سید صلاح الدین احمد کا پیغام

5فروری2024تحریک آزادی کشمیر کے ممتاز رہنما اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین احمد نے پریس کے نام ایک اہم بیان جاری کیا۔بیان صرف بیان کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس میں اس خطے کی صورتحال کا ایک تحقیقی اور علمی جائزہ لیا گیا ہے ۔مستقبل کے خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بلی کے حملے کا انتظار کیا گیا تو نتائج انتہائی سنگین ہونگے ۔سید نے کہا اور دوٹوک انداز میں کہا کہ ۔۔۔ ” پاکستانی قوم کا کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی منانا انتہائی قابل تحسین اقدام ہے۔موجودہ حالات کی سنگینی عملی اقدامات کا تقاضہ کرتی ہے۔ 5فروری کو پوری پاکستانی قوم محکوم و مظلوم کشمیری قوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔پورے پاکستان میں جلسے جلوس اور سیمنار وں کے ذریعے کشمیریوں کے ساتھ محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔پوری دنیا کو بالعموم اور بھارت کو بالخصوص یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ کشمیری تنہا نہیں، پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔اس روز ریاست پاکستان بھی کشمیری عوام کو یہ یقین دلاتی ہے کہ وہ ان کی آزادی کی جدوجہد کو سیاسی،سفارتی اور اخلاقی تعاون جاری رکھے گی۔ پاکستانی حکومت اور عوام کا کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا انتہائی قابل تحسین اقدام ہے اور ہم بحیثیت قوم اس کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔تاہم موجودہ حالات اس حد تک سنگین ہیں کہ صرف اخلاقی سفارتی اور سیاسی تعاون سے ان کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ بھارت کی ہندوتوا قیادت اس وقت بہت تیزی کے ساتھ مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو ہندو اکثریتی ریاست بنانے کے ہر ممکنہ اقدامات کررہی ہے۔بھارت کی ریاستوں سے لاکھوں ہندوں کو لاکر جموں و کشمیر میں بسانے کے منصوبوں پر کام ہورہاہے۔مسلم سرکاری افسران اور ملازمین کو سرکاری نوکریوں سے فارغ کیا جارہا ہے۔بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر اور پھر رام کی مورتی پر شاردہ آزادکشمیر کاپانی جسے متبرک پانی کا نام دیا گیا کا چھڑکائو ، آنے والے وقتوں کے حوالے سے بہت ہی خوفناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے ۔اکھنڈ بھارت کا بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے نقشہ بھی مستقبل کا نقشہ سمجھا رہا ہے۔ گرفتاریاں،ماردھاڈ،جلاو گھیرائو کا عمل جاری ہے۔جھوٹے الزامات لگاکر گھر اور تعمیرات گرائے جارہے ہیں۔وراثت میں ملی زمینوں پر قبضے کئے جارہے ہیں۔وادی میں 5000مندروں کی تعمیر کیلئے نقشے تیار ہورہے ہیں۔ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے دانشور کشمیر کو اب سپین سے مشابہت دے رہے ہیں ۔سپین جو سات سو سال سے زائد عرصے تک اسلامی ریاست رہی لیکن آج وہاں بمشکلاََ کوئی مسلمان نظر آرہا ہے۔ مسجد قرطبہ کلیسا میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ان حالات میں صرف سیاسی،سفارتی اور اخلاقی حمایت تک یکجہتی کو محدود کرنا کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا۔پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور ایک فریق کی حیثیت سے اسے کشمیری عوام کی عملی مدد کرنا فرض بن جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کے عمل میں مضمر ہے۔زور زبردستی کی بنیاد پر کوئی بھی ٹھونسا حل اس خطے کے خرمن امن کو خاکستر کرنے میں ایک خوفناک کردار ادا کرسکتا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی اوربے غیرتی پرسخت افسوس ہے یہ حکمران اب محض تماشائی بن کر،فلسطینی عوام کے معصوم بچوں کی لاشوں کا نظارہ کررہے ہیں۔یہ آگ جو آج کشمیر یا فلسطین میں لگی ہوئی ہے،یہ کسی بھی وقت پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے‘‘۔۔۔۔۔ اللہ رحم فرمایئے۔