از مقام برزخ برائے جنتیاں
بنام قاسم بن حسن
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
پہلی برسی پر دنیا بھر سے اہل کشمیر اور اہل پاکستان نے جو دعائیں اور خراج تحسین بھیجا ہے ان میں سب سے دلچسپ اور منفرد بات تمہارا خط ہے تمہارا انداز کافی جارحانہ ہوتا ہے لگتا ہے کہ شیخ امین نے کچھ ایڈٹ(Edit) کیا ہوگا جس کی وجہ سے اس میں کچھ اعتدال پیدا ہو گیا۔۔۔ تم نے بہت درست تجزیہ کیا جن خیالات کا اس خط میں اظہار کیا گیا ہے وہی حقیقت ہے۔ میں جب آپ کی دنیامیںتھا میرا اندازہ بھی وہی تھا لیکن ہم کشمیریوں کی مجبوری ہے کہ جوہم سے صریحاََ کھل کے اور کھول کے منافقت کرتے ہیںہم ان کے بھی شکر گزار ہوتے ہیں میں نے ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کی جس سے بھارت کی ناخوشی فطری تھی لیکن اس سچ سے ہمارے پشتی بان بھی ناخوش رہے ۔بقول شاعر
اسے ضد تھی کہ میں نا خوب کو خوب لکھوں
صحرا کو تکتا رہوں اور اس کو دریا لکھوں
اللہ نے مجھے جس مقام پر رکھا ہے یہ برصغیر کے مسلمانوں کے رہنماؤں کیلئے جنتی برزخ ہے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ اس جگہ محمد علی جناح، اقبال اورسرسید کا اللہ کے نزدیک بڑا اونچا مقام ہے۔ ایک چھوٹا بچہ میرے پاس آیا اس نے بتایا کہ وہ روح کشمیر ہے اور اس کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ کشمیر سے آنے والے جنت میں جانے والوں کا استقبال کرے ان کے سوالات کا جواب دے اور اگر اپنی ہی برزخ کے کسی اور سے ملاقات کرنا چا ہیں تو اس کے ساتھ ملانے میں وہ رہنمائی کرے گا۔

میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور روح کشمیر سے کہا کہ مجھے محمد علی جناح سے ملنا ہے ۔۔ کچھ ہی دیر بعد میں اس مقام پر تھا جہاں محمد علی جناح کھڑے مسکرا رہے تھے ۔۔میرے ذہن میں ان کی آخری عمر کی تصویر تھی مگر وہاں محمد علی جوانی کے ایام کے خوبصورت ترین پوز میں تھے۔۔ میں نے سلام کیا انھوں نے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا ۔۔۔مسکرا کر میرے سلام کا جواب دیا اور کہا ویل ڈن علی تم نے خوش کر دیا ۔۔۔تم میری طرح ڈٹے رہے اورہمیشہ سچ اور حق بات کہی ۔۔۔۔تم نے اہل کشمیر کو چالیس سال کے بعد دوبارہ زندہ کیا ان میں آزادی اور پاکستان سے محبت کی روح دوبارہ زندہ کی۔
میں نے ان کی محبت کا شکریہ ادا کیا اور تمہاری طرح غصے سے ان سے شکایت کی کہ آپ کو بہت جلدی تھی آنے کی کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر ہی آپ آگئے ۔ادھر بھارت میں نہرو اور پٹیل جیسے گھاگ سیاست دان ادھر پاکستان میں آپ کے بعد تو خلا ہی خلا تھا ۔۔کشمیر میں بھارت نے فوج داخل کی پاکستان میں آپ نے کیا کیا۔۔۔جناح مسکرائے اور کہا علی ادھر آنا اپنی مرضی سے تھوڑا ہوتا ہے اور جہاں تک تمھارے سوال کا تعلق ہے کہ کشمیر کامسئلہ حل طلب کیوں رہا۔۔۔اس کا سبب کھوٹے سکے ہیں۔۔۔ اور یہ کھوٹے سکے صرف سیاسی لیڈروں کے بارے میں میں نے نہیں کہا تھا بلکہ اس قبیل میں فوجی جرنیل بھی شامل ہیں۔۔۔ جب بھارت نے افواج کشمیر میں داخل کیں ان کے مکمل خاتمے کا انتظام میں نے کر دیا تھا ۔۔۔لیکن ۔۔۔
میری طرف دیکھ کر وہ مسکرائے اور کہنے لگے ۔۔۔تمہیں یقین نہیں آیا۔۔۔پھر میرا ہاتھ پکڑ کر وہ ایک دروازے سے داخل ہوئے ۔میں بڑا حیران ہوا اس وقت ہم پاکستان کے ایوان صدر میں داخل ہوچکے تھے۔۔۔ پہرے دار لگتا تھا کہ نشے کی کیفیت میں تھے کسی نے ہماری طرف نہیں دیکھا۔۔ جناح مجھے ایک رکارڈ روم میں لے گئے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد گورنر جنرل کے احکامات کی فائل ہمارے سامنے تھی اور وہ صفحہ ٹائپ شدہ اور قائد اعظم کے دستخط والا میرے سامنے تھا۔۔۔ اس حکم کو پڑھنے کے بعد قاسم۔۔۔ مجھے تمہاری طرح شدید غصہ آیا۔۔۔ مگر جناح مسکرائے اور کہنے لگے ابھی کچھ نہ کہنا ایک اور چیز دیکھ لو اگلے ہی لمحے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی افواج کے ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہو کر اس فائل کو متعلقہ ریکارڈ روم کی الماری سے نکال کر اسی حکم کی اصل کاپی پڑھنے لگے۔پڑھ کر میں ،میں اپنے پر قابو نہ پاسکا۔۔۔ ۔اورایک معصوم بچے کی طرح رونے لگا۔۔۔۔
(جنت مکین سید علی گیلانی کے تہلکہ خیز خط کا باقی حصہ پھر کبھی)
٭٭٭
جناب پروفیسر ڈاکٹر قاسم بن حسن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔معروف ادیب ،دانشور ،مصنف اور عالم دین ہیں اسلامی جمیعت الطلبہ آزاد جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں