ڈاکٹر زاہد غنی ڈار کنوینئر جموں و کشمیر فریڈم موؤمنٹ
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت کا آغاز ہوچکا تھا۔مسئلہ جموں و کشمیر کے ممکنہ حل کے حوالے سے بیک ڈور ڈپلومیسی زور پکڑنے لگی تھی۔ مبینہ ”چناب فارمولا،، سمیت بہت سی ایسی تجاویز پیش کی جانے لگی تھیں جن سے ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کی بو آ رہی تھی۔پوری شدومد کیساتھ منظر عام پر لائی جانے والی ان تجاویز نے بلا شبہ پاکستان میں موجود مہاجرین جموں و کشمیر اور 1990ء کے بعد پاکستان میں آئے صوبہ جموں کے اصحاب جن میں عسکری محاذ پر کام کرنے والوں کی بڑی اکثریت تھی،کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا۔اس حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے ایک بیٹھک کا اہتمام کیا گیا جس کی میزبانی کا شرف راقم کو حاصل ہوا۔اس اجلاس میں مقبوضہ صوبہ جموں کے تقریباً ہر ضلع کے سرکردہ نمائندہ افراد،جن کی تعداد 50 سے زائد تھی ‘ شریک ہوئے۔سب اس بات پر متفق تھے کہ ریاست کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی ہر سازش کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے اور اس کیلئے صوبہ جموں کا ایک سیاسی پلیٹ فارم ہونا چاہیے جس کی کل جماعتی حریت کانفرنس میں نمائندگی ہو۔کیونکہ تقسیم ریاست کے فارمولے پر عمل کی صورت میں مسلمانانِ جموں کو 1947ء سے بھی زیادہ خوفناک قتل عام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔


روایتی سیاسی اور مذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر صوبہ جموں کی بھرپور نمائندگی کرنے والے اس پلیٹ فارم کی تشکیل مقبوضہ جموں میں کیونکر ممکن ہوسکتی ہے تو اس پر بالاتفاق سب افراد نے رائے دی کہ اگر جماعت اسلامی صوبہ جموں کے سابق امیر سعد اللہ تانترے صاحب سے اس حوالے سے بات کرکے انہیں آمادہ کیا جائے تو وہ یہ کام بخوبی سر انجام دے سکتے ہیں۔یہ پہلا موقع تھا جب محترم سعد اللہ تانترے کا نام میں نے سنا۔جن چار اصحاب کو تانترے صاحب کیساتھ رابطے کیلئے چنا گیا،ان میں خواجہ محمد حسین خطیب،ڈاکٹر محمد عارف ملکؒ اور ڈاکٹر فیاض احمد کیساتھ میرا نام بھی شامل تھا۔دوسرے دن ہم نے بذریعہ ٹیلیفون محترم سعد اللہ تانترے صاحب سے رابطہ کیا۔میرے لیئے یہ یادگار لمحات تھے جنہیں میں کبھی نہیں بھلا سکتا ہوں۔محترم تانترے صاحب رحمہ اللہ کیساتھ تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی۔ تمام صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کی گئی’جس سے احساس پختہ ہوگیا کہ محترم تانترے صاحب کو تحریک حق خودارادیت اور مسئلہ جموں وکشمیر کے حوالے سے نہ صرف مکمل ادراک ہے بلکہ میں نے انہیں مجسمہ تحریک پایا۔وہ ہمارے خدشات کے حوالے سے ہم سے زیادہ متفکر تھے۔انہوں نے ذاتی طور پر ہم سے مکمل اتفاق کیا اور اپنے اصحاب سے مشورہ لینے کے بعد کوئی حتمی قدم اٹھانے کا عندیہ بھی دے دیا۔ہمارا تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ان سے رابطہ رہا اور وہ بھی پیش قدمی سے ہمیں آگاہی دیتے رہے۔ان کے لہجے میں پختگی اور مقصد سے لگن ہر گفتگو میں جھلکتی تھی۔کچھ ہی دنوں میں انہوں نے ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی حامی بھر لی اور اس پر تندہی سے کام شروع کیا۔ان دنوں ہم سیالکوٹ میں جموں وکشمیر لبریشن موومنٹ کے نام سے کام کررہے تھے۔ہم نے مجوزہ پلیٹ فارم کیلئے بھی یہی نام تجویز کیا۔جس پر اصحاب سے مشورے کے بعد محترم سعد اللہ تانترے صاحب نے کہا کہ” لبریشن ”کے لفظ سے خود مختاری کی بو آتی ہے اس لئے اصحاب کی رائے میں نئے مجوزہ فورم کا نام ”جموں وکشمیر فریڈم موؤمنٹ،،جموں ہونا چاہیے۔

ہم نے بلاچوں چرا صاد کیا۔۔اور یوں بالآخر 14 مئی2004 ء میں جموں شہر میں مجوزہ پلیٹ فارم کا پہلا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا۔جس کے بانی ممبران میں محترم سعد اللہ تانترے صاحب کے علاوہ محمد شریف سرتاج صاحب،محمد اقبال اگو صاحب،مولانا صغیر خان صاحب،محترم عبدالحی خطیب صاحب جیسے سرکردہ رہنماؤں کے علاوہ سکھ اور دلتوں کے نمائندے بھی شامل تھے۔راقم کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں محترم سعد اللہ تانترے صاحب نے اس نئے تشکیل کردہ پلیٹ فارم کی نمائندگی کیلئے بطور کنوینئر مقرر کیا۔جموں میں جموں و کشمیر فریڈم موؤمنٹ جموں دفتر کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا جسے چوہدری غلام عباس مرحوم کے حوالے سے ”عباس منزل،،کا نام دیا گیا۔پورے صوبہ جموں میں اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور تحریک حق خودارادیت کو پورے صوبے میں متحرک کیا جانے لگا۔جموں و کشمیر فریڈم موؤمنٹ کو کل جماعتی حریت حریت کانفرنس میں باقاعدہ نمائندگی دے دی گئی۔جس کے بعد کل جماعتی حریت کانفرنس کے قائد محترم سید علی گیلانی ؒ نے محترم سعد اللہ تانترے صاحب کے ہمراہ پورے صوبہ جموں کا دورہ کیا جس نے تحریک حق خودارادیت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔سابق امیر جماعت اسلامی صوبہ جموں سعد اللہ تانترے کی ولولہ انگیز قیادت نے صوبہ جموں میں تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونک دی۔جس سے بوکھلا کر بھارتی حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا لیکن محترم سعد اللہ تانترے کے رفقاء کار نے تحریک کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔ پیرانہ سالی میں کئی ماہ قید و بند کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کے بعد جب بذریعہ عدالت رہائی ملی تو ایک بار پھر میدان عمل میں سرگرم ہوگئے۔اسی دوران حادثاتی طور پر اچانک گرنے کے باعث شدید زخمی ہوگئے۔فریکچر بھی ہوگیا۔ ذیابیطس کے مریض تو تھے ہی۔اچانک داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون اللہم اغفر لہ ورحمہ واعف عنہ۔ان کی ناگہانی وفات سے تحریک حریت کشمیر کو صوبہ جموں میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ سعد اللہ تانترے ؒ اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔انہوں نے پوری تحریکی زندگی کے دوران ابتلاء و آزمائش کے ہر موڑ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ان کی ایک آنکھ بھی اس جدوجہد کی نذر ہوچکی تھی۔ان کے جواں سال بیٹے تنویر جلیل عرف سہیل فرقانی قابض بھارتی افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کے منصب پر پہلے ہی فائز ہوئے۔آگرہ کانفرنس کے موقعہ پر جب جنرل پرویز مشرف بھارت گئے تو قائد تحریک آزادی کشمیر سید علی گیلانی رح کی قیادت میں ان کیساتھ ملاقات کرنے والے کل جماعتی حریت کانفرنس کے وفد میں صوبہ جموں سے بطور نمائندہ سعد اللہ تانترے صاحب بھی شامل تھے۔اس ملاقات میں انہوں نے جنرل پرویز مشرف حکومت پاکستان کی طرف سے مسلہ کشمیر پر لچکدارانہ پالیسی اپنانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔سعداللہ تانترے صاحب جماعت اسلامی کے صوبہ جموں کے جید رہنماؤں میں شامل تھے۔جماعت اسلامی کیساتھ نظریاتی وابستگی تادم مرگ برقرار رہی۔باوجود یہ کہ جموں و کشمیر فریڈم موؤمنٹ کی تشکیل کے بعد انہیں جماعتی ذمہ داریوں سے فارغ کردیا گیا۔ سعد اللہ تانترے صاحب بذات خود ایک تحریک تھے۔”انہیں بجا طور پر صوبہ جموں کا سید علی گیلانی کہا جاسکتا ہے”۔