شناخت کا دکھ بڑا دردناک ہوتا ہے

شہزاد منیر احمد

تجسس، شناخت اور یافت انسان کا بڑا اہم اثاثہ ہوتا ہے۔ یہ کھوج (تجس) انفرادی ہو تو علم و افتخار کا باعث بنتا ہے۔ اور اگر شناخت کی تلاش،قوم قبیلے کی ہو تو علم و فخر کے ساتھ اعتماد پیدا کرتا ہے۔دونوں طرز کی شناخت کا سفر بڑا کٹھن ہوتا ہے۔اس میں بڑے مشکل مرحلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شناخت اور اپنی ثقافتی روایات کی بحالی کی دردناک جنگ آزادی میں لاکھوں افراد کی جانی قربانیوں اور شہادتوں کے سفر کی المناک تفصیلات کوئی ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں سے پوچھے جو 1846 سے لے کر آج تک میدان جنگ میں سر بہ کفن اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے برصغیر میں ریاست جموں و کشمیر میں حق خود ارادیت کے ذریعے جانیں قربان کر رہے ہیں۔
بھارت نے جابرانہ و غاصبانہ قبضہ کر کے کشمیری عوام کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی وہ خصوصی حیثیت جو اسے آرٹیکل 370 کے مطابق حاصل ہے وہ بھی ختم کر دی گئی ہے۔جب کہ اقوام متحدہ 1948 سے ا س بین الاقوامی قضیے کا فیصلہ کرنے میں انتہائی بے حسی، ظالمانہ رویہ اور لاپرواہی برت رہی ہے۔یہ سب متعصبانہ سرگرمیاں،حق تلفیاں اور انسانیت سوز سلوک کشمیریوں کے ساتھ اس لئے ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد کشمیری عوام برہم ہیں۔ ان کے جذبات بے قابو ہیں۔ وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آبادکاری کے منصوبے کے خلاف اپنی مہم چلا رہی ہیں۔ سب سیاسی جماعتوں اور کشمیریوں کا مطالبہ ہی یہ ہے کہ 370 اور 35 اے کو بحال کیا جائے۔ اگرچہ انتہا پسند جماعت BJP حکومتی سر پرستی میں ساری اخلاقی اور قانونی حدوں کو عبور کر کے کشمیر میں اپنے قدم جمانا چاہ رہی ہے لیکن ایسا کر لینا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

کشمیریوں کی اصل قیادت جیلوں میں بند ہے انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں، اور وہ تو پہلے سے الیکشن ڈرامے کے خلاف ہیں۔راقم یہ اپنا اخلاقی فرض جانتے ہوئے کشمیری عوام سے گزارش کرنے پر مجبور ہورہاہے کہ اگرچہ بھارتی کانگریس نے یہ آواز بطور الیکشن مہم کے اٹھائی ہے کہ وہ کامیاب ہونے کی صورت میں 370 اور 35 اے بحال کر دے گی۔ یہ بڑا پر کشش اور دلفریب نعرہ ہے،لیکن مجھے اس میں وہی میکاولین اور چانکیائی رنگ نظر آرہا ہے ،جس کا ہم 47سے شکار رہے ہیں ۔کشمیری عوام کو چانکیائی سیاست اور ہندوؤں کی کہہ مکرنیوں کی تاریخ کو بغور سمجھنے کے بعد اپنا متحدہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی جتنی ضرورت اب ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ فاروق عبداللہ اور مفتی محبوبہ جیسے کردار وہاں موجود ہیں جو لذت دہن و ذہن کے بدلے قومی غیرت کو گروی رکھ کر اقتدار تک پہنچنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ مصر کے صدر انور سادات (مرحوم) نے اپنی کتاب In search of identity میں ایک بڑا اہم اور فکر افروز جملہ لکھا تھا۔:-

’’ نہیں معلوم مصر اپنے قدیم تہذیبی ملک ہونے کا خمیازہ بھگت رہا ہے کہ پسماندگی کا عذاب جھیل رہا ہے۔کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ مصر کیلئے بے یقینیوں کا یہ سفر مزید کتنی صدیوں بعد تمام ہوگا۔ کیونکہ جب ریاست میں سیاستدانوں اور جرنیلوں میں نظریاتی چپقلش اور سیاسی کشمکشِ چل پڑے تو قومی شناخت کے ستارے ایک ایک کر کے ڈوبنے لگتے ہیں، اور جب قوم کے دل سے نظریہ حیات مفلوج ہو کر بے اثر ہو جائے تو اس فالجی حملے سے نجات ملنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں:- ملک کبھی کمزور نہیں ہوتا اگر عوام اپنے قومی اقتدار اعلیٰ کو مقدس جان کر اس کی پاسداری کریں تو‘‘ ۔کہا جاتا ہے کہ Egyptian Civilization دنیا کی مشہور قدیم ثقافتوں میں سے ایک ہے۔ باقی تین ۔۔۔میسو پوٹیمیا تہذیب،انڈس تہذیب (موہنجوڈارو اور ہڑپہ) چائنا تہذیب ہیں

Egypt کو مصر اس لئے کہا جاتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا Misrium یہاں آ کر آباد ہوا تھا۔ موجودہ مصر 1922 میں برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تو فواد اول نے اس میں بادشاہت قائم کر لی۔ اس کے بعد شہزادہ فاروق اپنے والد فواد اول کا جا نشین ہوا۔1952 میں شاہ فاروق کا تختہ الٹنے والے آزاد فوجی افسروں میں انور سادات کا بھی اہم کردار تھا۔ اس طرح وہ صدر جمال عبدالناصر کا نائب صدر بنا اور پھر 1970 میں مصر کا صدر بن گیا۔ وہ 1981 تک ملک کا صدر رہا، جب انہیں 16 اکتوبر 1981 میں فوجی پریڈ کی سلامی لیتے توپ کے گولے سے اڑا دیا گیا تھا۔کسی بھی ملک میں جب حکومتی تبدیلی مروجہ نظام سے ہٹ کر لائی جاتی ہے تو اختلافات خونین انقلاب سے طے کیے جاتے ہیں۔ پھر یہ روایت بن جاتی ہے کہ حکومت کی تبدیلی تعمیری بتائی جاتی ہے۔ اور فیصلے ملکی مفادات و شناخت کے تحفظ کی خاطر کئے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی مثال زندہ حوالہ ہے کہ ملک کا قیام ہی خونی نعروں، خونین جنگ ، خونیں مواد اور خونین اقدام سے عمل میں آیا۔ پھر شیخ مجیب 1975 میں خاندان بھر کے افراد کے ساتھ قتل ہوئے۔،جنرل ضیاء الرحمن 30 مئی 1981 کو چٹا گانگ کے سرکٹ ہاؤس میں انتہائی سفاکی سے قتل کئے گئے۔ حسینہ واجد 05اگست 2024 میں قتل ہوتے ہوتے بچ نکلیں اوربھارت پہنچ گئیں ۔ بنگلہ دیش میں سیاسی بحران جاری ہے، اور مستقبل انتہائی بے یقینی کی دلدل میں دھنستا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس وقت وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ کے حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
روسی ریاست کا جائزہ لیں تو، زار روس کی حکومتوں میں روسی عوام بادشاہ کے محل کے سامنے اپنی بیروزگاری، بھوک افلاس سے نجات کی خاطر ہاتھ جوڑ جوڑ کر استدائیں کرتی نکلی کہ ہماری شناخت بحال کی جائے۔۔ وہ التجائیں بے اثر ثابت ہوئیں تو خونیں انقلاب سے مارکسیت کے نظریہ پر 1917 میں USSR سوشلسٹ ریاست بنا۔ جب تک آپ کے نظریہ حیات و نظریہ ریاست پر قائم رہا، بدستور ترقی کرتا ہوا امریکہ کے ہم پلہ آ گیا۔
پھر شوق کشور کشائی کا شوق چرایا تو 1979 میں افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ اب یہ دو شناختوں (روسی اور افغانی) شناخت کا مقابلہ تھا۔ افغانی عوام اپنی زمین پر تھے جبکہ روسی حملہ آور، اس لیے روسیوں کو شکست ہوئی اور وہ شکست کے زخم چاٹتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔ وطن واپس پہنچے تو وہ اپنی حماقتوں سے روس آٹھ نو ریاستوں میں بٹ چکا تھا۔ ان کی شکست کی وجہ فطری صداقت تھی کہ افغانی حکومت کے چند ارکان کا ٹولہ تو روسیوں کے ساتھ تھا مگر افغان عوام ان کے دشمن تھے۔ حکومت اور ریاست کے استحکام اور مضبوطی کے لئے ان کی عوام کا ہم آہنگ ہونا لازمی امر ہوتا ہے۔ یہی حشر افغانستان میں امریکہ کا ہوا۔ وہ 20 برسوں تک غیر ملکی سر زمین پر پورے جاہ وجلال اور نیٹو افواج کی عملی مدد سے لڑا۔ بے شمار لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے، اور ان گنت افراد زخمی ہوئے۔ عمارات و دیگر سہولیات کی تباہی الگ ہوئی۔ بے نام جنگ میں معذور لوگوں کی تعداد شمار سے باہر تھی۔نتیجتاً ذلت آمیز شکست اور انتہائی شرمندگی میں راتوں رات دم دبا کر واپس امریکہ گیا۔ فطری صداقت اسے طعن و تشنیع سے رخصت کر رہی تھی۔

قومی شناخت کے حوالے سے ملکوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور اقوام اپنی شناخت بنانے کے لئے ہلکان ہوتی ہیں تو طاقتور ممالک دوسروں کو اپنی سبقت Superiority جتانے میں بے لگام ہوتے ہیں۔۔۔ممکن تھا انسان اپنی فطری سہل پسندی اور بے خبری میں خواب خرگوش ہی میں خواب دیکھ کر جی لیتا اور اپنی طبعی عمر پانے پر اس جہاں سے انتقال کر جاتا۔ مگر ہوا یہ کہ دنیا کو بنانے اور انسان کو پیدا کرنے والے خالق (اللہ رب العالمین) نے اسے نورہدایت کے مینار سے بڑا دلنشیں پیغام دیا، ’’ اے انسان تم پر ایک زمانے میں وہ وقت بھی گزرا کہ تیرا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہم نے بنایا انسان کو دو رنگی بوند سے، ہم اسے پلٹتے رہے اور پھر کر دیا اسے دیکھنے سننے والا،اسے سیدھی راہ سجھائی، وہ حق مانتا ہے یا ناشکری کرتا ہے‘‘ سورت الدھر کا آغاز’’وہی مقدس صدا پھر سے پیغام سناتی ہوئی ابھری ‘‘ جب آسمان پھٹ پڑے گا،ستارے جھڑ پڑیں گے، دریا ابل پڑیں،قبریں زیر زبر کر دی جائیں گی اور ہر شخص جان لے گا جو کچھ اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا۔ اے آدمی کس چیز سے بہکا تو اپنے رب کریم پر‘‘ (سورت الانفطار 1 سے 6)۔
ہاتف غیب نے بھی اسے یہ قول صالح و صادق سنایا کہ ’’ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ ‘‘ تحقیق،جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچانا۔ معرفت نفس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور شناخت کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے۔یہ پیغام حق سن کر انسان کا ماتھا ٹھنکا اور اس نے خود سے سوال کیا کہ گویا میں اس وجود میں آنے سے پہلے بھی کسی زمانے میں موجود تھا۔ اور یہ کہ ابھی ایک اور زمانہ بھی مجھ پر آئے گا۔ اس فکر و خیال نے اسے متجسس بنا کر اپنی کھوئی ہوئی شناخت پانے اور آنے والے مستقبل کے بارے میںجاننے کے سفر پر روانہ کر دیا۔ اب انسان اپنے اس سفر کو اللہ تعالیٰ کی تنبیہ سننے کے بعد ادھورا بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ ماضی اور مستقبل کو ایک ہی وقت (حالیہ عمر) میں جاننے کا سفر مشکل بھی ہے اور پیچیدہ ترین بھی ہے، یہ ایسی الجھن ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔
’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘
ایسی الجھن میں شاعر نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے:-
جو ڈوبنا ہے تو اس سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ لگے

آئیں اب ہم’’ شناخت کے دکھ‘‘ کی بات کرتے ہیں۔دکھ خوشی کی عین ضد ہے۔ دکھ ایک منفی جذبہ ہے جو ہر انسانی معاشرے میں اور ذی شعور و ذی عقل انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر محسوس ضرور ہوتا ہے۔اس جذبے میں ایک تکلیف اور درد چھپا ہوتا ہے جو کئی وجوہ سے ممکن ہو تا ہے۔ بہت سارے لکھاری اس شناخت کے دکھ کو انسانی المیہ یعنی TRAGEDY بھی لکھتے ہیں۔

شناخت ہے کیا؟

صاحب فکر و قلم اپنے ادبی ذوق و شوق (اسٹائل) کے مطابق ایک ایسے ہر دلعزیز اور معتبر کردار کا تصور (خاکہ) پیش کرنے، اور اسے معاشرے میں موجود منفی اور ناپسندیدہ کرداروں سے بچا بچا کر نمایاں شناخت دینے میں مصروف رہتا ہے۔ مشاہدہ گواہ ہے کہ ادیب و شاعر کا یہ تصوراتی کردار اپنی مخالف قوتوں سے اکثر زک اٹھاتا ہوا ناکام نظر آتا ہے مگر شناخت کی تلاش کا ہیرو کہلاتا ہے۔ جیسے فلسطینی قوم اور کشمیری عوام ہیں۔ کوئی ان دونوں ہیروز کی مدد کو آگے نہیں آتا مگر وہ اپنے سفر پر رواں دواں ہیں۔

شناخت کے عناصر

انسانی نفسیات کے ماہرین کے قریب انسانی شناخت کے مندرجہ ذیل عناصر ہوتے ہیں۔
1 انسان کے دل و دماغ میں ایک غیر شعوری احساس پایا جاتا ہے جو اس کے، خیالات و نبض کو متاثر کرتے ہوئے کام کرتا ہے جو اس کے رویے اور نظری سمتوں کو متاثر کرتا اور ان میں ڈرامائی تبدیلیاں لے آتا ہے۔مشہور دانشور سگمنڈ فرائڈ نے اس Oedipus complex کا نام دیا ہے۔ اویڈی پس، یونانی دیو مالائی ایک کریکٹر ہے جو باپ کو قتل کر کے ماں سے شادی کر لیتا ہے۔ فرائڈ نے اسے تحلیل نفسی بھی کہا ہے۔ یہ میرا موضوع گفتگو نہیں ہے اس لیے اسے ادھر ہی چھوڑتے ہیں۔ اس عنصر، یعنی نفسیاتی شناختی کرب میں مبتلا افراد میں آج کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اسرائیل زندہ مثال ہیں۔ریاست اسرائیل اپنی تشکیل کے ابتدائی دنوں میں جس احساس کمتری کے خوف میں مبتلا تھی اپنے معرضِ وجود میں آجانے کے بعد بھی اس خوف سے باہر نہیں آسکی۔ جب کہ امریکہ اپنی تشکیل کے موقع پر جس احساس برتری کی رعونت و تکبر کا شکار تھا اور ان متکبر قوتوں کو آمرانہ اختیار (Veto Power (دے کر، اور استعمال کر کے بھی مطمئن نہیں ہے۔ ماہرین نفسیات اس اصولی موقف پر متفق ہیں کہ بچپن(اسرائیل اور امریکہ کا ابتدائی عالم) کے تجربات کسی کے کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔۔ نسلی یا خاندانی امتیاز اور غربت و امارت نہیں۔ اس بین الاقوامی مسئلے کا حل اور مرض کا علاج وہ گفتگو یعنی باہمی افہام و تفہیم سے مکالمہ کرنا بتاتے ہیں۔اس ضمن میں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔
سامعین! آپ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مسئلہ انفرادی ہو یا اجتماعی اس کا بہترین حل فریقین کا باہمی بات چیت ہے۔ دھونس، دھاندلی، پابندیاں عائد کرنا ،بائیکاٹ کرنا یا پھر عسکری طاقت استعمال کرنا ہرگز نہیں۔ جنگوں نے قوموں کو برباد کیا،عوام کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ریاست کی ترقی کو نیست و نابود تو کیا مگر جھگڑے اور تنازعات ختم نہیں ہوئے۔مبینہ طور پر پہلی جنگ عظیم میں چار4 کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ جنگ عظیم دوم میں پانچ 5کروڑ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اب تک کی جانے والی ساری کوششیں بے فائدہ بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ اور یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ برائی کا سر ابتدا ہی میں کچل دینا چاہیے، بعد میں تو پھر:- ’’ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی‘‘اپنی کھوئی ہوئی شناخت کی بحالی کے دکھ میں مبتلا دوسرے نمبر پر وہ لوگ شمار ہوتے ہیں۔ جو اکثر جبر و ستم اور بے انصاف جابروں کے ہاتھوں اپنی معاشرتی حیثیت یا حاصل ملکیت سے محروم کئے گئے قبائل و اقوام ہوتے ہیں۔ محرومی انسان کی بہت بڑی کمزوری شمار ہوتی ہے۔ تعلقات و نسبت سے بندہ خود کو طاقت ور سمجھتا ہے۔یہی وجوہ ہیں جن کو سامنے رکھ کر کمزور ممالک طاقتور ممالک کے ساتھ الائنس قائم کرتے ہیں۔ اس کیفیت کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔:-
بچھڑ گیا جو آج اپنے رفیقوں سے انعام
اپنے ہی شہر میں کس قدر غریب لگتا ہے
اگلی وجہ، معاشرتی سفاکی یا جبر، کسی زخم،ذہنی پریشانی،درد کی وجہ سے تکلیف در تکلیف میں مبتلا ہونا، وغیرہ۔شناخت کے اس درد میں مبتلا بہت سارے افراد اور ممالک شمار ہیں۔ راقم اس حیثیت میں صرف فلسطین اور کشمیر کو شامل کرتا ہے۔یہ دونوں ریاستیں سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ معتوب و مقہور ہیں۔ ایک پر اسرائیل نے جابرانہ قبضہ جما کر فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم کی بستی میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اور کشمیریوں کوبھارت نے محکومی کے جوے میں جوت رکھا ہے۔ امریکہگزشتہ دو سوبرسوں سے جنگیں لڑی رہا ہے۔اسے آج تک یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ کون سا دکھ تھا جس کی وجہ سے وہ برطانیہ سے الگ ہوا تھا۔ اگر وہ سچ اسے سمجھ آ جائے تو وہ دوسری قوموں کو محکومی یا غلامی میں نہ دھکیلے۔
اسی طرح اگر اسرائیل کو اپنی پہلے والی حیثیت یاد ہو۔۔۔ اور اپنی شناخت محفوظ بنانے کے سفر میں جھیلی اذیتیں بھی ذہین میں محفوظ ہوں تو وہ فلسطینیوں پر قیامتیں برپا کرنے سے باز آ جائے۔

٭٭٭

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں