شہید ابو عبیدہ

محمد شہباز بڈگامی

پھر ایک معرکہ لڑا گیا۔بہی باغ کڈر کولگام پھر خون میں غلطان ہوا۔ چشم فلک نے پھر ایکبار یہ منظر دیکھا کہ اہل کشمیر کے گبرو جوان اور سرزمین کشمیر کے بیٹوں نے ایک بڑی فوجی قوت کے سامنے اپنی سرفروشانہ روایت دوہرائی اور شہادت کو اپنی زندگیوں پر ترجیح دی۔یہی اہل کشمیر کا ازل سے دستور رہا ہے اور آج بھی کشمیری بچے اسی پر عمل پیرا ہیں۔بار بار ایسے مناظر وطن عزیز میں دیکھے اور سنے جارہے ہیں۔بھارت اہل کشمیر کے بیٹوں کی شہادتوں کو بڑے گھمنڈ اور غرور کیساتھ اپنی کامیابی سے تعبیرکرنے میں ذرا بھی ہچکچاتا نہیں ہے،مگر اہل کشمیر کے ان بچوں پر نہ جانے کیا جنون سوار ہے کہ وہ بار بار بھارت کیساتھ ٹکرانے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا کامیابی و کامرانی میں ہی تلاش کرتے ہیں ۔ایک جنون ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔قوموں کی تواریخ میں کٹھن اور سخت مراحل بھی پیش آتے ہیں،اہل کشمیر نے ہر مرحلے میں سے خود کو سرخرو ہوکر نکالا ہے۔19دسمبر جمعرات کی صبح سویرے کڈر بہی باغ کولگام میں سیبوں کے ایک باغ،جس سے آج گھنا اور سرسبز تو کسی صورت نہیں کہا جاسکتا ،دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں درختوں سے ٹکرانے اور پھر اپنی پت جڑ ٹہنیوں میں موجود پانچ نوجوانوں کیلئے کچھ روٹھی روٹھی سی لگ رہی تھیں۔دشمن نے پورے علاقے کا باالعموم اور مذکورہ سیبوں کے باغ کا بالخصوص رات کے آخری پہر محاصرہ کررکھا تھا۔باغ میں پانچ گبرو جوان ٹھہرے تھے،انہیں بھارتی فوجی محاصرے کا علم ہوچکا تھا،وہ گھیرے میں آچکے تھے۔ان کے پاس دو راستے تھے۔ایک زندگی جینے کا اور دوسرا اپنے ماتھے پر شہادت کا تمغہ سجائے امر ہونے کا،سو انہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔حالانکہ زندگی کس ذی حس کو پیاری نہیں،حتی کہ جانور ،پرند اور درختوں کو بھی ،مگر یہاں معاملہ مختلف تھا ۔نار نمرود کو تب ہی گلزار میں تبدیل کیا جاتا ہے ،جب اس میں کودا جاتا ہے۔کودا جانا ہی شرط اول ٹھہری ہے۔پانچوں مجاہدین کو زندگی اور زندہ رہنے کی کھلی پیشکش کی گئی۔انہیں کہا گیا کہ وہ دشمن کے سامنے اپنے ہتھیار رکھ دیں۔یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا۔بڑا سے بڑاولوالعزم بھی کچھ دیر کیلئے زندگی اور زندہ رہنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔البتہ اہل کشمیر کے بچوں نے شروع دن سے لیکر آج تک اپنی گردنیں ہی کٹوائیں،مگر اپنے دامن کو میلا کرنے کی نوبت نہیں آنے دی۔اسی روایت کو بہی باغ کڈر کولگام کے باغ میں موجود پانچ کشمیری بچوں نے بھی نہ صرف قائم اور برقرار رکھا بلکہ اپنی گردنیں کٹوا کر یہ اعلان بھی کیا کہ توپ و تفنگ سے انسانوں کو ان کی سانسوں سے محروم تو کیا جاسکتا ہے ،مگر ختم نہیں۔یہ دنیا کا مروجہ اصول بھی ہے کہ قربانیاں دینے والے ہی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوجایا کرتے ہیں،اور بلاشبہ ابو عبیدہ اور ان کے چار دیگر احباب بھی اپنا گرم گرم لہو بہا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں،جس میں ان کا دنیا کے محل نما قید خانوں میں رہنے والے دور دور تک مقابلہ نہیں کرسکتے۔ فاروق احمد بٹ جو ابو عبیدہ کے نام سے برہمن سامراج کے خلاف برسر پیکار رہے،اپنا سب کچھ تحریک آزادی پر تج دیا۔ان کیساتھ جو دوسرے سرفروش وطن کی مٹی پر قربان ہوگئے،ان میں مشتاق احمد ایتو عرف فیضان ،یاسر جاوید بٹ عرف مومن ،عرفان یعقوب عرف انس اور عادل حسین حجام عرف احمد شامل ہیں۔ان لوگوں کے جذبوں کو جتنا سلام عقیدت پیش کیا جائے ،کم ہے۔ اپنے ان بیٹوں کی ان قربانیو ں پر آج ان کے گھر والے بھی شاداں و فرحان ہیں اور یقیناََ ان کی مائوں کو ان پر فخر ہے۔یہ شہدا غاصب بھارت کے خلاف برسر پیکار حزب المجاہدین کیساتھ وابستہ تھے،جو حالات کے تمام تر جبر کے باجود آج بھی اپنا خون بہانے میں پیش پیش ہے،جس کا اعتراف دشمن بھی کررہا ہے۔

شہید ابو عبیدہ حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر کے فرائض انجام دے رہے تھے اور شہرہ آفاق معصوم شہید رہنما برہان مظفر وانی کے قریبی ساتھوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔وہ 30 مئی2015 ءسے میدان کارزار میں درندہ صفت بھارتی افواج سے دو دو ہاتھ کرنے میں مصروف عمل تھے۔جبکہ شہید آپریشنل چیف ڈاکٹر سیف اللہ میر کے بعد حزب المجاہدین کی صفوں کو منظم اور مربوط کرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کیں۔ایسے لوگوں کے نظریئے کو ختم کرنا نہ پہلے ممکن تھا،نہ اب ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ایسے نوجوان تاریخ ساز ہوتے ہیں ،جو تاریخ میں گم نہیں بلکہ تاریخ کو اپنے بے بدل کردار سے نیا رخ دیتے ہیں ۔یہ بے لوث اور بے غرض لوگ جنہیں دنیا سے بے رغبتی انہیں وہ مقام اور مرتبہ عطا کرتی ہے،جس کیلئے دوسرے صرف ترستے ہیں۔کہاں ان کا مقام اور مرتبہ ۔ابو عبیدہ نہ پہلے شہید ہیں اور نہ ہی آخری۔نہ جانے اس راستہ پرخار میں مزید کتنے ابو عبیدہ کام آئیں گے۔یہ سعادت ہر ایک کے نصیب اور حصے میں کہا ں۔جس ماں نے ابو عبیدہ کو جنم دیا ،وہ بھی قابل فخر اوربیٹا بھی قابل ستائش۔سرزمین کشمیرکی مائیں جب تک ایسے بیٹوں کو جنم دیتی رہیں گی،حق باطل کیساتھ نبرد آزما رہے گا، کیونکہ حق اور باطل ایک دوسرے کی زد ہیں،اور تاصبح قیامت نہ صرف یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا،بلکہ حق پرستوں کا اپنا سایہ بھی ان کا ساتھ چھوڑ دے گا،مگر وہ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود بھی اللہ کی کبریائی کا ڈنکا بجاتےرہیں گے۔یہی کارنامہ شہید ابو عبیدہ اور ان کے ہمرکاب احباب نے بھی انجام دیا۔جہاں ایک طرف سامان حرب و ضرب،توپ و تفنگ سے لیس سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں تھے،تو انکے مقابل صرف پانچ نفوس،جن کا نظریہ کہ اس کائنات کا خالق و مالک صرف ایک اللہ واحدہ لاشریک ہیں،وہی پانی کے ایک قطرے کو زندگی بخش کر اس سے اپنے ایک خدا ہونے کا احساس دلاتا ہے،پھر جوانی کی دہلیز اور پھر بڑھاپے کی حالت میں پہنچاتا ہے۔دوسری جانب گائو ماتا اور گائے کا پیشاب پینے اور گوبر کھانے والے ،بھلا کیا موزانہ ہوسکتا ہے۔مرنے کے بعد پھر اٹھائے جاوئو گے۔ حساب وکتاب اور نامہ اعمال ،سب کچھ انسان کے سامنے سکرین پر بار بار چل رہا ہوگا۔تو پھر اللہ کی ذات پر ایمان رکھنے والاگائو موتر پینے والوں کے سامنے کیسے ہتھیار ڈالتا،ہتھیارڈالنا تو دور سوچے گا بھی نہیں۔

سو ابو عبیدہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی زندگی کا آخری معرکہ لڑا،تو خوب لڑا،اپنے تو اپنے پرائے بھی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔کہ ان بچوں نے اپنے پاس موجود قلیل وسائل کو بروئے کار لاکر جہاں وہ اپنی جانوں سے گزر گئے،وہیں دشمن کو بھی کاری ضرب سے دوچار کیا۔یہی ان بچوں کا مقصد اور نظریہ تھا،جس کو لیکر یہ اٹھے تھے۔یہ بچے اپنی نظر پوری کرچکے ہیں۔ان بچوں نے کسی تفریق کے بغیر اپنا آج قوم کے کل پر قربان کیا ہے،ورنہ زندہ رہنے کا کس کا جی نہیں کرتا۔مگر جب زندگی سے بڑھ کر مقصد اور اللہ تعالی کی رضا کار فرما ہو،تو وہاں زندگی کے ایام کی نہیں بلکہ حیات جاوداں پانے کی جستجو ایک کلمہ گو کے مد نظراور حصول قرارپاتا ہے۔ اسی اصول پر حزب المجاہدین اپنے قیام سے لیکر آج تک کار فرما ہے۔جس نے اس تنظیم کی اساس کو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اس کو قدم قدم پر مشکل حالات سے نکالا۔کتنے نشیب و فراز سے حزب المجاہدین کو آج تک گزرنا پڑا ۔البتہ اللہ تعالی نے اس تنظیم کیساتھ وابستہ اولوالعزم اور معصوم شہداء کے خون اور قربانیوں کی لاج رکھی ہے۔اور پھر اس تنظیم کیساتھ وابستہ ہزاروں شہدا،ان کے لواحقین ،ہمدردوں اور متاثرین کی قربانیوں کے امین درویش منش جناب سید صلاح الدین احمد،جو خود قربانیوں کی ایک بے مثال تاریخ کے حامل ہیں،جن کے دو لخت ہائے جگر اس وقت بھی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں، آج بھی اپنا سب کچھ اپنی تنظیم کی افرادی قوت ،اس کی حربی استعداد کار کو استعمال میں لاکر اہل کشمیر کے سینوں میں اس شمع کو بجھنے نہیں دینے کے عمل میں مصروف ہیں،جس کیلئے لاکھوں قربانیاں دی جاچکی ہیں،اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔معرکہ کولگام میں اپنی نذر پوری کرنے والے بچوں کو عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے جناب سید نے کہا کہ جس قوم کے بہادر نوجوان اسلام و آزادی کے حصول کیلئے اپنا لہوہر وقت بہانے کیلئے تیار ہو ں، اس قوم کو زیر کرناممکن نہیں ہے،اور بھارت اس بات سے بخوبی آگاہ بھی ہے کہ تمام تر ظلم و جبر کے باوجود بھی وہ اہل کشمیر کو عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار نہیں کراسکا ۔جناب سید نے غازی طارق الاسلام کو حزب المجاہدین کا نیاچیف آپریشنل کمانڈر اور غازی محمود غزنوی کو ڈپٹی چیف کمانڈر آپریشنز مقرر کرکے انہیں تنظیم کی کربلائی سنت اور اپنی لازوال قربانیوں کی درخشندہ روایات کو زندہ رکھنے کی تاکید بھی کی،جس پر آج تک حزب المجاہدین اور اس کیساتھ وابستہ میدان کار زار میں موجود سرفروش مصروف عمل ہیں۔ یہاں ا س بات کا بھی تذکرہ ناگزیر ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پولیس نے لوگوں کوشہید فاروق احمد بٹ کے گھر اظہار یکجہتی کیلئے بھی جانے سے روک دیا۔ بھارتی فوجیوں نے لوگوں کو یہ دھمکی بھی دی اگر وہ شہید نوجواں کے گھر گئے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔اس اقدام سے بھارت اور اس کی درندہ صفت افواج کی جانب سے اہل کشمیر کیساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور بربریت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،کہ اہل کشمیر کو اپنے شہید بچوں کے خون سے سینچی جانے والی تحریک آزادی کیساتھ وابستگی کیلئے کیا کیا سہنا پڑتا ہے۔

***

محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔