شہزاد منیر احمد کی خود نوشت یادوں کا سرور

اسد اللہ خان غالب

برادرم شہزاد منیر احمد گروپ کیپٹن (ر) بنیادی طور پر ایک صوفی دانشور ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں کئی خوبیاں جمع کی ہوئی ہیں کہ وہ بیک وقت بہترین مورخ، شاعر، ادیب، ماہر تعلیم اور عظیم محب وطن ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد اور خواہش ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک فرد بھی ان پڑھ نہ رہ جائے۔ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں بانی پاکستان کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ جس میں ہر پاکستانی امن، سکون اور رواداری کے ساتھ زندگی بسر کر سکے اور جس میں تمام لوگ آزاد ہوں، اپنی اپنی مذہبی رسومات خوش اسلوبی کے ساتھ مسجدوں میں، مندروں میں، گرجا گھروں میں ادا کر سکیں اور پاکستان کا نام دنیا میں روشن کریں۔ جناب شہزاد منیر احمد کئی عشروں سے لکھ رہے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ افواجِ پاکستان کی فضائیہ کے شعبہ ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ افسر، بلکہ بے مثال افسر رہے۔

انہوں نے زندگی بھر میں کیا دیکھا، کیا محسوس کیا، حقائق کیا تھے انہوں نے زندگی کی شاہراہ پر کئی عشروں تک سفر کیا اور ان کا سفر ابھی جاری ہے۔ وہ حقائق کی آنکھ سے دیکھتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں ایک خوبی یہ بھی رکھی ہے کہ وہ دیوار کے پار لفظوں کے درمیان اور زمین میں پوشیدہ راز دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ان کی زندگی کا نچوڑ ہے کہ انسان کو پیدائش سے لے کر وفات تک کیا کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان ایک قلی کی طرح ساری زندگی رہتا ہے کہ ایک جگہ سے وزن اُٹھایا اور دوسری جگہ رکھ دیا۔ دوسری جگہ سے اُٹھایا تو تیسری جگہ پر رکھ دیا۔ وہ ساری زندگی وزن اُٹھاتا رہتا ہے یا پھر اپنی جمع پونجی کی جمع تفریق کرتا رہتا ہے۔ آخر میں اُس کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا اور نہ ہی وہ اُس دنیا میں لے جا سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی کرنسی صرف پاکستان میں ہی چلتی ہے اُس دنیا میں کسی اور طرح کی کرنسی ہوتی ہے۔ ”یادوں کا سرور“ یہ خودنوشت کم اور الٹرا ساؤنڈ زیادہ ہے۔ پاکستان میں دو طرح کی خود نوشتیں لکھی گئیں یا لکھوائی گئیں۔ ایک وہ خود نوشت ہے جو انسان اپنے شوق کے لیے لکھتا ہے جس طرح ملک مقبول کی خود نوشت ”سفر جاری ہے“ یا ایک وہ خود نوشت جس کو سوسائٹی کی ضرورت ہے جیسے قدرت اللہ شہاب کی ”شہاب نامہ“۔ یادوں کا سرور“ بھی حقیقت میں معاشرے کا عکس ہے جس میں شہزاد منیر احمد علمی شوق اور عملی محنت سے کامیابیاں سمیٹیں۔ یہ کتاب نہ صرف پڑھیں بلکہ ایک ایک سطر پر عمل کریں تو آپ نہ صرف ایک بڑے انسان بلکہ بہترین انسان بن سکتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحات آتے ہیں کہ انسان چند لمحوں میں صدیوں سے بڑا کام کر جاتے ہیں۔ اور جناب برادر عزیز گروپ کیپٹن شہزاد منیر بھی اپنی سوانح حیات لکھ کر تاریخ میں امر ہو گئے۔ یہ کتاب 208 صفحات پر مشتمل ہے لیکن ہر صفحہ پر ایک نصیحت آموز سبق ہے۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا واقعہ لکھا ہے کہ محبت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں محبت خدائی قانون ہے۔ محبت خودآگہی کا دوسرا نام ہے۔ محبت ہی تصورِ کائنات ہے اور محبت ہی انسانیت ہے۔ اگر محبت کو انسانیت سے نکال دیا جائے تو اس کا وجود ایک ایک مٹی کے ڈھانچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ ایک اور واقعہ لکھتے ہیں کہ اچھی بیوی اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور اچھا دوست اللہ کا سایہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں اگر انسان کو مل جائیں تو کامیاب زندگی بسر ہو جاتی ہے۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنی شریک حیات محترمہ بشریٰ کے نام کیا ہے۔ بیگم بشریٰ جامعہ صفات نسوانی کی حامل صالح اور دلیر خاتون تھی۔ جو اپنے قبیلے میں بڑی آپا کے نام سے معروف تھیں۔ انہوں نے اپنے گھر کو اس طرح چلایا جیسے ایک وزیراعظم ملک کو چلاتا ہے۔ بیگم بشریٰ نے ہمیشہ نہ صرف اپنے گھر اور بچوں کا خیال رکھا بلکہ اپنے قبیلے میں، اپنے علاقے میں شجر سایہ دار اور پاسبان کی طرح رہیں۔ انہوں نے سب کا خیال رکھا اور اپنی ساری توجہ تعلیم پر صرف کی۔ شہزاد منیر صاحب وطن عزیز کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ افسروں اور سیاست دانوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سیاست دان اور بیورو کریسی ٹھیک ہو جائے تو پورا ملک ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ”یادوں کے سرور“ میں والدین کے احترام کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ”ہمارا معاشرہ افراتفری کا شکار ہے اس میں کئی وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارا خاندانی شیرازہ بکھر گیا ہے۔ کسی زمانے میں جس گھر میں دادا رہتا تو اسی گھر میں اُس کا بیٹا اور پوتا رہتے تھے۔ وہ گھر اللہ کی رحمت سے تربیت گاہ ہوتا تھا لیکن آج پاکستان میں پچاس فیصد لوگ کٹی ہوئی پتنگ کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ اور بچوں کا والدین کا احترام نہ کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیٹو! اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو والدین کا احترام ہر وقت کرتے رہنا اسی سے خوشحالی، سکون اور کامیابی ملے گی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جو ذہین بچے ہوتے ہیں وہ آدھے پروں والے عقاب کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کو چیلوں کوؤں اور معاشرتی کتے بلیوں سے بچانے کے لیے عزت نفس اور غیرت ملی سکھانی پڑتی ہے۔ انہوں نے ایک جگہ پر یہ بھی لکھا ہے کہ بچے ہمیشہ اپنی کمزوری کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔ ماحول، وقت، زمانہ اور حریف لوگ آدمی کو ناکام نہیں بنا سکتے۔ بندے میں محنت اور علم و فن حاصل کر کے حالات بدلنے کا جذبہ ہی غیرت نفس ہوتی ہے یا صبر و قناعت کر کے اللہ کی رضا پر جینے کا رویہ سکون بخش ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ آج سب سے زیادہ بچوں پر اخلاقی تربیت اور کمپیوٹر کی دنیا میں آگے سے آگے نکلنا پاکستانی بچوں پر فرض ہے۔ آج یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے پاکستان میں کلرک نما فوج تیار کر رہی ہیں، جو پوری قوم کے لیے سوالیہ نشان ہے اور اساتذہ کرام پیغمبری پیشہ کی بجائے ایک مزدور کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم میں ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنس دان کیسے پیدا ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تعلیم پر کم از کم دس فیصد بجٹ وقف کرے اور یونیورسٹیاں تحقیق کدوں اور دانش گاہوں میں تبدیل ہو جائیں۔ یہ کتاب پاکستان کے معروف پبلشنگ ہاؤس قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں علامہ عبدالستار عاصم نے پوری محبت اور عقیدت کے ساتھ شائع کی ہے۔ یہ کتاب ہر حوالے سے اس قدر خوبصورت ہے کہ حکومت پاکستان کو اس پر مصنف اور ناشر کو صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازنا چاہیے تاکہ پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ مصنّفین، شاعر اور دانشوروں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ اچھی کتابیں ہمیشہ دل اور دماغوں پر دستک دیتی ہیں اور معاشروں میں انقلاب برپا کر دیتی ہیں۔ آخر میں میں برادرم گروپ کیپٹن شہزاد منیر احمد کو زندگی کے تلخ اور سنہری حقائق بیان کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سچ لکھنا واقعی ایک جہاد ہے۔

٭٭٭