سلام اے بطل حریت۔۔۔ سید علی گیلانی

ڈاکٹر عبدالروف

بس تحریک تھی۔۔۔۔ نظریہ تھا۔۔۔۔۔ اور سید علی گیلانیؒ تھا۔۔۔۔

سید نے جو نعرہ پہلے دن لگایا، جو الفاظ پہلے دن ادا کئے، جو موقف پہلے دن اپنایا ساری زندگی اس پر پہرہ دیا

تند و تیز ھوائیں، جیلیں، نظربندیاں، بیڑیاں، تشدد، عقوبت خانے، لاٹھی چارج، ٹارچر سیل اور ذہنی ہراسگی اس استقامت کے پہاڑ کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکی

حزب اللہ اور حزب الشیطان کی جنگ روز اول سے ہے۔ انسانیت کی حق و باطل کی بنیاد پر تقسیم اللہ کی واحد تکوینی تقسیم ہے۔ مومن کی حیثیت باقی انسانوں سے جدا گانہ ہے۔ مومن گوشت پوست کے کسی پتلے کا نام نہیں جو صفات بہیمیہ کے ساتھ پیدا ہوتا اور مرتا ہے۔ بلکہ مومن ایک عظیم ذمہ داری کا نام ہے۔ مومن کو تین اعزازات اور ذمہ داریوں سے نوازا گیا ہے۔

اللہ کا خلیفہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب،قرآن کا وارث

ان تینوں حیثیتوں میں مومن اللہ کا سپاہی، از خود تقدیر الٰہی، اطاعت الٰہی کا پیکر، سر تا پا نظام طاغوت کا باغی، اللہ کا مدد گار، باطل کے لیے ” الصارم المسلول”، کفر کے ایوانوں کا زلزلہ، میدان جنگ کا شہسوار، استقامت کا کوہِ گراں، اور اپنے قول و عمل میں اللہ کی برھان ہوتا ہے۔ مومن اگر ان صفات کا حامل ہو تو میدان جنگ کی ظاہری فتح و شکست اس کی سنگ راہ ہے۔ مومن فتح و شکست کے الفاظ سے ماوراء ہو جاتا ہے۔ وہ میدان مار لے تو بھی کامیاب اور رسم شبیری ادا کرکے شہادت کا رتبہ پا لے تو بھی کامیاب۔ فتح و شکست سے بالا تر تائید الٰہی بالآخر مومن ہی کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

زندہ قومیں اپنے ہیروز پر فخر کرتی ہیں، اپنی لازوال تاریخ پر ناز کرتی ہیں۔ لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ تاریخ کے ماتھے کا بھی جھومر ہوتی ہیں اورتاریخ خود ان پر ناز بھی کرتی ہیں۔ یہ لوگ تاریخ کا رخ موڑتے ہیں۔ تاریخ کو بھی ایک پہچان دیتے ہیں۔ قوموں کی بنیادیں گہری تعمیر کرتے ہیں۔ اور قوموں کو ناقابل تسخیر بناتے ہیں۔ انہی عظیم شخصیات میں دھرتیء کشمیر کے سپوت، بطل حریت، تاریخ ِتحریک آزادی کشمیر کے ماتھے کا جھومر، کشمیری قوم کی آخری ڈھال سید علی گیلانی ؒشامل ہیں۔

کون جانتا تھا کہ 29 ستمبر 1929 کو ضلع بارہ مولہ میں جھیل ولر کے کنارے پر آباد ایک گاؤں میں آنکھ کھولنے والا سید علی گیلانی ؒاس صدی کی ایک تاریخ ساز شخصیت بنے گا۔ قیام پاکستان 1947ء تک سید علی گیلانیؒ برطانوی نیشنل تھے۔ اپنے ابتدائی تعلیمی دور میں علامہ اقبالؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، کے سامنے زانو ئے تلمذ تہہ کرنے والا یہ 20 سالہ نوجوان تقسیم ہند کے وقت ایک سکول میں استاد تھا۔ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ لیکن کشمیر کو اپنی ذاتی جاگیر بنانے والے ڈوگرہ نے اس کا الحاق چپکے سے انڈیا سے کر دیا۔ یہ خبر خود کشمیریوں کے سر پر ایک برق بن کر گری۔ کشمیری اس پر سراپا احتجاج ہوئے تو انڈیا کی بربریت کا شکار ہوئے۔ ابتدائی طور پر نگاہیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی طرف اٹھیں کہ وہ اس ظالمانہ گھناؤنی سازش کے خلاف انڈیا کو آزادی کشمیر اور تقسیم ہند کے فارمولے پر عمل کرنے پر مجبور کریں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کشمیریوں کے جذبات سے خوب آگاہ تھے۔ اور جانتے تھے کہ یہ مسئلہ فوجی مداخلت کے بغیر حل نہیں ہو گا۔ قائد اعظمؒنے اس وقت کے پاکستانی فوج کے انگریز سربراہ سے کہا کہ وہ کشمیر پر فوج کشی کرے۔ لیکن اس نے قائد اعظمؒ کا حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ جس کا قائد کو شدید صدمہ پہنچا۔

فوج کے انکار کے بعد چارو ناچار آزادی کشمیر کی ذمہ داری مجاہدین کے کندھوں پر آگئی۔ کچھ قبائلی مجاہدین نے انڈین فوج پر حملہ کر کہ جہاد کے ذریعے کشمیر کا ایک ٹکڑا ہندو استعمار سے آزاد کروا لیا۔ لیکن پھر انڈیا بھاگ کر اقوام متحدہ جا پہنچا اور بلبلانے لگا۔ اور استدعا کی ، وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے گا۔لیکن پہلے امن کو ایک موقع دیا جائے کہ رٹ لگا کر وقت کے ساتھ ساتھ انڈیا نے دجل اور فریب کا سہارا لے کر یہ ثابت کیا کہ جنگ بندی محض ایک جنگی چال تھی۔ دراصل انڈیا کچھ وقت لے کر کشمیر کے مسئلے کو الجھانا چاہتا تھا اور بالآخرکشمیر میں ہندو آبادی بڑھا کر ایک طرف کشمیر میں ھندو اور مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنا چاہتاتھا تو دوسری طرف بزور بازو کشمیر کی آزادی کا ڈی این اے تبدیل کرنا چاہتاتھا۔

سکول ماسٹر سید علی گیلانیؒ کی نظریں حالات کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ 1950 میں سید نے اپنی ملازمت کو اھل اقتدار کے منہ پر مار کر جماعت اسلامی جموں و کشمیرکے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی کشمیر کا علم بلند کر دیا۔ تعلیم یافتہ گریجویٹ نوجوان، سید گھرانہ، استاد، جماعت کے فعال رکن اور ایک اعلیٰ درجے کے مقرر ہونے کی امتیازی خصوصیات نے جلد ہی سید علی گیلانی کو پہلے تحریک آزادی کشمیر اور بعد ازاں دنیا کے بلند پایہ رہنماؤں کی صف میں لا کھڑا کر دیا۔

سید نے جو نعرہ پہلے دن لگایا، جو الفاظ پہلے دن ادا کئے، جو موقف پہلے دن اپنایا ساری زندگی اس پر پہرہ دیا۔ تند و تیز ہوائیں۔ جیلیں، نظربندیاں، بیڑیاں، تشدد، عقوبت خانے، لاٹھی چارج، ٹارچر سیل اور ذہنی ہراسگی اس استقامت کے پہاڑ کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکی۔

بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کوپچھلے 11 سال سے مسلسل گھر پر نظر بند کر رکھا تھا۔ سید علی گیلانی ایک آہنی اور کرشماتی شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور ان مٹ تحریک کا نام تھا۔ ہندوستان سید مودودیؒ کے اس روحانی بیٹے سے مسلسل خوف زدہ رہا۔ اور یہ مرد قلندر بھی مسلسل ہندو نیتاؤں اور سورماؤں کو سارے کشمیر کے طول و عرض، ہر میدان،دشت اور وادی میں ببانگ دہل للکارتا رہا۔

یہی وجہ تھی کہ بھارت نے انہیں مسلسل کئی سال پابند سلاسل اور نظربند رکھا۔ سید نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ جیل میں گزار کر اور تحریک کی خاطر جان دے کر تاریخ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ سید علی گیلانی ہی تحریک آزادی کشمیر کا مجدد ہے۔ ظلم و بربریت کا ہر وار آزمانے کے باوجود انڈیا تحریک آزادی کشمیر کو نہ روک سکا۔ اور یہ تحریک سید کی قیادت میں آگے بڑھتی رہی۔

ہندوستان کی سرزمین پر رہ کر اگر کوئی شخص پاکستان سے والہانہ محبت رکھتا تھا تو سید علی گیلانی تھا۔ وہ اپنے خطاب میں ہمیشہ کشمیریوں کے استصواب رائے اور الحاقِ پاکستان کی بات کرتے تھے۔ وہ تقریر کے دوران مقبوضہ کشمیر میں پرزور یہ نعرہ مستانہ لگواتے تھے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘۔سید علی گیلانی تحریکِ آزادی اور کشمیریوں کے استصواب رائے پر بے لچک موقف رکھنے والے انسان تھے۔ ایسا مصمم ارادہ اور ایسا آہن صفت موقف تھا کہ سید نے اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔

جماعت اسلامی میں زندگی گزارنے کے باوجود جب انہوں نے دیکھا کہ کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے جماعت لچک دکھا رہی ہے تو سید نے جماعت سے اتفاق نہ کرتے ہوئے 2003 میں ” تحریک حریت جموں کشمیر ” کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔

سید علی گیلانی 1993 میں قائم ہونے والے حریت کانفرنس جیسے بڑے اتحاد کے بانی افراد میں شامل تھے۔ جو استصواب رائے کا حامی سب سے بڑا اتحاد تھا۔ لیکن اس کے باوجود جب اس اتحاد کے بعض لوگوں نے اپنے موقف پر سستی اور لچک دکھائی تو سید نے اپنا حلقہ اور راستہ الگ کر لیا اور لچک دار جماعتیں میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں جمع ہو گئیں۔

بعد ازاں اپنے ہی حلقے سے چند اصولی اختلافات کی بناء پر 2020 میں بھی علیحدہ ہو گئے۔ اور اس موقع پر سید نے اپنے ایک آڈیو بیان میں کہا کہ وہ اتحاد کے اندر پائی جانے والی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اسے خیر آباد کہتے ہیں۔ اور اس موقع پر حریت کانفرنس کو ایک تفصیلی خط بھی لکھا۔ 2003 میں جب مشرف نے تقسیم کشمیر کا فارمولا دیا تو سید علی گیلانی نے اس کو زور دار انداز میں مسترد کیا۔ جبکہ کچھ لوگوں نے اسے قبول کیا جن سے سید نے برأت کر لی۔

بس تحریک تھی۔۔۔۔ نظریہ تھا۔۔۔۔۔ اور سید علی گیلانی تھا۔۔۔۔

پاکستان کے 73 ویں یوم آزادی کے موقع پر اس مرد میداں کو پاکستانی حکومت کی طرف سے اس وقت نشان پاکستان کا اعزاز دیا گیا جب یہ شدید علیل تھے اور ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

یکم ستمبر 2021 کو تحریک کا یہ سورج اپنی روشنی ماند کئے بغیر سری نگر میں اپنی رہائش گاہ واقع حیدر پورہ میں ڈوب گیا۔

سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید۔

اللہ تعالی ان کی مرقد پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔

جناب ڈاکٹر عبدالروف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیں اور بلامعاوضہ لکھتے ہیں