شہادت۔۔۔ایک عظیم کا میابی

محمد احسان مہر

مہذب دنیا ،جدید اور با وثوق ذرائع ابلاغ،عالمی برادری ،اقوام متحدہ اور’’اوآئی سی ‘‘جیسے ادارے،انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور تنظیموں کی موجودگی میں بھی اگر کوئی کھلے عام دندناتے ہوئے عالمی قوانین اور انسانی اخلاقی اقدارکو پامال کرے تو اسے عالمی دہشت گردی سے ہی تعبیر کیا جائے گا ، دنیا میں رونماہونے والے حالیہ دہشت گردانہ واقعات میںجس طرح نام نہاد جمہوریت کا دعویدار ملک بھارت اور ناجائز ریاست اسرائیل کھل کر سامنے آئے ہیںیہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی،لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ بے حس و بے ضمیر عالمی برادری ،دنیا میں امن کے نام پر قائم اقوام متحدہ،اور مفادات کی ڈسی مسلم دنیا ،عالمی امن سے جڑے مسائل؛مسئلہ کشمیر و فلسطین ؛ سے نظریں چراکر دنیا کے امن کو جان بوجھ کرکسی بڑی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں،فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسمعیل ہنیہ ؒپر ایران میں حملہ اسرائیلی ناپاک اور گھنائونے عزائم کی طرف واضح اشارہ ہے،کہ وہ کس طرح اپنے طے شدہ منصوبہ گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہا ہے ،مشرق وسطیٰ میں ایران ہی وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے ،ورنہ بڑے بڑے عرب ممالک اور مضبوط معیشت کے حامل مسلم ممالک بھی اسرائیل سے تعلق کی راہ دیکھ رہے ہیں ،ایسے میں بیت المقدس(قبلہ اول)کے محافظ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جدو جہد میں مصروف ،قطع نظر اس کے کہ حملے میں لانگ رینج میزائل استعمال ہوا یا پرو جکٹائیل۔ یہ بات طے ہے کہ اسرائیل کا کسی دوسرے ملک میں اسقدر کامیاب حملہ امریکی معاونت کے بغیر ناممکن ہے ،تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ؒجب وہ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری کے سلسلے میںایران میں موجود تھے،انہیں ان کے ایک محافظ سمیت 31جولائی کی رات تقریبا 2بجے حملہ کر کے شہید کیا گیا۔اسماعیل ہنیہ ؒکی شہادت ایرانی سیکیورٹی جانچنے کی طرف ایک بڑاقدم ہے اور مشرق وسطیٰ کے مستقبل کیلئے علاقائی ممالک کے سامنے کئی طرح کے سوالات لیے ہوئے ہے ۔07اکتوبر 2023سے جاری غزہ جنگ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں جس طرح امریکہ اسرائیل کیساتھ کھڑا ہے ،اس طرح تو امریکی مفادات دنیا میں کہیں بھی دُکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ کر علاقے کو جنگ کی آگ میں دھکیل سکتے ہیں،تو کیا دنیا کا امن امریکی مفادات کیساتھ جڑا ہے۔۔ ۔؟

یوکرین جنگ کی طوالت،غزہ کی ابتر حالت کے پیچھے امریکی آشیر باد کی موجودگی ،اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ایرانی اقدامات اور متوقع ردعمل کو دیکھ کر امریکہ گیم کوہاتھ سے نکلنے کے ڈر سے جنوبی ایشیاء میں بھی کسی کی پیٹھ پر تھپکی دے سکتا ہے ،اور یوں بھارت جو پہلے ہی ریاستی دہشت گردی سے کشمیری عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے اور غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات سے اہل کشمیر کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے،اسے بھی امریکی پشت پناہی سے علاقے میں اپنے ناپاک عزائم کیلئے کھل کر کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے،اور پھر اسماعیل ہنیہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کے تناظر میں کہے گئے الفاظ کہ(پاکستان صرف ایک دھمکی دے دے تو اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم رُک سکتے ہیں )اُ ن کی شہادت کے بعد ایوانوں میںفقط قراردادیں منظور کرنے والوں کے کام بھی آسکتے ہیں۔

تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایران کی خود مختاری پر حملہ ہے ،اور 57اسلامی ممالک کے وسائل پر قابض حکمرانوں کیلئے بھی شدید دھچکہ ہے ، جو قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کرنے کے فرض سے غافل ہو کردنیا کی رنگینیوںمیں مگن ہیںاور فلسطینی مسلمان تن تنہا بیت المقدس کی حفاظت کا فرض نبھا رہے ہیں، ان لوگوں کے پاس اتنی اخلاقی جرأ ت نہیں کہ وہ امریکہ کو یہ باور کروا سکیں کہ اسرائیل کی مدد اور اسلحہ کی سپلائی بند کرے۔ورنہ ہم بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کو اسلحہ دینا شروع کر دیں گے،لیکن فلسطینی کازپر بلندوبانگ دعوے اور مذمتی قرار دادیںپاس کر کے چھوٹے قد کے لوگ بڑا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی مسلمان سامان حرب وضرب اور فتح و شکست سے بے نیاز اپنا سب سے مقدس فرض نبھاتے ہوئے شہادت جیسی عظیم کامیابی حاصل کر رہے ہیں،اور اللہ نے جنہیں ہمت و طاقت دی ہے وہ ملکی معیشت سدھارنے اور اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔7اکتوبر 2023سے جاری غزہ جنگ میں 40ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔10ماہ سے جاری اس جنگ میں جس طرح رہائشی عمارتیں ، سکول ، ہسپتال ، پناہ گزین کیمپ ، اقوام متحدہ کے تحت چلنے والی امدادی تنظیموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ،اسرائیلی ظلم و بربریت سے پہلے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔لیکن اسرائیل جنگ بندی کے مطالبے کے جواب میں(حماس)کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے، کیا حماس رہنمائوں کو راستہ سے ہٹانے سے اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔۔۔؟ ہرگز نہیں ۔ بیت المقدس کی حفاظت اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مقصد صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا(انشاء للہ)۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد مشرق وسطیٰ میںجنگ کے منڈلاتے ہوئے بادل مزید کتنے گہرے ہو ں گے اور 57اسلامی ممالک کے سربراہان کتنی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرتے ہیںاور مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم O.I.C اس سلسلے میں کس قدر فعال کردار ادا کرتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بہتر بتا سکے گا،دیکھنا یہ ہے کہ عالمی اجارہ داری کے اس کھیل میں عدل و انصاف اور حق و صداقت کیلئے طاقتور، ظالم اور جابرحکمران کے سامنے کھڑا کون ہوتا ہے۔
٭٭٭