شہیدکمانڈرمحمد سلیم۔۔۔راہ حق کا ایک عظیم جرنیل

قیصر یعقوب

جنت ارضی کشمیر میں جب قابض بھارتی افواج کے خلاف 1990 میں مسلح جد وجہد شروع ہوئی تو اس دھرتی پر ہیروں کی مانندایسے نیک سیرت نوجوانوں کی کھیپ نمودار ہوئی جس نے دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار کی جانے والی اس فوجی طاقت کے سامنے سینہ سپرہوکر سر دھڑ کی بازی لگا کراور،تن من دھن وارکرایک ایسی تاریخ رقم کی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ان ہی ہیروں میں ایک ہیرا جو بھارتی طاغوت کے سامنے صف آرا ہوااور دشمن کے خلاف جہادشروع ہوتے ہی اس پکار پر لبیک کہہ کے اپنا نام حزب المجاہدین کے سخت جاں سرفروشوں کی صف میں لکھوایا۔ خداداداورقائدانہ صلاحیتیں ان میں پنہاں تھیں،اس بلند کردار،سیماب صفت ،عقاب روح اور پاک دل و پاک باز مجاہدفی سبیل اللہ نے راہ حق میں آنے والےتمام مصائب و آلام کا خندہ پیشانی اور دلیری سے ایسامقابلہ کیاکہ ان کی ثابت قدمی کے سامنے راستے میں آنے والی ہر مشکل خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی ۔ اس کرشماتی شخصیت کی جہادی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے اتنی وسعت دی تھی کہ قلیل عرصے میں انہیں وہ مقام ملا کہ ان کا شمار نامِ نامی کمانڈروں میں ہونے لگا۔راہ حق کےاس عظیم سپاہی کا نام محمد یوسف لون ہے جوعشق بلاخیز کےقافلہ سخت جاں سے جہاد کے اولین دور میں وابستہ ہوئے اور حزب المجاہدین جموں وکشمیرکے پہلےناظم اعلیٰ تعلیم و تربیت کی حیثیت سے شہرت پائی۔آپ کی ولادت وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے مردم خیز علاقے پٹن کے گائوں اوسن کے ایک دینی گھرانے میں ہوئی ۔خوب رو ،عظیم صفت و کمالات کا مجموعہ ،سیرت و صورت پاکیزہ،خوش گفتار و خوش لباس، ایسی خوبصورتی جس سے ان کی جاذب نظر شخصیت پر نگاہ پڑتے ہی دل کو فرحت محسوس ہوتی تھی۔ شاید ماں باپ نے ان میں حسن یوسف کی اک جھلک دیکھ کرہی ان کانام یوسف رکھا۔والدین نے ان کی شروع سے دینی تربیت کی جس کے نقوش ساری زندگی ان پر چھائے رہے ۔بچپن سے ہی ان کےعادات جدا تھے۔آپ نے اپنے تعلیمی سفر کا آغازاپنے ہی گائوں کے قریبی سکول سےکیا ،میڑک کی تعلیم پلہالن ہائی سکول سے حاصل کی،بعدازاں مزیدتعلیم کے حصول کے سلسلے میں پٹن ہائرسکنڈری سکول میں داخلہ لیا۔ہائرسکنڈری سکول سے فارغ ہوئے اور گریجویشن سرینگرکے امرسنگھ کالج سے مکمل کی ۔

طالب علمی کے دور میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے،جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیرکے ساتھ آپ کا تعلق خاطر حد درجہ تھا،مولانا سعدالدین صاحب ؒ کا دست شفقت بھی ساتھ رہا اور جہادی زندگی کے دوران ان سے بھی فیض حاصل کرتے رہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا آپ نے جماعت اسلامی کے آغوش میں اپنی فکری زندگی کی ابتداء کی اور اپنے علاقے میں ایک ایسی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے کہ آپ کے فیض سے سینکڑوں چراغِ علم روشن ہوئے۔ان کا وسیع مطالعہ تھا یہی وجہ تھی کہ ان کے نظریات اور ان کے افکار میں بھی وسعت تھی ۔کالج سے فارغ ہونے کے بعداپنےعلاقے کے درس گاہ میں بحیثیت استاد بھی شاہینوں کو شہبازی کا درس دینے لگے۔اسلامی کتب کا مطالعہ کرنا ان کا شغف تھا،قرآن پاک سے قلبی لگاؤ تھا،جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی کی بنا پر ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے لٹریچر کو پڑھنے کا موقعہ ملا جس نے ان کے اندر کی صلاحیتوں کو مزید نکھارااور ان کےعلم کو اور وسعت ملی۔رات دن دعوتی کاموں میں مشغول رہنے لگے۔کبھی مسجدوں میں تبلیغ کرتے تو کبھی نوجوانوں کو اسلامی فکر دینے کے لئے ان میں دینی کتب تقسیم کرتے نظر آتے تھے ۔ اسلامی دعوت عام کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ۔ان پاک نفوس نے ایسے نقوش چھوڑے کہ آنے والی نسلیں ان کی دی گئی تعلیمات اور ان کی فکر سے مستفید ہوتی رہیں گی ۔ کمانڈرمحمد سلیم کے اس داعیانہ کردارنے جو اپنی فصاحت و بلاغت میں کمال رکھتے تھے،جب بولتے تو پھول برساتے ہوئے سننے والے کے دل موہ لیتے تھے ۔دین کے معاملے میں کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے تھے اس لحاظ سے کسی بڑی طاقت سے ٹکراتے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ حق بات کہنا اپنا فرض منصبی جانتے تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے ابھی مقبوضہ علاقے میں جہاد شروع نہیں ہوا تھا کہ پٹن بارہمولہ میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے دفتر میں تمام حلقوں کی میٹنگ ہورہی تھی محمد یوسف بھی اس اجلاس میں شریک تھے ،عمر کے لحاظ سے وہ سب سے چھوٹے تھے انہوں نے بزرگوں کو بتایا گذشتہ رات انہوں نے ایک خواب دیکھا۔پھر جوں ہی خواب کا منظر آنکھوں کے سامنے سکرین پر آیا وہ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ہوش آیا دوبارہ کھڑے ہوئے اور پھر خواب بیان کیا انہوں نےبتایا کہ انہیں خواب میں نبی کریم ؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ ؐ براق پر سوار ایک وسیع میدان سے جارہے تھے ۔میں نے سلام عرض کیا ۔آپ ؐ نے جواب عطا فرمایا، پھر ارشاد ہوا’’ وقت آئے گا کہ تم میری فوج کے افسر بنو گے‘‘۔یہ خواب ایک دن حقیقت میں بدل گیا جب تنظیم نے ان پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال کر انہیں حزب المجاہدین جموں کشمیرکے ناظم اعلیٰ تعلیم و تربیت کا منصب سونپ دیا۔ اس خواب کو جماعت کے ایک بزرگ نے انہیں شہادت کے موقع پہ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے جنازے پر عوام کے سامنے بیان کیا تھا۔ 1987 ءمیں محمدسلیم اپنے علاقے میں مسلم متحدہ محاذ کی الیکشن مہم چلانے میں پیش پیش تھے یہی وہ دور تھا جب بندوق نے صندوق کی جگہ لی ۔1990ء میں عسکری تربیت حاصل کرنے کےلئے بلند وبالابرف پوش پہاڑوں اور چوٹیوں کوسر کرنے کے بعد بیس کیمپ پہنچے تو محمد سلیم قافلے کی قیادت خود کررہے تھے ۔افغانستان کے سنگلاخ چٹانوں اور یخ بستہ میدانوںمیں سخت جان افغانوں کے ہمراہ بھی تربیت حاصل کی تھی ۔عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد اسی سال خونی لکیر کو روندکر رزم گاہ کشمیر واپس پہنچ گئے۔ان کی صرف اپنے علاقے میں ہی نہیں بلکہ بحیثیت ناظم اعلیٰ انہوں نے ریاست گیر دورہ کیااس دوران مجاہدین کو دینی فکر دینے کے ساتھ ساتھ انہیں منظم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔عسکری صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی وہ ایک ماہر کمانذر ثابت ہوئے ۔دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لئے انہوں نے بھارتی فوج پر کارروائی کرنے کے لئے مجاہدین کے الگ الگ دستے بنائے، انہیں مختلف اسکوارڈز کے نام دئیے گئےان ہی میں ایسا اسکوارڈ بھی تھا جو ہر وقت ان کے ساتھ موجود رہتا تھا جو کسی بھی خاص کارروائی کے لئے ہمیشہ متحرک رہتا تھا ۔بحیثیت کمانڈر انہوں نے پٹن علاقے میں متعددکارروائیاں کیں۔پہلی ہی کارروئی جس کی قیادت انہوں نے خود کی اس کارروائی میں چار بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔ ایک یاد گار کارروائی جو انہوں نے حیدر بیگ پٹن میں کی جہا ں بھارتی فوج کی ایک بڑی چھائونی موجود ہے اس چھائونی کے اندر بھارتی فوجی یوم جمہوریہ کے حوالے سے جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ کمانڈر سلیم اپنے چند ساتھیوں سمیت ان پر برق کی صورت ٹوٹ پڑے ،اس کارروئی کے دوران بھارتی فوج کوکافی جانی و مالی نقصان سے دوچارہوناپڑا ۔ان کارروائیوں کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا،بھارتی فوج نے ان کی جاسوسی کے لئے ایک جال بچھایا تھا کہ انہیں زندہ گرفتارکیاجائے۔اسی حوالے سے انہیں ایک بد طینت مخبر کے بارے میں خبر دی گئی کہ وہ دشمن کے لئے کام کرتا ہے ،جاسوس کو مجاہدین کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی مدد سے گرفتار کیا گیا اور اسے کمانڈرمحمدسلیم کے سامنے پیش کیا گیا ۔۔کمانڈرمحمدسلیم اجلی طبیعت کے مالک تھے انہوں نے پھر بھی اسے معاف کیا اور دعادی کہ اللہ آپ کو ہدایت دے، عفودرگزرسے کام لیااور اس موقعہ پر کہا ’’۔ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے آج ہم اس کو بخش دیں گے ،ممکن ہے اللہ اس کو بدل ڈالے‘‘۔شہید محمدسلیم نے امیر حزب سید سلاح الدین احمد کے ساتھ شعبہ طلبہ میں بھی ان کے ماتحت کام کیا ،جب ماسٹر محمد احسن ڈار حزب سے الگ ہوئے اوراس نازک موڑ پر سید صلاح الدین احمدنے حزب المجاہدین کی کمان بحیثیت سپریم کمانڈر حزب المجاہدین سنبھالی تو حزب سربراہ کی ہدایت پراسے اپنے فرائض بحیثیت ناظم اعلیٰ تعلیم و تربیت جاری رکھنے کا حکم صادرہوا۔انہوں نے اپنی ذمہ داری کے دوران کارہائے نمایاں انجام دئیے ،تعزیرات حزب ترتیب دی ، حزب المجاہدین سے وابستہ مجاہدین کے لئے نصاب مقرر کیا گیا ،دن بھر مجاہدین کی سرگرمیاں کیا ہوں گی،حالات کیسے بھی ہوتے لیکن مجاہدین کو قرآن پاک سے شغف رکھنے کی تلقین کرتے تھے اور عوامی معاملات میں مداخلت سے مجاہدین کو دور رہنے کی ہدایات پر عمل کرنے پر زور دیتے تھے ، یہی وجہ تھی اور ان ہی ٹھوس اقدامات کی بنا پر حزب المجاہدین نےجموں و کشمیر کے اندر ایک امتیازی مقام حاصل کیا اور عوام کی نظروں میں حزب المجاہدین کانام ومقام ہمیشہ بلند رکھا ۔یہ وہ سنہری دور تھاجب کشمیری نوجوان حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔یہ ان پاک نفوس لوگوں کےکردار کاہی نتیجہ تھاکہ جہاں بھی جاتے لوگ ان کےدیدار کےلئے ترستے تھے ۔اس باعمل مجاہد ،انسان دوست اور دین اسلام کی خدمت کرنے والے کی اور ان سے بے پناہ محبت کرنے والےان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے چین رہتے تھے۔ان کی ایک جھلک میں نے بھی دیکھی جب ایک دفعہ پلہالن کی بستی کا بھارتی فوج نے محاصرہ کیا اور بستی کو ہر طرف سے گھیر لیا۔کماندر سلیم اس دوران مجاہدین کے ایک گروپ کی قیادت کررہے تھے ،انہوں نے کالی چادراوڑھ رکھی تھی ،ہاتھ میں کلاشنکوف اور انگلی ٹریگر پر ،بالکل کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے لئے تیار تھے ،ان کے چہرے پرجوطمانیت تھی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ،کسی قسم کا کوئی خوف ان کے چہرے پرنظر نہیں آرہا تھابلکہ وہ سکون سے اور بغیر کسی خوف کے پوری صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے انہوں نے بڑی مہارت سے مرکزی راستے پر پہنچ کر کور دیتے ہوئے باقی مجاہدین کو پہلے گاؤں کی مرکزی سڑک عبور کرالی پھر خود آخر پرسڑک عبور کرکے گاؤں کےدوسرے گنجان محلے میں داخل ہوئے۔ ان کے گزرنے کے بعد ہی بھارتی فوج کی گشتی پارٹی اسی راستے سے گزری ۔محاصرہ دن بھر جاری رہا کمانڈر کی ہدایت پر مجاہدین نے بھارتی افواج پر زور دار حملہ کرکےآخری محاصرے کی لائن بھی توڑ دی ،اللہ کی نصرت سےکمانڈرسمیت پورا گروپ بغیر کوئی نقصان اٹھائے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوا ۔مجاہدین کی تیربہدف کارروائیاں قابض فوج کے لئے ایک چلینچ بنتی جارہی تھیں اس لئے بھارتی فوج اس خصوصی گروپ کی تلاش میں علاقے کا چپہ چپہ چھان مارتی تھی اور آئےروز پورا علاقہ محاصروں کی زد میں ہی رہتا تھا ۔محاصروں کے سلسلے کومزید تیز کرتے ہوئے24 اگست 1992ء میںضلع بارہمولہ کے سوپور ہائی گام علاقے میں بھارتی فوج نے کریک ڈائون کرکے پورے علاقے کو گھیر لیا گھر گھر تلاشی شروع کردی ،شناختی پریڈ کے لئے لوگوں کو گھروں سے باہر نکالاگیا۔حزب المجاہدین کے ناظم اعلیٰ تعلیم و تربیت اپنے چار ساتھیوں سمیت اس علاقے میں موجود تھے۔کمانڈر محمدسلیم صورتحال کو بھانپ گئے اور ساتھیوں سے کہا اگر آپ ایک چال کے طور پر ہتھیار ڈال سکتے ہوتو تمہیں اجازت ہے پھر موقعہ ملے تو جہاد کی صفوں میں شامل ہوجانا۔خود وہ آخری مقابلے کی تیاری کرچکے وہ اپنا اللہ سے کیا ہوا عہد پورکرنے کے انتظار میں تھے۔ساتھیوں نے اپنے کمانڈر کی اطاعت کرنے کا عندیہ دے دیا اور کمانڈر کو جواب دہا جہاں آپ کا خون گرے وہاں پہلے ہماراخون گرے گا،ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑسکتے ہیں۔مجاہدین کی اس مٹھی بھر جماعت میں بشارت بھائی ساکن پلہالن بھی شامل تھے جو کمسن مجاہدین میں شمار ہوتے تھے۔انہیں کمانڈر کی طرف سے خصوصی طور پر کہا گیا کہ ایک جنگی حربے کے طور پر اگر آپ سرینڈر کریں بعد میںرہا ہونے کے بعد دوبارہ جہادی صفوں میں شامل ہونا۔اس کمسن مجاہد کا حوصلہ بھی دیدنی تھا انہوں نے کمانڈر سے کہا آپ شہید ہوگئے پھر جینے کا مزہ کیا اس لئےہم سے سرینڈر نہیں ہوگاہم آپ کے ساتھ ہی اس عظیم مقصد کی خاطر لڑیں گے جس کے لئے ہم نے بیعت کی ہے ۔کمانڈرمحمد سلیم اپنے ساتھیوں کی رائے جان چکے تھے کہ وہ بھی میدان میں سرکٹانے کے لئے تیار ہیں ۔

کمانڈر محمد سلیم اپنے محافظ دستے کے ساتھ اپنے ہائیڈآوٹ سے باہر آئے اور دھان کی کھیتوں میں پوزیشن لے لی حالانکہ جس مکان میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے اس کے مالک نے سو جتن کیے تھے کہ مکان میں ہی چھپے رہیں ۔کمانڈر محمد سلیم نے جواب دیا یہ ہماری روایت کے خلاف ہے ہم اپنی جان بچانے کے لئے عوام کا نقصان نہیں کرسکتے۔دس گھنٹے تک معرکہ جاری رہا ۔دونوں طرف سے شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا ،مجاہدین نے آخری گولی تک مقابلہ کیا ۔اس دوران بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا انہوں نے مزید کمک بلاکر مجاہدین پر ماٹر شیلنگ کی اور مشین گنیں استعمال کیں۔شہداءکے جسم گولیوں سے چھلنی تھے، بھارتی فوج نے شہید کرنے کے بعد شہداء کی لاشوں کی بے توقیری کی تھی ،شہید محمد یوسف لون المعروف محمد سلیم ساکن اوسن ناظم اعلیٰ تعلیم وتربیت،شہید عبدالحمید وانی المعروف رفیق حسین ساکن اوسن، شیخ محمد سلطان المعروف یعقوب سجاد(ایریا کمانڈر) ساکن پلہالن،فیاض احمد تانترے المعروف بشارت ساکن پلہالن اور غلام نبی وار المعروف بلال ساکن سوپور نے جانفشانی سے لڑ کر اس معرکے کے دوران تحریک آزادی کے لئے اپنا قیمتی لہو نچھاور کیا۔ ان پانچ سپوتوں کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی لوگ ہائی گام کی طرف روانہ ہوئے ،لوگوں کا اژدہام دیدار کے لئے جلوس کی صورت میں ہائی گام پہنچ گیا ۔لوگ دھاڑیں مار کررورہے تھے ۔ہائیگام سے ایک شہید ،غلام نبی وار المعروف بلال خان کی میت کو سوپور امر گڑھ ان کے آبائی گائوںکی طر ف تدفین کے لئے روانہ کیاگیا۔ باقی چار شہداء کو سب سے پہلے پلہالن میں لایا گیا جہاں دیدار کے لیے پورے علاقے کے لوگ جمع ہوئے اور شہداء کا دیدار کیا اوراس موقعہ پر ہر آنکھ اشکبار تھی ۔لوگوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شہداء کے جسموں سے تازہ خون بہہ رہاتھا۔ جب شہداء کےجسد خاکی پلہالن تانترے پورہ کی مسجد کے سامنے ایک میدان میں رکھا گیا تو اسی وقت بھارتی فوج کی کچھ گاڑیاں نمودار ہوئیں ،علاقے کے مجاہدین بھی اس دوران اسلحہ سمیت لوگوں میں گُھل مِل گئے تھےجب بھارت فوج کو مجاہدین پر نظر پڑی وہ یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہوئے اورانہوں نے واپس جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ مجاہدین کے دلوں میں بدلے کی آگ سلگ رہی تھی لیکن مجاہدین کو پتہ تھا کہ بزدل فوج اپنا غصہ نہتے عوام سے لے گی اس لئے وہ بھارتی فوج پر حملہ کرنے سے حکمتاََباز رہے ۔ شہید کمانڈر سلیم اور رفیق حسین کو آنسوئوں،آہوں او رسسکیوں کے ساتھ قوم کے ان عظیم سپوتوں کو اپنے آبائی گاؤں اوسن میں سپرد خاکیا گیا جبکہ کمانڈر شیخ محمد سلطان عرف یعقوب سجاد اور مجاہد بشارت کو پلہالن کے مزار شہداء میں سپرد خاک کیا گیا ۔جنازے کے موقعہ پر وائرلیس سیٹ کے ذریعے سید علی گیلانیؒ نےشہداء کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا،جبکہ شہید عبدالرشید فرحتؒ نے بھی اپنے خطاب کے دوران شہداء کوگلہائے عقیدت پیش کیا۔چنددنوں کے بعد سید علی گیلانی ؒنےشہداء کے گھروں میں حاضری دی اور ہر ایک گھر میں ورثائے شہداء کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیااور ان کی حوصلہ افزائی کی۔کمانڈر سلیم کی شہادت کے بعد علاقے کےمجاہدین نے اپنی اعلیٰ قیادت کے حکم پر بھارتی فوج پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے بھارتی فوج کے خلاف شھداء کے نام ایک فوری أپریشن شروع کیا جسے أپریشن TopTen کا نام دے دیا گیا ۔اس أپریشن کے دوران ہائی گام سے لیکر ہانجیویرہ پٹن تک نیشنل ہائی پر دس بڑی کارروائیاں کی گئیں جن میں درجنوں بھارتی فوجی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔ شہیدمحمدسلیم نے اپنی شہادت سے پہلے ہی وصیت کر رکھی تھی کہ اگر میں شہید ہوا تو مجھے شہداء کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے بلکہ گاؤں کے عام سےقبرستان میں دفن کیاجائے ۔ بوجوہ ایسا نہیں ہوسکا بلکہ انہیں کثرت رائے سے دونوں شہیدوں کواوسن کے مزار شہداء میں ہی سپردخاک کیا گیا ۔

اس مزار شہداء کے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک وسیع میدان تھا جس میں بھارتی فوجی نے ایک کیمپ قائم کیا ہوا تھا جہاں سے گزرنا عوام کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں تھا۔بھارتی فوجی یہاں سے ہر گزرنے والے کو پکڑ کر بلاوجہ تشدد کا نشانہ بنایا کرتے تھے جوانوں کو خاص کر تختہ مشق بنایا جاتا تھا ۔ رات کے وقت اس فوجی کیمپ کے آفیسر کو خواب میں روز شہید سلیم گھوڑے پر مسلح سوار ہوکر نظر آتے تھے اور ان کے کیمپ پر فائرنگ کرتے تھے ،بھارتی فوجی آفیسر خوف کے عالم میں بیدار ہوکر چیختا تھا اور اپنی رائفل تھام کر پورے کیمپ کے فوجیوں کو چلاچلا کرکہتے تھے کمانڈر محمدسلیم آرہے ہیں ، ہم پر حملہ کررہے ہیں انہیں پکڑو، فوجی اہلکار آفسرکو سمجھاتے کہ رات کا وقت ہے کہیں سے کوئی فائرکی آواز نہیں آرہی ہے،یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا ۔ اس صورتحال سے تنگ آکر فوجی آفیسر نے گاؤں کے بزرگوں سے اس حوالے سے بات کی کہ شہید کمانڈر سلیم نے ہماری نیندیں حرام کیں ہوئی ہیں ہم نہ رات کو سو سکتے ہیں نہ دن کو، وہ شہید ہونے کے بعد بھی وہ ہم پر رات کی تاریکی میں ہمارے کیمپ پرحملہ کرتے ہیں۔فوجی آفیسر نے بزرگوں کی منتیں کیں کہ ہمیں اس مصیبت سے نکلنے کا حل بتائیں۔بزرگوں نے فوجی آفیسر کو جواب دیتے ہوئے کہا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ آپ اس کیمپ کو یہاں سے ختم کریں ۔فوجی آفیسر نے اس خوف کی وجہ سے اس فوجی کیمپ کو وہاں سے اٹھانے کا حکم صادر کردیا اس کے بعد علاقہ اس کیمپ کے عتاب سے کسی حد تک بچ گیا۔اس طرح شہادت کے بعد بھی کمانڈر محمدسلیم شہید دشمن کےلئے خوف کی علامت بن کر ان کے اعصاب پر سوار رہے۔ ۔۔ نائب امیر حزب سیف اللہ خالد نے شہید کمانڈر محمد سلیم کو شاندار خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے ایک ایسا واقعہ سنایا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ہماری تحریک آزادی، انصاف اور رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ہے ۔فرمایا کہ ان کی شہادت کے حوالے سے سرینگر سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے ایک دیرینہ بزرگ رہنما حکیم غلام حسن نے شہید سلیم کی شہادت کے ایک دن بعد خواب دیکھا۔’’خواب میں حکیم غلام حسن نے دیکھا کہ ایک گاڑی آکر ان کے سامنے رک گئی ۔اس گاڑی کےاندر ایک بزرگ و اعلیٰ شخصیت تشریف فرما تھےجنہیں حکیم صاحب نے ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی پہچان لیا ،وہ شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ تھے ۔مولانا مودودیؒ نےحکیم غلام حسن سے مخاطب ہوکر فرمایا آپ تیاری کریں اور ہمارے ساتھ چلیں ہم شھید سلیم کے علاقے اوسن کی طرف ان کے جنازے میں شرکت کے لئے جارہے ہیں اور ہمارے ساتھ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما ہیں‘‘ اس کے ساتھ ہی حکیم غلام حسن کا کہنا ہے کہ ان کی آنکھ کھلی۔۔کمانڈر محمد سلیم ایک سچے عاشق رسول تھے جنہیں خود رسول اللہ خواب میں آئے اور مجاہدین کی فوج کا افسر بننے کی بشارت دی ۔حسین خواب بھی شھید کے محب رسولﷺ ہونے کی دلیل ہے۔تاریخ میں ان جانبازوں کے ایثار،خلوص محبت ،شجاعت کی داستان ہمیشہ زندہ رہے گی۔اللہ تعالیٰ اس عظیم شہید سمیت تمام شہداءکی قربانیاں قبول اور امت مظلومہ کشمیر کو اسلام وآزادی کی نعمت عظمیٰ سے مالامال کردیں۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں