ابن رومی
ربیع الاوّل کا بابرکت مہینہ تھا اور عرب کے لق و دق صحرا میں عبدالمطلب کے گھر میں عبداللہ کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا، جس کی نور کی کرنیں وادی فاران سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئیں، ساری کائنات اس کی روشنی سے منور ہوگئی اور صدیوں پر پھیلے جہالت کے پردے گر گئے۔ اس طرح جگر گوشہِ آمنہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی آمد کا اعلان کردیا کہ دنیا میں اب حق کا بول بالا ہونے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہونے جا رہا ہے۔اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کے لئیاللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب عرب کی سرزمین پر پڑی تھی۔ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ ان ہی قوموں کو عروج بخشتے ہیں جو خود کو اس کے اہل ثابت کرتی ہیں اور جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے فرامین کو جھٹلاتی ہے، اس کی بنائی گئی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو زوال پذیر کر دیتے، ذلت و رسوائی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کی بن گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں دنیا کی امامت کرنے والی مسلمان قوم آج گردشِ زمانہ کی شکار ہو کر مدت ہائے دراز سے عذابِ الٰہی سے دو چار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت سے روگردانی، اپنے فرض منصبی سے پہلو تہی، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اللّٰہ سے ہتک آمیز سلوک نے انہیں زوال کی پستی میں لا پھینکا ہے۔ پوری دنیا کا منظرنامہ اٹھا کر دیکھئے، آپ کو ہر جگہ امت مسلمہ بلکہ ملت مرحومہ تختہ مشق بنی ہوئی ملے گی۔ پھر چاہے وہ شام ہو، عراق ہو، فلسطین ہو، بوسنیا ہو، برما ہو، سنکیانگ ہو، مشرق وسطیٰ ہو یا کوئی اور مسلمان ملک ہو۔ہر جگہ ملت مرحومہ ہی لٹ رہی ہے، پٹ رہی ہے اور در بدری کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ عالمی امن کے ٹھیکیدار جن کے دل کتے کے مرنے پر تڑپ اٹھتے ہیں، یہ سارا منظر دیکھنے کے باوجود بھی ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ملکوں کے ملک تباہ و برباد کر دئیے گئے، انسانی خون کی ہولی کھیلی گئی، ہزاروں عفت مآب بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، لیکن امن کے ٹھیکیدار پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ملت اسلامیہ گو کہ اسے ملت مرحومہ کہنا ہی بہتر رہے گا، آج اگر اس دگرگوں صورتحال سے دوچار ہے تو اپنی تن آسانی، نا اہلی اور نافرمانی کی وجہ سے ہے۔ غیروں کی سازشوں سے زیادہ یہ ملت مرحومہ کی اپنی کرم فرمائی کا نتیجہ ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔

بے شک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام جملہ معاملات میں رہنمائی کرتا ہے۔ پھر چاہے وہ سیاست ہو، معاشرت ہو، معیشت ہو، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، کاروبار ہو یا ملازمت، عائلی قوانین ہوں یا قانون بین الممالک۔ غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اس ساری صورتحال کو دیکھ کر، اس سارے پس منظر کو دیکھ کر یہ سوال ہمارے ذہنوں میں ضرور آنا چاہیے کہ ایک مکمل نظامِ زندگی، ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے باوجود بھی مسلمان ہی سب سے زیادہ پریشان حال کیوں ہیں؟ سب سے زیادہ غربت و افلاس مسلمان ممالک میں ہی کیوں ہے؟ سب سے زیادہ آوارہ گرد، ناکارہ و ناخواندہ مسلمان ہی کیوں ہیں؟ مسجدوں کے سامنے مسلمان بھیک منگوں کی قطاریں کیوں لگی ہوئی ہوتی ہیں؟ ایسے سوال ہر ذی حس مسلمان کے ذہن میں ضرور ابھرنے چاہیے کہ ایک ایسی امت جس کے پاس چودہ سو سال پہلے زکوٰۃ کا ایک مکمل اور جامع نظام آیا ہو، جس کے ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہوں، انہیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ اس کے یہاں غربت و افلاس اور جہالت و لا علمی کے ڈیرے ہوں۔ کیا اس امت کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ اس کا کوئی بھی فرد رات کو بھوکا سوئے اور صبح کو روٹی ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؟۔ آخر اس امت کی حالتِ زار کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سب کچھ غیروں کی کارستانی ہے یا پھر ہم خود بھی قصوروار ہیں؟۔ کوئی بھی عقل رکھنے والا انسان اگر اس سوال پر اور امت مسلمہ کی موجودہ حالت پر غور کرے تو اسے اس بات کا جواب ہاں میں ملے گا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ غور کرنے کے علاوہ یہ امت سب کچھ کرتی ہے۔ اگر ہم باتوں پر غور کرتے، تدبر و تفکر کرتے، تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی، ہمیں جوتے نہ پڑ رہے ہوتے۔ جب مسلمان غور و فکر، تدبر و تفکر، تحقیق و تصنیف کیا کرتے تھے تب مسلمانوں کے گھروں سے جابر بن حیان، ابو الہیثم، الزواہری، ابنِ رشد، الادریسی، محمد بن موسیٰ الخوارزمی، محمد بن موسیٰ شاکر، الاندلوسی، ابنِ سینا، امام غزالیؒ، امام ابنِ تیمیہؒ اور علامہ ابن القیم جیسے فلسفی، سائنسدان اور عالم و فقیہہ پیدا ہوتے تھے اور پوری دنیا پر ان کی علمی صلاحیتوں کی حکمرانی و دبدبہ ہوتا تھا۔ یورپ کے لوگ بھاگ کر مسلمانوں کی جامعات میں داخلے لیتے تھے۔ سمرقند و بخارا، بغداد و بصرہ، قرطبہ و نیشاپور مسلمانوں کی عظمت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ لیکن صدیاں گزر گئیں نہ کوئی امام غزالی جیسا فلسفی پیدا ہوا اور نہ ابنِ سینا اور ابن حیان جیسا سائنسدان۔ وجہ بس یہ کہ:
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
اب اس امت نے غور و فکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ یہ امت اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر فروعی معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ ان ہی فروعی معاملات میں الجھنے کی وجہ سے بڑے بڑے بحران اس امت کو درپیش آتے ہیں اور یہ چاروں خانے چت ہوکر مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتی ہے۔ اس امت کے فروعی معاملات کیا ہیں جن میں یہ الجھی پڑی ہے، ذرا ان پر بھی نظر ڈالئیے۔ مثال کے طور پر ہم ان مسائل میں الجھ کر اپنی قوت (اگر کہیں بچی ہے) صرف کرتے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں یا سنی، نماز کے دوران ٹوپی پہننی سنت ہے یا عمامہ باندھنا، شلوار کرتا پہننا سنت ہے یا کوٹ پتلون، اونچی آواز میں آمین کہنا سنت ہے یا پست آواز میں، سینے پر ہاتھ باندھنے ہیں یا سینے سے نیچے، تراویح آٹھ رکعت ہیں یا بیس رکعت۔ غرض ایسے ہی غیر ضروری مسائل میں پڑھ کر جو کہ مسائل ہیں ہی نہیں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ کر اتحاد امت کو پارہ پارہ کرتے ہیں۔ اس چیز کا سب سے زیادہ فائدہ اغیار قومیں اٹھاتی ہیں اور مل بانٹ کر پھر اس امت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہیں۔ کہیں جمہوریت کے نام پر تو کہیں دہشت گردی کے نام پر۔ مگر امت مسلمہ ہے کہ عقل سے کام ہی نہیں لیتی۔
اگر آپ شعور کی آنکھ کھول کر اپنی موجودہ حالت پر غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ امت کس سمت جا رہی ہے۔ ادھر یمن میں ہر سال لاکھوں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور ادھر ہم سینما گھر کھول رہے ہیں۔ ادھر فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے، یہودی مسجدِ اقصیٰ جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے،اسے گرانے کی اسکیمیں بنا رہے ہیں اور ادھر اس امت کے نوجوان خرافات میں الجھے پڑے ہیں۔ ادھر ایک پڑوسی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے تو دوسرا پڑوسی ہر سال حج و عمرہ کر رہا ہے۔کیا سینما کھولنا فلسطین کے تحفظ سے زیادہ ضروری ہے؟ کیا پیسے کمانا مسجد اقصیٰ سے زیادہ اہم ہیں؟ کیا اس امت کے حکمرانوں کو شرم نہیں آتی کہ یہودی مسجدِ اقصیٰ کو گرا رہے ہیں اور وہ اس کا تحفظ کرنے کے بجائے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے ہیں! کیا ہر سال حج و عمرہ کرنے سے یہ بہتر نہیں ہے کہ اپنے محلے میں کسی غریب کی مدد کی جائے، کسی یتیم کی کفالت کی جائے، کسی بے سرو سامان لڑکی کی شادی کر دی جائے تاکہ وہ بھی اپنا گھر بسا سکے؟ کیا اس امت کے مالدار آدمی اور صاحبِ ثروت طبقے کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ اس کے گلی محلے میں غربت و افلاس کے ڈیرے ہوں، اس کے پڑوسی بھوکے پیاسے ہوں اور وہ حج کرنے چلا جائے؟۔ کیا نئی مسجدیں تعمیر کرنے سے بہتر نہیں ہے کہ پرانی مسجدوں کی حالتِ زار پر بھی نظر دوڑائی جائے اور اپنی نوجوان نسل کو مسجدوں کی طرف متوجہ کیا جائے۔ آخر ان مسجدوں کا کرنا کیا ہے جب بیس تیس سال بعد ان میں کوئی نماز پڑھنے والا ہی نہ ہو؟۔ خدارا عقل کو استعمال کریں اور سوچیں کہ ہم کب تک اس روایتی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے اور مرغے کی ایک ٹانگ پکڑنے کی فرسودہ سوچ سے باہر نکلیں گے؟۔کب تک ہم اپنے اپنے مسلک کے ساتھ بندھے رہیں گے؟۔ آخر اس امت کو ”بنیاں مرصوص” کی طرح رہنے کو کہا گیا ہے۔کب ہم اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیں گے۔ کیا یہ خواہش بھی ”اے بسا آرزو کہ خاک شد” ہو کر رہ جائے گی۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں بلکہ کرتا دھرتا ہیں، جہاں پر انسان اپنی ہی بنائی گئی روایات اور رسوم و رواج کا غلام بنا ہوا ہے۔ ان فرسودہ روایات کی بے جا پاسداری نے باقاعدہ ذہنی غلامی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اسی ذہنی غلامی کا نتیجہ ہے کہ یہاں سفید جلد والے انسان کو خوبصورت، خواہ اس کا کردار کتنا ہی مشتبہ کیوں نہ ہو، ایماندار کو بیوقوف، شریف آدمی کو بزدل، غیرت مند انسان کو شدت پسند اور صاحبِ علم آدمی کو ذہنی مریض جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ بات صرف کسی مخصوص ملک کی نہیں بلکہ من حیث القوم امت مسلمہ اس وقت اسی سوچ کی حامل اور ایسے ہی حالات کا شکار ہے۔ قرآن و سنت سے دوری نے اس امت کی حالت بنی اسرائیل قوم کے جیسے کر دی ہے۔ ذلت و مسکنت اس امت کا مقدر بنتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اغیار قومیں اس امت کو رگید رہی ہیں لیکن ہم ہیں کہ ٹس سے مس ہونے کا نام تک نہیں لیتے۔ بقولِ شاعر:
وائے متاعِ ناکامی کے کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
مسلمان قوم چاہتی ہے کہ انہیں عروج حاصل ہو لیکن عروج حاصل کرنے کے لئے جو قربانیاں دینی ہوتی ہیں ان سے یہ امت کترا رہی ہے۔جہاں تک عروج و زوال کی بات ہے تو یہ گردشِ ایام کا کھیل ہے۔ جو قوم خود کو منواتی ہے اسے عروج حاصل ہوتا ہے اور جو قوم تن آسانی سے کام لیتی ہے اسے زوال کی پستی اپنانا پڑتی ہے۔ عروج حاصل کرنا ہر قوم کا حق ہوتا ہے اور ہمیشہ اسی قوم کو عروج حاصل ہوتا ہے جو خود کو اس کے اہل ثابت کرے۔ امت مسلمہ کو بھی اگر دوبارہ عروج کی منزلیں طے کرنی ہیں تو پہلے اسے خود کو منوانا ہوگا، خود کو اس کے اہل ثابت کرنا ہوگا بلکہ سب سے پہلے اس امت کو ” امت بننا ہوگا”۔ تاحال یہ امت، امت نہیں بلکہ بھیڑ بکریوں کا ایک ہجوم ہے اور بھیڑ بکریوں کو عروج نہیں بلکہ چرواہے نصیب ہوتے ہیں جو انہیں مار مار کر سیدھا کر دیتے ہیں۔ فی الحال اس امت پر بھی اغیار قومیں اور ان کے حاشیہ بردار نام نہاد مسلمان حکمران چرواہے بن کر مسلط ہوئے پڑے ہیں۔ ستاون اسلامی ممالک ہونے کے باوجود بھی یہ امت در بدری کی زندگی گزار رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ مسلمان ممالک دشمن سے لڑنے کے بجائے آپس میں ہی با ہمی دست و گریباں ہوئے پڑے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ علامہ اقبال کے بقول:
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کابل سے، کفن جاپان سے
” چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی” کے مصداق بے مقصد زندگی گزارنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ ہمارا دین اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اعلائے کلمۃ کی سربلندی کی خاطر اتحاد و اتفاق سے رہنے کا درس دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی اعلائے کلمۃ کی سربلندی ہی تھا۔ خدا نے انہیں بھیجا ہی اسی مقصد کی خاطر تھا تاکہ وہ لوگوں کی زندگیاں سنواریں، انہیں دین فطرت کی طرف بلائیں اور اللہ تعالیٰ کی سرزمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام قائم کریں۔ اسی مقصد کی خاطر انہوں نے تئیس سال کی محنتِ شاقہ کے بعد ایک Bloodless Revolution برپا کیا جس کی نظیر ملنا نا ممکن ہے۔ اسی مقصد کی خاطر انہوں نے طائف کی سنگ باری برداشت کی، شعب ابی طالب کی قید سہی، جنگ احد میں اپنے دندان مبارک کی شہادت گوارا کی اور ہجرت کی رات قریش کی طرف سے قتل کرنے کے سازش تک برداشت کی۔لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے اپنے مقصد کو کبھی ترک نہیں کیا۔عرب جیسی ان پڑھ اور غیر مہذب قوم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلاب آفرین شخصیت نے دنیا کی سب سے متمدن قوم بنا کر دنیا کی امامت کے منصب پر فائز کیا۔ یہ صرف عربوں کی ہی بات نہیں کہ وہ عرب تھے اس وجہ سے وہ دنیا کی امامت پر فائز کر دئیے گئے بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلاب آفرین شخصیت کی بدولت ہی ممکن ہوسکا کہ عرب جیسی منتشر اور قبائلی رسوم و رواج میں بٹی ان پڑھ اور اجڑ قوم متحد ہوگئی اور دنیا کی حکمران بن گئی۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے بجائے دنیا کے کسی اور خطے میں بھی مبعوث ہوئے ہوتے تو عرب کے بجائے وہی قوم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے گئے آفاقی پیغام کی امین اور دنیا کی امامت کی حقدار قرار پاتی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرشماتی شخصیت کا وہ زریں پہلو ہے جس سے مسلمان تو ایک طرف غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ ایک مغربی مفکر ڈاکٹر مائیکل ہارٹ اپنی کتابمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلاب آفرین شخصیت کا اقرار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
“My choice of Muhammad (PBUH) to lead the list of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others but, he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels”
تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلاب آفرین شخصیت کا کمال تھا نہ کہ عربوں کی اپنی خصوصیت کہ عرب جیسی غیر منظم قوم متحد ہو کر دنیا کی سب سے متمدن قوم بن گئی۔اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو قوم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو مضبوطی سے پکڑے گی، دنیا کی امامت انہیں ہی دی جائے گی۔ یہی اللہ تعالیٰ کی سنت بھی ہے۔ اس کے برعکس جو قوم اللہ تعالیٰ کے قوانین سے رو گردانی کرے گی تو ذلت و مسکنت اس کا مقدر بنا دی جائے گی۔ کچھ یہی حال اس وقت امت مسلمہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے جو استعمار کی کھینچی ہوئی قومیت کی لکیروں سے دھوکہ کھا کر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہے۔ بقولِ شاعر مشرق:
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز
صرف اس بنا پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو ہماری طرف بھیجا گیا، مسلمان قوم اللہ تعالیٰ سے یہ شکایت بالکل بھی نہیں کر سکتی کہ دنیا کی امامت انہیں کیوں نہیں دی جاتی کہ امامت ان کا پیدائشی حق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں۔ہرگز بھی نہیں۔اگر صرف پیغمبر اور کتاب کی بنا پر دنیا کی امامت عطا ہوتی تو یہود و نصارٰی (بنی اسرائیل) کی طرف بھی تو انبیاء، رسول اور الہامی کتابیں بھیجی گئیں تھیں۔ پھر انہیں دنیا کی امامت سے معزول کیوں کیا گیا؟۔ اصل میں خدا پر ایمان، رسول پر ایمان، خدا کی کتاب سے مضبوط رشتہ اور امامت کی اہلیت کا ہونا ضروری ہے۔ تب جا کے دنیا کی امامت عطا ہوتی ہے ورنہ بن مقصد کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا اور مصلے بچھا کر رو رو کر خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر اور قتیبہ بن مسلم جیسے سپہ سالاروں کے لئے دعائیں کرنا فضول ہے۔ اس لئے کہ کوئی خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم نہیں آنے والا بلکہ اس امت کے نوجوانوں کو ہی خالد بن ولید، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد بننا ہوگا۔ یہی سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے اور اسے اپنا کر ہی انشاء اللّٰہ ہم اپنی دگرگوں تقدیر بدل سکتے ہیں۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
٭٭٭