سید سلیم گردیزی
کفر و استعمار کے غلبے کے دور میں انسان دعوت الی اللہ ، احیائے دین اور کفر کی غلامی سے آزادی کی جدوجہد کرے اور اسے قید وبند کی صعوبتوں سے نہ گزرنا پڑے ، ایسا تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔ نوزائیدہ بھارتی استعمار کے زیر قبضہ ریاست جموں وکشمیر میں بھی اسلامی تحریک کا وجود اسی وقت تک برداشت کیا جاتا رہا جب تک اس کی سرگرمیاں خطرے کے نشاں تک نہ پہنچتی تھیں۔اب جبکہ اس کے قائدین خصوصاً امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر مولانا سعدالدین ؒ، امیر ضلع بار مولا سید علی گیلانیؒ اور دیگر زعماء سرکاری ملازمتوں کا قلادہ اپنی گردنوں سے اتار پھینکنے کے بعد
ہرچہ باداباد کشتی مادر آب انذااختیم
کا نعرہ مستانہ بلند کرکے باطل کے طوفان سے ٹکرانے میدان میں آگئے تھے تو منزل دارورسن ان کی منتظر نہ ہوتی تو تعجب ہوتا۔
سید علی گیلانیؒ کے ہاں 22مارچ 1962ء کو بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام آپ نے خود ہی ’’سید نعیم المظفرگیلانی‘‘ رکھا۔نومولود وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ سے بہت مانوس بھی ہونے لگا تھا، تین چارہ ماہ کا ہوا توآپ کو دیکھتے ہی بازو اُوپر اٹھاکرآپ کی گود میں آنے کی ضد کرنے لگاتھا۔آپ بھی دور و نزدیک کہیں دورے پر ہوتے ، جتنی بھی دیر ہوجاتی آدھی رات کو بھی واپس گھر آئے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ننھے نعیم سے دوری آپ کو بے قرار کردیتی تھی۔
مورخہ 28اگست 1962ء کوجب نعیم 05ماہ 06دن کا ہوچکا تھا، آپ بند گلے کا کوٹ پہن کر جماعت کے ضلعی دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلنے لگے۔آپ کی اہلیہ بیٹے کو اٹھائے ہوئے آپ کو دروازے تک الوداع کہنے آئیں۔آپ نے بیٹے پر الوداعی نظر ڈالی تو دونوں ہاتھ اوپر اٹھاکر اور ایڑیاں رگڑکر آپ کی گود میں آنے کی ضد کرنے لگا۔آپ جانتے تھے کہ اٹھایا تو گود سے اترے گا نہیں۔آپ کو دفتر میں ضروری امور نمٹانے تھے۔لہذا دل پر جبر کرکے والدہ کی گود میں ہی اس سے پیار کرکے روانہ ہوگئے کہ شام کو واپس آجائیں گے اور جی بھر کر اس سے لاڈپیار کرلیں گے۔لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔وہ اس بات کا خاص اہتمام کرتا ہے کہ اس کے پسندیدہ بندے اس کی اور اس کے دین کی محبت پر کسی اور محبت کو غالب نہ آنے دیں اور جہاں ایسا کوئی شائبہ ہواس کا نظام حرکت میں آتا ہے۔صورت حال کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے۔ایسا صرف اللہ اپنے مقرب بندوں کے ساتھ کرتا ہے۔رہے وہ لوگ جنہیں اللہ کی خالص محبت کا ذائقہ نصیب نہیں ، اللہ انہیں ایسی آزمائشوں میں کم ہی ڈالتا ہے۔
آپ دفتر پہنچے اور دفتری کام کاج میں مصروف ہوگئے۔ضلعی دفتر توگوسرائے میں درسگاہ کے ایک کمرے میں مشتمل تھا۔آپ نے ضلع میں کام کی تنظیمی رپورٹ تیار کرکے مرکزی جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی جموں وکشمیر جناب حکیم غلام نبیؒ کو ارسال کرنی تھی۔آپ نے کوٹ اتار کر کھونٹی سے لٹکایا، پوسٹ کارڈ پر رپورٹ تحریر کرنا شروع کی ۔دریں اثناء نماز ظہر کی اذان ہوگئی۔آپ نے مسجد میں نماز باجماعت ادا فرمائی اور واپس دفتر آکر رپورٹ کو حتمی شکل دی، اس پر پتہ درج کیا اور اسے حوالہ ڈاک کرنے کے لیے دفتر سے نکلنے ہی والے تھے کہ سی آئی ڈی کا ایک اہلکار سید عتیق اللہ بخاری جوکریری کا رہنے والا تھا، کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ ایس ایچ او سوپور عبدالرشید خان آپ کو یاد کررہے ہیں۔آپ کو آمدہ حالات کا اندازہ نہ تھا۔آپ نے نہ تو کھونٹی سے کوٹ اتار کر پہنا اور نہ کوئی تیاری کی۔پوسٹ کارڈ ہاتھ میں اٹھایا کہ نیچے اتر کر لیٹر بکس میں ڈال کر ایس ایچ او سے بھی مل کر واپس آجائیں گے اور دفتر کے باقی کام نمٹا کر گھر کی راہ لیں گے۔

کرناہ کا رہنے والا عبدالرشید خان ایس ایچ او آپ کا مجاہد منزل کے زمانے سے شناسا تھا جب آپ مولانا مسعودی کے معاون تھے اور عبدالرشید خان اور اس کے دوسرے ساتھی پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے مولانا مسعودی کے پاس روزانہ حاضری لگواتے تھے اور پہروں آپ کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔آپ پولیس سٹیشن پہنچے ، اس نے آپ کو کمرے میں بٹھادیا اور کمرے سے نکل گیا۔تھوڑی دیر بعد ڈی ایس پی مسٹر ڈچن آئے اور کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا ’’آپ گرفتار ہیں، آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا‘‘ ایسی صورت حال آپ کو زندگی میں پہلی بار پیش آرہی تھی۔آپ نے فوراً اپنے احساسات پر قابو پایا اور اس کے ساتھ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔مسٹر ڈچن کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر انجانی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔
شام چھ بجے کے لگ بھگ جیپ سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں داخل ہوگئی۔سنٹرل جیل میں مسٹر جسونت سنگھ سپرنٹنڈنٹ اور مکھن لال چیف وارڈن تھے۔مسٹرڈچن آپ کو جسونت سنگھ کے حوالے کرکے واپس ہوگئے۔جسونت سنگھ نے مکھن لال کوبلایا اور آپ کو اس کے حوالے کردیا۔اس وقت جیل میں شام کا کھانا تقسیم کیا جارہا تھا۔ایک تھالی میں آپ کو بھی چاول اور دال ڈال کر دیئے گئے۔جیل کی دالیں۔۔ان میں پانی اورنمک مرچ وغیرہ کے تناسب کا خیال رکھنے کا تکلف کم ہی کیا جاتا ہے۔آپ کو پہلی مرتبہ اس قسم کے کھانے سے واسطہ پڑرہا تھا۔کھانا کھاکر آپ کو سزائے موت کے قیدیوں کے لیے بنائے گئے سیل میں بند کردیا گیا۔آپ کو سیل نمبر 13میںڈال کر باہر سے بند کردیا گیا۔سیل میں پانی کا ایک گھڑا، ایک لوٹا اور دو عدد کھردرے سیاہ کمبل موجود تھے۔آپ نے وضو کیا ، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور بے غم ہوکر سوگئے۔یہ جیل میں آپ کی پہلی رات تھی۔اس کے بعد وقتاً فوقتاً لگ بھگ ایک صدی پر محیط زندگی کا ایک چوتھائی حصہ یعنی ربع صدی جیل میں گزارنی پڑی۔
یہ رتبہ بلند جنہیں ملا، مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں؟
صبح آپ کی آنکھ اذان کی آواز سے کھلی۔یہ آواز کسی مسجد سے نہیں بلکہ قریبی سیل سے آرہی تھی۔آواز آپ کو مانوس لگی۔آپ کو یہ پہنچاننے میں دیر نہ لگی کہ یہ آواز مولانا حکیم غلام نبی ؒسیکرٹری جنرل جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی تھی جنہیں اپنے ضلع کی کارکردگی رپورٹ ارسال کرنے کے ساتھ ہی دھر لیا گیا تھا۔حکیم غلام نبی ؒبھی اسی روز گرفتار کرکے سیل نمبر 25میں بند کردیئے گئے تھے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہوچکا تھا اور جو جہاں سے ملا اسے اٹھاکر پولیس کی جانب سے دیوار زنداں دھکیلا جارہا تھا۔حکیم صاحب کی اذان کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر ادا کی اوردرود و وظائف میں مصروف ہوگئے۔
طلوع آفتاب کے ساتھ ہی کوٹھڑیوں کے تالے کھولے گئے اور قیدیوں کو موقع دیا گیا کہ وہ جیل کے احاطے میں چل پھر سکیں اور ایک دوسرے سے مل سکیں۔آپ تو حکیم صاحب کی اذان کی آواز سن کر جیل میں ان کی موجودگی سے باخبر ہوچکے تھے لیکن انہیں قطعی طور پر علم نہ تھا کہ آپ بھی سنت یوسفی پر چلتے ہوئے ان کے رفیق زنداں یعنی’’صاحب السجن‘‘ بن چکے ہیں۔دونوں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوگئے۔حال احوال پوچھا اور سایہ دیوار زنداں میں ایک کمبل بچھا کر اس پرفروکش ہوگئے۔یہیں آپ کو چائے کے نام پر ایک عجیب و غریب محلول کٹوروں میں ڈال کردیا گیا۔اسی جیل میں محمد اکبر خان ہندواڑہ، جو شیخ عبداللہ کے خلاف سازش کے جرم میں کئی سال سے جیل کاٹ رہے تھے ، بھی قید تھے۔قدرت کی ستم ظریفی کہ جب شیخ عبداللہ کا اقتدار نصف النہار پر تھا تو ان کے مخالفین کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات بنائے جارہے تھے اور انہیں طویل مدت کی سزائیں دی جارہی تھیں۔اب جبکہ شیخ عبداللہ تاج و تحت سے محروم ہوکر خود بھی جیل کی ہوا کھارہے تھے، ان کے خلاف ’’سازش‘‘ کے جرم میں محمد اکبر خان بھی ابھی تک جیل میں اپنی سزا بھگت رہے تھے۔ان کے ساتھ غلام قادر جانباز، جو شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کی محاذرائے شماری سے وابستہ تھے، بھی قید تھے۔وہ جولاہی خانہ میں رہ رہے تھے اور وہیں ان کے لیے ایک الگ میس بھی تھا۔آپ اور حکیم صاحب کے لیے ان کے میس سے کھانا آنے لگا۔چودہویں دن آپ دونوں کو بھی سزائے موت کی کوٹھڑیوں سے نکال کر جولاہی خانے منتقل کردیا گیا۔اس طرح چار سیاسی قیدی جولاہی خانے میں اکٹھے ہوگئے۔محمد اکبر خان اپنے اوپر شیخ عبداللہ کے مظالم کی داستان سناتے تو غلام قادر جانباز شیخ عبداللہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے حکومت وقت کے مظالم کا قصہ چھیڑتے۔آپ اور مولانا حکیم غلام نبیؒ کے لیے دونوں ادوار کے مظالم میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔غلام قادر جانباز بڑے ہنس مکھ اور ظریف الطبع انسان تھے۔ان کے ساتھ خوشگوار وقت گزرنے لگا۔وہ جدی پشتی آپ کے مریدوں میں سے نکل آئے۔ ان کے جد امجد سید ملوک شاہ گیلانی کے مرید تھے۔اس طرح آپ کے خاندان سے ان کی عقیدت کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آرہا تھا اور جانباز مرحوم اسی خاندانی روایت کو بڑی خوبصورتی سے نبھا رہے تھے۔

چند روز جولاہی خانے میں رہنے کے بعد آ پ اور حکیم صاحب کو جیل کے سپیشل بلاک میں منتقل کردیا گیا جو خصوصی طور پر سیاسی قیدیوں کے لیے مختص تھا۔یہ بلاک دو حصوں پر مشتمل تھا، جنوبی حصہ اور شمالی حصہ۔ آپ دونوں کو جنوبی حصے میں ٹھہرایا گیا جہاں محاذ رائے شماری کے سیکرٹری جنرل علی محمد نائیک محاذ کے ایک اور رہنما عبدالرحیم اشمندری کے ساتھ محبوس تھے۔،گویا یہاں محاذ رائے شماری اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل صاحبان اکٹھے کردیئے گئے تھے۔اس طرح یہاں حالات حاضرہ، سیاست ، تحریک آزادی کشمیر اور جماعت اسلامی و محاذ رائے شماری کے نظریات وغیرہ پر تبادلہ خیالات اوربحث و مباحثے کا اچھا موقع مل رہا تھا۔
آپ نے جیل کے ان لمحات کو مفید بنانے کے لیے مولانا حکیم غلام نبی کے علم و فضل سے استفادے کا پروگرام بنالیا۔حکیم صاحب فاضل دیوبند تھے اور عربی فارسی پر ماہرانہ دسترس رکھتے تھے۔آپ دونوںنے جیل میں اپنا ایک چھوٹا سا مدرسہ کھول دیا جس کے واحد شاگرد آپ تھے اور شیخ مکتب مولانا حکیم غلام نبیؒ آپ نے ندوۃ العلماء لکھنو سے عربی کا مکمل نصاب منگوایا اور مولانا کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کردیا۔مولانا آپ کو عربی زبان و ادب اور صرف و نحو سبقاً سبقاً پڑھاتے اور آپ پوری یکسوئی، ذوق و شوق اور دلجمعی کے ساتھ سبق تیار کرکے انہیں سناتے تھے۔درس و تدریس کا یہ سلسلہ آپ کی ذات تک ہی محدود نہ رہا بلکہ دیکھا دیکھی جیل کے دیگر قیدیوں میں بھی علم دین سیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔عام قیدیوں کو سپیشل بلاک کی طرف آنے کی کم ہی اجازت تھی تاہم جو قیدی کسی کھانا پہنچانے ، صفائی یا کسی دیگر کام سے آپ کی طرف آتے ، اس علمی فضا سے استفادہ کئے بغیر نہ رہتے۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا بشیر احمد نامی ایک قیدی جو جیب کترا تھا، آپ کی خدمت پر مامور ہوا۔آپ کے ساتھ رہ کر اس کی کایا بدل گئی۔ہندواڑہ سے تعلق رکھنے والا شیخ عبدالغفار ، جو قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا، ایک روز اتفاقاً آپ کی خدمت کے لیے بھیجا گیا تو نگاہ مرد مومن کا یوں اسیر ہوا کہ ہزار پابندیوں اور بندشوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح آپ کے پاس پہنچ جاتا۔آپ سے یا حکیم صاحب سے قرآن کا درس لیتا، دینی کتب لے کر پڑھتا۔آپ کی مجلسوں میں دینی باتیں سنتا، پلے باندھتا اور عمل کے سانچے میں ڈھالتا۔آپ دونوں بزرگوں کی صحبت سے اس نے اس قدر استفادہ کرلیا کہ رہائی پانے کے بعد وہ جماعت اسلامی کے نمایاں داعیوں میں شمار ہونے لگا۔پلوامہ سے تعلق رکھنے والے عبدالرشید نے آپ دونوں زعماء سے کسب فیض کیا۔دینی تعلیم بھی حاصل کی اور دنیوی تعلیم میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی۔تعلیم کا اس قدر شوق، دینی تربیت سے اس درجہ اثر قبول کرنا اور اس کے نتیجے میں اپنے کردار کو اس قدر تبدیل کرلینا کہ جیل میں حسن اخلاق اور خدمت کا استعارہ بن جائے، عبدالرشید کی اس قدر قلب ماہیت سے جیل حکام بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔محکمہ جیل خانہ جات کے اعلیٰ حکام نے رہائی کے بعد اسے جیل کے عملے میںبھرتی کرلیا جہاں سے ترقی کرتے کرتے وہ جیل سپرنٹنڈنٹ تک پہنچ کر ریٹائرڈ ہوا۔
جب آپ کو سزائے موت والے بلاک سے جولاہی خانہ اور پھر جولاہی خانہ سے سپیشل بلاک میں منتقل کیا گیا تو آپ نے سوچا ہوگا کہ جیل حکام نے یہ اقدام آپ کو سہولت پہنچانے کے لیے کیا ہے لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ ان کا یہ اقدام دراصل قیدیوں کو آپ کے اثرات سے بچانے کے لیے کیا تھا۔جو اکا دکا قیدی اتفاقاً یا کسی کام سے آپ دونوں زعمائے جماعت اسلامی کے پاس آتے ، چند ہی روز میں ان کے دل کی دنیا بدل جاتی اور اخلاقی جرائم میں ملوث یہ قیدی اعلیٰ اسلامی اخلاق و کردار کے نمونے بن جاتے۔اگر عام قیدیوں کو آپ کے ساتھ آزادانہ میل ملاپ رکھنے کی اجازت ہوتی تو ان کی بھاری اکثریت جماعت اسلامی کی کارکن بن جاتی جسے سنبھالنا جیل حکام کے بس میں نہ ہوتا۔
مرگ پدر، علالت پسر
ریاست جموں وکشمیر پر ہر دن مضبوط و مستحکم ہوتا ہو ا بھارت کا فوجی قبضہ ہی کچھ کم اذیت ناک نہ تھا کہ آپ کو اسی بڑی جیل میں واقع ایک چھوٹی جیل میں محبوس کردیا گیا تھا۔راہ حق کے کے راہیوں کے لیے قید و بند معمول کی بات ہے اس پر وہ نہ رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں نہ شکوہ کناں بلکہ اسے سنت یوسفی سمجھ کر خوشدلی سے قبول کرتے ہیں۔آپ کے ایام اسیری بھی مولانا حکیم غلام نبیؒ کی معیت میںبسر ہورہے تھے۔آپ مولانا سے بھرپورعلمی استفادہ کررہے تھے۔

ایک روز آپ کے بڑے بھائی سید میرک شاہ گیلانی آپ سے ملاقات کے لیے آئے جن کی زبانی آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے والد گرامی 14نومبر 1962ء کو داعی اجل لبیک کہہ گئے ہیں۔یہ دلسوز خبر سن کر آپ بمشکل خود کو سنبھال پائے۔آپ بوجھل دل کے ساتھ اپنی بیرک میں آئے اور حکیم صاحب کو اس سانحہ کا بتایا۔وہ بھی غمگین ہوئے تاہم انہوں نے ایک مشفق بزرگ اور مربی کی طرح آپ کو تسلی دی ، صبر جمیل کی تلقین کی اور آپ کو سنبھالا دیا۔ علی محمد نائیک اور عبدالرحیم شمندری بھی خبر پاکر تعزیت کے لیے آگئے۔حکیم صاحب نے فاتحہ پڑھی اور مرحوم کی مغفرت وبلندی درجات کی دعا فرمائی۔دیگر قیدیوں میں سے بھی جس کو خبر ملی ، موقع پاکر تعزیت کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوا۔آپ نے خود تو پیرول پر رہائی کی درخواست نہ کی کہ آپ ظالم حکمرانوں سے کسی رعایت کی التجا کرنا اپنے مسلک فقر کے خلاف سمجھتے تھے البتہ علی محمد نائیک نے والد گرامی کی وفات پر آپ کی پیرول پر رہائی کی درخواست حکام بالا کو ارسال کی مگر حکومت نے حسب توقع آپ کو پیرول پر رہا کرنے سے انکار کردیا۔والد بزرگوار کی رحلت آپ کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا۔انہوں نے انتہائی عسرت کی زندگی بسر کی۔انہیں خود تعلیم کے مواقع نہ مل سکے تھے لیکن تعلیم کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ تھے۔انہوں نے محنت مزدوری کرکے نہ صرف اپنے گھرانے کی کفالت کی بلکہ آپ کو تعلیم بھی دلائی۔اب جبکہ آپ عملی زندگی میں ریاستی سطح پر ایک سیاسی رہنما کے طور پر متعارف ہورہے تھے ، سیاسی مطلع پر آپ کا ابھرتا ہوا تشخص ان کے لیے طمانیت کا باعث تھا۔آپ کی گرفتاری سے ان کا مضطرب ہونابھی فطری امر تھا۔زندگی بھر ان کا وطیرہ رہا کہ وہ شام کو کھڑکی کے قریب بیٹھ جاتے تھے اور اپنی نظریں گھر آنے والے راستے پر گاڑھے رکھتے تھے کہ کب ان کا فرزند ارجمند گھر واپس آتا ہے۔بڑے بھائی نے بتایا کہ آپ کی گرفتاری کے بعد تو وہ دن بھر سڑک کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پاس بیٹھے رہتے اور قراقلی ٹوپی پہنے جو شخص بھی نظر آتا انہیں گمان گزرتا کہ ان کا قیدی فرزند آرہا ہے۔آپ کو اپنی قید وبند کا تو کوئی افسوس نہ تھا لیکن یہ تاسف ہمیشہ دامن گیر رہا کہ آپ آخری ایام میں خصوصاً علالت کے دوران ان کی خدمت سے محروم رہے۔حکیم صاحب آپ کو صبروبرداشت کی تلقین کرتے رہے۔آپ نے اپنے والد مرحوم کی یاد میں اپنے تاثرات ایک مضمون کی صورت میں ضبط تحریر میں لائے۔یہ مضمون ایک خوبصورت ادب پارہ تھا جو علامہ اقبال کی نظم’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کارنگ لیے ہوئے تھا۔آپ ابھی والد بزرگوار کی رحلت کے صدمے سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ بیٹے نعیم المظفرگیلانی کی صحت سے متعلق تشویشناک خبریں موصول ہونے لگیں۔آپ کی گرفتاری کے وقت اس کی عمر پانچ ماہ چھ دن تھی۔ اب وہ ماشاء اللہ ایک سال سے زائد کا ہوچکا تھا۔اس عمر میں جب بچے کو اپنے باپ کی شفقت کی ضرورت ہوتی ہے، نعیم کو حکومتی جبر کے ذریعے اس سے محروم رکھا گیا تھا۔فطری بات ہے کہ آپ جیل میں بیٹے کی بیماری کا سن کر تڑپ گئے ہوں گے لیکن راہ حق کے راہیوں کو ہرحال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا ہوتا ہے۔جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے ہوکر آپ اپنے رب سے ہی فریاد کرسکتے تھے اور اسی سے بچے کی صحت یابی کی التجا کرسکتے تھے ، سو آپ نے رجوع الی اللہ جاری رکھا۔آپ کے مربی مولانا حکیم غلام نبی بھی آپ کی مشکلات کی آسانی اور بیٹے کی صحت یابی کے لیے دعا بھی کرتے رہے اور آپ کی ڈھارس بھی بندھاتے رہے۔اس دنیا میں ایسی اجتماعیت کا میسر ہونا اللہ کا خاص انعام ہوتا ہے جو علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی عملی تصویر ہوں:
ہو حلقئہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہوتو فولادہے مومن
الحمداللہ اسلامی تحریکیں اس شعر کی حقیقی مصداق ہیں۔برصغیر پاک و ہند کی جماعت اسلامی اور عالم عرب کی اخوان المسلمون ایسی حقیقی اسلامی سیرت و کردار کی حامل جتماعتیں ہیں جن سے وابستہ افراد کا باہمی تعلق حقیقی رشتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ یہ تعلق دنیوی اغراض پر نہیں بلکہ دینی و نظریاتی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔رسول اللہﷺ کی قیادت میں تشکیل پانے والی صحابہ کرامؓ کی جماعت ہر مسلم اجتماعیت کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی نسبت ارشاد خداوندی ہے۔
مُحَمدّالَرسُولُ اللہ وَالّذِیِنَ مَعَہ اَشِدَّائُ عَلَی الکُفّارِرُحَمَاَئَ بَینَھُم(سورۃ الفتح آیت 29)
ترجمہ: محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں ، کافروں پر بہت سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔
جموں وکشمیر ، بنگلادیش ، مصر اور دیگرممالک کی اسلامی تحریکوں کو اکثر و بیشتر قیدوہند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔جو قائدین و کارکنان تحریک ایسی آزمائشوں سے دوچار ہوتے ہیں، ان کے دوسرے تحریکی احباب ان کے گھرانوں کی دیکھ بھال اور دکھ درد کے ازالے کی ذمہ داری از خود سنبھال لیتے ہیں۔آپ کی گرفتاری کے عرصے میں بھی سوپور اور ڈورو کے تحریکی احباب آپ کے بوڑھے والدین اور معصوم بچوں کی خبر گیری کرتے رہے۔
سوپور سے تعلق رکھنے والی بساطی فیملی کے احباب اس کارخیر میں پیش پیش تھے۔اس خاندان کے سرکردہ افراد محمد اکبر بساطی ، غلام حسن بساطی ، غلام نبی بساطی وغیرہ آپ کے قیام سوپور کے دوران آپ کے خطابات سے متاثر ہوکر تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے تھے۔یہ گھرانا سوپور میں بھارتی قابض سرکار کے خلاف فکری ، نظریاتی اور عملی مزاحمت میں پیش پیش تھا۔آپ کی گرفتاری کے دوران سارے ہی تحریکی احباب آپ کے خاندان کے ساتھ رابطے میں رہے اور پرسش احوال کرتے رہے تاہم بساطی فیملی کے افراد آپ کے اہل خانہ کی دیکھ بھال اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش تھے۔
٭٭٭