سید علی گیلانی ؒ ہم آپ سے شرمندہ ہیں

متین فکری

اہل کشمیر کے غیر متنازع سیاسی قائد ،بطل حریت سید علی گیلانی ؒ اگرچہ یکم ستمبر 2021ء میں اس دارفانی سے رخصت ہوگئے او ر بھارتی افواج نے اپنی روایتی سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی میت کو لواحقین سے چھین کر رات کی تاریکی میں حیدر پورہ کے قبرستان میں دفنادیا اور قبر پر پہرہ بٹھادیا لیکن اس جبر وتشدد کے باوجود گیلانی صاحب آج بھی ہر کشمیری اور ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہیں ۔وہ کشمیریوں کے ہی نہیں پاکستانیوں کے بھی قائد تھے ۔وہ برملا کہتے تھے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے ۔وہ بلا خوف و خطر اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ کشمیر پاکستان کا جزو لا ینفک ہے اسے پاکستان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے موسم گواہی دیتے ہیں کہ یہ پاکستان کا حصہ ہے ۔اس کے دریا پاکستان کے رخ پر بہتے ہیں اور برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی منزل پاکستان ہے سید علی گیلانیؒ کہتے تھے کہ پاکستان محض زمین کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں،یہ ایک عقیدے اور نظرئیے کا نام ہے ۔وہ عقیدہ اور نظریہ جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پروتا اور انہیں ملت واحدہ بناتا ہے ۔وہ پاکستان کو اسلامی نظام کا گہوارہ سمجھتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ پاکستان ایک نہ ایک دن ضرور اسلامی ریاست کا نمونہ بنے گا اور اہل کشمیر اس ریاست کا حصہ بن کر فخر محسوس کریں گے۔

سید علی گیلانی ؒ نے نہایت بے خوف اور پر عزم زندگی گزاری ۔وہ بھارتی استعمار کے حربوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے اور نہ کبھی مایوسی ان کے قریب پھٹکی ۔وہ ایک بندئہ مومن کی طرح مایوسی اور ناامیدی سے کوسوں دور تھے ۔انہیں کشمیر کے آزاد ہونے کا ایسا ہی یقین تھا جیسا سورج کے مشرق سے طلوع ہونے کا یقین ہوتا ہے ۔وہ اپنی عمر کے آخری لمحے تک اسی یقین کے منصب ِ بلند پرفائز رہے ۔

یقین محکم ،عمل پیہم ،محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

تاریخ گواہ ہے کہ سید علی گیلانی نے بھارتی استعمار کی ہر چال کو ناکام بنایا اور اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے انہیں 2 اگست 1962ء میں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تو بھارتی حکام کو پورا یقین تھا کہ انہیں جیل کی سختیوں سے ڈرا کر اور مراعات کا لالچ دیکر رام کیا جاسکتا ہے ۔چنانچہ بھارتی ایجنٹوں نے ان سے ملاقات کی اور انہیں پیش کش کی اگر وہ درپردہ بھارت کو اپنی وفاداری کا یقین دلائیں تو انہیں اسی وقت رہا کیاجاسکتا ہے ۔ان سے کہا گیا کہ بے شک وہ جماعت اسلامی میں رہیں ،بھارتی حکومت پر تنقید بھی کریں لیکن کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو متنازع نہ بنائیں۔بھارتی ایجنٹوں نے انہیں پیش کش کی کہ حکومت انہیں درپردہ ماہانہ وظیفہ بھی دے گی اور جیل میں ان کی حراست کے دوران ان کے خاندان کی کفالت بھی کرے گی۔گیلانی صاحب نے یہ سب کچھ سننے کے بعد انہیں یہ جواب دیا کہ میں اپنی جان ومال کا سودا اپنے رب سے کرچکا ہوں میں بکاو مال نہیں ہوں۔یہ پیش کش کسی اور کوکی جائے۔

سید علی گیلانی نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جیل میں حراست اور گھر میں نظر بندی کے دوران گزارا ۔ ان کی نقل وحرکت پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی گئیں۔ ان کا پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا انہیں بیرون ملک جانے سے روکاگیا ۔بھارت کا ان سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ وہ خود کو بھارتی شہری تسلیم کر لیں اور اسی حیثیت میں حکومت سے مراعات کے طالب ہوں لیکن گیلانی صاحب کسی صورت میں اس پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ ان کا موقف تھا کہ وہ پہلے مسلمان پھر کشمیری پھر پاکستانی ہیں وہ پاکستان کو اپنا وطن ثانی قرار دیتے تھے ۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ لاہور میںجوانی کے کئی قیمتی سال گزار چکے تھے اوراورینٹل کالج لاھور سے ادیب عالم کی سند حاصل کی تھی اس لئے پاکستان کے ساتھ ان کا گہرا جذباتی تعلق تھا۔وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں گہری دلچسپی لیتے اور حکمرانوں کو قیمتی مشورے دیا کر تے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بلوچستان میں سیاسی بے چینی پیدا ہوئی اور اکبر بگٹی نے پہاڑو ں میںپناہ لے لی تو گیلانی صاحب نے جنرل پرویز مشرف کومشورہ دیا کہ وہ فوجی طاقت سے مسئلہ حل کرنے کے بجائے سیاسی مذاکرات سے مسئلے کا حل نکالیں۔ لیکن یہ مشورہ جنرل پرویز مشرف کو پسند نہ آیا اور انہوں نے میزائل مار کر بزرگ بلوچ رہنما کو قتل کر دیا۔ جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ سید علی گیلانیؒ پاک فوج سے غیر معمولی توقعات رکھتے تھے انہیں یقین تھا کہ پاک فوج ہمت کرے تو کشمیر ایک دن میں آزاد ہو سکتا ہے وہ اگر چہ ایک سیاسی رہنما تھے اور بامقصد سیاسی مذکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل چاہتے تھے لیکن بر سہا برس کے تجربے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ بھارت نے طاقت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کیا ہے اس لئے وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، وہ سنجیدہ مذکرات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔ چناچہ جب کشمیری نوجوانوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے عسکری جدوجہد شروع کی تو گیلانی صاحب نے برملا اس کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ بھارت کی مسلسل وعدہ خلافیوں اور جبرو تشدد نے نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ ان کی جدوجہد بالکل جائز اور اقوام متحدہ کے منشور کے عین مطابق ہے۔ گیلانی صاحبؒ پاکستان سے بھی یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ طاقت کا جواب طاقت سے دے اور بھارت کو کشمیر سے نکلنے پر مجبور کر دے۔سید گیلانیؒ اگر چہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ہم یہ بحیثیت پاکستانی ان کی روح سے شرمندہ ہیں کہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ، ہماری افواج دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہوتی ہیں ۔ لیکن کشمیر کو فتح کرنے کے لئے ان کے قدم نہ اٹھ سکے کشمیر بھارت کے قبضے سے نکالنے کے کئی مواقع آئے لیکن ہمارے جرنیل مصلحتوں کا شکار ہو گئے جبکہ ہمارے سیاستدان بھارت سے دوستی کی خاطر مسئلہ کشمیر کو بھلا بیٹھے۔ بھارت نے آپ کی زندگی ہی میںکشمیر کو اپنے اندر ضم کر لیا تھا ۔ اس کے بعد سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے میں تیزی سے مصروف ہے۔ لاکھوں بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کی شہریت دیدی گئی ہے بھارتی شہری فوج کی مدد سے کشمیریوں کی زمین بھی ہتھیا رہے ہیں اور ان کی جائیدادوںپر بھی قبضہ کر رہے ہیں لیکن پاکستان خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، گیلانی صاحب ہم شرمندہ ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے کہ ہماری فوجی قیادت اپنے ہی ملک میں الجھی ہوئی ہے۔
گیلانی صاحب ہم آپ سے شرمندہ ہیں بہت شرمندہ ہیں
٭٭٭