سید علی گیلانی ؒ کا عالم بالا سے خطاب

متین فکری

سید علی گیلانی ؒکی زندگی مسلسل جد و جہد اور عزم و عمل سے عبارت تھی ۔

وہ جب تک زندہ رہے نہ ان کے حوصلے میں کمی آئی نہ ان کے یقین میں لغزش پیدا ہوئی

پاکستان نے اپنی زندگی کے پچھتر سال پورے کرلیے ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان بدستور نامکمل ہے وہ اس عرصہ میں کشمیر تو حاصل نہ کرسکا البتہ اپنا مشرقی بازو ضرور گنوا بیٹھا ہے

سید علی گیلانی ؒکی زندگی مسلسل جد و جہد اور عزم و عمل سے عبارت تھی ۔وہ جب تک زندہ رہے نہ ان کے حوصلے میں کمی آئی نہ ان کے یقین میں لغزش پیدا ہوئی وہ بھارتی استعمار کے خلاف ایک کوہ ِ استقامت بن کرڈٹے رہے۔ان کی جد وجہد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اوّل یہ کہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانا دوم یہ کہ ریاست کو پاکستان کا حصہ قرار دیکر وطن عزیز میں نفاذ اسلام کی جد وجہد کرنا ۔ وہ اوّل و آخر پاکستانی تھے اور اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کا اظہار کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بہت سے کشمیری لیڈر بھارتی پاسپورٹ پر دوستی بس کے ذریعے سرینگر سے مظفر آباداور پھر پاکستان آئے لیکن گیلانی صاحب نے بھارتی شہری کی حیثیت سے پاکستان آنا گوارا نہ کیاوہ دم ِ آخر تک پاکستانی ہونے پر فخر کا اظہار کرتے رہے۔ان کا مقبول ترین نعرہ تھا’’ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘وہ یہ نعرہ کشمیرکے اجتماع میں جھوم جھوم کے لگاتے اور پورا مجمع ان کا ساتھ دیتا تھا۔وہ پاکستان میں اس لئے شامل نہیں ہونا چاہتے تھے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے اور کشمیر کے ساتھ اس کے مذہبی ، تہذیبی ،ثقافتی اور جغرافیائی رشتے قائم ہیں بلکہ ’’پاکستانی شہری کی حیثیت سے اسے اسلامی فلاحی مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے ۔علامہ اقبال ؒ اور مولانا مودودی ؒان کے آئیڈیل تھے ۔ایک نے مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا اور دوسرا اس نوزائیدہ مملکت میں نفاذ اسلام کی جد وجہد کررہا تھا۔ گیلانی صاحب بھی اس رجلِ رشید اور اس کے ساتھیوں کی معیت میں یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔مولانا مودودیؒ تو بہت پہلے اپنی نذر پوری کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے اور گیلانی صاحب ایک سال قبل یکم ستمبر2021 کو راہی ملک عدم ہوگئے۔

سید علی گیلانیؒ اب ہم میں سے نہیں لیکن ان کا روحانی فیض عام جاری ہے ۔ وہ آج بھی روحانی طور پر کشمیر میں آزادی کی جد وجہد کی قیادت کررہے ہیں۔پاکستان کے معاملات میں بھی ان کی دلچسپی برقرار ہے ۔پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر ان کی روح شدید بے چینی محسوس کررہی ہے ۔عالم خیال میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی پچھتر ویں سالگرہ کے موقع پر مینار پاکستان کے سبزہ زارمیں محبان وطن کا ایک عظیم الشان اجتماع برپا ہے جس سے سید علی گیلانی کو عالم بالا سے خطاب کی دعوت دی گئی ہے ۔سٹیج پر بہت بڑی سکرین لگائی گئی ہے جس پر سید علی گیلانی کی شبیہ ابھرتی ہے اور وہ اہل پاکستان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں ’’میرے پاکستانی بھائیو ،بہنو،بیٹو، بیٹیو،جوانو اور بوڑھواور بچو۔۔میں پاکستان کے پچھتر سال مکمل ہونے پر آپ سب لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں لیکن یہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے جس کے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے جا ن و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دی تھی اور اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان کو قبول کیا تھا۔قائد اعظم کے پاکستان کو تو حکمرانوں کی ہوس اقتدار نے چوبیس سال بعد ہی ٹکڑے کردیا تھا ۔اب باقی ماندہ پاکستان کی جان کے بھی لالے پڑے ہیں اور سیاستدان ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔میں پاکستانی ہوں اس لئے یہ سب کچھ دیکھ کر میرا دل کڑھ رہا ہے ۔میرے کشمیری بھائی بھی دل گرفتہ ہیں وہ بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ جو توانائی کشمیر کو آزاد کرانے میں صرف ہونی چاہیے تھی وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ضائع ہورہی ہے اگرآپ لوگ ناراض نہ ہوں تو میں آپ کو صاف صاف بتاناچاہتا ہوں کہ ریاست جموںو کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانا کبھی آپ کا نصب العین نہیں رہا۔نہ آپ کی سول قیادت کا نہ آپ کی فوجی قیادت کا۔سول قیادت کا یہ حال تھا کہ اسے مسئلہ کشمیر سے زیادہ اپنے کاروبار ،اپنی شوگر ملوں اور بھارت سے دوستی بڑھانے میں دلچسپی تھی۔یہ بات بھی ریکارڑ پر ہے کہ ایک پاکستانی وزیر اعظم رات گئے اپنے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے اسے کنٹرول لائن کے راستے مجاہدین کی نقل و حرکت سے آگاہ کیا کرتا تھاجبکہ فوجی قیادت کا رویہ بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بہت مایوس کن اور شرمناک رہا۔جب بھی کشمیر کو آزاد کرانے کا موقع آیا ،فوجی قیادت پیچھے ہٹ گئی اور موقع ضائع ہوگیا۔1948 میں قبائلی مجاہدین کو واپس بلانے کا فیصلہ ایک سنگین غلطی تھی جس کے نتیجے میں سرینگر آزاد ہوتے رہ گیا۔پھر 1962 میں ایک موقع جب پاکستان چین کے درپردہ حمایت سے فوجی کارروائی کرکے کشمیر کو آزاد کراسکتا تھا لیکن فوجی قیادت جو اس وقت ملک میں برسر اقتدار تھی ،مذاکرات میں الجھ کر رہ گئی۔مذاکرات کے بارے میں یہ عرض کردوں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات ہمیشہ خسارے کا سودا رہا۔بھارت کا پہلا وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نہایت مکار ،عیار اور جھوٹا شخص تھا ۔ ابتداء میں

کشمیر پر بھارت کی گرفت بہت کمزور تھی پاکستان ذرا سی ہمت کرتا تو کشمیر پر قبضہ کرسکتا تھا۔ نہرو کو اس صورت حال کا احساس تھا چنانچہ وہ یہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ میں چلا گیا اورعلاقے میں جنگ بندی کروادی اس نے اقوام متحدہ کو اور کشمیری عوام کو بار بار یقین دہانی کرائی کہ حالات بہتر ہوتے ہی کشمیر میں آزادنہ رائے شماری کرادی جائے گی اور کشمیری عوام اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرسکیں گے لیکن درپردہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوجی گرفت مضبوط کرتا رہا۔ جونہی اسے اندازہ ہوا کہ وہ پاکستان کی مہم جوئی کو ناکام بنا سکتا ہے تو اپنے وعدے سے پھر گیا لیکن میں کہتا ہوں کہ پاکستان نے کشمیر پر کبھی مہم جوئی کی ہی نہیں اگر کرتا تو کشمیر ی عوام کو اپنی پشت پر پاتا اور کامیابی اس کے قدم چومتی۔

پاکستان نے اپنی زندگی کے پچھتر سال پورے کرلیے ،ایک پاکستانی کی حیثیت سے مجھے بھی اس بات کی خوشی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان بدستور نامکمل ہے وہ اس عرصہ میں کشمیر تو حاصل نہ کرسکا البتہ اپنا مشرقی بازو ضرور گنوا بیٹھا ہے ۔ کشمیر کو بھارت نے اپنے اندر ضم کرلیا ہے اس طرح اس نے مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کی مذموم کوشش کی ہے لیکن یہ اس کی بھول ہے کشمیر میں جب تک ایک کشمیری بھی زندہ ہے مسئلہ کشمیر برقرار رہے گا۔ کشمیری پاکستان کے یوم آزادی پر پاکستانی پرچم لہراتے اور گھروں پر چراغاں کرتے ہیں جبکہ اگلے دن بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے اور مکمل ہڑتال کرتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا زندہ رہے گا۔ ’’کشمیر زندہ باد پاکستان پائندہ باد‘‘۔اس کے ساتھ ہی سکرین سے گیلانی ؒ صاحب کی شبیہ غائب ہوگئی اور ہم آنکھ ملتے رہ گئے۔

جناب متین فکری پاکستان کے ممتاز صحافی ،دانشور ،محقق اور مصنف ہیں۔روزنامہ جنگ کشمیر ایڈیشن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام د ے چکے ہیں ۔کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے ان کی قلمی و علمی محاذ پر جدوجہد سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے ۔کشمیر الیوم کیلئے اس پیرانہ سالی میں بھی مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں ۔