محمد شہبازبڈگامی
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی جانب سے کبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے کشمیری عوام کی جائیدادیں ضبط یا تباہ کرنا ایک نیا معمول بن گیا ہے۔ مودی کی ہندوتوا حکومت کشمیری عوام کی آزادی کے عزم کو توڑنے کے لیے ان کی جائیدادیں ضبط کرکے انہیں اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کر رہی ہے۔اس سلسلے میں بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی NIA نے رام باغ سرینگر اور سوئیہ بگ بڈگام میں متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین احمد کے دو بیٹوں سید احمد شکیل اور سید شاہد یوسف کا ایک مکان اور 2 کنال اراضی ضبط کی ہے۔ سید صلاح الدین احمدکے یہ دونوں لخت جگر دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔انہیں 2017 اور 2018 میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانوں UAPA کے گرفتار کیا گیا تھا۔سید احمد شکیل صورہ انسٹیٹیوٹ میڈیکل سائنسز سرینگر میں بطور سینئر لیب ٹیکنیشن اور سید شاہد یوسف زرعی یونیورسٹی سرینگر میں اسسٹنٹ ایگریکلچرل آفیسر کے بطور کام کرتے تھے۔سید صلاح الدین احمد کے چھوٹے فرزند سید معید یوسف کو بھی کچھ عرصہ قبل نوکری سے برخاست کیا گیا،وہ آئی ٹی شعبے میں بطور منیجر فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس سے قبل سوئیہ بگ بڈگام میں نہ صرف سید صلاح الدین احمد کے آبائی گھر بلکہ ان کے بھائیوں کے مکانات کو بھی بارودی دھماکوں میں تباہ کیا جاچکا ہے۔ان کے اہل خانہ کیلئے اپنی ہی زمین تنگ کی گئی مگر جناب سید صلاح الدین حالات کے تمام تر جبر اور مشکلات و مصائب کے باوجود استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے ہیں۔ان کے قدم نہ پہلے ڈگمگائے اور نہ ہی اب ان میں لغزش پیدا ہورہی ہے۔ان کے عز م و حوصلے ہمالیہ سے زیادہ مضبوط اور سمندر سے گہرے ہیں۔ نہ جانے کتنے اپنے ساتھیوں کے جنازے اپنے ہاتھوں سے اٹھائے۔اپنے قریبی رفقا کی جدائی سہنا پڑی۔جن کے ساتھ تحریک اسلامی میں ایک ساتھ سفر شروع کیا،وہ سارے ایک کے بعد ایک دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے شہادتوں سے سرفراز ہوئے۔ یہ کوہ گران بن کر عدو کے مقابل کھڑا ہے۔ا ن کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو کب کا ہاتھ اوپر کرچکا ہوتا مگر بظاہرگوشت و پوست کاحامل یہ شخص کسی اور دنیا کیلئے بنا ہے۔ان کے ماتھے پر نہ بل آتے ہیں اور نہ ہی حزن و ملال۔بس انہیں ایک ہی فکر دامن گیر ہے کہ کس طرح اہل کشمیر کی نیا کو پار لگایا جائے۔

قوم سے بھی ان سے امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ شخص اپنا آج قوم کے کل پر قربان کرچکے ہیں۔نہ بچوں کی فکر اور نہ ہی ان کیلئے کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا۔اگر کیا بھی ہے اور آج بھی کررہے ہیں تو دوسروں کیلئے اور انہی کا مفاد مطمع نظر رکھا۔ہزاروں شہداء کے وارث اور قوم کی ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کی لٹی عصمتوں کے امین یہ شخص یتیموں کے سروں پر دست شفقت رکھتے اور ان کے مفاد کو عزیز تر گردانتے اور سمجھتے ہیں۔ 33برس قبل جس پر خار سفر کا آغاز کیا آج بھی اسی پر رواں دواں اور ثابت قدم ہیں۔بے شمار حوادث کا سامنا کیا۔غیر تو غیر اپنے بھی مزاحم بنے اور مشکلات کھڑی کیں مگر نہ جانے اللہ تعالیٰ نے انہیں کس قسم کا دل عطا کیا ہے کہ وہ خندہ پیشانی سے سب کچھ سہہ جاتے ہیں اور پھر نبوی سنت پر عمل پیرا ہوکر جو ان سے کٹ جاتا ہے ان سے جڑجاتے ہیں۔ یہی ان کا سب سے بڑا وصف ہے جس کا اعتراف کیے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا۔
مقبوضہ کشمیر کی سرینگر یونیورسٹی سے پولٹیکل سائنس میںاعلیٰ نمبرات اور پوزیشن کے ساتھ پوسٹ گریجویشن حاصل کرنے کے بعد کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک اعلی سرکاری نوکری ان کی دہلیز پر دستک دے رہی تھی مگر اپنے استاد اور مرشد مولانا سعدالدین ؒ کے اس حکم کے آگے سرنگوں ہوئے کہ ” اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلی سرکاری عہدہ آپ کا انتطار کررہا ہے البتہ جماعت اسلامی کے زیر انتظام فلاح عام سکول میں پڑھانا آپ کیلئے دنیا و مافیہا سے زیادہ سود مند ثابت ہوگا”۔جناب سعدالدین ؒکے احکامات پر لبیک کہا اور پھر ایک کے بعد ایک منازل طے کرتے گئے۔وہ دلوں پر راج کرتے ہیں۔ان کی تنظیم کئی مرتبہ بحرانوں سے بھی گزری مگر ہر باراللہ تعالی نے انہیں ان بحرانوں سے نکال کر سرخرو کیا۔

مقبوضہ جموں وکشمیر جہاں سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے جاچکے ہیں آج بھی ان کے حق میں نعرے بلند ہوتے ہیں۔سید صلاح الدین قدم بڑھاو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔یہی ان کا سرمایہ حیات ہے اور یہ شخص بھی اپنے قوم کے ارمانوں،احساسات،جذبات اور ان کی خواہشات کابھرم رکھے ہوئے ہیں۔حزب المجاہدین حالات کے تمام تر جبر کے باوجود دشمن کے خلاف برسر پیکار ہے۔اس تنظیم کی پشت پر ہزاروں قربانیاں ہیں،جن میں معاشرے کے ہر مکتبہ فکر کے ساتھ وابستہ افراد شامل ہیں۔حزب المجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے پر اپنا لہو بہایا ہے۔سروسبز وادیو ں سے لیکر سنگلاخ پہاڑوںاور برف پوش چوٹیوں کو اپنے گرم گرم خون سے سینچا ہے۔آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ان قربانیوں کی حفاظت کرنا، اپنی افرادی قوت کو مجتمع رکھنا اور منتشر ہونے سے بچانا ہی ایک بڑا ہنر ہے جس کا فریضہ سید صلاح الدین احمد بخوبی نبھارہے ہیں۔یہی اس شخص کا جرم ٹھہراجس کی انہی سزا دی جاتی ہے۔ان کی زبان پر نہ پہلے حرف شکایت آئی،نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔وہ ہر ایک کو یہی تاکید کرتے ہیں کہ ہمارے سینوں میں جلائی ہوئی شمع بھجنے نہ پائے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پایاں صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔انہیں فن خطابت بھی خوب آتا ہے اور سننے والوں پر جیسے سحر طاری ہوتا ہے۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے تمام پہلوئوں پر بخوبی نظر بھی رکھتے ہیں اور وقتا فوقتا اپنے رفقاء کو بھی تمام حالات و واقعات سے آگاہ کرتے ہیں۔مودی کا بھارت انہیں خطرناک افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھ چکا ہے۔وہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے شروع کی جانے والی جدوجہد سے پہلے بھی اپنی زندگی کے کئی قیمتی برس بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں گزار چکے ہیں۔وہ تعذیب و تشدد کے مراحل سے بھی گزر چکے ہیں لہٰذا مودی کے حربے ان کیلئے کوئی نئے نہیں ہیں۔بلاشبہ وہ دن کے شہسوار اور راتوں کے عبادت گزار ہیں۔انہوں نے اپنا سکھ اور چین بھی اپنے قوم پر قربان کیا ہے۔وہ اپنوں کی ناراضگی بھی مول لینے سے نہیں کتراتے اور ڈنکے کی چوٹ پر کلمہء حق بلند کرتے ہیں۔وہ نہ ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی تشہیر کے قائل ہیں۔یہی ان کا بڑا وصف ہے کہ اپنے بھی ان کی بات بڑے غور سے سنتے ہیں اور ان کے کہے کا برا بھی نہیں مناتے کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ شخص سراپا ایثار و قربانی کا مجسمہ ہیں۔
سید صلاح الدین احمد کسی شخص کا نام نہیں بلکہ وہ ایک بھرپور تحریک ہیں اور ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ایسے مجسم اخلاق و اخلاص والی شخصیات ایک اثاثہ ہوتی ہیں جنہیں ضائع نہیں بلکہ بچانا ہی قوموں اور تحریکوں کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہیں۔پھونکوں سے یہ چراغ پہلے کب بجھے تھے کہ اب بجھیںگے۔سید شاہد یوسف کو2017 میں پہلی مرتبہ تہاڑ جیل سے عدالت میں لاکر خون آلود کپڑوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔مقصدصاف اور واضح تھا کہ جناب سید کے عزم و حوصلوں کوکمزور اور توڑا جائے مگر استقامت کے پائے گراں نے اس موقع پر بھی نہ صرف اپنے حواس اور جذبات کو قابو میں رکھا بلکہ برہمن سامراج کو دوٹوک پیغام دیا کہ اس طرح کے بزدلانہ حربوں سے انہیں اور اہل کشمیر کو ڈرایا اور خوفزدہ نہیں جاسکتا۔حق و باطل کے درمیان یہ کشمکش ازل سے شروع ہے اور تاصبح قیامت جاری رہے گی۔تاریخ میں قربانیاں دینے والے ہی امر ہوجاتے ہیں۔کیونکہ قربانیاں انمول اورہمیشہ کیلئے انسان کو زندہ رکھتی ہیں۔البتہ برہمن سامراج طاقت اور گھمنڈ کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح پھنکار رہا ہے۔تاریخ نے اس سامراج سے پہلے بھی بڑے جابر اور سفاک پٹخ دیئے ہیں کیونکہ قانون ِ الٰہی ہے کہ ظلم ظالم سمیت فنا کے گھاٹ اترتا ہے اور تاریخ ایسی مثالوں سے بری پڑی ہے۔مودی اور اس کے حواری بھی فنا کے گھاٹ اترنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔بس استقامت اور ثابت قدمی شرط اول ہے۔ اور جناب سید بھی استقامت اور ثابت قدمی کی پیغمبرانہ سنت پر عمل پیرا ہیں۔ دنیا انہیں پیر صاحب کے نام سے بھی جانتی ہے۔

مودی حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کی جائیدادیں ضبط کرنا سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے۔جس کا مقصد اہل کشمیر کو عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی سے دستبردار کرانا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات بھارتی ا فواج پرتشدد فوجی کارروائیوں کے دوران کشمیری عوام کے گھروں کو تواتر کے ساتھ تباہ کر رہی ہے۔ مودی حکومت کشمیری عوام کو ان کی زمینوں، جائیدادواملاک اور نوکریوں سے محروم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جائیدادواملاک کی مسماری اور غیر قانونی ضبطی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی منظم آبادکارنوآبادیاتی مہم کا حصہ ہے۔ مودی کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ہر وحشیانہ حربہ استعمال کر رہا ہے۔ مذموم بھارتی ہتھکنڈے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حریت پسند عوام کو آزادی کے مقصد کے حصول کو آگے بڑھانے سے نہیں روک سکتے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مودی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کا نوٹس لینے کے لیے دنیا کو اب خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے کیونکہ مودی کا بھارت کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کا آغاز کرچکا ہے جس کی نشاندہی نسل کشی سے متعلق عالمی تنظیم جینوسائیڈ واچ کے سربراہ گگوری اسٹنٹن بھی کرچکے ہیں کہ اگر دنیا نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار کی جانب اپنی توجہ مبذول نہ کی تو دونوں مقامات پر برے پیمانے پر نسل کشی کو روکا نہیں جاسکتا۔عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ اپنی مجرمانہ خاموشی ترک کرکے اہل کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کو مودی کے ہاتھوں
ممکنہ نسل کشی روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
٭٭٭