عامر خاکوانی
کشمیریوں کی نئی نسل کی یادداشتوں کو مٹانے کی ان کوششوں کا ایک حصہ عظیم کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کے کردار کو تاریخ کے صفحات سے غائب کرنے سے متعلق ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی کی دیوقامت شخصیت کے بارے میں ہر ممکن کوشش ہورہی ہے کہ لوگ ان کے بارے میں کچھ نہ جانیں، اخبارات اور میڈیا میں بھی کچھ نہ چھپے۔کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد انڈین پولیس ان کے گھر سے گیلانی صاحب کی کتب، نوٹس وغیرہ اور ان کی پرسنل لائبریری بھی لے گئی۔ کسی شخص کی ذاتی کتب اور لائبریری کو آخر کون اور کیوں لے جائے گا؟ بھارتی حکومت نے مگر ایسا گھٹیا اور کم ظرفی کا کام کیا ہے۔ گیلانی صاحب 40 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے، مگر اب یہ صفحہ ہستی سے مٹتی نظر آرہی ہیں۔ ان کی کتابیں مقبوضہ کشمیر میں دستیاب نہیں اور نہ ہی کسی پبلشر کو انہیں دوبارہ سے چھاپنے کی اجازت ہے۔ جو لوگ سید علی گیلانی کے ساتھ کام کرتے تھے، پچھلے 5 برسوں سے وہ بھارتی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت چاہتی ہے کہ سید علی گیلانی کا نام ہی کوئی نہ لے، ان کا تذکرہ کہیں پر نہ ہو، ان کی برسی پر تقریب نہ کی جاسکے، سید علی گیلانی کی کوئی کتاب، مضمون کہیں پر نظر نہ آئے۔ سید علی گیلانی کی قبر کے پاس ایک فوجی بنکر بنایا گیا ہے تاکہ کوئی وہاں پر فاتحہ پڑھنے ہی نہ آسکے۔ لوگوں کو زندہ علی گیلانی سے تو نہیں ملنے دیا جاتا رہا، اب ان کی قبر پر آنے سے بھی روک دیا۔
پچھلے کچھ عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے بعض صحافیوں اور کتاب دوست لوگوں سے بات ہوئی تو وہ سب اس پر متفکر اور پریشان تھے۔ ان لوگوں نے مگر یہ سوال اٹھایا کہ چلیں بھارت میں تو یہ سب ہورہا ہے، بھارتی حکومت ایسا کررہی ہے اور اس سے امید ہی کیا ہے؟ مگرپاکستان نے سید علی گیلانی کے لیے کیا کیا ہے؟سید علی گیلانی کا لاہور سے گہرا تعلق رہا ہے، وہ ایک زمانے میں کئی برس تک لاہور میں پڑھتے رہے، اپنی سوانح میں انہوں نے لکھا کہ وہ مسجد وزیر خان میں مدرسے میں پڑھے اور قاری لطیف صاحب نے انہیں کئی سپارے حفظ کرائے۔ گیلانی صاحب نے محبت سے لکھا کہ آس پاس کے لوگ باہر سے آنے والے طلبہ کو مفت کھانے کھلایا کرتے تھے۔ گیلانی صاحب 50 کے عشرے میں لاہور میں پڑھاتے رہے، پھر وہ جرنلزم میں آگئے، رسالے بھی ایڈٹ کرتے رہے، حتیٰ کہ پھر مقبوضہ کشمیر میں زیادہ بڑے محاذ پر لڑائی لڑنے چلے گئے۔

لاہور میں مختلف مشاہیر کے حوالے سے شہر کے انڈرپاسز کے نام رکھے گئے ہیں، ان میں تحریک پاکستان کے قائدین کے علاوہ ممتاز بلوچ سردار چاکر خان رند اور 16ویں صدی کی ممتاز کشمیری شاعرہ حبہ خاتون بھی شامل ہیں۔ کیا ہی خوب ہو کہ ایک انڈر پاس سید علی گیلانی مرحوم سے منسوب کیا جائے۔ مسجد وزیر خان میں بھی ایک سید علی گیلانی کارنر بنایا جاسکتا ہے، ان کی یادگاری تختی لگا دی جائے۔ وہاں بہت سے غیر ملکی بھی وزٹ کرتے رہتے ہیں، اچھا ہے کہ اس قرینے سے کشمیر محاذ بھی نمایاں ہوتا رہے۔سب سے زیادہ ضروری ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر ایک سید علی گیلانی فاونڈیشن بنائی جائے جو گیلانی صاحب کا لکھا تمام کام محفوظ کرے۔ ہارڈ کاپی اور سافٹ کاپی میں ان کی کتاب، پمفلٹس اور مضامین سنبھال لیے جائیں، انہیں مختلف انٹرنیٹ آرکائیوز ویب سائٹس پر ڈالا جائے تاکہ انڈیا میں موجود مسلمان بھی رسائی حاصل کرسکیں۔ ویسے اگر ممکن ہو تو گیلانی صاحب کے کام کو دیوناگری اسکرپٹ میں بھی پیش کیا جائے تاکہ اردو نہ جاننے والے بھارتی بھی مستفید ہوسکیں۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اے آئی ٹولز کی مدد سے یہ باآسانی ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ پہلے سید علی گیلانی فاونڈیشن بنائی جائے۔یکم ستمبر کو علی گیلانی صآحب کی برسی ہے۔ اس موقعے پر اگر یہ بڑا قدم اٹھا لیا جائے تو یہ ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بہت اچھا اور مثبت پیغام ہوگا۔ آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی اپنے طور پر ایسا کرنا چاہیے، تاہم ہم پاکستانیوں کو اپنے حصے کا قرض ادا کرنا چاہیے۔سید علی گیلانی مجسم پاکستانی تھے، اپنی آخری سانسوں تک وہ پاکستان کی مالا جپتے رہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم انہیں یاد رکھیں اور ان کی یادوں کو اپنی اگلی نسلوں تک پہنچائیں بلکہ ان کی یادداشتوں کو کھرچنے، مٹانے کی جو کوششیں بھارتی حکومت کر رہی ہے، اسے ناکام بنایا جائے۔