اور رہنمائی میں گزارا۔ تحریک طلباء جوکہ جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم تھی اس کا ناظم رہا سعداللہ تانترے صاحب کی تربیت نے بیشمار لوگوں کی زندگیوں بدل دی ان ہی کی اجازت سے ہم تحریک آزادی کشمیر کی مسلح جدو جہد میں شامل ہوئے۔ اور جب تک ان کا سایہ میسر رہا ان ہی سے رہنمائی لیتے رہے۔ ان کی قربانیوں کی ایک لمبی داستان ہے وہ کافی عرصہ تک جماعت اسلامی صوبہ جموں کے امیر رہے۔ 1989 میں جب ہندوستان کے خلاف مسلح جدو جہد شروع ہوئی تو ان کے تربیت یافتہ نوجوان اس جہاد میں شاملِ ہوئے اور غاصب افواج کے خلاف لڑتے ہوئے بہادری اور شجاعت کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے۔ ان نوجوانوں میں ان کا نوجوان اور انتہائی ذہین بیٹاتنویر احمد المعروف سہیل فرقانی بھی شامل ہے جو کہ ظالم ہندوستانی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ سعداللہ صاحب نے اس کے بعد بھی تبلیغ اسلام اور تحریک آزادی کشمیر کا کام جاری رکھا یہاں تک کہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے جانے کے بعد ان کا خلاء کبھی پر نہیں ہوااللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے آمین


ایک روشن دماغ تھانہ رہا
شہر میں چراغ تھا نہ رہا
ایک شخص تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
حزب المجاھدین کے امیر متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے سابق امیر جماعت صوبہ جموں سعد اللہ تانترے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ،سعداللہ تانترے کی ساری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔اس مرد مجاہد اور مرد قلندر کی جدائی تحریک اسلامی کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔اس درویش منش انسان کی کس کس ادا کا تذکرہ کریں انہوں نے اپنی پوری زندگی میں جموں و کشمیر کے عوام کو آزادی اور عزتِ نفس کا درس دیا۔جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے صوبہ جموں کے امیر رہے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے مشہور و معروف رہنما سعد اللہ تانترے کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ ہم ان کے مشن کو ہر حال میں زندہ رکھیں انہوں نے حق کی سربلندی اور اپنے وطن عزیز جموں و کشمیر کی ظالم و جابر دہشت گرد بھارتی استعمار سے گلو خلاصی کے لئے اپنی اولاد تک قربان کروائے۔بلا شبہ تحریک اسلامی کے یہ اشخاص قابل رشک اور قابل تقلید ہیں۔
٭٭٭