ابو ریان مقصود
یہ 16 ستمبر 1990 کی ایک دھندلی صبح تھی، جب مقبوضہ وادی کشمیرنے اپنی خوبصورت چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ دھان ( چاول) کی کٹائی کا شور ہر طرف گونج رہا تھا، جیسے زمین اور آسمان دونوں فصل کی خوشبو میں مدہوش ہوں۔ میں درانتی ہاتھ میں تھامے، اپنے کھیت میں محنت کی داستان رقم کر رہا تھا۔ ہر ضرب جو درانتی سے لگ رہی تھی، اس میں سال بھر کی محنت اور دعا کی گونج سنائی دیتی تھی۔لیکن اس صبح کی پرسکون فضا اچانک میرے پڑوسی انکل کی بے چین آواز سے ٹوٹ گئی، جو تیز قدموں سے میری طرف آ رہے تھے: ”مہمان بلا رہے ہیں!” دل جیسے ایک لمحے کیلئے رک سا گیا۔ مہمان؟ کون ہو سکتے ہیں؟ یہ کوئی عام مہمان نہیں لگ رہے تھے۔ ان کی آمد میں کوئی غیر معمولی راز چھپا تھا، جیسے زندگی کا نیا باب کھلنے والا ہو۔میں نے جلدی سے درانتی زمین پر رکھی، اپنے ہاتھوں کی مٹی جھاڑی، اور ایک عجیب سی بے چینی نے دل کو جکڑ لیا۔ کھیت سے نکلتے ہی مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کسی پوشیدہ مہم کا آغاز کر رہا ہوں، جہاں ہر موڑ پر کوئی نیا راز میرا انتظار کر رہا ہے۔ دن کا معمولی منظر یکدم ایک طلسماتی کہانی میں بدل رہا تھا۔مہمانوں کیساتھ ملاقات کے بعد فیصلہ ہوا کہ آج ہی سفر کا آغاز کیا جائے گا۔ میں نے جلدی سے دوپہر کا کھانا کھیت میں ہی کھایا، ساتھیوں کو الوداع کہا، مگر چاچا کو بتایا کہ میں آج روانہ ہو رہا ہوں۔ دل بیتاب تھا، جیسے ایک نئی مہم جوئی کا آغاز ہونے والا ہو۔
دوپہر کو سوابارہ بجے ہم نے سفر کا آغازکیا، اور رات نو بجے کنگن سے مہالش کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اونچے پہاڑوں کے درمیان سرد ہواؤں میں ہم آگے بڑھتے رہے، جیسے قدرت ہمیں کسی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہو۔ قافلے میں شامل لوگ سخت جان تھے، اور راستے کی ہر کٹھنائی کو عبور کرنے کا عزم رکھتے تھے۔اتوار کی صبح جب مہالش کے میدانوں پر پہلی نظر پڑی، تو وہ منظر انتہائی دلکش تھا۔ لیکن وہاں صرف چند چوپانوں کا ڈیرہ تھا، جنہوں نے ہماری مہمان نوازی گرم نون چائے اور جڑی بوٹیوں کی آمیزش سے کی۔ اس لمحے میں وہ چائے ہمیں جیسے زندگی بخش رہی تھی، سردی کی شدت میں ہمارے اندر گرمی کا احساس بھر رہی تھی۔

ہمارے قافلے میں 25 افراد تھے، مگر راستے کی مشکلات نے پانچ کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ باقی بچے وہ تھے جن کے دلوں میں ہمت اور جوش بھرا تھا۔ ہر قدم پر ایک نیا چیلنج، ایک نیا منظر ہمارا منتظر تھا، لیکن ہم نے اپنے ارادوں کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ہر موڑ پر قدرت کا ایک نیا جلوہ، ایک نئی آزمائش ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ مگر ہمارے حوصلے بلند تھے، اور ہم جانتے تھے کہ یہ صرف ایک سفر نہیں بلکہ ایک عظیم مہم تھی۔ ہر قدم ایک تاریخ رقم کر رہا تھا، جیسے ہم اپنے مقدر کو خود تراش رہے ہوں۔یہ سفر ہماری طاقت، صبر اور عزم کی ایک لازوال داستان بن چکا تھا، جس کا ہر موڑ، ہر چیلنج ہمیں مزید مضبوط بنا رہا تھا۔ یہ سفر نہیں، بلکہ ایک داستان تھی جو ہمیشہ کیلئے دلوں پر نقش ہو جانے والی تھی۔رات کے نو بجے جب ہم نے اپنے رہبروں کے ہمراہ سفر کا آغاز کیا، تو دلوں میں عزم اور جذبہ پورے عروج پر تھا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ کوئی معمولی سفر نہیں بلکہ آزمائش کا میدان ہے، جہاں ہمت اور عقل دونوں کا امتحان لیا جائے گا۔
سنا تھا کہ دریا کو ایک پل کے ذریعے عبور کرنا ہے، لیکن جب پل کے قریب پہنچے، تو رہبروں نے پہلے اسے جانچنے کا مشورہ دیا۔ دو ساتھی ان کیساتھ گئے، اور جونہی پل کے قریب پہنچے، تو وہاں کا منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ دشمنوں نے پل کے تختے اکھاڑ دیے تھے، اور آگے کا سفر اب نہایت خطرناک دکھائی دے رہا تھا۔ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق، ہم نے اس مشکل کو سر کرنے کا فیصلہ کیا۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، اور ہم نے دریا میں کودنے کا خطرہ مول لیا۔ سردی کی شدت اور پانی کا بہاؤ ہمارے ارادوں کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے، لیکن ہم نے اپنے ہاتھوں کی زنجیر بنائی، اور دوساتھی جو عمر میں چھوٹے تھے، انہیں کندھوں پر بٹھا کر دریا عبور کیا۔ اس لمحے لگتا تھا کہ پوری کائنات ہمیں چیلنج کر رہی ہے، مگر ہمارا عزم اور اللہ کی مدد ہمارے ساتھ تھی۔دریا پار کرتے ہی ہمیں پہاڑ عبور کرنا تھا، جسے رہبر دو گھنٹے کا سفر بتا چکے تھے۔ مگر قدرت نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کیں، اور وہ پہاڑ، جو رات کے اندھیروں میں خطرناک لگ رہا تھا، ہم نے صرف ایک گھنٹے میں عبور کر لیا۔ جیسے ہی ہم آگے بڑھے، رہبروں نے راستہ سمجھا کر معذرت کی اور ہمیں چھوڑ دیا۔رات کے تین بج چکے تھے اور ہم پہاڑ کی ڈھلوانوں میں بھٹک گئے تھے۔ اس وقت فیصلہ ہوا کہ جہاں سے رہبروں نے ہمیں الوداع کہا تھا، وہیں واپس جائیں۔ جب وہاں پہنچے، تو دو حصوں میں بٹ گئے، اور وہیں آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر جب آنکھ کھلی، تو ہم دشمنوں کے نشانے پر تھے۔ وہ لمحہ، جب موت کا سایہ سر پر منڈلا رہا تھا،رب کی نصرت نے ہمیں بچا لیا۔ میں نے جلدی سے ساتھیوں کو تلاش کیا، گنتی مکمل کی، اور ہمیں برزہ کلین میں پناہ ملی۔ بادلوں کے گھنے سایے نے ہمیں دشمن کی نظروں سے اوجھل رکھا، اور ہم نے پورا دن وہیں پر گزار دیا۔شام کے قریب چار بجے کچھ مقامی لوگ ہمارے پاس آئے، اور ان کے ساتھ نون چائے، قہوہ، آلو روٹیاں تھیں۔ ہمیں حیرانی ہوئی کہ انہیں کیسے ہماری خبر ہوئی، لیکن یہ اللہ کی نصرت تھی۔ انہوں نے ہمیں مکمل تفصیلات فراہم کی، اور جیسے ہی اندھیرا چھاگیا، ہم نے ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا شروع کیا۔ساڑھے نو بجے رات کو ہم نے پہاڑ کی دوسری طرف ایک تنگ گھاٹی سے اترنا شروع کیا۔ یہ سفر بے حد تھکا دینے والا تھا، اور ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم کسی نہ ختم ہونے والے سفر میں ہیں۔ دو بجے رات تک ہم مسلسل نیچے اترتے رہے، اور اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ ہم راستہ بھول چکے ہیں۔ ذمہ داری کا بوجھ میرے کندھوں پر تھا،لہٰذا میں نے ساتھیوں کو دائیں طرف مڑنے کا کہا، اور ہم ایک گھنے جنگل میں پہنچ گئے۔اس جنگل کی خاموشی میں ایک عجیب سی وحشت تھی، مگر ہم نے خود کو سنبھالا اور وہیں اکٹھے ہو کر آرام کیا۔ جیسے ہی آنکھ کھلی، تو سورج کی کرنیں ہمارے سروں پر پہنچ چکی تھیں۔ یہ ایک نئی صبح کا آغاز تھا، لیکن مہم جوئی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ہمیں جلد ہی اندازہ ہوا کہ ہم ایک انتہائی حساس علاقے میں تھے، اور وہاں زیادہ دیر ٹھہرنا کسی بڑے خطرے سے خالی نہیں تھا۔ میں نے ساتھیوں کو فوراً خبردار کیا اور اوپر کی جانب تیزی سے چلنے کا فیصلہ کیا۔ پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچ کر اللہ کی نصرت ہمارے سامنے ایک بار پھر واضح انداز میں دستک دے رہی تھی کیونکہ ایک جتھا شیروں کا وہیں براجمان تھا۔ میں نے فوراً ساتھیوں کو روک لیا، اور ہم نے دور ایک بڑے درخت کی اوٹ میں پناہ لی۔یہ وہ لمحہ تھا جب قدرت اور فطرت دونوں ہماری راہ میں کھڑے تھے، مگر ہمارے دلوں میں خوف کے بجائے ایک عجیب سا سکون تھا، جیسے قدرت ہمیں آزمائش کیساتھ اپنی مدد کا اشارہ بھی دے رہی ہو۔شام چار بجے جمعرات کا دن تھا، اور گھنا جنگل جو پہلے پرامن تھا، اچانک ایک طوفانی بارش کی زد میں آ گیا۔ شیروں کا جتھا، جو ابھی تک اطمینان سے بیٹھا تھا، فوراً بھاگ نکلا، اور ہمیں ایک نئی راہ مل گئی۔جب بارش چھ بجے تھم گئی، تو ہم نے دوبارہ دن میںسفر کیے جانے والے راستے پر چلنے کا ارادہ کیا۔ دو گھنٹوں سے سفر کرنے کے بعد، مجھے احساس ہوا کہ ہم پھر غلط راستے پر تھے۔ اس لمحے میں، دل میں ایک بے چینی نے جنم لیا، لیکن اللہ کی مہربانی شامل حال تھی۔ ہم واپس نالے میں اترے اور نالے سے ہی سفر شروع کیا۔

اللہ کی نصرت ایک روشنی کی صورت میں ظاہر ہوئی، جو ہمارے سروں کے اوپر سے گزری۔ میں نے فوراً ساتھیوں کو کہا کہ اس روشنی کے پیچھے پیچھے چل پڑیں، وہی ہمارا راستہ ہے۔ ہم گھاس کے ایک ایسے میدان میں پہنچ گئے جہاں گھاس اتنی بلند تھی کہ ہم ایک دوسرے کو بھی مشکل سے دیکھ پا رہے تھے۔ بارش نے زمین کو گیلا کر دیا تھا، اور اس گیلے میدان میں چلنا کسی مہم جوئی سے کم نہ تھا، مگر ہمت اور یقین کیساتھ ہم آگے بڑھتے گئے۔تین بجے رات کا وقت تھا، سردی اپنے عروج پر تھی، اور میرے ساتھی سردی سے ٹھٹھرنے لگے۔ ہم نے تھوڑا سا آرام کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک جھاڑی دیکھی جسے آگ لگا دی۔ آگ کا جلانا خطرے سے خالی نہ تھا، مگر جب اللہ کی نصرت شامل حال ہو، تو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی۔22 ستمبرپانچ بجے جمعہ کی صبح جب میں نے خاکی زمین پر نظر ڈالی، تو ایک عجیب احساس نے میرے وجود کو جھنجھوڑ دیا۔ میں نے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑا اور خود خاکی تک پہنچا۔ وہ لمحہ تھا جب میں نے اپنی منزل کو چھو لیا۔ ایسا لگا جیسے ایک طویل آزمائشی سفر کا اختتام ہوا ہو، مگر ساتھ ہی ایک نئی زندگی کا آغاز بھی ہو رہا تھا۔آگے کیا کیا دیکھا، کیسے منزل پر پہنچا، اور زندگی نے کیا موڑ لیے ۔۔۔۔یہ ایک طویل کہانی ہے، جو شاید اس سفر کی طرح ہی کبھی ختم نہ ہو۔ قدرت کے راز اور مہم جوئی کے تجربات نے میرے دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑے، اور یہ سفر میرے لیے محض ایک سفر نہیں، بلکہ زندگی کا ایک ایسا باب تھا، جس نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔مگر یہ تو بس ایک آغاز تھا۔ ہر آزمائش، ہر مشکل، ہر خطرہ ایک نئے سبق کی طرح آیا، اور مجھے اپنے ارادوں کو مزید پختہ تر کرنے کا موقع ملا۔ فطرت کی ہر طاقت، چاہے وہ شیروں کا جتھا ہو یا طوفانی بارش، ایک نشانی تھی کہ انسان جب اللہ پر بھروسہ کرے تو ناممکن کو ممکن میں بدل سکتا ہے۔یہی وہ احساس تھا جو مجھے اس دن منزل تک لے گیا، اور جس نے میرے دل کو ہمیشہ کیلئے ایک یاد گارسفر کے طور پر محفوظ کیا۔