ریحان ہاشمی
استاذ محترم خلیل چشتی صاحب کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں سید مودودیؒ کے چاندی کے برتن اور مولانا منظور نعمانی کا اس پر اختلاف کا اشارہ کیا گیا شاید بہت سے حضرات اس واقعے سے نا آشنا ہوں ان کیلئے مکمل واقعہ سیدی کی بیٹی سیدہ حمیرہ مودودی کی کتاب شجر ہائے سایہ دار سے پیش خدمت ہے۔اس واقعہ سے سیدی کی مردم شناسی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔لکھتی ہیں
“دارالاسلام میں جماعت اسلامی کے ایک اجلاس میں شرکت کیلئے مولانا منظور نعمانی صاحب اور مولانا جعفر پھلواری صاحب تشریف لائے اور دارالاسلام میں قیام پذیر ہوئے۔ابا جان نے انہیں گھر کھانے پر مدعو کیا اور احتیاط برتتے ہوئے اماں جان کو ہدایت کی کہ تانبے کی جن پلیٹوں میں ہم روزانہ خود کھانا کھاتے ہیں مہمانوں کیلئے بس انہی برتنوں کو دستر خوان پر چنا جائے۔انہوں نے اماں جان کو ہدایت کی کہ نہ اپنے شادی کے ڈنر سیٹ میں کھانا لگانا اور نہ گلاسوں کو موتیوں والے رومالوں میں ڈھکنا۔
اماں جان نے اصرار کیا کہ اتنے بڑے علماء دین میرے گھر آئیں اور میں ان کی عزت افزائی اور اکرام کیلئے اپنے اچھے برتن نہ نکالوں اور بس تانبے کے برتنوں میں انہیں کھانا کھلا دوں؟یہ کیسے ہوسکتا ہے!۔
اسی طرح ابا جان نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ زیادہ پر تکلف کھانا نہ تیار کرنا،بس وہی دال دلیا دسترخوان پر پیش کر دینا جو ہم روزانہ کھاتے ہیں۔اماں جان پھر تڑپ اٹھیں اگر ہم بھی اپنے دینی حلقوں کو عزت نہیں دیں گے تو عام لوگوں سے اس کی کیسے توقع کریں گے؟
الغرض بہت پر تکلف کھانا پکایا گیا اور اماں جان نے اپنے بہترین برتنوں سے دستر خوان سجایا مہمان تشریف لائے کھانا کھایا اور چند روز بعد کُھسر پُھسر شروع ہوگئی جس کا انجام جماعت اسلامی سے ان دو بزرگوں کے استعفی کی صورت میں سامنے آیا۔ان حضرات گرامی قدر نے اپنے دائیں بائیں ملنے والوں سے کہنا شروع کیا مولانا مودودی دین داری کے لبادے میں دنیا دار آدمی ہیں۔مولانا کے گھر میں خانساماں کھانا پکاتا ہے،بچے آیا پالتی ہے۔آیا،مولانا کے بچوں کو گاڑی میں سیر کرانے لے جاتی ہے۔یہ بیوی آخر کس مرض کی دوا ہے؟سنا ہے کہ مولانا کی بیوی ساڑھی پہنتی ہیں اور کبھی غرارہ۔پان لگانے کیلئے مولانا کا پان دان چاندی کی ہے یہ سب دین داری کے نام پر دھوکہ نہیں تو اور کیا ہے۔
(حالانکہ یہ چاندی کی نہیں،تانبے کی تھی،جس پر قلعی کی ہوئی تھی)۔
دادی اماں نے یہ باتیں سنیں تو چھوٹتے ہی کہا: ’’اللہ تعالیٰ بھی تو قد کے مطابق جامہ دیتا ہے،بس اتنا ظرف ہے ان لوگوں میں‘‘۔
اس واقعے کے بعد سے اماں جان نے کبھی ابا جان سے اختلاف کرکے اپنی بات نہیں منوائی۔انھیں ہمیشہ اس بات کا پچھتاوا رہا کہ ا گر میں ان کی ہدایت کے مطابق سیدھا سادہ کھانا پکواتی اور تانبے کی پلیٹیں دستر خوان پر رکھتی تو یوں بات کا بتنگڑ نہ بنتا۔
٭٭٭