
غلام اللہ کیانی
جدوجہد آزادی کشمیر کا ایک روشن باب یکم ستمبر2021ء میں بند ہو گیا۔ رہبر انقلاب سید علی شاہ گیلانیؒ کوقابض بھارتی سامراج کے ہاتھوں دوران حراست قتل کر دیا گیا۔وہ جبری نظربندی کے دوران شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر اپنے مشن سے وفا کر تے ہوئے جائز مشن سے آخری دم تک روگردانی نہ کرنے کا درس دے گئے۔ بطل حریت سید علی شاہ گیلانی ؒشہیدکے جسد خاکی سے خوفزدہ بھارت نے مداخلت فی الدین کامظاہرہ کیا۔ رات کے اندھیرے میں ، قابض فورسز کا سخت پہرہ بٹھا کر اہل خانہ پر تشدد کرتے ہوئے جسد خاکی چھین لیا گیا اور شہید کی وصیت کے برخلاف ورثاء کی غیر موجودگی میں جبری تدفین کر دی گئی۔یہی نہیں بلکہ پروپیگنڈے کے لئے سرکاری اہلکاروں نے ویڈیوز بھی جاری کیں۔ بھارتی فورسز نے شہید کے لواحقین کو وصیت کے مطابق سرینگر کے مزار شہداء میں دفن نہ کرنے دیا ۔بھارتی حکمرانوں نے اپنی ریاستی دہشتگردی پر پردہ ڈالنے کے لئے بدنام زمانہ کالے قانون کے تحت شہید کے بیٹوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر دیا۔شہید کے ایک فرزند سید نسیم گیلانی کشمیر یونیورسٹی سرینگر میں میرے کلاس فیلو تھے۔ گیلانی صاحب کا پورا خاندان تحریک آزادی میں ایک مقام رکھتا ہے۔
کشمیری سیاست کی ایک ممتاز شخصیت سید علی شاہ گیلانی ؒنے اپنی زندگی کشمیری عوام کے حقوق اور خود ارادیت کی وکالت کرتے ہوئے گزاردی۔ کشمیری کاز سے ان کی غیر متزلزل وابستگی اور خطے کے سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں ان کے کردار نے انہیں مزاحمت اور استقامت کی علامت بنا دیا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسلامی تعلیم نے ان میں انصاف کا مضبوط احساس اور انسانی حقوق کے اصولوں کو جنم دیا۔ان کاسیاسی سفر ہندوستان کی آزادی کے بعد کے ابتدائی دور میں شروع ہوا، جو ایک عظیم سیاسی ہلچل اور تبدیلی کا دور تھا۔ وہ کشمیری سیاست میں ایک نمایاں آواز کے طور پر ابھرے، خطے کے حق خودارادیت کی وکالت کرتے ہوئے اور جس چیز کو وہ متواتر بھارتی حکومتوں کی غیر منصفانہ اور جابرانہ پالیسیوں کے طور پر سمجھتے تھے اسے چیلنج کیا۔سیدگیلانی کی فعالیت کے اہم لمحات میں سے ایک بھارتی حکمرانی کے خلاف کشمیری مزاحمتی تحریک میں ان کی شمولیت تھی۔ انہوں نے کشمیری عوام کی حالت زار اور ان کی خودمختاری کے مطالبے کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے لیے احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور سول نافرمانی کی مہموں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عدم تشدد کے لیے ان کی ثابت قدمی نے انہیں علاقے کے اندر اور باہر عزت بخشی۔ان کے نظریے کا مرکز جموں و کشمیر کے لوگوں کی اپنی سیاسی تقدیر کا خود تعین کرنے کے ناقابل تنسیخ حق پر یقین تھا۔ انہوں نے مسلسل دلیل دی کہ مسئلہ کشمیر ایک انسانی اور سیاسی مسئلہ ہے ،جسے پرامن مذاکرات کے ذریعے اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ حق خود ارادیت کے حامی رہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں درج ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ بین الاقوامی نگرانی میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری ہی خطے کے مستقبل کا تعین کرنے کا واحد جمہوری طریقہ ہے۔ اپنے پورے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے اس بات کو برقرار رکھا کہ کشمیریوں کی خواہشات کا احترام کیا جانا چاہیے، چاہے ان کا حتمی انتخاب کچھ بھی ہو۔ بے شمار مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجودسید گیلانی کشمیر کاز کے لیے اپنے عزم پر ثابت قدم رہے۔کچھ ناقدین نے کہا کہ کشمیر کی مکمل آزادی کے بارے میں ان کا غیر متزلزل موقف مذاکراتی حل کے امکانات کو محدود کر سکتا ہے۔ انسانی حقوق، انصاف اور خود ارادیت کے لیے ان کے ثابت قدم وکالت نے انھیں مداح اور ناقدین دونوں سے نوازا لیکن کشمیری سیاست پر ان کے اثرات ناقابل تردید ہیں۔ مخصوص حکمت عملی یا حکمت عملیوں پر مختلف آراء سے قطع نظر، اس کاز کے لیے ان کی زندگی بھر کی وابستگی نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر بلند کیا اور خطے کو درپیش حل طلب چیلنجوں کی مستقل یاد دہانی کا کام کیا۔ان کی زندگی اور کام کشمیری عوام کے پائیدار جذبے اور انصاف و حق خود ارادیت کے لئے ان کی جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کشمیری کاز کے لئے ان کی غیر متزلزل لگن نے خطے کے سیاسی منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
گیلانی صاحب حیدر پورہ سرینگر میں اپنی رہائش گاہ کے قریب چاند ستارے والے پاکستانی پرچم میںامانتاً آسودہ خاک ہو گئے۔ پاکستان کا یہ تحریک آزادی جموں و کشمیر کے تئیںزبردست عقیدت اور عزم کا اظہار تھا کہ جس کے تحت 14 اگست2020 ء میں یوم آزادی کے موقع پرگیلانی صاحب کو ملک کے سب سے بڑے اور معتبر سول ایوارڈ، نشان پاکستان سے نوازاگیا۔”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہیــــ ــ”کا نعرہ بلند کرنے والے سید علی گیلانیؒ پہلے اور واحد کشمیری ہیں جنھیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیا گیا جو کہ بھارت کے جبری اور غاصبانہ قبضے کے خلاف بر سرپیکار کشمیریوں نے باعث اعزاز سمجھا اور پاکستان کے اس عزم کا بھی اظہار ہوا کہ وہ کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور ان کی حق خو ارادیت کی جدوجہد کی کامیابی تک اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ اس سے پہلے نشان پاکستان نیلسن منڈیلا، ملکہ الزیبتھ دوم، شاہ عبد اللہ، مہاتیر محمد، عبد اللہ گل، حماد بن خلیفہ الثانی، فیڈل کاسترو، رجب طیب ایردوان، لی پینگ اور مرارجی دیسائی سمیت دنیا کے دو درجن کے قریب سربراہان حکومت و مملکت کو دیا گیا ۔ سید گیلانی کی جانب سے ایوان صدر میں حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔جناب گیلانی 29 ستمبر 1929ئمیں شمالی کشمیر کے خوبصورت ایپل ٹائون ’’سوپور‘‘ جسے چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا رہا ہے،کے قریبی علاقہ بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے ۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے ایک سخت گیر وکیل بن کر وہ مقبوضہ ریاست میں بھارتی ظلم اور ناانصافی کے خلاف سینہ تان کر کھڑے رہے۔1993 میں کشمیر میں آزادی پسند مختلف گروپوں کی تنظیم حریت کانفرنس قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 2003 میںگیلانی صاحب نے حریت کانفرنس کو خیر باد کہہ کر پاکستان نواز آزادی پسندجماعتوں پر مشتمل اتحاد حریت کانفرنس (گیلانی)کے نام سے قائم کیا۔انہیں اس گروپ کا تاحیات چیئرمین منتخب کیا گیا، جس میں 24 تحریک پسند جماعتیں شامل تھیں۔دوسرے دھڑے کی قیادت میر واعظ عمر فاروق کر رہے تھے، جو گذشتہ کئی سال سے گھر میں نظر بند ہیں۔پاکستان کے ایوان بالاسینیٹ کی قراردادکی روشنی میں سید علی شاہ گیلانیؒ کو ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز، نشان پاکستان دیاگیا ۔ اس قرارداد میں، جو حکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر پیش کی، کہاگیا کہ گیلانی کو اقوام متحدہ کی قراردادوںکی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے ان کی تاحیات خدمات اور قربانیوں کے لئے اعزاز دینے کی ضرورت ہے۔ 5 اگست2019ء میںکشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور35اے کو ختم کرنے کے بعد، سید علی شاہ گیلانی نے ”مناسب طریقے سے رد عمل ظاہر نہ کرنے” اور ”کشمیری عوام کی رہنمائی نہ کرنے” پرحریت کانفرنس سے علٰیحدگی کا اعلان کیا ۔

پاکستانی سینیٹ کی قرارداد میں گیلانی صاحب کی زندگی اور ان کی ”کشمیریوں کی آزادی کے لئے جدوجہد” کو بھی پاکستانی اسکولوںکے نصاب میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔قرارداد میں وزیر اعظم ہائوس اسلام آبادکے قریب مجوزہ پاکستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز گیلانی صاحب کے نام پر رکھنے کی بھی سفارش کی گئی۔ سینیٹ نے سید علی شاہ گیلانی کو اپنی پسند کی جگہ پر بہترین علاج معالجہ حاصل کرنے میں مددکے لئے عالمی ضمیر کوبیدار کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔مگر بھارت نے انہیں علاج کی اجازت نہ دی۔سید علی گیلانی کے لئے ایوارڈ، بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو دو بھارتی کالونیوں ،جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کے اعلان کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر دیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں بھارتی شہری جن میں اکثریت انتہا پسند فورسز یا ان کے خاندانوں کی ہے، مقبوضہ ریاست میں زمینیں اور جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ کشمیریوں کی زمینیں مختلف بہانوں سے ضبط کر کے ان پر جبری قبضہ کیا جا رہا ہے۔بھارتی شہریوں کو سرمایہ کاری کی آڑ میں اراضی دی جا رہی ہے۔50لاکھ سے زیادہ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل اسناد دی جاچکی ہیں۔انہیں ووٹ کا حق بھی دیا گیا ہے۔کشمیریوں سے ان کی شناخت چھین لینے کے بعد کشمیر کا پرچم چھین لیا گیا۔آزادی پسندوں ہی نہیں بلکہ بھارت نواز کشمیریوں پر سخت اور جبری پابندیاں عائدکی گئیں۔ 5اگست2019کو بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت نے یو این سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کے ایک شاطرانہ ٹریپ کے طور پر امریکی ثالثی کی مسلسل کئی پیشکشوں کے بعد بالآخر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کر دی۔ مقبوضہ ریاست کی بھارت کے ساتھ نام نہاد اور مشروط الحاق کی آرٹیکل 370اور 35اے جیسی بنیاد مٹا دی۔ مقبوضہ ریاست کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو اپنی مرکزی حکومت کے زیر انتظام فاٹا جیسے علاقے بنا دیا۔

سید علی شاہ گیلانیؒ کو پاکستان نے مشکل حالات میں ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا۔ جو کہ پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا منفرد انداز ہے۔یہ ایوارڈ ایسے موقع پر دیا گیا جب سید علی شاہ گیلانیؒ کی طرف سے حریت کانفرنس(گیلانی) سے17سال بعد مستعفی ہونے کے اچانک اور غیر متوقع اعلان پر دنیا بھر میںکشمیر سے دلچسپی رکھنے والوں میں بحث و مباحثے اور تبصرے ہو رہے تھے۔ گزشتہ تین دہائیوںپر حاوی قومی سوچ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات وسانحات، بے مثال قربانیاں، بے پناہ تباہیاں اور ان کے نتائج سید علی گیلانی کی ذات سے منسوب ہیں۔ انہوںنے آدھی صدی پر چھائے ہوئے قومی ہیرو شیخ محمد عبداللہ، جنھوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں جواہر لال نہرو کے نمائندہ کے طور پر لیاقت باغ راولپنڈی میں وزیر مہمانداری ذوالفقار علی بھٹو شہید کی موجودگی میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کیا اور جو کبھی کشمیریوں کے لئے’’ شیر کشمیر‘‘ بھی تھے اور’’ ایشیاء کا بلند ستارہ ‘‘بھی،مگر گیلانی صاحب نے ان کی عوامی مقبولیت، محبت، عقیدت اور عظمت، اس کے سیکولر نظر یات، اعتدال پسند مذہبی خیالات،ترقی پسند سیاسی عقائد اور پرامن سیاسی حکمت عملی دلوں سے کھرچ کر نظام مصطفیٰ ؐکا نفاذ، کفر و ایمان کے عقائد، الحاق پاکستان کی سیاست اور بندوق کی حکمت عملی دلوں اور ذہنو ں پر قائم کرکے آزادی کا سنہرا خواب قوم کی آنکھوں میں سجایا اور رہبر انقلاب کا لقب حاصل کرلیا۔انہوں نے سارا ماضی لپیٹ کر اپنی نئی سوچ کا جھنڈا بلند کردیا۔انہوں نے جو کہا، اس پر آمنا و صدقنا کہا گیا اور انہوں نے جو بھی چاہا وہی ہوا۔گو کہ ان کے سیاسی عروج کے پیچھے کئی دوسرے عوامل کا بھی عمل دخل تھا ،لیکن انہیں شہرت، مقبولیت اور محبت کے اعلیٰ مقام تک پہنچانے والی ان کی جو ادا تھی،وہ یہ تھی کہ وہ سیاست کے اسرار و رموز کی گہرائیوں میں اترنا نہیں جانتے تھے۔وہ نتائج و عواقب کی پرواہ کئے بغیر بھارت کو للکارتے تھے۔ اُسے غاصب قرار دیکر کشمیر چھوڑنے کا مشورہ دیتے تھے۔اس کی طرف سے دو طرفہ مذاکرات کی پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکراتے تھے۔اس جرات رندانہ نے ان کا سیاسی قد شیخ محمد عبداللہ سے کافی بلند کردیا جو اس سے پہلے جرات، ہمت اور عزم کی علامت تھے۔
سیدعلی گیلانیؒ کی آزادی پسندی اور تحریک نوازی ایسی ہے کہ ان کی شخصیت ہمیشہ بے داغ رہی ہے۔ سیاسی حریف بھی ان پراپنے موقف سیذرا بھر لغزش دکھانے ، جھکنے یامعمولی کرپشن کا الزام نہ لگا سکے۔گیلانی صاحب نے حریت فورم سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جو کہا وہ کافی دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔وہ حریت(گ) کے تا حیات چیئر مین تھے۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں ان کے ترجمان اور حریت کانفرنس (گ) کے کنوینئر عبد اللہ گیلانی تھے۔ جنھیں اچانک کنوینئر شپ سے برطرف کر کے ان کی جگہ محمد حسین خطیب کو قائم مقام کنویئنر مقرر کیا گیا۔ جس کے بارے میں گیلانی صاحب کو اعتماد میں نہ لیا گیا۔گیلانی صاحب نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر کیا’’نہ ہی قلب و ذہن کی قوت موقوف ہوئی ہے اور نہ ہی میرے جذبہ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے،اس دارفانی سے رحلت تک میں بھارت مخالف رہوں گا اور پوری قوم کی رہنمائی کا حق حسب استطاعت ادا کرتا رہوںگا‘‘۔مکتوب میں کہا گیا کہ عبداللہ گیلانی،پاکستان و آزاد کشمیر اور بیرون ممالک میں انکی نمائندگی بدستور ادا کرتے رہیں گے۔92برس کے سید علی گیلانی نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

پہلے شمالی کشمیر کے ڈورو سوپور گائوں اور بعدا ازاں حیدر پورہ سرینگر میں رہائش پذیر گیلانی نے آرینٹل کالج لاہور سے عالم کی ڈگری حاصل کی ۔ابتداء میں ہی جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی،اور ایک داعی کی حیثیت سے شعلہ بیان وعظ و تبلیغ کے مقرر کے طور پر خود کو متعارف کرایا۔1950 کی دہائی کے ابتدائی برسوںمیں سیاست میں قدم رکھا اور1962میں پہلی مرتبہ گرفتار ہونے کے بعد وقفہ وقفہ سے زائد از12 برس جیل میں گزارے۔ انتخابی سیاست میں بھی شرکت کی اور جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑے اور 3بار 1972،1977اور1987میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے ممبر بنے ۔1989میں انہوں نے بطور احتجاج رکن اسمبلی کی حیثیت سے استعفیٰ دیا،جس کے بعد انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔1990میں گرفتار ی کے بعد1993میں حریت کانفرنس کی داغ بیل ڈالی گئی اور میر واعظ عمر فاروق،محمد یاسین ملک،مولوی عباس انصاری،مرحوم خواجہ عبدالغنی لون اور ایس حمید کے ہمراہ اس پلیٹ فارم سے مزاحمتی سیاست کی۔ سال 2003 میں بعض آزادی پسند جماعتوں نے متحدہ حریت کانفرنس سے کنارہ کشی اختیار کر کے حریت کانفرنس (گ) کی بنیاد ڈالی جس کی سربراہی سید علی گیلانی کو سونپی گئی۔ بعد میں سیدگیلانی نے 7 اگست 2004ء میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ساتھ ایک تحریری مفاہمت کے بعد تحریک حریت جموں و کشمیر کو منصہ شہود پر لایا اور وہ اس کے بھی چیئرمین مقرر ہوئے۔ تاہم 19 مارچ 2018 ء کو اپنی جگہ اپنے دست راست محمد اشرف صحرائی کو تحریک حریت جموں وکشمیر کا عبوری چیئرمین مقرر کیا2016ء میں ایک متحرک اور فعال متحدہ مزاحمتی قیادت بھی تشکیل دی گئی،جو حریت (گ)،حریت (ع) اور لبریشن فرنٹ پر مشتمل مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم تھا۔وہ سال2010سے اپنے ہی گھر کے اندر نظر بندی کے ایام گذار رہے تھے۔مگر ان کے عزائم چٹان جیسے سخت اور بلندتھے۔ سال2010میں نئی دہلی میں ایک سمینار میں خطاب پر سید علی گیلانی سمیت معروف قلمکارارون دھتی رائے اور مائو نواز واراویرا پر بغاوت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا۔
سید علی گیلانی نے ایک درجن سے زائد از کتابیں تصنیف کیں۔ وہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت بہت ساری کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ جن میں رودادقفس، قصہ درد، صدائے درد، مقتل سے واپسی، روح دین کا شناسا اول و دوم، پیام آخری، نوائے حریت، بھارت کے استعماری حربے، عیدین، سفر محمود میں ذکر مظلوم، ملت مظلوم، تو باقی نہیں، پسِ چہ باید کرد، پیام آخرین، اقبالؒ اپنے پیغام کی روشنی میں، ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا، ہجرت اور شہادت، تحریک حریت کے تین اہداف، معراج کا پیغام، نوجوانانِ ملت کے نام، دستور تحریکِ حریت اور وولر کنارے اول دوم، وغیرہ قابلِ ذکر تصانیف ہیں۔جن میں ا ن کی سوانح حیات’’ ولر کنارے ‘‘کے علاوہ جیل میں بتائے ایام پر مبنی روداد قفس ، دید و شنید،صدائے درد اور مقتل سے واپسی قابل ذکر ہیں۔جب حریت کانفرنس کا قیام عمل میں آیا توسید علی شاہ گیلانی اس وقت سینئر ترین لیڈر تھے، خواجہ عبدالغنی لون، پروفیسرعبد الغنی، مولانا عباس انصاری بھی تھے، آپسی کشمکش کے نتیجے میں کمسن میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق کو نامزد کیا گیا اور یہ فیصلہ گیلانی صاحب اور دیگر نے تحریک کے مفاد میں قبول کیا۔خواجہ عبدالغنی لون کے قتل کے بعد گیلانی صاحب نے خود کو حریت سے الگ کردیا اور حریت (گ)کے نام سے ان کا الگ گروپ قائم ہوا۔ میر واعظ نے اپنے گروپ کو حریت (ع) یعنی عمر کے نام سے منسوب کیا۔گیلانی صاحب کے گروپ کی شناخت سخت گیر گروپ کی تھی۔حزب المجاہدین کی وسعت اور جماعت اسلامی کی بالائے زمین قوت اس کی حامی تھی چنانچہ گیلانی صاحب تحریک مزاحمت کے روح رواں بن کر ابھر آئے۔اس کے بعد عسکری تحریک میں بھی شدت پیدا ہوئی اور غیر عسکری شدت پسند ی کا رجحان بھی تیزی کے ساتھ فروغ پایا۔گیلانی صاحب ایک ایسے وقت میں اللہ تعالی کو پیارے ہوئے جب مقبوضہ کشمیر کے شہری براہ راست دہلی کے کنٹرول میں ہیں۔اب وہاں بھارت کی طرف سے نوجوانوں کے منشیات میں غرق کرنے، شراب خانے، جوا خانے کھولنے کا گھمبیر مسئلہ سامنے ہے۔ بے روزگاری ہے اور بے کاری ہے۔معاشی بدحالی ہے اور کسمپرسی ہے۔بھارتی فورسز کشمیری معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ سیب کے باغات کو کاٹ رہے ہیں۔ کھیتوں کھلیانوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ رہائشی گھروں کو بارودی دھماکوں سے اڑا یا جا رہا ہے۔نوجوان گرفتار کر کے لاپتہ کئے جا رہے ہیں۔کشمیریوں کو ایک بار پھر سرینڈر کرانے کے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ان نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے کس سے امید باندھیں۔چین کی لداخ میں بھارت کے خلاف فوجی پیش قدمی سے دلوں کو بہلانے والے بہت ہیں۔سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ حساب دینا ہے۔ پتہ نہیں ہم کس منہ سے پیش ہوں گے اور کیا حساب دیں گے۔ تا ہم افغانستان میں طالبان مجاہدین کی عظیم فتح نے ایک بار پھر کشمیریوں کو نیا عزم اور ولولہ بخشا ہے۔امید کی نئی کرن پھوٹی ہے۔ 1989میں بھی افغان مجاہدین کی جانب سے سوویت یونین کو شکست نے کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو جلا بخشی ۔ اب ایک بار پھر نئی امیدپیدا ہوئی ہے۔افغان مجاہدین نے ثابت کر دیا کہ اس امید اور آزادی کے ولولے کو دنیا کی کوئی جنگی ٹیکنالوجی شکست نہیں دے سکتی۔سید علی شاہ گیلانیؒ آزادی کی بہار دیکھنے کی آس میں رب کے حضور پیش ہو گئے۔’’بب‘‘(باپ) کے نام سے شہرت پانے والے گیلانی نے منافقت نہ کی بلکہ شہادت تک ایک ہی موقف پر چٹان کی طرح قائم و دائم رہے۔ شہداء کے مشن پر کاربند رہ کر جدوجہد تیز کرنا کشمیریوں کا نصب العین ہے۔
غلام اللہ کیانی معروف کشمیری صحافی، دانشوراور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔