
شیخ محمد امین
یہ بات ہرگز ممکن نہیں کہ ہم اپنا جہد مسلسل سے وابستہ ماضی بھول سکیں
مجاہدین آزادی کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا میں مہنگی ترین شے ” آزادی” ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انسان اپنی جان بھی دے دیتے ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر سے دغا و دھوکا کرنے والوں کو اللہ تعالی نے اسی دنیا میں بے توقیر کر کے مارا ہے
معروف کشمیری دانشور،مصنف، شاعر اور ممتاز کالم نگار جناب شہزاد منیر احمد پاکستان کی مسلح افوج میں ایک آفیسرکی حیثیت سے گروپ کیپٹن بھی رہ چکے ہیں۔ انتہائی فرض شناس ملنسار، خوش گفتار، صوفی منش اور صاحب کردار انسان ہیں۔ 8مئی 1946ء کو جگتو چک تحصیل نواں شہر جموں میں پیدا ہوئے۔برصغیر کی تقسیم اور جموں میں مسلم آبادی پر حملے کے بعد ان کے خاندان نے وہاں سے سیالکوٹ (پاکستان) کی طرف ہجرت کی۔ ان کی عمر اس وقت صرف ڈیڑھ سال کی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی تحریک پاکستان کی تاریخی ہجرت کی داستان الم اپنے والدین سے سنی اور ہجرت کے بعد کے مسائل کا خود سامنا بھی کیا۔ کشمیری مسلمانوں پر بالعموم اور ان کے خاندان پر بالخصوص جس طرح کے مظالم ڈھالے گئے، ان کو بیان کرتے کرتے اس وقت بھی اشک بہاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر ان کی روح میں رچی بسی ہے، آزادی کشمیر کا خواب اور اس تعبیر کے حوالے سے ہر لمحہ متحرک نظر آتے ہیں ۔ ان کی اکثر تحریریں جو پاکستان کے معتبر انگریزی اور اردو اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں تحریک آزادی کشمیر کے موضوع پر ہوتی ہیں۔ وہ ہمیشہ تحریک آزادی کشمیر کے عملاََ ایک غیر اعلانیہ ترجمان کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ماہنامہ کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیں۔ پچھلے دنوں ماہنامہ کشمیر الیوم کے دفتر ہماری دعوت پر تشریف لائے۔ ان سے مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کی گئی گفتگو من و عن قارئین کی نذر ہے۔ (شیخ محمد امین)
سوال :آپ کا تعلق مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے ہے۔ آپ کے خاندان نے کب وہاں سے ہجرت کی۔
جواب: جی، ہم (راجپوت قبائل) صدیوں سے ایک چھوٹے سے گاؤں” جگتو چک” تحصیل نواں شہر ضلع جموں، کشمیر میں رہ رہے تھے۔ ہمارے آباء زمینداری کا پیشہ اختیار کئے ہوئے خوشحالی کی زندگی گزارتے تھے۔ میرے نانا نبی بخش طور کشمیری راجہ ہری سنگھ کے ملازم اور ان کے ساتھ پولو کھیلا کرتے تھے۔انہیں حکومت کی طرف سے بڑی جاگیر زمین بھی انعام میں دی گئی تھی، جسے انہوں نے آباد کر کے اس بستی کا نام ” دگ نبی بخش” رکھ لیا تھا۔ سیالکوٹ کے کئی تجارتی قافلے جب تجارت کی غرض سے جموں جایا کرتے تو وہ ہمارے پاس ہفتوں قیام کرتے تھے۔ 1947میں جب ہندوستان کے بٹوارے کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا اور پھر ملک بھر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے، خونریزی شروع ہو گئی تو حالات کے ہاتھوں مجبور ہوئے ہمارے قبائل کو بھی کشمیر سے ہجرت کرنا پڑی۔ یوں ہم ستمبر 1947 میں پاکستان میں آ بسے۔

سوال :ہجرت کے کیا خاص اسباب بنے۔
جواب :ہجرت بڑا مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ عارضی ہجرت جو عموماً معاشی ضرورتوں کے تحت اختیار کی جاتی اس کے پیچھے مالی خوشحالی کا حصول اور پھر سے لوٹ آنے کی امید بچھڑنے والے کو رنجیدہ نہیں ہونے دیتی بلکہ بہتر مستقبل کا سہانا خواب تازہ اور متحرک رکھتا ہے۔ مگر مستقل بنیادوں پر ترک وطن کرنا جیسا تقسیم ہندوستان پر مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی تھی، یقیناً مجبوریوں کے تحت ہی کرنا پڑتی ہے۔ میرے مطابق ہماری ہجرت تو لغوی اعتبار سے ہجرت تھی ہی نہیں۔ ہجرت اس نقل مکانی کر کہا جاتا ہے جو اپنی مرضی اور خوشی سے کی جائے۔ جو نقل مکانی کسی دباؤ دھونس سے کروائی جائے وہ در اصل ملک بدری ہوتی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کا 14 اگست 1947 کے بعد پاکستان میں آ بسنا نہ ہجرت ہے نہ ملک بدری بلکہ پناہ گیری ہے، کیونکہ ان پناہ گیروں کا وطن، کشمیر آج بھی طاقتور ملک کے قبضہ میں ہے جسے بین الاقوامی (اقوام متحدہ) قوانین کے مطابق واگذار ہونا اور کشمیریوں کو واپس جانا ہے۔ ہم اپنے بزرگوں کا وطن اور قبریں کبھی نہ چھوڑتے اگر برطانوی حکومت اور ہندستان کی سیاسی جماعتوں، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدہ کے مطابق تقسیم ہندوستان کے بعدریاست کشمیر کو اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار مل جاتا تو۔ چونکہ کشمیر پر ہندوستانی افواج نے غاصبانہ قبضہ کر کے اپنے ملک کی ریاست ڈکلیر کر دیا اس لیے وہاں مسلمانوں کی زندگی مشکل بنا دی گئی تھی۔ لہٰذا ہمارے قبائل وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔

سوال :شہزاد صاحب ۔۔ہجرت یا پناہ گیری کا یہ سفر کیسا رہا۔۔
جواب: میری عمر تو کوئی ڈیڑھ سال کی تھی۔ ہجرت کے اس سفر کے بارے میری کوئی یادداشت ذہن میں محفوظ نہیں۔ لیکن امی ابو بتاتے تھے کہ پاکستان کے بن جانے کی خبر سن کر ہم بڑے خوش تھے۔ جگتو چک میں غیر مسلم خاندان چار پانچ ہی تھے۔ معاشرتی ماحول باہمی محبتوں کا تھا۔ سارے گاؤں والے ہمیں کہتے تھے کہ اپ کو پاکستان جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہندوستان بھر میں ہندو مسلم فسادات اور خون ریزی عروج پر تھی۔ ہنگامہ آرائی فسادات اور قتل عام حکومت ہند بالکل بے بس تھی۔ ریل گاڑیوں پر مہاجرین ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر لائے لیجائے جا رہے تھے۔ بارڈرز پر ان گاڑیوں پر بلوائیوں کے حملوں اور شدید قتل و غارتگری کی خبریں مل رہی تھیں۔ ساتھ والے گاؤں سے ذیلدار نے ا کر ہمیں یہ بتایا کہ حالات بہت کشیدہ اور بے قابو ہو گئے ہیں۔ میں بھی آپ مسلمان خاندانوں کی حفاظت شائد نہ کر سکوں۔ بہتر ہے آپ چپکے سے نکل جائیں، میرے کچھ بندے آپ کو بارڈر تک لے جائیں گے۔۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ سہہ پہر عصر کا وقت تھا۔گھر والے کھانا تیار کرنے میں مصروف تھے،جلے ہوئے چوہلوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، ہم مویشیوں کے باندھنے والے احاطے کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ مجھے پیغام ملا کہ جان بچانے کی فکر کریں۔ بہت بڑا جتھا آپ پر حملہ کرنے والا ہے۔امی بتاتی تھیں کہ ہمیں کہا گیا گھر کے سامان کی فکر نہ کریں جو قیمتی شے ہاتھوں میں اٹھا لے جا سکتی ہیں اٹھاؤ اور جلدی نکلو۔ کہتی تھیں میرے کانوں میں سونے کی ڈنڈیاں تھیں۔ باقی زیورات نندنوں کے پاس تھے وہ اٹھائے اور گھر سے نکل پڑے۔میرے تن لگے کپڑوں، ڈنڈیوں اور تین بچوں کے اور کچھ نہیں تھا۔ یوں سورج غروب ہو رہا تھا جب کشمیر والا گھر چھوڑا تھا۔ اسی اثناء میں سکھوں کا ایک گروہ ہم پر ٹوٹ پڑا۔ ہمارے قبیلے کے مردوں نے ہمیں پاکستان کی طرف نکلنے کا کہا اور خود ان سکھوں سے ٹکراگئے۔ کچھ مارے کچھ بچ گئے۔ عورتیں البتہ زیادہ تر چھپ چھپا کر جان بچانے میں کامیاب رہیں۔ پانچ عورتیں شہید ہو گئیں۔ ہمارے قبیلے کے 11 مرد شہید ہوئے۔پیاروں کے قتل کا غم، گھر لٹنے کا دکھ ہجرت کی مصیبتیں، بھوکے معصوم بچوں کا چلانا، روتے پیٹتے، چھپتے جان بچاتے ہم پاکستان بارڈر پر پہنچ گئے۔سیالکوٹ میں مختلف دیہاتوں میں میری تین خالائیں بیاہی ہوئی تھی۔ جگتو چک سے ان دیہات کا فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہ تھا اس لیے دوسرے دن شام تک ہم پاکستان پہنچ گئے تھے۔ امی بتایا کرتی تھیں کہ۔ہم جگتو چک سے عید، شب برات اور شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے خریداری کے لیے سیالکوٹ آیا جایا کرتے تھے۔


امی جب کبھی ہمارے ضد کرنے پر ہجرت کا درد بیان کرتیں تو رو رو کر ہلکان ہو جاتیں۔ کہتی تھیں اللہ کسی کو گھر سے بے گھر نہ کرے۔اللہ کا کرنا تھا جن کے گھروں میں اجنبی لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھا کر جایا کرتے تھے آج ان کے بچوں کو کھانے کے لیے نوالہ تک میسر نہ تھا اوپر سے جانوں کا خطرہ استغفرُللہ استغفرُللہ۔ امی کی یہ کہانی سناتے سناتے شہزاد منیر صاحب اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور روتے روتے کہہ گئے کہ پھر کہا جارہا ہے کہ ماضی کو بھولیں۔۔کیا بھولیں اور کس طرح بھولیں ۔
سوال :پاکستان پہنچ کر مہاجرانہ زندگی کی شروعات کے بارے کچھ بتائیں۔
جواب :پاکستان پہنچ کر ہم خالو کے گھر دو ایک دن رہے۔ والد صاحب نے خالو کے گھر والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس گاؤں سے جو غیر مسلم خاندان ہندوستان چلے گئے ہیں ان کے کسی مکان کو ہماری ملکیت دے دیا جائے تاکہ ہم اپنے ” پناہ گیر ہونے کی اذیت کو اکیلے بگھتیں” آپ ہمارے ساتھ اپنی زندگی مشکل میں نہ ڈالیں۔ اب مسئلہ روزگار کمانے کا تھا۔ ابا لوگوں کو سوائے زمینداری کے اور کوئی ہنر نہیں آتا تھا۔ لہٰذا وہ سیالکوٹ شہر میں مزدوری کرنے چلے جاتے تھے۔ کسی کھرپہ ان کا بہترین دوست تھا۔۔ اللہ کے فضل اور اسی کی رضا میں کوئی چار سال ایسے ہی گزرے جو بظاہر تو کم مائیگی اور مشکل دن ہی تھے مگر عزت و احترام کے ساتھ گذارے۔بچے بھوکے سوئے نہ سکول پڑھائی میں ہی دشواری آئی۔شکر الحمدللہ۔ چار سال بعد ہمارے زرعی کلیم وہاں (مقبوضہ ریاست )سے تصدیق ہو کر آگئے اور ہمیں نارووال میں زرعی زمینیں الاٹ ہو گئیں تو خاندان کھکھ جوالا سنگھ نارووال منتقل ہو گیا۔
سوال :آپ فوج میں آفیسر رہے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے افواج پاکستان کے کردار کے بارے میں کچھ فرمائیں ۔
جواب: شیخ صاحب۔۔۔۔۔ فوج کسی بھی۔ملک کا اس کے دشمن کی طرف سے ممکنہ خطرے کے پیش نظر یا جارحیت سے اجتماعی شکل میں دفاع کرنے کا انتظامی بندو بست ہوتا ہے۔ اس بندوست کا نام مسلح افواج کی تشکیل اور تربیت ہے۔مسلح افواج کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار ان کا نظریہ حیات اور نظریہ سیاست ہوتا ہے جس کے دفاع و تحفظ کی خاطر وہ اپنی جان سے بھی گذر جاتے ہیں۔ پاکستان کے عسکری دستے بھی اس آفاقی فارمولے کے تحت سروس میں شامل ہوتے ہیں۔ مگر اپنے نظریہ حیات اور نظریہ سیاست کی بنیاد پر وہ دنیا بھر کی مسلح افواج سے مختلف ہیں۔ اس کی وجہ ریاست پاکستان کا وجود میں آنا ھے جو ایک لمبے عرصے تک کی جانے والی سیاسی جدو جہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ تین صدیوں تک ہندوستان پر انگریزوں کی مسلط کردہ جابرانہ غلامی سے نجات کے لیے مسلمانوں نے بے شمار جانی اور مالی قربانیاں دیں۔ آخر کار فطرت کے فیصلے ” رات کے اندھیرے کو دن کی روشنی میں بدلتے ہیں اور دن کے اجالوں کو رات کے اندھیرے کمبلوں میں چھپا دیتے ہیں۔” کے مصداق ، بر صغیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ انگریزوں نے آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ طے کئے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور خطہ کشمیر جسے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار تھا کے برعکس اسے جبری اور غیر قانونی طور پر ہندوستان کے قبضے میں دھکیل دیا گیا۔ یہ تھا انگریز عیسائیوں کا مسلمانوں کے خلاف بھڑکتا ہوا تعصب کا شعلہ جس نے کشمیریوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔کشمیر جل رہا ہے اور نہ جانے کب تک اس آگ میں جلنا ہوگا۔ پاکستان اور ہندوستان کی ریاستیں حالت جنگ میں ہیں۔ اگرچہ تنازعہ کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ کے زیر سماعت ہے مگر میری دانست میں، یہ۔ جنگ مستقبل قریب میں بھی ختم ہوتی نظر نہیں اتی۔ کیونکہ پاکستان اپنے اصولی موقف، ” کشمیر ہمارا ہے” پر قائم ہے اور ہندوستان اپنی ڈھٹائی ” کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے” پر ڈٹا ہوا ہے۔
سوال :1947 سے لیے کر آج تک مسلہ کشمیر میں کوئی پیش رفت نہیں دیکھی گئی۔ ان حالات میں کشمیریوں کو کیا کرنا چاہیے۔
جواب :یہ بڑا خونخوار سوال ہے جسے سن کر کشمیریوں کا خون کھولتا دل روتا اور ذہن پھٹنے لگتا ہے۔ اس سوال کا جواب ایک ہی ہے(کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور Options, متبادل راہ عمل نہیں ہے) کہ جد و جہدِ آزادی کو مسلسل جاری رکھا جائے۔ یہ البتہ زیادہ اہم ہے کہ اپنوں یا اغیار کے خلوص و خباثت کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتے رہیں کہ ہم کہیں راہ راست سے بھٹک نہ جائیں یا بہکا نہ دئیے جائیں۔۔ ہمیں تدبر اور تحمل سے آگے بڑھنا ہے۔ عزم و عمل میں پھسلنا نہیں ہے پچھتاووں سے احتیاط بہتر ثابت ہوتی ہے۔اگرچہ پچھتاووں کا کفارہ ہے مگر وہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اپنے شہید مجاہدوں، کے کردار اور انجام کو نہ بھولیں۔کشمیر کی جنگ آزادی میں دنیا کے سارے حق پرست ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ مصلحتاََ خاموش اور غیر متحرک سہی مگر وہ وقت کی دھارے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس دھارے میں شدت کشمیریوں نے ہی پیدا کرنا ہے۔انشااللہ فرمان الٰہیہ کے عین مطابق ہم ہی غالب ہوں گے کیوں کہ ہم حق و حقیقت کے نقیب اور طالب ہیں۔

خلیفہ عبدلملک کے زمانے میں جب حجاج بن یوسف نے مکہ کا محاصرہ کر لیا اور عظیم مجاہد عبداللہ بن زبیرؓ کے بہت سارے ساتھ ان کی حمایت سے دست کش ہو گئے تو وہ اپنی ضعیف العمر ماں حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ماں نے کہا بیٹا اگر تو آپ اسے حق و باطل کا مقابلہ جان کر حق و سچ کے ساتھ ہو مجھے خوشی ہو گی اگر آپ لڑتے لڑتے اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤ مگر باطل کے آگے نہ جھکنا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیرؓ کو پھانسی چڑھا دیا۔ ان کی ماں کو معلوم ہوا تو حجاج بن یوسف کے پاس پہنچ کر کہا” اس شہہ سوار کا گھوڑے سے اترنے کا وقت نہیں ہوا”۔ شرمندہ حجاج بن یوسف نے پھر شہید عبداللہ بن زبیرؓ کی لاش ان کے حوالے کر دی۔
سوال : کشمیر ابھی بھی محکوم ہے۔بلکہ صورتحال 1947 سے بھی ابتر ہو چکی ہے۔
جواب۔۔۔۔۔۔۔۔ 1947 میں INDIA British(برطانوی ہندوستان) تقسیم اس معایدہ کے تحت عمل میں آئی تھی جو حکومت برطانیہ، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان طے پایا تھا۔۔اس وقت برٹش انڈیا میں چھ سے زائد خود مختار ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ تقسیم ہند کے بعد وجود میں آنے والے دونوں ممالک، ہندوستان اور پاکستان میں سے اپنی مرضی سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کر لیں گی۔ مذکورہ تقسیم ہند کے ریاست جموں و کشمیر کو قانونی اختیار استعمال کرنے نہیں دیا گیا۔ اور کشمیر پر ہندوستانی مسلح افواج نے، غیر اخلاقی،غیر قانونی اور جابرانہ قبضہ کر لیا۔ ان حالات کا دیانتدارانہ اور نظر عمیق سے تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ اور حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ آزادی کشمیر کی جنگ، پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہے، جس کی وجہ ریاست جموں و کشمیر کو اس حق خود ارادی سے محروم رکھنا ہے جو اسے 1947 میں، برطانوی ہند کے تقسیم ہو جانے کے معاہدے کے مطابق حاصل تھا۔ برطانوی حکومت نے جس طرح چالاکی اور بد دیانتی سے تقسیم ہند کے نقشے میں من مانی لکیریں کھینچیں، ہندوستانی افواج کو کشمیر میں داخل کروا دیا عین اسی طرح بد دیانتی اور شاطرانہ چال سے خود کو مسئلہ کشمیر سے بھی الگ کر لیا۔ اصولاً اس جھگڑے کو جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھڑا ہو گیا تھا اسے برطانوی حکومت کو ہی حل کروانا چاہیے تھا۔ چونکہ دل میں بد نیتی تھی اور پھر ہندوستان کا گورنر جنرل بھی ماؤنٹ بیٹن ہی تھا وہ اس جھگڑے کوجان بوجھ کر اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ میں برطانیہ کی اپنی حیثیت کیSay تھی، ہندوستان کو سا رے ی اقوام متحدہ جانتی تھی۔جب کہ پاکستان ایک نو مولود بچہ کی طرح تھا جسے سفارتی سطح پر اس قدر پذیرائی اور سپورٹ دستیاب نہیں تھی۔ لہٰذا معاملہ لٹکا دیا گیا۔
مسلہ کشمیر کیسی بھی شکل اختیار کر جائے، ہمیں اپنے موقف پر قائم رہ کر دنیا کو باور کرواتے رہنا ہے کہ ہماری آزادی ہندوستان کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ ہماری شناخت مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہماری نسلوں کا مستقبل قتل کیا جا رہا ہے ہمیں قوموں کی برادری سے انصاف کی امید ہے۔ اقوام متحدہ کی عدالت انصاف کے وسیلے سے ہمیں ہماری آزادی واپس دلوائی جائے۔ ان مطالبات کو منوانے کے لیے کشمیریوں کو اپنا قومی اتحاد جسے مزید مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے اس پر مناسب توجہ دے کر اور وسیع و موثر بنانا چاہیے۔
سوال :پاکستان مسلہ کشمیر کا بنیادی فریق ہے۔ اس مسلے کے حل کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے۔
جواب :میں نے عرض کیا ہے نا کہ پاکستان اہم فریق ہی نہیں بلکہ فریق ہی پاکستان ہے۔ فیصلہ چونکہ کشمیر کا ہونا ہے اس لیے جہاں بھی ریاست کشمیر کے بارے بات ہو وہاں کشمیریوں کی نمائندگی لازمی ہے۔ کشمیریوں کو الگ رکھ کر یا مائنس Minus کر کے مسلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کی ہر کوشش غیر فطری اور ناپائیدارثابت ہوگی۔ اسلامی جمہوریہ کستان کے اپنے مسائل اور انہیں حل کرنے کی ریاستی ترجیحات اپنی جگہ اہم سہی مگر پاکستان کے سارے مسائل کہ وجہ ہی جب مسئلہ کشمیر ہے اسے کس طرح Sideline کیا جا سکتا ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے کشمیریوں کے قائدین میں موجودہ لائحہ عمل پر اختلافات کو ختم کیا جائے۔ آزادی کی کوششوں کو موثر اور کامیاب کرنے کے لیے ان کی یکجہتی اور ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں گو اس اتحاد کا حصول معمولی نظر آتا ہے مگر یہ ریت میں شاملِ بکھرے ہوئے سونے کے ذرات کو اکٹھا کرنے کے مترادف ہے۔ اس جانب توجہ مرکوز کرنا اور عملی اقدامات کرنا The earlier the better والا کام ہونا چاہیے۔
میری دانست میں پاکستان کے وزارت خارجہ سے چند سئینیر آفیسرز اور کشمیری قائدین سے چند کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو اندرون ملک اور بیرون ملک سفارت خانوں میں سفیروں سے ملاقات کریں انہیں مکمل بریفننگ دیں جن کا بالضابطہ ریکارڈ رکھا جائے۔ مزید یہ کہ آزاد جموں و کشمیر میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی تشکیل بند کی جائے۔ ان پارٹیوں نے کشمیریوں کو سیاسی وابستگیوں میں بانٹ کر کشمیر کاز کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔عقل کے غلام نجی سطح پر ٹھوکریں کھانے اور نقصانات اٹھانے کے بعد سدھر سکتے ہیں۔ اجتماعی معاملات میں مگر ایسے غلام اگر پھسل جائیں تو سرکتے لڑھکتے پستیوں میں گرتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں تو پسپائی ویسے ہی پیام مرگ ہوتا ہے۔


سوال :کشمیری ہونے کی حیثیت سے کشمیریوں کو کیا مشورہ دیں گے۔
جواب :شیخ صاحب ادھار مانگی ہوئی دولت سے کام چل سکتا، مانگی ہوئی طاقت سے خطرہ ٹل سکتا ہے مگر کسی بھی مسلے کا حل صرف اپنی عقل سے حل ہوتا ہے۔ قوموں کے معاملات کو گرفت میں محفوظ رکھنے کے لیے اجتماعی شعوری اتحاد لازمی عنصر ہوتا ہے۔ ہلکا سا بھی اختلاف منزل کھوٹی کر دیتا ہے۔ کشمیریوں کو میری دانست میں مسئلہ کشمیر کے حل کرنے اور جنگ آزادی کو کامیاب کرنے کے لیے ماضی میں کی گئی کوششوں اور قربانیوں کا بڑے ہی تحمل اور غیر جذباتی انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے خود بہت ساری غلطیاں کیں اور بہت ساری غلطیاں ہم سے کروائی گئیں، کیونکہ ہماری قیادت فدویانہ رہی ہے، تحریکیں کوتاہ بین قائدین کامیاب نہیں کرواتے۔ یہ مرتبہ صرف صاحب کردار اور کرشماتی شخصیت کا حق ہے۔ آپ کو معلوم ہے قائد اعظم محمد علی جناح نے شیخ عبداللہ کو ہندوستان کی سیاسی قیادت کی چانکیہ ڈاکٹرائن کے زیر اثر سیاست کی ساری سفاکیاں گن گن کر بتائی تھیں۔ نہرو، پٹیل اور دیگر ہندوؤں کے کشمیر کے متعلق مستقبل کے منصوبوں کا بھی بتایا تھا۔۔شیخ عبداللہ مگر نہرو اور پٹیل کی مہذب تابعداری میں اندھا ہو چکا تھا۔لہٰذا مدبرانہ اور صحتمند فیصلہ کرنے کی بجائے عارضی مفادات پر اکتفا کر کے کشمیریوں کے ساتھ ظلم کی راہیں ہموار کر گیا۔ 1947 میں پاکستان بن جانے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے سیکریٹری خورشید حسن خورشید کو سرینگر خصوصی پیغام دے کر بھیجا تھا۔شیخ صاحب نے الٹا اسے نہرو حکومت سے گرفتار کروا دیا۔ خورشید حسن بے چارہ ستمبر 1948 میں اپنے لیڈر کے جنازے میں بھی شامل نہ ہو سکا،کیونکہ وہ تب کشمیر میں قید تھا۔ وقت نے کشمیریوں سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔، جن میں سب سے اول، اہم اور بڑی دولت و طاقت کشمیری لیڈروں کا ہم آواز ہونا تھا۔ اب اس جوش و خروش میں کمی بھی ہوئی ہے اور ہلکا سا اختلافی انتشار بھی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر دہلی حکومت کے ہاتھوں ظلم و تشدد اور بے رحمانہ سلوک کا شکار کشمیری نئی نسل غم و غصّے سے ابل رہی ہے۔ انہیں لڑنے کے لیے وسائل کے ساتھ ساتھ دلیر و دیانتدار قیادت کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں بھی کشمیری قیادت کو آزادی کشمیر پر اختیار کردہ رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے قائدین میں مضبوط اور مؤثر رابطوں کے بحال کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ فی الحال یہ رابطے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان میں علاقائی اور برادری سطح کی شناخت کے رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بڑا نقصان دہ رجحان ہے۔ ہمارا دشمن ہمیں اور پتلا اور کمزور کر کے مارے گا۔ کشمیر کی آزادی کے اعتبار سے کشمیری صرف کشمیری ہے اس کی اور کوئی برادری نہیں۔ سانپ تب تک سانپ ہوتا ہے جب تک اس میں زہریلا ڈنک رہتا ہے جب وہ وصف چھن جائے تو پھر سانپ مداری کے پیٹ بھرنے کا وسیلہ بن کر پٹاری میں بند ہو جاتا ہے،جسے بچے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور مٹھی آٹا خیرات میں مداری کی جھولی میں ڈالتے ہیں۔ کشمیریوں کو اپنی غیرت ملت اور نظریہ حیات کو دنیا کے منصفوں کے ہاتھوں لٹنے نہیں دینا چاہیے۔
سوال :آپ پاکستانی حکمرانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
جواب :حکومتوں کے مسائل اور وسائل کو حکومتیں بہتر جانتی ہیں۔ وہ حالات اور اپنی بساط کے مطابق اندرونی اور بیرونی مسائل پر فیصلے کرتی ہیں۔ چونکہ پاکستان کے بین الاقوامی معاملات اور دیگر بہت سارے مسائل کا پس منظر ہے ہی مسئلہ کشمیر، اس لیے اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ وزارت خارجہ کا کام ہی یہ ہے اسے ٹاسک دیا جائے کہ وہ پیپرز تیار کرے۔ پاکستان حکومت کو مسئلہ کشمیر پر اس پہلو پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو پالیسی رہی ہے وہ کہاں تک کامیاب رہی، کہاں کہاں ناکام ہوئی اور اس ناکامی کی وجوہات کیا تھیں۔ جو جو کوششیں اور اقدامات کئے گئے کیا ان پر نظر ثانی کی ضرورت تو نہیں۔پاکستان کو خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، Development بالخصوص ہندوتا کی کشمیر میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور جارحیت کے پیش نظر، سابق وزیراعظم عمران خان والا مضبوط موقف اپنا کر اقوام متحدہ کو قائل کرنا پڑے گا کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایٹمی ممالک ہیں۔ ان میں پایا جانے والا 77 سالہ پرانا مسئلہ کشمیر انتہائی حساس ہوچلا ہے۔ ۔ اس سچائی کو بڑی نفیس سفارتی زبان میں دنیا بھر میں پھیلایا جائے کہ اقوام متحدہ کی خاموشی۔ کہیں دنیا والوں کے لیے لامحدود پچھتاووں کا سبب نہ بن جائے۔۔
سوال :کشمیر میں ہندواتا کی فورسز نے قبضہ جما رکھا ہے۔ کیا ایسے حالات میں مسلہ کشمیر حل ہو سکے گا۔
جواب :شیخ صاحب! دنیا میں انسان کا پیدا کردہ کوئی ایسا مسئلہ، بگاڑ، یا غلطی نہیں ہے جس کا حل ممکن نہ ہو۔۔ مسلہ کشمیر کا حل مشروط ہے جو پاکستان اور کشمیریوں کی مشترکہ کوششوں سے بندھا ہوا ہے۔ ان کوششوں میں جتنا زیادہ اخلاصِ اور تسلسل برقرار رکھا جائے گا اسی مناسبت سے اس میں تیزی آئے گی۔ جیسا عرض کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارے سارے مسائل کی ماں ہے۔ یہ حقیقت آج بھی اسی تفصیل،اور موثر انداز میں اقوام متحدہ کے فورم پر پیش کرنے کی ضرورت ہے جس طرح ہندوستان کے اقوام متحدہ میں مقدمہ لے جانے پر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے جواب دعویٰ میں تقریر کی تھی۔صاف لفظوں میں مسلہ کشمیر کے حل کے لیے WE Have To Redouble Our Struggle ۔مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے باہمی مذاکرات سے حل کرنے کے فریب( Lolly pop) کو سختی سے مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلہ کشمیر ہماری خود فریبیوں سے اور اغیار کی چالاکیوں سے پیچیدہ ہوا۔بقول کسے! جوا سیٹھ کھیلتا ہے، ریس جوکی دوڑاتا ہے، چابک گھوڑے کو پڑتے ہیں، روندی گھاس جاتی ہے۔ پیسہ عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے، تالیاں۔ بیوقوف تماشائی بجاتے ہیں۔
کشمیر الیوم کے لیے پیغام۔
میں سمجھتا ہوں کہ ماہنامہ کشمیر الیوم کشمیریوں کی جنگ آزادی میں قلمی جہادی کی شکل میں شاملِ ہے۔اس جریدے کے ایڈیٹوریل بورڈ کی صحافتی کوششوں کو سراہتا اور مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ میں ذاتی طور پر بھی کشمیر الیوم کا مشکور ہوں کہ وہ میرے مضامین کو پذیرائی بخشتے ہیں۔ قارئین سے گزارش کرتا ہوں کہ ماہنامہ کشمیر الیوم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں تاکہ وہ مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی موجودہ حالت زار سے آگاہ رہیں۔مجھے اس بات پر شرح صدر حاصل ہے کہ تحریک آزادی کشمیر سے دغا و دھوکا کرنے والوں کو اللہ نے اسی دنیا میں بے توقیر کر کے مارا ہے۔ اور میرے خیال میں تحریک آزادی کشمیر
کے راہبروں کے پاس کامیابی اور فلاح کا ایک ہی راستہ Option بچا ہے کہ عقل کے غلام کھیتوں میں اب دل کے رفیق ضمیر کی فصلیں کاشت کی جائیں، ضمیر کو بے ضمیروں کے ہاں بطور سوغات بھیجا جائے تا کہ وہ ہماری مدد کر کے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروائیں۔ مجاہدین آزادی کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے۔ کہ دنیا میں مہنگی ترین شے ” آزادی” ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انسان اپنی جان بھی دے دیتے ہیں۔ اللہ کے حضور دعا گو رہیں حسبی اللہ لا الہ اللہ ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم
٭٭٭