شجر سایہ دار میرے ابو جی

جاراللہ فیصل

ترجمہ: وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کیساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور جنتوں کی بشارت دیتا ہے، ان کیلئے ان باغوں میں دائمی نعمتیں ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔(سورہ توبہ: 20 تا22)

میرے والد گرامی قدر مولانا عبد المنان رحمہ اللہ جید عالم دین تحریک آزادی گلگت بلتستان کے غازی تاسیسی رکن جماعت اسلامی گلگت بلتستان اور سماجی وسیاسی شخصیت تھے۔ ایمان اور عمل صالح والی قابل رشک اور ایک صدی پر مشتمل بامقصد زندگی گزارنے کے بعد اپنے رب کریم کی ابدی نعمتوں والی حیات جاوداں دارالبقاء کی طرف بحکم الہی 23 ستمبر بروز پیر 18 ربیع الآول 1446 ھجری کو لوٹ گئے۔ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعونَ
والد محترم 1923میں ضلع استور کے علاقے ڈوئیاں کے ایک معتبر دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد محترم مولانا دوست محمدرحمہ اللہ اور بڑے بھائی مولانا محمد رضا رحمہ اللہ فاضل دارالعلوم امروھہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے حصول کیلئے ضلع جگوٹ سئی کے علاقے بارگن اور منوٹ میں مولانا سید علی رحمہ اللہ سے ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی وفات کے بعد اس وقت کے جید علمائے کرام قاضی عبدالرزاق، مولانا میر سبحان، مولانا محمد شعیب، سازین کے شیخ صاحب اور مولانا عبدالحی ابولحسنات ر حمہ اللہ جیسے اکابر اور معروف علمائے کرام سے دینی علوم کی تکمیل کی۔ ان کے زمانہ طالب علمی کے دوران ہی تحریک پاکستان کے نتیجے میں مملکت خداداد پاکستان وجود میں آیا اور گلگت بلتستان میں بھی ڈوگرہ اور برطانوی راج کے خلاف آزادی کی لہر پیدا ہوئی۔

والد محترم بچپن سے ہی جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار تھے۔ اس حوالے سے وہ ہمیں بتاتے تھے کہ میں نے اوائل عمری سے ہی طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کی تاریخی زندگی کا مطالعہ کیا تھا جس سے میری زندگی میں انقلاب آیا اور حریت فکر بیدارہوئی۔ اسی وجہ سے انھوں نے معرکہ حق وباطل میں عملی شریک ہونے کا تہیہ کیا۔ یکم نومبر 1947 میں گلگت بلتستان کے عوام نے برطانوی راج سے آزادی کا اعلان کیا تو گلگت استور اور سکردو سمیت گلگت بلتستان کے سرحدی علاقوں میں دشمن کیساتھ جنگ کا اغازہوا ۔گلگت بلتستان کی کوئی منظم فوج نہیں تھی لہذا بڑے پیمانے پر گلگت سکاوٹس میں بھرتی کا عمل شروع کرنے اور عوام الناس میں جذبہ جہاد بیدار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ والد محترم کا سب سے بڑا کارنامہ خطے کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو بونجی چھاونی میں اکھٹا کرنا اور جہاد کا فتوی حاصل تھا۔ علمائے کرام کی نمائندگی کرتے ہوئے والد محترم اسکیمو فورس کے جوانوں کیساتھ اگلے مورچوں تک جاپہنچے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں اور میرے ساتھی بے سروسامانی کے عالم میں چپل پہنے اور بہت قلیل سامان حرب لیے محض اللہ تعالی پر بھروسہ اور یقین کیساتھ کارگل اور زوجیلہ کی برف پوش چوٹیوں پر دشمن دین کیلئے قہر خداوندی ثابت ہوئے۔ بھارتی جنگی طیارے اور توپ خانہ ہمارے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کے سامنے ڈھیرہوگئے، اورہم نے رب کریم کی نصرت سے ہر محاذ پر کامیابی حاصل کی۔ والد محترم کے محاذ کے قریبی ساتھی گروپ کیپٹن شاہ خان مرحوم نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ اپ کے والد محترم ہمارے روکنے کے باوجود ہمیشہ جنگ کے دوران صف اول میں پیش قدمی کرتے اور بے باکی سے دشمن کیساتھ برسر پیکار ہوتے تھے۔ والد محترم تذکرہ کرتے کہ انھوں نے اس معرکہ حق وباطل میں دشمن کی فضائی بمباری اور گولہ باری کی پرواہ کیے بغیر ہر چوٹی پر اللہ تعالی کی کبریائی یعنی اذان کی صدا بلند کی۔ اسکیمو فورس کے مجاہد ساتھیوں ایریا کمانڈر گروپ مرحوم کیپٹن شاہ خان ، پلاٹون کمانڈر صوبیدار شیر علی، نائب صوبیدار محمد کریم ،نائب صوبیدار بلجاجی اور جوانوں کو جنگ کے شرعی تقاضوں سے اگاہ کرنے کیساتھ ساتھ اگلے مورچوں کی طرف پیش قدمی اور اللہ تعالی کی کبریائی کو بیان کرنے کا سلسلہ اس پورے عرصہ میں جاری رکھا جس سے مجاہدین کے حوصلے بلندہوئے۔ دشمن کے کئی سپاہیوں کوخود تھری ناٹ تھری بندوق سے نشانہ بنایا اور دو فوجیوں کو زندہ پکڑنے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا۔ شہید ہونے والے نو جوانوں کی نماز جنازہ میدان کارزار میں پڑھائی۔ اللہ تعالی پر مکمل ایمان ویقین اور جذبہ جہاد کے سبب ہر محاذ پر کامیابی ملی۔ دراس پرنداس کارگل کو فتح کرتے ہوئے 6جولائی 1948 میں ریاست کشمیر کا ا ہم مقام زوجیلا فتح کیا گیا۔ اس فتح یابی کے بعد دشمن کے قدم اکھڑ گئے اور اس نے ہر جگہ پسپائی اختیار کی۔ اسکردو کا قلعہ فتح ہوا۔ دشمن کے بیشمار سپاہی جنگی قیدی بنائے گئے۔جنہیں بعد میں جنگی اصولوں کے تحت واپس کیا گیا۔ والد محترم کو استور کے علاقے میں پاک بھارت سرحدی حد بندی کمیشن میں بطور نمائندہ شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جس نے اقوام متحدہ کی حد بندی کمیشن کی نگرانی میں سرحد کا تعین کیا۔ محاذ سے واپسی پر والد محترم نے اہل علاقہ کو دینی و عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے اپنے ماموں زاد بھائی اور تحریک آزای گلگت بلتستان کے متحرک ر ہنما سابق ڈپٹی کمشنر محمد اسماعیل خان اور شہیدمیجر محمد طفیل نشان حیدر کی مشاورت سے 1949 میں جامعہ تعلیم القرآن کا اغاز کیا ،جس کے اہل علاقہ پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے اور بہت سے قابل طلباء اس ادارہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اسی اثناء میں استور کے علاقے میں قحط کی صورتحال پیدا ہونے پر معروف کشمیری ر ہنما مرحوم چوہدری غلام عباس کی وساطت سے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نوبزادہ لیاقت علی خان مرحوم سے وفد کیساتھ ملاقات کی ۔ا نہیں پوری صورتحال سے اگاہ کیا۔ انہوں نے اس وقت کے وزیر امور کشمیر مشتاق حسین گورمانی کو گلگت جاکر عوام کے مسائل حل کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے نتیجے میں استور کیلئے پانچ ہزار من اور گلگت کیلئے سات ہزارمن گندم کی سبسڈی منظور ہوئی۔ والد محترم نے 1950میں جماعت اسلامی کے بانی اور برصغیر کے معروف مذ ہبی سکالر مفسر قرآن بانی جماعت اسلامی پاکستان سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ سے ملاقات کرکے فکری اعتبار سے ان کی جماعت اسلامی سے وابستگی اختیار کی۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر گلگت بلتستان میں جماعت اسلامی کے نام کے بغیر فہم دین اور اصلاح معاشرہ کا فریضہ سرانجام دینے کاآغاز کیا جو والد محترم نے زندگی کی آخری سانس تک جاری رکھا اور ایک لمحے کیلئے بھی اقامت دین کی جدوجہد سے صرف نظر نہیں کیا ۔وہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے اس شعر کے مصداق اپنے حصے کی شمع جلاتے رہنا
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

1959میں والد محترم اپنے استاد قاضی عبدالزاق رحمہ اللہ کی ترغیب پر ملک کی معروف علمی وروحانی شخصیت الشیخ غلام النصیر المعروف بابا چلاسی سے ملے۔ یہ ملاقات ایسی بابرکت تھی کہ زندگی کے آخری لمحات تک والد محترم نے بابا چلاسی سے قلبی وروحانی تعلق قائم رکھا۔ گلگت دیامر استور اور دیگر علاقوں کا دورہ کرکے عوام الناس کو حقیقی فہم اسلام سے روشناس کرایا۔ شرک وبدعات اور جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرنے کیلئے بابا چلاسی کے شیرین کلام سحر انگیزوعظ وتبلیغ نے تریاق کا کام کیا۔ عوام الناس کی ایک بڑی تعدادنے بابا چلاسی کی بیعت کرکے انہیں اپنا مرشد تسلیم کیا۔ والد محترم نے ان کی صحبت سے خود بھی اکتساب فیض کیا اور بلامبالغہ سینکڑوں اہل علم اور اہل دانش و ذمہ دار افراد کا تعلق بابا چلاسی سے جوڑا تاکہ وہ اپنی تربیت کیساتھ اصلاح معاشرہ کا ذریعہ بن سکیں۔ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
باباچلاسی اس وقت حیات ہیں۔ پانچ زبانوں میں درجنوں کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ حال ہی میں قرآن کریم کی پہلی سورت البقرۃ کی تفسیر(نصر النصیر فی تیسیر التفسیر) کے عنوان سے تصنیف کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ہمیں بابا چلاسی کی زندگی سے فیض حاصل کرنا چاہیے۔

گلگت بلتستان میں مذہبی منافرت کے خاتمے اوراتحاد بین المسلمین کے حوالے سے والد محترم نے بہت جدوجہد کی۔ 1981میں رابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم کی وساطت سے گلگت بلتستان کی نمائندگی کی۔ 1998تک دینی، سیاسی اور سماجی پلیٹ فارم پر پوری طرح متحرک ر ہے۔ علاقے کی ترقی اور عوامی مسائل کو حکام بالا تک درست انداز میں پہنچاتے تھے۔ 1990 میں مقبوضہ جموںو کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے تحریک آزادی کشمیر کا اغاز ہوا تو اس کے پشتبان بنے۔ مجاہدین کشمیر کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گلگت بلتستان میں کاروان مجاہدین کے نام سے رابطہ مہم منظم کی۔مقبوضہ جموںو کشمیر کی آزادی اور پاکستان میں شریعت الہی کا نفاذ ان کی دلی تمنا تھی۔ پاکستان کی ترقی خوشحالی اور سلامتی ہمیشہ ان کا مطمع نظر رہی۔پاکستان سے متعلق کوئی سخت بات برداشت نہیں کرتے تھے اور اس مملکت کو نعمت خداوندی سمجھتے تھے۔ گھر میں بہت شفیق اور مہربان تھے۔ تا ہم دینی معاملات میں کوتاہی پر سخت ناراض ہوتے۔ اپنا کام خود کرتے ۔کبھی کسی کو حکم نہیں دیتے کہ فلاں کام کرو بلکہ خود کام کرنے کو ترجیح دیتے۔ مہمان نوازی اور صلہ رحمی کے خوگر تھے۔ سپرٹ چائے ان کا خاصہ تھا۔ ملک بھر میں جہاں بھی جاتے چائے کا انتظام اپنے ساتھ رکھتے۔ مہمانوں کو چائے اپنے ہاتھ سے بنا کر پیش کرتے۔ تمام رشتہ داروں سے رابطہ رکھتے اور ان کی خوشی و غم میں شرکت کرنا ان کا خاص وصف تھا۔ میں بچپن سے جوانی تک چالیس برس ان کی خدمت اور آغوش میں ر ہا۔ کھبی نہیں سنا کہ میں تھک گیا ہوں یا میں بیمار ہوں۔ رات کے اول وقت ہمیشہ بیدار ہوتے۔ عبادت وریاضت کرتے۔ اطمینان قلب اور یکسوئی سے اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلاتے۔ عجزوانکساری سے سربسجود ہوتے۔ مستجاب الدعوات تھے۔ دنیا سے بے رغبتی ان کا خاص وصف تھا ۔ہر مادی پیشکش کو ٹھکرایا اور خودداری کو اپنا شیوہ بنایا۔ میری والدہ محترمہ کے احترام اور آسائش کو ہمیشہ مقدم رکھتے اور ان کی صحت اور جذبات کا بہت احترام کرتے۔ ہم سب نو بہن بھائیوں کو دینی ودنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا۔ ہماری تربیت پر بھی پوری توجہ دی۔ خاندان کیلئے دعا کا ذریعہ اور مرکز ومحور تھے۔1998 سے مستقل طور پر اسلام اباد منتقل ہوئے اور اپنے کردار وعمل کی پختگی سے بے شمار افراد کو گرویدہ بنایا۔ 2002سے 2008 تک لاہور میں میرے بھائی ڈاکٹر عبدالبصیر خان کیساتھ رہے۔ جو ریلوے میں بطور معالج وہاں تعینات تھے۔ اس دوران جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین کیساتھ رابطہ قائم رکھا۔ درس قرآن اور دعوت دین کی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ 2008 میں میرے بڑے بھائی عبد الناصر خان کینیڈین ریڈ کراس کے پاکستان میں سربراہ تعینات ہوئے تو والد محترم دوبارہ اسلام اباد منتقل ہوئے اور جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد کشمیر کی تنظیمی سرگرمیوں میں شرکت کرتے رہے۔ درس قرآن سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر دینی محافل میں شرکت لازما کرتے۔ 2017 میں بنی گالہ اسلام آباد میں بھائی ڈاکٹر عبد البصیر نے مکان خریدا تو وہاں منتقل ہوئے، جس کے بعد روحانی وربانی برکات کی اس گھر میں شروعات ہوئیں۔ خاندان اور تحریک اسلامی کے بزرگ ر ہنما ہونے کے باعث اس گھر میں آئے روز رونق ہوتی۔ عزیز واقارب تحریک اسلامی کے اکابرین اور علمائے کرام ملاقات کیلئے آتے اور والد محترم کی شیریں اور سبق اموز نصائح اور دلنشیں گفتگو سے استفادہ کرتے اور مہمان نوازی سے بھی متاثر ہوتے۔ علم لدنی کے حامل پاکستان کی گوہر نایاب روحانی وعلمی شخصیت الشیخ غلام النصیر المعروف بابا چلاسی سے ان کی گہری وابستگی تھی ان کی محفل میں شریک ہونے اور تزکیہ نفس حاصل کرنے کیلئے پیرانہ سالی میں بھی جستجو کرتے۔ ان کی بابا چلاسی کیساتھ عقیدت اللہ تعالی اور اس کے رسول برحق خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق کی بدولت تھی۔ بابا چلاسی جوکہ گوشہ نشین صوفی بزرگ ہیں۔ ان کی ساری زندگی توحید باری تعالی حب رسول احترام انسانیت اور اقامت دین کی دعوت میں گزری ہے۔ میرے والد محترم کی نصیحت یہی تھی کہ ایسے اولیاء اللہ کی مجالس میں جاکر اپنے قلب ونظرکی اصلاح کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ شیطان اور اس کے حواریوں نے انسانوں کو گمراہ کرنے کیلئے موجودہ زمانے میں بہت سارے حربے استعمال کیے ہیں۔ ان سے بچنے اور راہ ہدیت پانے کیلئے اللہ والوں کی صحبت ضروری ہے۔ والد محترم کی زندگی میں سب سے ا ہم وصف یہ تھا کہ جب تک ان کی صحت اچھی رہی۔ ا نہوں نے مسجد میں نماز باجماعت کا بطور خاص ا ہتمام کیا۔ گھر میںنماز پڑھنے کا تصور ان کی ڈکشنری میںنہیں تھا۔ جب2020کے بعد ضعف زیادہ بڑھا تو گھر
میں نماز باجماعت کا بطور خاص ا ہتمام کیا۔ نماز باجماعت خود پڑھاتے۔ گھر کے تمام افراد کو اس میں شریک کرتے۔ ہفتہ وار درس قرآن کا ا ہتمام کرتے ۔رمضان المبارک کے روزے زندگی کے آخری ایام تک رکھے۔ کم سوتے کم کھاتے اور خیر کے سوا گفتگو کبھی نہیں کرتے تھے۔ غیبت اور دیگر برائیوں کو سخت ناپسند کرتے تھے۔

جنوری 2023میں بہت شدید نمونیا ہوا، کلثوم ہسپتال میں ایک ہفتہ زیر علاج ر ہے۔ اس کے بعد باوجود پرہیز اور دوائی کے یکے بعد دیگرے نمونیا سے متاثر ہوکر بہت کمزور ہو ئے۔ اسی وجہ سے میرے بڑے بھائی جنہیں والد محترم بہت زیادہ پسند کرتے تھے، پاکستان منتقل ہوئے۔ ا نہوں نے اور انکی اہلیہ جو میرے تایا کی بیٹی بھی ہیں، نے بطور خاص والد محترم کی بہت خدمت کی۔ ان کے ساتھ دینی کتب کا مطالعہ کیا۔ والد محترم کی زندگی کے واقعات سنے۔ ان کے احباب اور عزیزوں سے ملاقات میں شریک ر ہے۔ ان کے علاج اور کھانے پینے کا خاص ا ہتمام کیا۔والد محترم بڑے بھائی کی قرآت کو بہت پسند کرتے تھے۔ اسی لیے نماز باجماعت انہی سے پڑھاتے۔ یہ معمول والد صاحب کی زندگی کے آخری ایام تک قائم ر ہا۔ میرے بہنوئی سفیر محمد سلیم صاحب، بھائی ڈاکٹر عبد البصیر عمرفاروق اور مجھے بھی والد محترم کو نماز باجماعت پڑھانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔میرے والد صاحب کی کامیاب اور باعزت زندگی میں میری والدہ محترمہ کی خدمت، لیاقت، صلاحیت اور صبر وحوصلہ کا کلیدی کردار ہے۔ والدہ محترمہ نے اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر زندگی بھر میرے والد محترم کے شانہ بشانہ ان کے مشن کی تکمیل میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ زندگی کے آخری چھ ماہ میری بڑی ہمشیرہ اور میرے بہنوئی ایمبسڈر محمد سلیم صاحب کی خواہش پر ان کے گھر میں ر ہے، جنہوں نے خدمت کا حق ادا کیا۔ میرے بھائیوں ڈاکٹر عبد البصیر عمر فاروق بھتیجے موسی ناصر خان بھانجھے محمد یوسف قریبی عزیز اسامہ بدر، نے بطور خاص والد محترم کی خوب خدمت کی اور ان کا دل جیتا۔ہم سب بہن بھائی خوش قسمت ہیں کہ رب کریم نے ہمیں ان کی خدمت کا موقع فرا ہم کیا۔ تمام نو بہن بھائیوں نے اپنی بساط کے مطابق ان کی خدمت کی۔ ہمارے تمام عزیزواقارب دوست احباب اور تحریکی حلقوں سے وابستہ افراد نے والد محترم کیساتھ قریبی رابطہ رکھا۔ ان کی صحبت سے فائدہ حاصل کیا اور دعائیں لیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ میرے والد محترم ہم سب سے خوش تھے اور ہمارے لیے پرخلوص دعائیں کرتے تھے۔ میں نے والد محترم کی رحلت سے چند دن قبل نصیحت کرنے کی استدعا کی تو فرمایا کہ مجھے خوشی ہے کہ میری اولاد حق کے راستے پر گامزن ہے۔ہمیں حق کے راستے میں استقامت سے جمے ر ہنے کی تلقین کی۔ فرمایا کہ دنیا فانی ہے اور آخرت کی زندگی دائمی ہے، اس لیے اس ہمیشہ قائم ر ہنے والی دنیا کی کامیابی کیلئے کوشش کریں۔ پاکستان میں شریعت اسلامی کا نفاذ اور آزادی کشمیر وفلسطین ان کی دعا کا محور اور معمول تھے۔ اللہ تعالی نے میرے والد محترم کیساتھ خاص احسان یہ فرمایا کہ اخر دن تک بقائم حوش وحواس ر ہے۔ حافظہ بالکل ٹھیک تھا آخر تک ملنے والوں کو قرآن وحدیث کی روشنی میں نصیحت کرتے ر ہے اور اللہ تعالی نے انہیں آخر دم تک چلنے کی نعمت سے محروم نہیں کیا۔ آخر کار ارشاد باری تعالی کل من علیہا فان کے مصداق بحکم خداوندی 23 ستمبر 2024 دوشنبہ بمطابق 18 ریع الآول 1446 ہجری صبح گیارہ بجے قضائے الہی سے انتقال فرماگئے اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے اسلام آباد میں مرکز عبد اللہ بن مسعود کی جامع مسجد کے پہلو میں سرینگر مقبوضہ جموںو کشمیر سے تعلق رکھنے والے تحریک اسلامی کے سرکردہ ر ہنما اور استاد المجاہدین مولانا غلام نبی نوشہری رحمہ اللہ علیہ کیساتھ اسودہ خاک ہوئے۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
میں اپنے اور اہل خانہ کی طرف سے امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر وگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان صاحب، امیر جماعت اسلامی مہاجرین مقیم پاکستان میرے ماموں ایڈوکیٹ مشتاق احمد، نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان، آزاد کشمیر جماعت اسلامی کی شوری کا شکر گزار ہیں کہ ا نہوں نے والد محترم کی تدفین کے تمام انتظامات احسن انداز سے کیے اور ہمارا حوصلہ بڑھایا۔ رب کریم انھیں اجر عظیم سے نوازے۔آمین

نماز جنازہ والد محترم کے روحانی مرشد اور ملک کی عظیم روحانی وعلمی شخصیت الشیخ غلام النصیر نے پڑھائی ان کی ناسازی طبیعت کے باوجود آمد پر ہم ان کے اور ان کے بیٹے ابوالوقت اور ابوالاحسان کا عمیق قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں دعاگو ہیں کہ بابا چلاسی کا علمی فیض ان کی صحت وسلامتی کیساتھ جاری ر ہے۔ ہم اپنے عزیز اور والد محترم کے نواسے معروف عالم دین مفتی محمدسیف الدین صاحب جنہوں نے ہر موقع پر والد محترم کو یاد کیا ۔ والد صاحب سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے ان کے اور دیگر محبت کرنے والے تمام عزیزوں کے اخلاص پر ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ہم نمازجنازہ میں شریک اور تعزیت کرنے والے جملہ احباب اور عزیزوں کے ممنون ہیں۔ اللہ تعالی انھیں بہترین اجر سے نوازے۔ آمین۔ماہنامہ کشمیر الیوم کے مدیر اعلیٰ اور پوری ٹیم کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بشمول ریڈیو پاکستان، گلگت اور سکردو کے قلم کاروں اور صحافت سے وابستہ افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے والد محترم کی حیات وخدمات کا تذکرہ تحریر و تقریر کی صورت میں کیا۔
اللہ تعالی میرے والد محترم کی حسنات اور مساعی جلیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور ا نہیں علیین اورجنت الفردوس میں انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرمائے۔ آمین