سید علی گیلانی ؒ اقبال کا مرد مومن

معروف دانشور ،مصنف اور شاعر جناب شہنواز فاروقی کی سید علی گیلانی ؒ کے حوالے سے ایک تحریر “سید علی گیلانی اقبال کا مردِ مومنـ”نظر سے گذری جو 10ستمبر 2021میں روزنامہ جسارت میں شائع ہوئی تھی ۔تحریر میں انہوں نے جناب سید ؒ کی پوری زندگی کو بہت ہی جامع انداز میں اس طرح سمیٹ لیا ہے کہ کہہ سکتے ہیں کہ بلا مبالغہ کوزے کو دریا میں بند کردیا ہے ۔تحریر سے چند اقتباسات کو ادارئیے کی شکل میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔میں ذاتی طور پرسید گیلانی ؒ کے کافی قریب رہ چکا ہوں ۔بچپن سے لے کر جوانی میں نے ان کے سامنے گذاری ۔اس کے بعد اب جب کہ میں خود بھی عمر کے آخری حصے میں داخل ہو چکا ہوں ،اس وقفے کے دوران بھی ان سے قربت رہی ۔انہیں مذید جاننے کا موقع ملا ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ جو کچھ بھی شہنواز فاروقی صاحب نے لکھا ہے حرف بحرف صحیح ہے۔ایک ایک بات صحیح ہے اور سو فیصد درست ہے ۔سید گیلانی ؒ جیسا شخص اب ڈھونڈنے کو بھی نہ ملے گا۔شہنواز صاحب لکھتے ہیں ۔

“سید علی گیلانی کہنے کو ایک مجاہد اور سیاسی رہنما تھے، مگر اصل میں وہ اقبال کے مردِ مومن تھے۔ اقبال کے یہاں مردِ مومن کا تصور اتنا بلند ہے کہ اکثر بڑے بڑے لوگ مردِ مومن کے تصور سے کم نظر آتے ہیں۔ مگر اقبال کی شاعری پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ سید علی گیلانی اقبال کے مردِ مومن کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔

دنیا میں انسانوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ لوگ آزاد ہوکر بھی غلام ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ غلام ہوکر بھی آزاد ہوتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی غلام ملک میں پیدا ہوئے تھے مگر اُن کی شاعری پر غلامی کا کوئی اثر نہیں۔ اقبالؒ بھی غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے مگر اُن کی شاعری آزادی کا ترانہ ہے۔ مولانا مودودیؒ نے بھی غلام ہندوستان میں آنکھیں کھولی تھیں مگر مولانا کی ہر چیز آزاد تھی۔ ان کی روح بھی، ان کا قلب بھی اور ان کا ذہن بھی۔ کہنے کو سید علی گیلانی ؒکی پوری زندگی ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ میں بسر ہوئی، مگر وہ سر سے پائوں تک آزادی کا استعارہ تھے۔ وہ نہ صرف یہ کہ خود آزادی کا استعارہ تھے بلکہ انہوں نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں آزادی کی شمع کو روشن کر کے دکھایا

سید علی گیلانیؒ کے دو ہیروز تھے: اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ۔ قیامِ پاکستان سے پہلے سید علی گیلانی ؒصاحب لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھے تو اُن کا اقبال سے عشق انہیں اقبال کے مزار پر کھینچ کر لے جاتا جہاں وہ دیر تک گریہ کرتے رہتے۔ سید علی گیلانیؒ نوجوانی ہی میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور فکر سے متاثر ہوئے، اور 1941ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو سید صاحب جماعت کا حصہ بن گئے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکر سے وابستگی مذاق نہیں۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکر سے وہی شخص وابستہ ہوسکتا ہے جو فرقوں اور مسلکوں سے بلند ہوکر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام سکتا ہو۔ اقبالؒ اور مولاناؒ کی فکر اپنی اصل میں انقلابی ہے۔

مولانا مودودیؒ نے بھی اپنے پیروکاروں سے صاف کہا کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ یہ کام فکر و عمل کی یکجائی کے بغیر نہ چودہ سو سال پہلے ممکن تھا، نہ آج ممکن ہے، اور نہ آئندہ کبھی ممکن ہوگا۔ سید علی گیلانیؒ، اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ اسی انقلابیت کے اسیر تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے، فکر و عمل کی یکجائی کا استعارہ بنے رہے۔ فکر و عمل کی یکجائی نے گیلانی صاحب کو بجائے خود تحریک بنادیا تھا۔ کہنے کو وہ ایک فرد تھے مگر اصل میں وہ ایک مکمل تحریک تھے۔ جس طرح قائداعظمؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ کوئی انہیں خرید سکا، نہ ڈرا سکا، بالکل اسی طرح گیلانی ؒصاحب کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہ کوئی قوت انہیں خرید سکی، اور نہ کوئی قوت انہیں ڈرا سکی۔ انہوں نے 14برس بھارتی جیلوں میں اور اتنے ہی برس نظربندی میں بسر کیے۔ ان پر ایک درجن سے زیادہ قاتلانہ حملے ہوئے، مگر سید علی گیلانیؒ کی زبان خاموش ہوئی نہ ان کے عمل میںکوئی رخنہ پڑا۔ وہ حقیقی معنوں میں One Man Army یا ایک رکنی فوج تھے۔ انہیں ایک رکنی فوج کی طرح برسرِکار دیکھ کر اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا تھا:

بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے

ان کا نعرہ تھا ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ وہ کہتے تھے ’’پاکستان سے رشتہ کیا… لاالٰہ الا اللہ‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سید علی گیلانی کا پاکستان سے عشق خالی خولی عشق نہیں تھا، یہ ایک نظریاتی عشق تھا۔ وہ پاکستان سے رشتے کو کلمہ طیبہ کے تناظر میں دیکھتے اور بیان کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد انہیں جنوبی ایشیا کا نیلسن منڈیلا کہا ہے۔ یہ گیلانی صاحب کی تعریف نہیں ان کی تنقید ہے۔ گیلانی صاحب نیلسن منڈیلا سے کہیں زیادہ بڑے انسان تھے۔ چنانچہ ہمیں کہنا یہ چاہیے کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے علی گیلانی تھیـ”

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے