سید یوسف نسیم

سید یوسف نسیم کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ان کی شخصیت متعدد پہلووں کے گرد گھومتی ہے ۔وہ جہاں بہت ملنسار ہیں وہیں اھس مزاح کا رنگ بھی ان کی شخصیت پر غالب ہے ۔سنجیدہ فکر بھی ہیں اور دوسروں کیلئے ہمدردی کا جذبہ بھی اپنے اندر بدرجہ اتم رکھتے ہیں ۔6دسمبر1953ء میں وسطی کشمیر کی مردم خیز بستی ولی وار لار گاندربل میں پیدا ہوئے جو سری نگر کے بہت قریب ہے ۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے لار سے حاصل کی۔بعدازاں علم کی مزید پیاس بجھانے کیلئے کشمیر یونیورسٹی سرینگر کا رخ کیا۔یہاں MA اور LLB کی ڈگریاں حاصل کیں۔ شعبہ قانون کی تعلیم کے بعد سرینگر ہائیکورٹ میں چار برس تک وکلالت کے پیشے کیساتھ وابستہ رہے۔1989 میں جب مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے ناجائز اور غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مسلح جدوجہد نے اہل کشمیر کے ہر گھر پر دستک دی تو جناب یوسف نسیم نے وکلالت کے پیشے کو خیر باد کہہ دیا اور بغیر کسی توقف کے مسلح جدوجہد کا حصہ بنے۔وہ عسکری تنظیم البرق کے چیف کمانڈر مقرر کیے گئے۔کئی برسوں تک بھارت کے خلاف داد شجاعت دیتے رہے’ جس کی پاداش میں ان کے بیسیوں عزیز و اقارب شہید کیے گئے جن میں ان کے دو لخت جگر بھائی بھی شامل ہیں۔ عظیم قربانیوں کے امین سید یوسف نسیم 1993 میں میدان کارزار سے دوبارہ بیس کیمپ گئے اور پھر سیاسی پلیٹ فارم کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ بنے۔وہ کئی بار مذکورہ فورم کے کنوینئر بھی رہ چکے ہیں۔اسی فورم کی وساطت سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے متعدد بار بیرون ممالک کے دورے بھی کیے۔آج بھی کل جماعتی حریت کانفرنس کیساتھ وابستہ سیاسی محاذ پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ان سے کئے گئے طویل انٹرویو کی چند خاص چیزیں مختصراََ قارئین کرام کی نذر ۔

محمد شہباز وانی

س: محترم سید یوسف !آپ پیشے سے وکیل تھے، تحریک آزادی کشمیر نے کسطرح آپ کے دل میں انگڑائی لی؟

ج: محترم برادر !میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ آپ نے مجھے ان عظیم لوگوں کی صف میں کھڑا کیا جس صف کے اندر میںاپنے آپ کو آخری مقتدی سمجھتا ہوں ۔میرا وکیل بننا دراصل میرے والد کی بڑی خواہش تھی کہ میں غریبوں کے کیس بلا معاوضہ لڑوں اور عوام کی خدمت کروں ۔جب میں ایس پی کالج سرینگر میں زیر تعلیم تھا،ایک واقعہ ایسا ہوا جس کو اپنی زندگی کا Turning Point کہہ سکتا ہوں ۔میں نے انگریزی ،اردو،پولٹیکل سائنس اور جغرافیہ اپنے Subjects منتخب کئے تھے۔کالج کی طرف سے ہم پچیس لڑکے اور دو پروفیسر صاحبان جغرافیکل ٹور Tour پر انڈیا گئے۔ ٹور مکمل کرکے ہمیں دہلی میں اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ناشتے پر بلایا ۔اس نے ہر لڑکے سے پوچھا کہ آپ کو بھارت میں کونسی جگہ سب سے زیادہ اچھی لگی۔سب نے مختلف جگہوں کے نام لئے اور اندرجی ہر لڑکے کے جواب میں مختصر تبصرہ بھی کرتی تھی۔میری باری آئی تو میںنے کہا مجھے سب سے زیادہ پسند پاکستانی ایمبیسی آئی ۔اندرا جی نے کہا کہ یہ لڑکا باغی بن جائیگا۔پروفیسر صاحبان ناراض ہوئے کہ یہ کیا کہا۔بہرحال واپسی پر کالج میں مجھے خوف تھا کہ پروفیسر صاحبان پرنسپل کے پاس میری شکایت لگا کر مجھے کالج سے نکلوا دیں گے لیکن اس کے برعکس ہوا۔پرنسپل صاحب نے میرا پچاس روپے ماہانہ وظیفہ جاری کیا۔جب بات کالج لڑکوں میں پھیلی تو سب مجھ سے پیار کرنے لگے اور مجھے بڑی عزت ملی۔اس وقت مجھے سمجھ آیا کہ دل کی حقیقت کا اظہار کرنا کتنی اچھی اور بڑی بات ہے۔اس واقعہ سے میرا زاویہ نگاہ بالکل بدل گیا۔

کالج میں مجھے کئی اچھے ساتھی مل گئے جن میں شیخ تجمل صاحب مرحوم ،عزیز آئرن صاحب ،مشتاق تبسم صاحب ،یوسف گلکار صاحب ،فاروق صوفی صاحب اور کئی ساتھی جن کا تعلق انقلابی تحریک کے ساتھ تھا۔اس دوران Book of knowledge کا معاملہ ہوا جس پر سارے مسلمان سیخ پا ہوئے ،ہم نے جلوس نکالا ،پولیس نے فائرنگ کی اور پروفیسر غلام محمد خان کا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے شہیدہوا۔ اس واقعہ نے مجھے بدل کررکھ دیا اور میں تحریک آزادی کے ساتھ وابستہ ہوا۔

س: آپ تحریک آزادی کے حوالے سے کسی تنظیم کے ساتھ باضابطہ طور پر وابستہ ہوئے؟

ج: اس وقت کشمیر میں صرف دو تنظیمیںکام کررہی تھیں۔ایک جماعت اسلامی اور دوسری محاذ رائے شماری ۔چونکہ ہمارا خاندان ابتداء سے ہی محاذ رائے شماری کے ساتھ وابستہ تھا ور اس تنظیم کے ساتھ پوری کشمیری قوم وابستہ تھی لیکن جب شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ایکارڑ کیا،گٹھ جوڑ کیا تو تحریک آزادی کمزور پڑگئی۔اسی زمانے میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا جو تاریخ اسلامی کا بد ترین واقعہ تھا۔لوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے لیکن جوانوں کے اندر بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے سوچ پیدا ہوئی اور انڈرگراونڈ کام شروع کیا گیا۔چونکہ جماعت اسلامی تین بڑے کام کررہی تھی ۔ایک تعلیم کو عام کرنے کا خاصکر اسلامی نظریاتی تعلیم ،دوسری کارکنوں کی اعلیٰ تربیت اور تیسرا سماجی کام اور ایسا نظام اسوقت کہیں اور موجود نہیں تھا۔اس لئے میںجماعت اسلامی کے ساتھ ذہنی طور وابستہ ہوا،ہر اجتماع میں شرکت کرتا تھا لیکن سیاسی سطح پر میں شہیدعبدالغنی لون ؒکی پیپلز کانفرنس کے ساتھ منسلک رہا۔

س: محترم سید صاحب آپ بیس کیمپ میں کب اور کیوں تشریف لائے؟

ج:جب محمد مقبول بٹؒ کو تہاڑ جیل میں شہید کیا گیا تو شہیدعبدالغنی لون نے کپوارہ میں ایک جلسہ کیا اور لوگوں کو مقبول بٹ ؒ کی پوری تاریخ بیان کی ۔عام لوگوں کو مقبول بٹؒ کے مشن کا علم نہیں تھا۔ لون صاحب نے مجھے مشن سونپا ۔میں 1986 ء میں پاکستان آیا۔ہدایت کے مطابق میں نے پروفیسر شفیق الرحمٰن سے مقبول بٹ شہید کے سارے مسودے ( Documents)حاصل کئے جو میں نے مقبوضہ کشمیر پہنچائے اور یہ مواد ایک برس تک وہاں کے اخبارات میں چھپتا رہا۔

س:محترم سید صاحب!کیا اس دورے میں آپ کسی سیاسی شخصیت سے یہاں ملے؟

ج:میں 1986 ء اپنے رشتہ داروں کے پاس کراچی ایک شادی میں شرکت کے لئے گیا۔وہاں میری سردار عبدلقیوم خانؒ مجاہد اول کے ساتھ ملاقات ہوئی جو تین گھنٹوں پر محیط رہی ۔میں نے ان کو کشمیر کی اور وہاں کی تنظیموں کی صورتحال سے آگاہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ ہم ایبٹ آباد میں شیخ العالم ؒ کے نام سے ایک کانفرنس رکھیں گے، اس بہانے سے آپ کچھ خاص لوگوں کو یہاں بلائیں،ہم ان سے مشاورت کریں گے۔فہرست میں چودہ افراد کے نام لکھے کئے جن کو یہاں آنے کی دعوت دی گئی ۔ان میں سعدالدین صاحب ؒ امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر ، سید علی گیلانی ؒ،محمد یوسف شاہ صاحب(سیدصلاح الدین احمد)،اخبارچٹان کے ایڈیٹر طاہر محی الدین صاحب ،اخبار آفتاب کے ایڈیٹر ثناء اللہ صاحب ،سرینگر ٹائمز کے صوفی غلام محمد اور کچھ دیگر لوگ۔میں جب واپس کشمیر پہنچا تو گاندربل میں جماعت اسلامی کا بڑا اجتماع تھا ۔میں نے خاموشی سے سید صلاح الدین احمد کو دعوت نامہ دیا۔سب تیار تھے لیکن بھارت نے کسی کو یہاں آنے کی اجازت نہیںدی سوائے ایک آدمی صوفی غلام محمد یہاں پہنچ پائے ۔کانفرنس کا مقصد پورا نہیں ہوا۔

س: آپ عسکری تنطیم البرق کے ساتھ کیسے وابستہ ہوئے۔؟

ج:کشمیر میں جب جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ وجود میں آئی اسکے چار سرکردہ نوجوان جو حاجی گروپ کے نام سے مشہور ہوئے یعنی شہید حمید شیخ ؒ ، شہیداشفاق مجیدوانی ؒ ،جاوید میر اور محمد یٰسین ملک صاحب۔ان کے ساتھ شہید عبدالغنی لون نے کئی ملاقاتیں کیں، انہیں اخلاقی اور دیگر معاملات میں شہید لون صاحب اور ہماری تنظیم پیپلز کانفرنس عملی تعاون دیتی رہی۔چونکہ جے کے ایل ایف کا نظریہ خود مختار کشمیر تھا اس لئے کچھ مدت بعد میں اور میرے کئی ساتھیوں نے جے کے ایل ایف سے علحیدگی اختیار کی کیونکہ ہم اپنے آپ کو سو فیصد پاکستانی سمجھتے تھے اورہمارا نصب العین ــ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ ۔ اس کے بعد ہم نے البرق بنائی ۔میں تب کشمیرمیں ہی تھا۔ مجھے اس تنظیم کا پہلا ’’ امیر اعلیٰ ‘‘ بنایا گیا۔ جنوری 1993 ء میں دوبارہ پاکستان آیا، اس دوران بہت کچھ سہنا پڑا ۔ آج تک ہمارے خاندان کے اُنتالیس (39) افراد شہید کئے گئے جن میں میرے دو سگے بھائی سید شوکت علی اور سید محمد علی شامل ہیں۔

س: آپ کل جماعتی حریت کانفرنس میں کب شامل ہوئے؟

ج: میں جب 1993 ء میں یہاں آیا اسی دوران APHC بنی ۔بالکل آغاز میں ہی شامل ہوا۔ مجھے تب سے آج تک سات بار اس کا کنوینر چنا گیا ۔ اور اسی کی وساطت سے میں متعدد بار بیرونی ممالک کے دوروں پر گیا اور کشمیر کاز کے لئے کام کیا۔ ہم نے ہر جگہ حق خود ارادیت کی بات کی اور جہاد کشمیر کی ترجمانی کی ۔

س: آپ جہاد کشمیر کے ابتدائی کارکنوں میں سے ہیں ۔ جب آپ نے یہ تحریک شروع کی جس میں معلوم تھا کی مال ،جان کی قربانیاں دینی پڑیں گی ۔۔تو آپ نے پاکستان کے ذمہ دار لوگوں سے کو ئی معاہدہ نہیں کیا کہ اس تحریک کے کس موڈ پر آپ کس طرح ہماری براہ راست مدد کریں گے؟

ج: بہت اہم سوال ہے برادر! جب عسکریت کا فیصلہ ہوا اس میں باضابط ایک معاہدہ Agreement موجود ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ وہ معاہدہ جنرل ضیاء الحق اور امان اللہ خان مرحوم کے درمیان طے ہو اتھا۔ امان اللہ خان نے وہ معاہدہ سیدعلی گیلانی ؒ ، عبدالغنی لون ؒ اورمیر واعظ محمد فاروق ؒ تک زبانی پہنچایا۔ اس میں ایک بات یہ تھی جو جب ہم یہاں پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ کام شروع کریں، رہنمائی اور مدد کر نا ہمارا کام ہے بلکہ یہ وعدہ کیا گیا کہ ہم خود لڑیں گے۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ آپ لبریشن فرنٹ کا ساتھ دیں تاکہ دنیا پر یہ باور ہو جائے کہ یہ تحریک سپانسرڈ نہیں بلکہ عوامی تحریک Indigenous Movement ہے۔ اس طرح دنیا آپ کی مدد کرے گی ورنہ اگر یہ پاکستان سپانسرڈ ثابت ہو گئی تو کو ئی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ تھا ایگریمنٹ جنرل ضیاء الحق اور امان اللہ خان مرحوم کے درمیان جس کے گواہ مولانا عبد الباری صاحب ( امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر )تھے ۔ پھر ہوا یہ کہ جب تحریک شروع ہوئی ،کشمیری عوام نے اسکو خوش آمدید کیا ۔ لوگ کلا شنکوف کو چومتے تھے کہ یہ پاکستان سے آیا ہے۔ جب بندوق پاپولر ہو گیا بد قسمتی سے یہاں پالیسی تبدیل ہو گئی۔ جن لوگوں نے ہم سے وعدے کئے تھے وہ آج تک کہیں ملے نہیں ۔کشمیری مسلمان چاہے کانگریس یا نیشنل کانفرنس کے ساتھ تھا، پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت رکھتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ پوری قوم نے قربانی دی لیکن جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ بیش بہا قربانیاں دینا پڑیں وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی روزاول سے ہی اس تحریک کو منظم طریقے سے چلا رہی تھی ۔ بندوق پہنچی تو انقلاب آیا اور جب بندوق روک دی گئی تو بھارت ہم پر چڑھ دوڑا حالانکہ ایگریمنٹ میں ساری چیزیں تھی چاہے تحریری یا زبانی ۔

س: شاہ صاحب ! پاکستان نے معاہدہ کی پاسداری کیوں نہیں کی جب کہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ان کے حق میں بھی بہت بہتر ہے ؟

ج: حقیقت یہ ہے 9/11 کے بعد پاکستان پر کافی دبائوآیا، آج سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی ہمیں کہا گیا Let us give a chance to diplomacy ہمیں ذمہ دار لوگوں نے یقین دلایا کہ امریکہ اور دیگر بین الاقوامی قوتوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ مذکرات کے ذریعے حل کروائیں گے لیکن آپ بندوق کا کردار بند کریں۔تاہم یہ ساری یقین دہانیاں دوکھہ ثابت ہوئیں۔

س: نسیم صاحب!9/11 کے بعدبھارت نے دفعہ 370 اور35-A ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کوبھارت میں ضم کر دیا ۔ کیا ہم تحریک آزادی کوزندہ رکھ سکتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو منتقل کر سکتے ہیں ؟

ج : آپ کا سوال بہت اہم ہے ۔ اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ بیس کیمپ کو وہ کردار Roleدیا جائے جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اس کو دیا تھا ۔ ایک زمانے میں ہمارے پاس جموں و کشمیر ملیشیاء موجود تھی جس کو ختم کیا گیا ۔ مجاھد فورس کے نام سے ایک فورس موجود ہے لیکن اس میں مجاھد کوئی نہیں ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر آپ کشمیر کاز کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمارے مجاھدین کو وہ ٹرنینگ ، وہ تنخواہ، اوروہstatus دے دیںجو آپ اپنے فوجیوں کو دیتے ہیں۔ شہداء کے ورثاء کی اسی طرح دیکھ بال کریں جسے اپنے شہید فوجیوں کے ورثاء کی کرتے ہیں اس میں کوئی دوسرا ملک رکاوٹ نہیں ڈال سکتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ منصورہ طرز پر مہاجرین کے لئے ایک بستی بسائی جائے جہاں ہماری زبان ، تہذیب ،ثقافت سب محفوظ رہے ۔ اسوقت حریت کانفرنس اور جہاد کونسل کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ مجاھدین اور مہاجرین کی آباد کاری ہے۔ یہ مرحلہ طے ہو جائے پھر ہم اپنے ڈاکٹرز ۔ انجیئنرز اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ نوجوانوں کو متحدہ کریں گے اور وہ سمجھیں گے ان کی یہ ڈگریاں جہاد اور شہداء کی مرہوں منت ہیں ۔ اگر وہ شہداء کے مشن کے ساتھ وابستہ نہیں رہیں گے تو یہ ڈگریاں ان کے کسی کام کی نہیں ۔

٭٭٭