سید علی گیلانی ؒصبرواستقامت کاروشن ستارہ

متین فکری

ستمبر کئی حوالے سے اہم مہینہ ہے اس مہنیے میں آج سے اٹھاون سال پہلے پاکستان اور بھارت کے در میان میں پہلی بھر پور جنگ ہوئی تھی جس میں پاکستان کا پلہ باری رہا تھا اور بھارت جنگ بندی کی اپیل لے کر اقوام متحدہ پہنچ گیا تھا اس جنگ کی وجہ تنازع کشمیر تھا۔ پاکستان کمانڈو ایکشن کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانا چاہتا تھا ۔ اس نے آپریشن جبرالٹرا ’’ کے خفیہ نام سے‘‘ مقبوضہ کشمیر میں فوجی کاروائی شروع کی تو بھارت نے پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لئے اپنی پسندکا محاز کھول دیا اور بین الاقوامی سرحد پر جنگ چھڑ گئی لیکن اس جنگ میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔یہی مہینہ ممتاز کشمیری رہنما سید علی گیلانیؒ وفات حسرت آیات کا بھی ہے وہ دو سال قبل اسی مہنے کی پہلی تاریخ کو ہم سے جد ا ہو گئے لیکن ان کی یاد بدستور ہمارے دلوں میں فروزاں ہے اور دوسال کیا دو سو سال بعد بھی آنے والی نسلوں خصوصاََ اہل کشمیر میں ان کی یاد اسی طرح جگماتی رہے گی۔ سید علی گیلانی محض ایک فرد کا نام نہیں۔ وہ حریت کی عدیم النظیر تحریک آزادی کی بے مثال جدوجہد اور صبر و استقامت کا ایک ایساستارہ ہیںجو ہمیشہ روشن رہے گا وقت کے ساتھ ساتھ اس کی روشنی بڑھتی رہے گی۔ کم نہیں ہو گی بلاشبہ انسان فانی ہے وہ کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے، اللہ کی راہ میں شہید ہو کر یا طبعی موت سے ہمکنار ہو کر دنیا سے چلا جاتاہے لیکن اس کے حسنات و سیات باقی رہتی ہے اور دنیا میں تادیر ان کے اثرات محسوس کئے جاتے ہیں۔آدمی کے نیک اعمال کو ہی صدقہ جاریہ کہا جاتا ہے وہ خلق خدا کی بھلائی کے لئے جو بھی نیک عمل کرتا ہے مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے اور لوگ اسے یاد کر کے حوصلہ پکڑتے ہیں ۔ سید علی گیلانی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جو ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے ان کا سب سے بڑا نیک عمل آزادی کے لئے ان کی وہ پُر عزم جدوجہد ہے جو ان کی پوری زندگی کا احاط کیے ہوئے ہے وہ مرنے کے بعد بھی بھارت کے لیے خوف کی علامت بنے رہے۔ اسکے کارندے ان کی میت کو لواحقین سے چھین کر لے گئے اور راتوں رات دفن کر دیا گیا بھارت نے اہل کشمیر کو نماز جنازہ پڑھنے اور سوگ منانے سے روکنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا۔انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کردی لیکن سوگ کو وہ پھر بھی نہ روک سکا۔ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں آزاد کشمیر، پاکستان اور پوری دنیا میں ان کی موت کا سوگ منایا گیا اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی اس وقت مقبوضہ کشمیر میں دو قبروں پر پہرہ لگا ہواہے ایک قبر شیخ عبداللہ کی ہے جس نے اپنے ذاتی اقتدار کے لئے بھارت سے کشمیر کا سودا کرلیا تھا اور بھارت کو ڈر ہے کہ کہیں لوگ اس کی قبر پر جوتے برسانا شروع نہ کردیں دوسری قبر سید علی گیلانی کی ہے جس پر پہرہ اس لئے لگایا گیا ہے کہ کہیں لوگ اس سے مرجع خلائق نہ بنا دیں

سید علی گیلانیؒ بے شک مقبوضہ کشمیر میں مدفون ہیں لیکن وہ ہر کشمیری اور ہر پاکستانی کے دل میں بستے ہیں۔ وہ پیدائشی طورپر کشمیری تو تھے ہی لیکن وہ ہم پاکستانیوں سے بڑھ کر ایک سچے اور کھرے پاکستانی بھی تھے اور ان پاکستانیوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھے جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے کشمیر کاز سے بیوفائی کرنے اور بھارت سے دوستی گانٹھنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ۔ سید علی گیلانیؒ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی یہ آواز بدستورفضامیں گونج رہی ہے۔۔ ا سلام کے رشتے سے ہم پا کستانی ہیں۔۔ پاکستان ہمارا ہے

سید علی گیلانیؒ کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی جس میں کچھ بھی چھپا ہوانہیں تھا۔ انہوں نے اسے آپ بیتی کی شکل میں ایک دستاویز بنا دیا تھا یہ آپ بیتی ’’ ولر کنارے ‘‘ کے زیر عنوان دو ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے پروفیسر خورشید احمد نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ولر کنارے ایک ایسی سوانح حیات ہے جس میں سید علی گیلانی کی مقصدیت سے بھر پور ہنگامہ خیز زندگی جھلکتی ہے اور اسکے آئینے میںپوری کشمیری قوم کی روح پرور اور ایمان افروز نشیب و فراز سے بھرپور زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جا سکتی ہے گیلانی صاحب نئی نسل کے لئے ایک رول ماڈل ہے اور’’ ولر کنارے ‘‘ اس ماڈل سے استفادہ کے لئے مینو ل Manual کا درجہ رکھتی ہے ‘‘

سید علی گیلانیؒ نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا او ر درس و تدریس کے دوران جماعت اسلامی سے متعارف ہو ئے تو جماعت اسلامی نے انہیں اس طرح اپنی طرف کھنچا جس طرح مقناطیس لوہے کو کھنچتا ہے ۔ وہ معلمی کا پیشہ چھوڑ کر ہمہ وقت جماعت اسلامی کے ہوگئے1953 میں انہیں جماعت اسلامی کارکن بنالیا گیا اور اہم جماعتی ذمہ داریاں ان کے سپرد کر دی گئیں ۔ گیلانی صاحب کا دل کشمیر کی آزادی میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے لگے ۔بھارت آخر کب تک انہیں برداشت کرتا آخر ۲۵ اگست ۱۹۶۲ کو انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا بھارتی ایجنٹ جیل میں ان سے ملاقاتیں کر کے انہیں ورغلاتے رہے انہیں بھارت کے ساتھ وفاداری کی شرط پر ہر ماہ بھاری وظیفہ دینے کی پیش کش بھی کی گئی ۔ان سے کہا گیا کہ بے شک وہ جماعت اسلامی میں رہیںحکومت پر تنقید بھی کریں لیکن کشمیر پر بھارت کے تسلط کو متنازع نہ بنائیںاور بھارتی یونین سے اندر رہتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ اگر وہ ایساکریں گے تو ان کے لئے پُر کشش وظائف اور مرعات کے دروازے کھول دیئے جائیں گے راوی کا بیان ہے کہ گیلانی صاحب نے اس پیش کش کا بڑا خوب صورت جواب دیا۔ انہوں نے کہامیں تو اپنی جان و مال کا سودا اپنے رب سے کر چکا ہوں میں بکاو مال نہیں ہوں۔‘ کانگریسی حکومتیں کشمیری لیڈروں کے ساتھ یہی طریقہ واردات استعمال کرتی تھیں۔ان کا کشمیری لیڈروں سے کوئی لمبا چوڑا مطالبہ نہیں ہوتا تھا بس ایک گزارش ہوتی تھی کہ کشمیر پر بھارت کی عملداری کو چلینج نہ کیا جائے بے شک اس پر کڑی تنقید کی جائے بھارتی فوج کے مظالم کو کبھی بھی نمایاں نہ کیا جائے لیکن ’’ ریڈ زون ‘‘ میں دخل اندازی نہ کی جائے بہت سے کشمیری لیڈر اس ٹریپ میں آجاتے تھے اور ان پر وظائف اور مراعات کا دروازہ کھل جاتا تھا ان پر ان کے خاندان پر مراعات اور عنایات میں جوں جوں اضافہ ہوتا بھارت پر ان کی تنقید دم توڑتی چلی جاتی ۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی حربہ تھا جس نے کتنے ہی کشمیری لیڈروں کے پر کتر دئیے تھے۔ لیکن سید علی گیلانی اور ان کے رفقاء پر یہ جادو نہ چل سکا ،گیلانی صاحب بار بار گرفتار ہوتے اور جیل جاتے رہے انہوں نے اپنی عمر کا طویل حصہ جیلوں میں گزارا لیکن کشمیر کی آزادی کے موقف پر کبھی کو ئی لچک نہیں دکھائی۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو سید گیلانی نے برملا اس کی حمایت کی اور واشگاف انداز میں کہا کہ بھارت کے غیر جمہوری اور جارحانہ رویے نے کشمیری نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کیا ہے ۔ اب اہل کشمیر کے لئے مسلح مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے انھوں نے اس جدوجہدکو سیاسی حمایت فراہم کرنے کے لئے آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بُنیا د رکھی اور ایک سمجھوتے کے تحت جماعت اسلامی سے علحیدگی اختیار کر لی وہ حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلسل آواز بلند کرتے رہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے قبضے سے صرف آزاد ہی نہیں کرانا چاہتے تھے بلکہ اسے پاکستان کا حصہ دیکھنا چاہتے تھے وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچتے تھے اور پاکستان بھارت محاذ آرائی کی صورت میں ان کی ہمددردیاں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ہوتی تھیں1999 ء میں معرکی کارگل پیش آیا اور پاک افواج نے مجاہدین کے ساتھ ملکر کارگل میں بھارتی چوکیوں اور بینکروں پرقبضہ کر لیا بھارتی افواج سردیوں میں خالی کر کے نیچے چلی گئی تھی بھارت کو جوں ہی اس قبضے کی اطلاع ہوئی وہ جنگ پر آمادہ ہو گیا اور اپنی بری اور فضائی افواج کو اس جنگ میں جھونک دیا یہ جنگ کوئی دو مہینے چلی اور فریقین کا بھاری جانی نقصان ہوا بالآخر امریکہ نے بیچ بچاو کرا کے جنگ ختم کرادی اور پاکستان کو کارگل خالی کرنے پر مجبور کر دیا سید گیلانی اس جنگ میں پاکستان کو حق پر سمجھتے تھے وہ پاکستان کی سیاسی عسکری قیادت سے ہمیشہ یہ توقع وابستہ کیے رہے کہ وہ کشمیر کے مسلے پر مدبرانہ طرز عمل اختیار کرے اور بھارت کو پسپا ہونے پر مجبور کردے گی وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ پاکستانی قیادت اپنی بزدلی اور مصلحت پسندی کے سبب کشمیر حاصل کرنے کے کئی مواقع گنوا چکی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اس سے نا امید نہیں ہے پاکستان ان کا پہلا اور آخری آپشن تھا وہ اس سے کیسے ناامید یا مایوس ہو سکتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان ہمت کرے اور طاقت آزمائے تو کامیابی اس کا مقدر بن سکتی ہے5اگست 2019کو جب بھارت نے اپنے ہی آئین کو پاوں تلے روندتے ہوئے ریاست جموں و کشمیرکو اپنا حصہ بنا لیا اور کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کیلئے پورے مقبوضہ علاقے میں غیر معینہ عرصے کے لئے کرفیو لگا کر بیرونی دنیا سے اس کا رابطہ منقطع کر دیا تو سید گیلانی نے انتہائی اضطراب کے عالم میں دنیائے اسلام اور خاص طور پر پاکستان کے نام ایس او ایس کی کال جاری کی ۔واضع رہے کہ یہ کال اس وقت جاری کی جاتی ہے جب بحری بیڑہ سمندری طوفان میں گھر جائے اور بیرونی امداد کے سوا اس کے بچاو کی صورت باقی نہ رہے سید گیلانیؒ محسوس کر رہے تھے کہ اہل کشمیر کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے اگر پاکستان ان کی مدد کو نہ آیا تو بھارت انہیں کچا کھاجائے گا۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے بظاہر اس کال کا بڑاحوصلہ افزاء جواب دیا آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے دفاع کے لئے آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے اس بیان سے کشمیریوں میںخوشی کی لہر دوڑ گئی وہ سمجھتے کہ پاکستانی فوج ان کی مدد کو آرہی ہے چنانچہ سری نگر میںراتوں رات پاک فوج کے حق میں خیر مقدمی بینرزلگ گئے اور ’’ پاک فوج زندہ باد ‘‘ کے نعروں سے فضا گونجنے لگی لیکن کشمیری انتظار ہی کرتے رہے ۔سید گیلانی مایوس ہونے والے آدمی نہ تھے وہ مایوسی کو کفر سمجھتے تھے وہ دو سال پہلے اس ماہ ستمبر میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ ان کی نگاہیں پاکستان کی جانب ٹکی ہوتی تھیں او ر وہ پاکستان کی قیادت خاص طور پر فوجی قیادت سے کسی فیصلہ کن اقدام کی توقع کر رہے تھے۔۔۔ پاکستان جب تک کشمیر حاصل نہیں کر لیتا ان کی روح بے چین و مضطرب رہے گی۔