
متین فکری
گذشتہ سے پیوستہ
جون 2، 2005ء کو دوستی بس کے ذریعے جو لوگ پاکستان آئے ان میں میرواعظ عمر فاروق، پروفیسر عبدالغنی بٹ، یاسین ملک اور دیگر کشمیری قائدین شامل تھے۔ یہ ایک ایسی بارات تھی جس میں دولہا موجود نہ تھا۔ حکومت نے تو اس بارات کی پزیرائی کی اور اسے مناسب پروٹوکول دیا لیکن لوگوں کی تمام تر دلچسپی سید علی گیلانی سے تھی، وہ نہیں آئے تو مایوسی آئی۔ اس کا نقصان خود گیلانی صاحب کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ مشرف حکومت نے ان کی نمائندہ حیثیت ختم کردی۔ ان کی حریت کانفرنس کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ حاصل تھا۔ یہ حیثیت بھی ختم کرادی گئی اور اس کی جگہ میرواعظم گروپ کو یہ درجہ مل گیا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے بیرونی دوروں میں میرواعظ عمر فاروق سے ملاقاتیں کرتے رہے لیکن بعد میں حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ گیلانی صاحب نے دوستی بس کے ذریعے پاکستان نہ آکر ایک درست فیصلہ کیا تھا۔ یہ ڈراما بہت جلد فلاپ ہوگیا اور اس کے ذریعے مسلح جدوجہد آزادی کو ”ڈی ٹریک“ کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی جو سازش تیار کی گئی تھی وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ اس میں شبہ نہیں کہ سید علی گیلانی پاکستان آنے کی شدید تڑپ اپنے اندر رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تو ایک نہیں کئی مرتبہ بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان آسکتے تھے لیکن ان کی قومی غیرت اور حمیت نے اسے گوارا نہ کیا کہ وہ بھارتی شہری کے طور پر پاکستان آئیں۔ گیلانی صاحب نے دو حج کیے، جماعت اسلامی پاکستان کے اکابرین سے ان کی ملاقاتیں ارضِ مقدس میں ہوئیں۔ یوں غائبانہ رابطہ ذاتی تعلق اور دوستی میں بدل گیا۔ وہ خود کو پاکستانی شہری سمجھتے اور پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کشمیر کے بغیر پاکستان کو نامکمل سمجھتے تھے اور ان کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان اپنے وجود کو مکمل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادے۔ سید علی گیلانی نے اس حوالے سے ہر پاکستانی حکمران سے توقعات قائم کیں لیکن کوئی بھی حکمران ان کی توقعات پر پورا نہیں اُترا۔
جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے سبکدوشی کے بعد عام انتخابات کے ذریعے پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا نشانہ بن کر دنیا سے رُخصت ہوچکی تھیں اور اب پیپلز پارٹی ان کے شوہر آصف زرداری کے ہاتھ میں آگئی تھی۔ انہوں نے برسراقتدار آتے ہی مسئلہ کشمیر کے بارے میں 2 مارچ 2008ء کو بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے درج ذیل پالیسی بیان دیا۔
”پاک بھارت تعلقات کو مسئلہ کشمیر کے نام پر گروی نہیں رکھا جاسکتا۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعاون بڑھانے پر توجہ دیں اور مسئلہ کشمیر آنے والی نسلوں پر چھوڑ دیا جائے“۔ ایک اور بیان میں انہوں نے بھارت کے خلاف برسرپیکار کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا۔ سید علی گیلانی کو ان بیانات سے شدید ذہنی کوفت اور صدمے کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے پیپلزپارٹی کے پورے دور حکومت میں پاکستانی حکمرانوں سے مخاطب ہونا گوارا نہ کیا۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی اور اس کے قائد میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو ان کے اَور چھور ہی نرالے تھے، وہ بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے میں کہیں زیادہ پُرجوش نظر آرہے تھے۔ بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ انہیں بھیجا تو وہ پارلیمنٹ سے مشورہ کیے بغیر نئی دہلی پہنچ گئے اور پاکستانی ہائی کمیشن میں ملاقات کے منتظر کشمیری لیڈروں کو چھوڑ کر بھارتی دوستوں سے ملتے رہے۔ حالاں کہ یہ روایت چلی آرہی تھی کہ جو پاکستانی حکمران دہلی کے دورے پر آتا وہ کشمیری لیڈروں سے ضرور ملاقات کرتا تھا اور اس کا دعوت نامہ پاکستان ہائی کمیشن کی طرف سے جاری کیا جاتا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف دہلی کے دورے پر آئے تو پاکستانی ہائی کمیشن نے حسب روایت کشمیری قائدین کو دعوت نامے جاری کیے۔ سید علی گیلانی بھی ان میں شامل تھے۔ وہ بیماری کے باوجود نئی دہلی پہنچے اور دوسرے کشمیری قائدین کے ساتھ انتظار گاہ میں بیٹھے رہے۔ میاں نواز شریف کو سارے پروگرام کا علم تھا لیکن وہ ملاقات کے لیے نہ آئے اور انہوں نے اپنا سارا وقت بھارتی دوستوں کے ساتھ گزارا۔ سید علی گیلانی نے اندازہ لگالیا کہ یہ بدلے ہوئے نواز شریف ہیں، ان کی ترجیحات میں بھارت سے دوستی سرفہرست ہے اور اس میں مسئلہ کشمیر کہیں نہیں آتا۔ گیلانی صاحب کا یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔ میاں نواز شریف جب تک برسراقتدار رہے بھارت سے دوستی کا راگ الاپتے رہے اور کشمیریوں کی حالتِ زار پر کبھی غور کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
ء 2018 کے انتخابات میں قرعہ فال عمران خان کے نام نکلا۔ وہ برسراقتدار آئے تو کشمیریوں کو ان سے بڑی توقعات تھیں۔ انہوں نے بطور وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر نہایت جرات مندانہ تقریر کرکے کشمیریوں کے دل موہ لیے تھے۔ سید علی گیلانی نے بھی ان کی تقریر کو سراہا اور ان کے حق میں تعریفی بیان جاری کیا۔ لیکن عمران خان نے جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد یہ سمجھ لیا کہ ان کی تقریر سے مسئلہ کشمیر حل ہوگیا ہے۔ اب مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ چناں چہ انہوں نے تقریر کے بعد پُراسرار خاموشی اختیار کرلی اور حالات بگڑتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین میں کشمیر سے متعلق خصوصی شقوں کو حذف کرکے پورے مقبوضہ علاقے کو بھارتی یونین کا حصہ بنادیا اور اسے انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ یہ ایک ایسی کارروائی تھی جس نے کشمیریوں میں شدید اضطراب کی لہر دوڑا دی، وہ سراپا احتجاج بن گئے، اس احتجاج کو دبانے کے لیے بھارت نے پورے علاقے کو لاک ڈاؤن کردیا، غیر معینہ عرصے کے لیے کرفیو لگا دیا گیا اور کشمیریوں کا بیرونی دُنیا سے رابطہ منقطع کرنے کے لیے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل کردی گئیں۔
اس صورتِ حال نے سید علی گیلانی کو شدید کرب میں مبتلا کردیا۔ انہوں نے پورے عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان کے لیے ایس او ایس کال جاری کی۔ واضح رہے کہ یہ کال اس وقت جاری کی جاتی ہے جب بحری بیڑہ سمندری طوفان میں گِھر جائے اور بیرونی امداد کے سوا اس کے بچاؤ کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔
سید علی گیلانی محسوس کررہے تھے کہ اہلِ کشمیر کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے اگر انہیں بیرونی مدد نہ ملی تو وہ جانبر نہ ہوسکیں گے اور بھارت انہیں کچا کھا جائے گا۔ بظاہر انہوں نے پورے عالم اسلام کو مدد کے لیے پکارا تھا لیکن مسلمان ملکوں میں اتنا دَم خم اور اِتنی غیرت کہاں تھی کہ وہ کشمیریوں کی مدد کو آتے۔ گیلانی صاحب کا اصل مخاطب پاکستان تھا جو کشمیر کو اپنی شہہ رگ قرار دیتا تھا اور جو مسئلہ کشمیر کے ایک اہم فریق کی حیثیت سے کشمیریوں کی ہر طرح کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ پاکستان نے بظاہر اس ایس او ایس کال کا حوصلہ افزا جواب دیا، عسکری قیادت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے دفاع کے لیے آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جب یہ بیان جاری ہوا تو کشمیریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ پاک فوج ان کی مدد کو آرہی ہے۔ چناں چہ سرینگر پاک فوج کے لیے خیر مقدمی بینرز لگ گئے اور فضا پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی۔ کشمیری انتظار ہی کرتے رہے اور پاک فوج نے آخری کیا پہلی گولی چلانے کی بھی زحمت نہ کی۔ عسکری قیادت کا بیان درحقیقت ایک ”حرفِ تسلی“ سے زیادہ نہ تھا۔ سید علی گیلانی نے اگرچہ پاکستان کو کبھی بھارت کے ساتھ جنگ پر نہیں اُکسایا لیکن وہ دل سے یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان طاقت استعمال کیے بغیر کشمیر کو آزاد نہیں کراسکتا۔ وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ اگر پاکستان نے پورے عزم، حوصلے اور یقین محکم کے ساتھ طاقت استعمال کی تو کامیابی اس کے قدم چومے گی اور شکست بھارت کا مقدر بن جائے گی۔ سید علی گیلانی کا یہ خواب خواب ہی رہا، حقیقت نہ بن سکا۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرکے اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی جو خلاف ورزی کی تھی اس کا تقاضا یہ تھا کہ پاکستان بھی اس پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتا۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے اس کے جواب میں مذمتی بیانات تو ضرور جاری کیے لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ چناں چہ سید علی گیلانی نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں انہیں بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت انتہائی تشویشناک ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے پاکستان کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو توڑ دیا ہے۔ اب پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تمام دوطرفہ معاہدوں کو ختم کردے۔ انہوں نے اس سلسلے میں شملہ سمجھوتے، تاشقند ڈیکلریشن اور معاہدۂ لاہور کا خاص طور پر ذکر کیا جو بھارتی وزیراعظم واجپائی اور پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان طے پایا تھا۔ گیلانی صاحب نے ایل او سی پر بھارت کی جانب سے خاردار باڑھ لگانے کو بھی متنازع قرار دیا۔ یہ باڑھ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لگائی گئی تھی اور انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی تھی لیکن اب گیلانی صاحب کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یک طرفہ اقدامات کے بعد پاکستان کی جانب سے خاردار باڑھ پر احتجاج بھی ضروری ہوگیا ہے۔ انہوں نے خط میں وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے، مقبوضہ علاقے کو لاک ڈاؤن کرنے، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کرنے اور کشمیریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کریں اور جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے پوری دنیا میں بھارت کو رسوا کرنے کی مہم چلائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی خط میں جو مشورے دیے گئے تھے ان پر عمل کیا گیا۔ بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات جاری رہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو لاک ڈاؤن کے عذاب سے نکالنے کے لیے بھی کسی سفارت کاری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور کشمیری عوام طویل عرصے تک اس اذیت میں مبتلا رہے۔
پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو اہل کشمیر کے ساتھ یک جہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کی بھارتی کارروائی کے بعد 2020ء میں جو یوم یکجہتی منایا گیا وہ کشمیریوں کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔ مظلوم کشمیری عوام لاک ڈاؤن کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے اور پاکستان میں ان کے ساتھ یوم یکجہتی منایا جارہا تھا۔ سید علی گیلانی نے اس بے حسی پر کشمیری اور پاکستانی عوام کے نام ایک خط جاری کیا۔ جو ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کے فروری 2020ء کے شمارے میں بطور اداریہ شائع ہوا۔ انہوں نے اپنے کشمیری ہموطنوں کو خبردار کیا کہ بھارتی عزائم کی ہر سطح پر مزاحمت کی اشد ضرورت ہے کہ یہی مزاحمت کل ہمارے لیے آزادی کی نوید ثابت ہوسکتی ہے۔ گیلانی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی کشمیری اپنی جائداد بشمول اراضی، املاک و مکانات وغیرہ غیر ریاستی باشندوں کو کسی حال میں فروخت نہ کرے۔ تمام کشمیری باشندے اپنی مساجد، مدارس اور خانقاہوں کی حفاظت کے لیے چوکس رہیں۔ انہوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کو ہر قسم کے انتخابی ڈرامے کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا۔ انہوں نے بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں سے کہا کہ اب بھی موقع ہے وہ اپنے عمل کا حساب کریں اور یہ طے کریں کہ وہ اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیں گے یا بھارتی قاتلوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے؟ گیلانی صاحب نے کشمیری عوام کا ساتھ دینے پر حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی داخلی سیاست کے منفی اثرات بارہا مسئلہ کشمیر کو جھیلنا پڑے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے تمام تر وسائل بشمول جرأت و حوصلے کو بروئے کار لا کر بھارت کی حالیہ جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا دفاع کرے۔

گیلانی صاحب کو اپنی پیرانہ سالی اور ناسازیِ صحت کا احساس تھا اس لیے خط کے آخر میں اپنی اِن مجبوریوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ہموطنوں اور اہل پاکستان سے کہا کہ آئندہ شاید ہی انہیں ان سے گفتگو کی مہلت مل سکے۔ یہ اہل کشمیر و پاکستان سے ان کا آخری تحریری خطاب تھا جس کے ایک سال چند ماہ بعد وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ سید علی گیلانی نے اگرچہ طویل عمر پائی لیکن وہ متعدد عارضوں کا شکار رہے۔ قلب کا عارضہ انہیں 1978ء میں ہوگیا تھا لیکن دلِ ناتواں کے ساتھ وہ بڑے بڑے معرکے سر کرتے رہے جیل کی پُرصعوبت زندگی بھی مریض دل کی حیثیت سے کاٹی۔
”مریضِ دل“ پہ ہو رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مرض اتنا بڑھ گیا کہ دل کی دھڑکن بے ترتیب رہنے لگی۔ 1992ء میں ڈاکٹروں نے پیس میکر (Pace Maker) لگوانے کا مشورہ دیا۔ چناں چہ 25 اپریل 1992ء کو یہ آلہ دل میں نصب کردیا گیا اور گیلانی صاحب نے بقیہ زندگی اسی کے سہارے گزاری۔ جسم میں کینسر تشخیص ہونے کے بعد پہلے پِتّا نکالا گیا پھر آپریشن کرکے ایک گردہ بھی نکال دیا گیا۔ جب دوسرے گردے میں کینسر کے اثرات ظاہر ہوئے تو اس کا بھی ایک تہائی حصہ کاٹ دیا گیا۔ گیلانی صاحب اس نامکمل جسم اور نہایت کمزور صحت کے ساتھ اپنی قوت ارادی کے بل پر چومکھی لڑتے رہے۔ ان کی آواز میں کبھی خوف کی جھلک محسوس نہیں ہوئی اور ان کا دل و دماغ آخری عمر تک پوری طرح چوکس اور توانا رہا۔ سید علی گیلانی نے بھارتی جیلوں میں کم و بیش 18 سال اور گھر میں 12 سال نظر بندی کی حالت میں گزارے اور اسی نظربندی کی حالت میں موت سے ہم آغوش ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات سے ایک سال قبل کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی عدیم النظیر جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا ”سید علی گیلانی کشمیریوں ہی کے نہیں پاکستانیوں کے بھی رہنما ہیں۔ دنیا میں ان جیسا کوئی لیڈر نہیں“۔
سید علی گیلانی نے بھارتی استعمار کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں، وہ اس کے ایجنٹوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھتے تھے۔ اس لیے وہ لوگ ان کا زندہ وجود کیسے برداشت کرسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جان لینے کی پے در پے کوشش ہوئی لیکن وہی بات کہ ”جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے“۔ قدرت ہر موقع پر ان کی حفاظت کرتی رہی اور ان کے دشمنوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ گیلانی صاحب پر جو قاتلانہ حملے ہوئے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ 30 اکتوبر 1995ء کو حیدر پورہ سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا، مکان کو نقصان پہنچا لیکن گیلانی صاحب محفوظ رہے اور انہیں خراش تک نہ آئی۔ 10 دسمبر 1996ء کو اس خفیہ اطلاع پر کہ سید علی گیلانی اپنے بھائیوں سید میرک شاہ گیلانی اور سید محمد ولی گیلانی کے ہاں مقیم ہیں۔ دونوں کے مکافات نذر آتش کردیے گئے اور اہل خانہ نے بھاگ کر جان بچائی۔ 19 دسمبر 1996ء کو گیلانی صاحب کے ذاتی مکان واقع ڈورو کو دھماکا خیز مواد سے بلاسٹ کرکے ناقابل رہائش بنادیا گیا لیکن گیلانی صاحب پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ اس واقعے کے بعد گیلانی صاحب حیدر پورہ کے مکان میں رہائش پزیر تھے کہ مکان پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا جس سے صحن کی دیوار منہدم ہوگئی، مکان کے شیشے ٹوٹ گئے اور اوپری منزل کو آگ لگ گئی لیکن گیلانی سمیت تمام اہل خانہ محفوظ رہے۔ تاہم فوجی کیمپ میں کسی کو یہ کہتے سنا گیا ”آج اس کی دکان بند ہوگئی“۔ حالاں کہ وہ آنکھ کھول کر دیکھتا تو دکان کھلی ہوئی تھی۔ گیلانی صاحب 1996ء کے ریاستی انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم پر سوپور سے دورہ کرکے سرینگر واپس جارہے تھے کہ راستے میں گاڑی پر بم پھینکا گیا لیکن گاڑی آگے نکل گئی اور بم اپنے ٹارگٹ پر نہ پہنچ سکا۔ حیدر پورہ سرینگر میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہورہا تھا کہ زبردست فائرنگ شروع ہوگئی۔ اجلاس میں سید علی گیلانی سمیت شوریٰ کے بیش تر ارکان شریک تھے۔ یہ ایک ٹارگٹڈ فائرنگ تھی جس کا مقصد سب کو ہلاک کرنا تھا لیکن اللہ کے فضل سے سب لوگ محفوظ راستوں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔
گیلانی صاحب کے بڑے بیٹے نعیم الظفر کی شادی کے موقع پر رات بھر مکان پر شدید فائرنگ ہوتی رہی۔ دلہن سمیت سب لوگوں نے مکان کے کوریڈور میں چھپ کر رات گزاری۔ ان تمام قاتلانہ حملوں میں اصل ٹارگٹ سید علی گیلانی تھے۔ دشمن ان کی زندگی ختم کرنا اور ان کی آواز کو خاموش کرنا چاہتا تھا لیکن وہ ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکا اور کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف ان کی آواز پوری دنیا میں گونجتی رہی۔ اس آواز نے بھارت پر لرزہ طاری کیے رکھا۔ گیلانی صاحب کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ وہ کسی مرحلے پر بھی خوف یا مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنا ذاتی نقصان برداشت کرلیا، دوستیاں قربان کردیں، اپنے پیارے وطن پاکستان سے جدائی گوارا کرلی لیکن حق سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ بلاشبہ اقبال کے یہ اشعار ان پر صادق آتے ہیں۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ اَبلہِ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
سچی بات ہے، سید علی گیلانی ایک کرشماتی شخصیت تھے وہ اگر سیاست میں حصہ نہ لیتے اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے ایک پرصعوبت زندگی نہ گزارتے تو اپنے عہد کے ایک نامور ادیب، دانشور اور مفکر ہوتے تاہم انتہائی عدم فرصت کے باوجود ان کے قلم نے کتابوں کی صورت میں جو گل و لالہ کھلائے ہیں وہ ہمیشہ مہکتے رہیں گے۔ ان کی چند اہم کتابیں درج ذیل ہیں۔ولر کنارے (سوانح حیات، تین ضخیم جلدوں میں)۔ روداد قفس (جیل کہانی دو جلدیں)۔ اقبال روح دین کا شناسا (دو جلدیں)۔ مقتل سے واپسی۔ اقبال اپنے پیغام کی روشنی میں۔ امت مسلمہ کی منصبی ذمے داری۔ وغیرہ وغیرہ
بے شک سید علی گیلانی اب ہم میں نہیں ہیں لیکن وہ موت کی آغوش میں جا کر بھی زندگی کا روشن استعارا بن گئے ہیں اور اہل عزم و عمل ان سے رہنمائی لیتے رہیں گے۔ اہل فکر جب ان کی حیات ِ مستعجل پر ایک نظر ڈالیں گے تو بے اختیار پکارا اٹھیں گے۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی