سید علی گیلانی ؒ۔۔قائد حریت

غلام محمد صفی

کنوینئر تحریک حریت جموں و کشمیر

سید علی گیلانی اسلام اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جموں کشمیر کے مستقبل کو پاکستان کے ساتھ وابستہ دیکھتے تھے۔اس حقیقت کا اظہار انہوں نے نجی مجلسوں میں ہی نہیں بلکہ فلک شگاف نعرے (ہم پاکستانی ہیں۔پاکستان ہمارا ہے) بلند کرکے بھی کیا۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ریاستی عوام کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری اور حصول حق خودارادیت ہی کا پرچم تھامے رکھا لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی پاکستان سے ملنے کی خواہش ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہی۔ ان کے مطابق حریت کانفرنس/ تحریک حریت ریاستی عوام(ہندو مسلم سکھ عیسائی بودھ) کے لئے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہے۔اگر رائے شماری میں عوام کی اکثریت خدانخواستہ بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلے تو ہم یہ عوامی فیصلہ مان تو لیں گے لیکن کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر پاکستان کے لئے رخت سفر باندھ لیں گے۔

سیدعلی گیلانی شہید 92 سال کی عمر میں اپنے گھر میں (جسے حکومت نے سب جیل قرار دیا تھا) داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مملکت خداداد کے شیدائی گیلانی کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ان کا سفر آخرت دیگر شہداء کی طرح سبز ہلالی پرچم کے سائے میں ہو۔اس والہانہ محبت کے باوجود انہوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی مملکت اور حکومت کے فرق کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے انحراف کے بعد چار نکاتی فارمولے کی حمایت پر اصرار کے جواب میں قائد کا ” انکار ” ان کی اصول پسندی کی قابل تقلید مثال ہے۔

سید صاحب ایک عالم باعمل، داعی الی اللہ،شعلہ بیان مقرر، مصنف، قائد جماعت اسلامی اور قائد حریت تھے۔وہ کلام اقبال اورفکر سید مودودی سے بے حد متاثر تھے۔وہ اسلام کو ایک ضابطہ حیات سمجھتے ہوئے اسے قائم اور رائج کرنے کی بات کرتے تھے اور غلامی کو اقبال کے الفاظ میں ایک سخت تر موت سمجھتے تھے۔اسیری کو سید گیلانیؒ سنت یوسفی کا نام دیتے اور کلام اقبال کی روشنی میں کہتے کہ ایک لہو کی بوند آہو کے نافہ میں بند ہونے کے بعد ہی مشک ازفر بن جاتی ہے۔

سید علی گیلانی شہید نے بارہ مولہ کے مرکزی چوک میں ایک کشمیری ٹیلر ماسٹر غلام حسن نائیکو کی قابض فوج کے ہاتھوں شہادت پر پہلی بار تین الف(اتحاد اسلحہ اسلام) کا نعرہ مستانہ بلند کیا ۔ دوسری بار تین الف (اسلام آزادی اتحاد ملت) ان کی زبان سے اس وقت سنے گئے جب تحریک حریت جموں کشمیر کو لانچ کیا گیا۔

سید گیلانی سیاست، سفارت اور عسکریت کی راہوں کو مختلف مگر منزل کو ایک دیکھنے کے متمنی تھے۔ان کے نزدیک عسکریت مقصد نہیں بلکہ بھارت کو مذاکراتی میز پر لانے کا ذریعہ ہے۔قائد کے نزدیک حصول حق خودارادیت کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے نفاذ کے مطالبے پر اصرار ضروری ہے۔اگر کسی وجہ سے عمل آوری مشکل بنادی جائے تو اقوام متحدہ یا کسی دوست ملک کی نگرانی میں سہ فریقی مذاکرات کے انعقاد میں بھی کوئی حرج نہیں۔

بھارت جب تک ” اٹوٹ انگ ” کی رٹ لگانا بند کرکے جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو اعلانا” قبول نہیں کرتا کسی بھی دو فریقی یا تکونی طرز کا بے نتیجہ اور بے معنی مذاکراتی عمل فضول مشق ہے۔

سید کی پختہ رائے تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر تمام مسائل کے حل کے لئے مسئلہ کشمیر کا فوری حل ناگزیر ہے اور مسئلہ کشمیر کا وہی حل منصفانہ اور دیرپا ہے جو حق خود ارادیت کی بنیاد پر ہو اور ریاستی عوام کے لئے قابل قبول ہو۔

بھارتی غاصبانہ تسلط سے مکمل آزادی کے بغیر سافٹ بارڈرز،اسٹیٹس کو، چار نکاتی فارمولہ یا کسی دوسرے طرز کے آؤٹ آف باکس حل کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

سید علی گیلانی کا واضح موقف تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی جیسے سلگتے مسئلے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا لیکن بنیادی فوکس ہمیشہ ریاستی عوام کا حق خود ارادیت کا حصول ہونا چاہیے جو قابض قوت (بھارت) کی طرف نرم گوشہ رکھنے والے کسی ملک کی ثالثی سے نہیں بلکہ ریاستی عوام کی مختلف محاذوں پر منظم کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ کی سطح پر شارٹ اور میڈیم مدت کے اقدامات کا تعین کرکے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔

سید علی گیلانی۔۔جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم۔۔۔دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان۔۔۔کے مصداق زندگی گزار کر اپنے پیچھے اسلام، آزادی اور اتحاد ملت کے لئے جان کی بازی لگانے والوں کی ایک متحرک نسل چھوڑ گئے ہیں۔ سید شہید کی پیروی کرتے ہوئے ان کے دست و بازو اشرف صحرائی اور داماد الطاف احمد شاہ نے بھی جام شہادت نوش کیا

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ان کے ہزاروں چاہنے والے حق کی حمایت کے جرم میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں جبکہ اسلام کی بنیاد پر پاکستان سے سید شہید کی والہانہ محبت سے ناخوش کچھ عاقبت نااندیش سید کی شبیہ کو ان کی شہادت کے بعد بھی مسخ کرنے کی فکر میں ہیں حالانکہ ان کی یہ کاوش اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سید علی گیلانی شہادت کے بعد بھی دشمن کے اعصاب پر سوار ہیں۔

ہے وہی تیرے زمانے کا امام بر حق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

٭٭٭