شہید ارشد ایوب

اعجاز ناز کی

سر زمین کشمیر نے اپنے دامن میں بے شمار جانبازوں کو جنم دیا ہے، مگر کچھ نام ایسے ہیں جو تاریخ کے سینے پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نام ہے عبدالرشید کار عرف ارشد ایوب شہیدہے۔وہ مردمجاہد جو دشمن کے سامنے فولاد کی طرح سخت اور اپنے ساتھیوں کے لیے ابریشم کی مانند نرم تھے۔ ان کی شہادت صرف ایک فرد کی جدائی نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک نظریے اور ایک جذبے کی تکمیل تھی۔ارشد ایوبؒ وہ شخصیت تھے جنہیں کشمیر کے پہاڑ، جنگل، وادیاں، مورچے اور محاذ بخوبی جانتے تھے۔ دشمن ان کی جرأت سے خائف اور ساتھی ان کی شفقت سے مسحور رہتے تھے۔ سینکڑوں تیر بہدف کارروائیاں، دشمن سے چھینے گئے اسلحے کے ڈھیر، اور وہ بے خوف مسکراہٹ… سب کچھ جیسے ان کے نام کے ساتھ ایک تاریخ بن چکا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے،بندوق انسان بناتا ہے، جذبہ اللہ دیتا ہے اور جسے اللہ جذبہ دے، اس کے مقابلے میں دنیا کی کوئی فوج کھڑی نہیں رہ سکتی۔ارشد ایوبؒ اکثر کہا کرتے کہ کشمیر کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہم سے زیادہ باہمت ہیں۔ انہیں موت سے کیا خوف؟ وہ تو بچپن سے اپنے بیٹوں کو تعلق باللہ اور جہاد کے وہ گر سکھا دیتی تھیں جو کسی فوجی اکیڈمی میں نہیں پڑھائے جاتے۔ ارشد ایوبؒ خود خالد بن ولیدؓ کے عاشق تھے اور ان کے غزوات کو اپنی عملی زندگی کا نصاب قرار دیتے تھے۔آزاد کشمیر کی طرف جب وہ پہلی بار خونی لکیر پھلانگ کر پہنچے تو سرحدی حد بندی پر پاکستان کا جھنڈا نصب کرنا ان کا پہلا کام تھا۔وہی مقام جہاں انسانی آوازوں سے زیادہ جنات کی صدائیں سنائی دیتی تھیں۔ ان کے ساتھی اکبر بھائی اور شہید عبدالباقی قریشی کے بقول،ارشد ایوب صرف مجاہد نہیں، قائد مجاہدین بھی ہیں۔نوے کی دہائی کے اوائل میں انہیں ضلع کپواڑہ کا ملٹری ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔

ہم سب انہیں مبارکباد دینے نکلے، مگر پچاس کلومیٹر کا سفر جیسے ایک پوری کتاب بن گیا۔ ہمیں ایک چٹ دے دی گئی جس میں لکھا تھاکہ ڈبل روٹی، ڈرائی فروٹ ساتھ رکھئے… اگلے مورچے میں مہمان نوازی کی حدود بدل جاتی ہیں۔مورچے میں ریچھ کی کھال کو بجلی سے حرکت دے کر دشمن کو دھوکہ دینے کا انوکھا طریقہ تھا۔ دشمن سو گز کے فاصلے پر تھا، مگر حکم تھاکوئی فائر نہیں کرنا… ارشد ایوب ابھی موجود ہیں۔نقاب میں چھپے اس شخص نے جب جھپٹ کر اپنا تعارف کرایا تو سانس رک گئی۔۔وہ ارشد ایوبؒ ہی تھے۔ارشد ایوبؒ کا نظریہ واضح تھاکشمیر محض سرزمین نہیں، پاکستان کی دفاعی پٹی ہے۔ یہاں کی کمزوری اسلام آباد کی کمزوری ہے۔یہی وہ مقدمہ ہے جسے ہمارے بزرگوں نے بھی دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ملکت خداداد پاکستان محض جغرافیہ نہیں، بلکہ ایک الٰہی امانت ہے، جس کی حفاظت بھی اللہ کے ذمہ ہے۔علامہ اقبالؒ نے شاید انہی مجاہدین کے لیے فرمایا تھا:
موت ہے وہ زندگی جس میں نہ ہو انقلاب
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
آزاد کشمیر پہنچ کر جب ارشد ایوبؒ نے جنگی پوشاک زیب تن کی تو یہ ان کا اعلان تھا کہ اب زندگی کا ہر قدم شہادت کی طرف لے جائے گا۔ اسی دوران انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بابائے ایٹم بم سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ دو مرد مومن، دو محافظ وطن، ایک ہی فکری کڑی میں جڑے ہوئے۔بھارت کی فوجی خفیہ رپورٹس میں لکھا گیا ہے۔اگر ارشد ایوب جیسے کمانڈر چند سال اور فعال رہے تو کشمیر میں قدم جمانا ہمارے لیے ناممکن ہو جائے گا۔وہ پیدائشی گوریلے تھے،انہیں صرف طریقہ نہیں، میدان کا مزاج بھی ازبر تھا۔ ان کی کارروائیوں میں سینکڑوں بھارتی فوجی مارے گئے—یہ ریکارڈ آج بھی خفیہ فائلوں میں دشمن کا خوف بن کر محفوظ ہے۔
جب وہ محاذ پر گھیرے گئے تو دشمن نے انہیں زندہ حوالگی کی پیشکش کی۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر نے بعد میں اعتراف کیاکہ انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ ہمیں اس دشمن کو سلامی پیش کرنی پڑی ۔یہ اعتراف صرف ایک فرد کی عظمت نہیں، ایک نظریے اور ایمان کی صداقت کا اعلان تھا۔وہ اللہ کی قدرت کا انمول تحفہ تھے،ایمان، فہم، حکمت، جرأت اور ثابت قدمی کا مجموعہ۔کشمیر کی تحریک آزادی میں ان کا نام ان عظیم کرداروں کی صف میں شامل ہے جو جسمانی طور پر تو مٹ جاتے ہیں مگر اپنے نظریے کو امر کر جاتے ہیں۔ارشد ایوبؒ جیسے شہید محاذ چھوڑتے نہیں،بس مورچہ بدلتے ہیں…زمین سے آسمان تک۔اللہ تعلیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔