شہدا ء کا اجتماع

عادل ترابی

میری 45 سالہ زندگی کا حاصل یہ ہے کہ میں ایک ایسی ’’تحریک‘‘ سے وابستہ ہوں جو لاکھوں شہدا ء کی وارث اور امین ہے۔جس کا مقصد اور نصب العین دینِ الٰہی کا قیام اور اللہ کی رضا کا حصول ہے۔جو شخص جس حیثیت میں بھی اس مقدس مقصد اور نصب العین کے ساتھ جُڑا اور کھڑا ہے وہ یقیناً خوش بخت،سعادت مند اور قابلِ رشک ہے۔ اور یہ اجتماعیت تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود میرا کل اثاثہ ہے۔مجھے بس اپنی نیّت اور اخلاص کو اشکال و ابہام کے موذی مرض سے محفوظ رکھنا ہے۔باقی میری کوئی ذمہ داری،کوئی پریشانی اور کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے! نِیّت کی یہ درستگی،اخلاص کی یہ موجودگی اور پھر ہمہ جہت سعی کے لئے ہر لمحہ بے چینی اور فکرمندی ۔۔۔اگر میں اور آپ سب ان مطلوب اوصاف کے مالک بن جائیں تو آج بھی نمرود مودی کی وادی میں دہکائی ہوئی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔آج بھی بھارت کا فرعونی غرور دریائے جہلم کے گہرے پانیوں میں دفن ہوسکتا ہے اور آج بھی کشمیر پر چڑھائی کرنے والے کیل کانٹے سے لدے ہوئے بھارتی ابرہہ کے لشکر ’’کعصف ماکول‘‘ جیسے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوسکتے ہیں۔پھر کہتا ہوں کہ مجھے اور آپ سبوں کو ایمان، اخلاص، عمل، توکل اور تعلقِ باللہ جیسی بنیادی شرائط کو پورا کرنا ہے تو میں آپ سبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ان شا ء اللہ سارے مخالف موسم اور ہوائیں،سارے طوفان اور آندھیاں اور سارے خاکے اور رنگ ہماری مرضی اور چاہت کا روپ دھار لیں گے۔ میں اپنے تمہیدی الفاظ میں ابھی کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر ڈر رہا ہوں کہ کہیں میری یہ تمہیدی طوالت آپ کو’’اجتماعِ شہدا ء‘‘ کی رُوداد پڑھنے سے دُور رہنے کا سبب نہ بن جائے۔

معزز قارئینِ کرام

آج کے اس اجتماع کی ہر بات اور ہر انداز بالکل ہی منفرد اور نِرالا ہے۔ یہ انوکھا، عجیب اور تصوّراتی اجتماع عرشِ الٰہی کے سائے تَلے منعقد ہورہا ہے! شرکا ئے اجتماع صرف اور صرف شہدا ہیں۔اجتماع میں شرکت کا پروٹوکول اتنا زبردست اور سخت ہے کہ مجھے اپنی خیالی شرکت کو بھی یقینی بنانے کے لئے پہلے ’’یکسوئی‘‘ کی کسوٹی سے گزرنا پڑا تب جاکر مجھے شہدا ء کے اس خاص اجتماع میں شرکت کی اجازت مل گئی ہے۔ بس اب آپ ہمہ تن گوش رہیے میں آپ کو اس’’اجتماعِ شہدا ء‘‘ کی لائیو رُوداد بشکلِ تحریر میں پیش کرنے کی کوشش اور سعادت حاصل کروں گا۔ انشا ء اللہ

میرا احساس اور اندازہ تھا کہ اس اجتماع کا آغاز بھی تلاوت سے ہوگا، پھردرس اور کوئی صدارتی اختتامی خطاب ہوگا مگر اس اجتماع کی ترتیب اور ہیّت بالکل ہی مختلف ہے۔اللہ کے عرش سے لٹکے ہوئے نورانی فانوس اور اُن کی چھنکار عجیب و غریب بلکہ ناقابلِ بیان سماں پیدا کرچکے ہیں اور اِس عرشی و نورانی سوز و ساز میں حدِ نگاہ تک شہدا ء سبز پرندوں کی صورت میں اُڑ پِھر رہے ہیں اور کچھ تو ان گھونسلا نما نورانی فانوسوں پر بیٹھے ہوئے آپس میں گپ شپ بھی کررہے ہیں۔جنتی نورانی سبز پرندوں کا روپ پاکر ان شہدا ء کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح ہر جانب پُرسکون روشنی بکھیررہے ہیں اور یہ سبھی مطمئن اور ہشاش و بشاش چہرے ستاروں کی طرح ایسے چمک اور دھمک رہے ہیں کہ میرے لئے اُن کی طرف ٹِکٹِکی باندھ کر دیکھنا مشکل اور محال ہورہا ہے۔کُھلے تازہ زخموں اور بہتے لہو سے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے ابھی ابھی یہ سارے کے سارے ’’شہادت کا جام‘‘ پی کر یہاں پہنچے ہوں،ہر سو کستوری اور یاقوتی خوشبووں کے ایسے ڈھیرے کہ بیچاری جنت بھی سوالیہ نگاہوں سے ان سب کے مقام و مرتبے کو جاننے کے لئے جیسے بے تاب اور متجسس ہے۔اونچی اونچی مسندیں،گاو تکیے،نوعمر خدمت گار غِلمان،حور و خیام، شرابِ طہور سے آغازِ میزبانی، ہیروں،موتیوں اور یاقوت سے لدے بھرے کناروں اور تہوں میں بِچھی ہوئی سونے اور زمردی کنکریوں پردودھ،شہد اور پانی کی بہتی نہروں اور جھرنوں کا ایسا سُوز کہ جس پر سارے سُر اور سُکوت قربان!

اس اجتماع کے سارے شہدا ء اپنے رب کی رحمتوں اور کامیابیوں کو ایسے سمیٹے ہوئے ہیں کہ ’’فوز و فلاح‘‘ کے اس یکتا و دلکش منظر کو اپنے انتہائی عروج پر دیکھ کر میں دنیا کی ساری کامیابیوں اور خوشیوں کو بالکل ایک ’’مذاق‘‘ کی طرح تسلیم کرنے پر مجبور ہوں اور اب میں خود سے بھی آنکھیں نہیں ملا پارہا ہوں کیونکہ میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ میرے جہادی اور شہادتی وجود کوخواہشاتِ نفس کے بھاری بھرکم اور خوفناک اژدھے نے ایسا گھیرا ہے کہ مجھے اب جہاد، شہادت اور جنت کے بجائے مال و دولت، تاج و تخت،نوکر و چاکر،کوٹھی و بنگلہ اور دیگر عیش و آرام ہی اپنا مقصد اور نصب العین لگتے ہیں اور اسے بھی بڑھ کر قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ میں اپنے اس بیہودہ اور معیوب ایمانی زوال کو عقل کی پختگی اور شعور کی کوہان سمجھنے اور سمجھے جانے پر بضد ہوں! بہرحال جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ شہدا ء کے ان پُرنور چہروں کو بھرپور انداز سے دیکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہورہی! اور اِس کیفیت سے مجھے اب ایک اور مشکل یہ پیش آرہی کہ میں ان ہم شکل،ہم انعام اور ہم ماحول شہدا ء میں سے کوشش اور چاہت کے باوجود بھی جموں و کشمیر کے شہدا ء کو بھی پہچان نہیں پارہا ہوں! ہر زاویے اور عنوان سے اس ایک جیسے دِکھنے والے ماحول اور کیفیت نے مجھے بے حد پریشان اور مغموم کردیا کہ مجھے تو اب صرف اپنی تحریک کے شہدا ء کو بھی دیکھنا اور پہچاننا مشکل بلکہ ناممکن سا لگنے لگا ہے ! کاش میں صرف شمس الحق،انعام اللہ خان،غلام رسول ڈار،برہان الدین حجازی،مقبول الٰہی،راہی، انصاری برادران، سید سلمان،حیدر علی،جوہر حیات برہان وانی، عابد حسین میرے بچپن کا ہم جھولی،میرا ہمسایہ،کھیل کود،تعلیم اور جہاد کے میدانوں کا میرا ساتھی،شاکر غزنوی عبدالباسط،شیر خان،حنیف خان،خوبرو سکندرِ اعظم،جعفر صدیقی،بہادر حسین وحید آڑگامی،مدثر فاضلی،عبدالاحد کولنگامی مسعود تانترے، ’’کیسے سب کے نام لے سکوں گا؟ ہم نے تو اِن عظیم شہدا ء کے مشن اور قربانیوں کو بھلا دیا ہے تو پھر ان سب کے نام کیسے یاد رہ سکتے ہیں۔‘‘ اور خاص کر صرف چند روز قبل ہی ہم سے رخصت ہونے والے میرے بھائی اور دوست ’’ پیر امتیاز عالم‘‘ کو ہی دیکھ اور مل لیتا تو میری یہ تصوراتی شرکت اپنے معراج پر منتج ہوتی۔ میں اس وقت بس اسی مخمصے اور اُلجھن کا شکار ہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کِیا جائے۔ذرا رُکیے! وہ دُور اسٹیج پر ایک دراز قد،سُراہی گردن،نیلی آنکھوں،کشادہ چمکتی پیشانی، گداز کالی زلفوں والا، زرق و برق بادشاہی پوشاک میں ملبوس کوئی خاص شخص تمام شہدا ء سے مخاطب ہونے لگا ہے۔یہ کون ہوسکتا ہے؟ یہ اتنے وقار و وفا کا پیکر کون ہے کہ جس کو دیکھنے اور سُننے کے لئے تمام شہدا ئبے تاب اور بے چین ہیں؟

’’میں امتیاز عالم ہوں میرا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہے یہاں میرے ہزاروں بھائی،بہنیں اوربیٹیاں پہلے سے ہی آپ کی مبارک صفوں میں موجود ہیں۔جوں جوں ’’امتیاز‘‘ بھائی کی تقریر آگے بڑھتی رہی،شہدا ء کے اس کثیر الکثیر مجمعے سے جنت نظیر ارضی جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے اسٹیج کی طرف ایسے بڑھنے لگے جیسے پروانے شمع کی اور کِھنچے چلے آرہے ہوں وہ سب شہدا ء وہیں اور میں تصوّر میں بہت دھیان، سنجیدگی بلکہ تشنگی سے ’’امتیاز‘‘ بھائی کی گفتگو ایسے سُن رہے تھے کہ جیسے وہ کوئی’’خاص بات‘‘ کرنیوالے ہیں۔ ہم سب کا گمان بالکل درست ثابت ہوا اور اُن کی نہ صرف ’’کوئی‘‘ بلکہ’’ہر بات‘‘ ہی ایک نئے انداز اور ایک نئی فکر کے حوالے سے خاص تھی۔فرمانے لگے کہ میں تین دہائیوں سے ’’شہادت‘‘ کا متلاشی اور متمنی رہا مگر مجھے ’’انصار‘‘ کے مدینہ میں مسجد سے نکلتے ہوئے سرِشام شہید کردیا گیا۔ مجھے اپنے بزدل دشمن کی مکاری اور پُراسراریت پر واقعی تعجب ہے! میں کبھی خواب میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ مجھے اپنے خیر خواہوں کی موجودگی میں بھی اجنبیت اور عدمِ تحفظ کا شکار ہونا پڑے گا یہ میرے لئے کسی قیامت سے ہرگز کم نہ تھا!مجھے اپنے مقدس مقصد کی اپنے انداز میں آبیاری کے جرم کی پاداش میں اپنوں کی ناراضگی اور بے رُخی بھی سہنی پڑی یہ میرے لئے سب سے بڑی آزمائش اور انتہائی مشکل امتحان تھا جِس سے مجھے گزارا گیا۔میں آخر پر آپ سبوں کو ’’شہادت‘‘ کا عظیم مرتبہ پانے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور پیچھے رہ جانے والوں تک اس پیغام کے پہنچنے کا خواہشمند ہوں کہ’’کاش آپ جان لیتے کہ مجھے میرے رب نے معاف کردیا ہے اور مجھے ’’المکرمین‘‘ میں شامل فرمایا ہے۔

’’بما غفر لی ربی و جعلنی من المکرمین‘‘۔

میرے سارے غم،ساری پریشانیاں،ساری حسرتیں،سارے تکلیف،ساری مشکلیں اور ساری صعوبتیں’’ابدی‘‘ راحت اور کامیابی میں تبدیل ہوچکی ہیں۔میں اپنی منزلِ مراد کو پاچکا ہوں۔میں مطمئن ہوں،اپنے رب کیطرف رجوع کرچکا ہوں اور رحمن و رحیم کے نیک بندوں میں شامل ہوکر اُسی ربِ کریم کی رحمتوں کے طفیل جنتوں کا مکین بھی ٹھہرا ہوں اور اپنے رب کی ان تمام نعمتوں،رحمتوں اور عطائوں کے ملنے پر بھی جو غم مجھے یہاں بھی لاحق ہے وہ یہ ہے کہ اس تحریک کے ساتھ ہر طرح کے حالات اور جبر کے باوجود بھی ’’وفا‘‘ کا رشتہ ہمیشہ استوار رکھنا،اطاعت کو اپنے اوپر لازم پکڑنا،نظم و ضبط پر کبھی کوئی آنچ نہ آنے دینا،بھیڑ کے بجائے ایک ’’تحریک‘‘ بن کر اُبھرنا اور اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بروئے کار لانے میں کبھی کسی لالچ اور خوف کو خاطر میں نہ لانا،ہوشیار رہنا اور یاد رکھنا کہ منافقوں کے سردار مدینے میں ہی سکونت پزیر رہا کرتے ہیں بلکہ وہ پیغمبری قربت کا لبادہ بھی اوڑھے رکھتے ہیں تاکہ مشکوک ہونے کے بجائے محفوظ اور موثر رہ سکیں،خوشی و غمی،عطا و منع اورقربت ودوری غرض ہر طرح کے حالات میں اپنے مقدس مقصد کی آبیاری کرتے رہنا،موٹر کاروں،بنگلوں،پلاٹوں،پلازوں،فارم ہاوسوں اور دیگر دنیوی ہیچ اور عارضی مفادات پر اس تحریک کو ہمیشہ مقدم رکھنا، مل کر رہنا اور عصبیت کے تمام بتوں لات و منات اور ہبل کو کبھی انجانے میں بھی ’’نمسکار‘‘ نہ کرنا،اچھا میری شہادت اور قتل کے حوالے سے اس کی اب کوئی شاید خاص اہمیت نہ ہو مگر آپ سبوں کی سلامتی اور تحفظ کے لئے میرے قاتلوں کی پہچان اور گرفتاری میں کوئی سستی یا کوتاہی نہ کرنا ورنہ یہ زہریلا اور پُراسرار سانپ باری باری آپ سبوں کو ڈس لے گا۔ شہدا ء کے خون کی امانت اور مائوں بہنوں کے عفت کی حفاظت اب آپ سب کے حوالے ’’والسلام علیکم من اتبع الھدی‘‘