شاہ مِیر عالم
رمضان المبارک2021 کا آخری عشرہ چل رہا تھا اور میں اپنی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا تھا۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری تھی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ حسبِ معمول مسلم دنیا کی طرف سے کوئی خاص ردِعمل نہیں آ رہا تھا، وہی روایتی مذمتی قراردادیں اور بیانات کا گھسا پٹا سلسلہ۔ چنانچہ میں مسجد میں بیٹھا پیچ و تاب کھاتا مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کوسنے دے رہا تھا کہ 5 مئی 2021 میں ایک اور دلدوز خبر موصول ہوئی کہ تحریکِ حریت کے چئیرمین محمد اشرف صحرائی المعروف صحرائی صاحب جموں کے اسپتال میں شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو گئے ہیں۔ اس وقت دل کی کیفیت عجیب ہو رہی تھی اور نا چاہتے ہوئے بھی یہ خدشہ ذہن میں سر اٹھا رہا تھا کہ تحریکِ آزادی کشمیر کا اب کیا انجام ہوگا؟امام سید علی گیلانیؒ کے بعد اگر کوئی اس بوجھ کو اٹھانے کی سکت رکھتا تھا، کشمیری قوم اگر کسی پہ بھروسہ کر سکتی تھی تو بلاشبہ وہ صحرائی صاحب ہی تھے۔ اب جب صحرائی صاحب ہی نہیں رہے تو تحریکِ حریت کا کیا بنے گا۔
محمد اشرف خان المعروف محمد اشرف صحرائی المعروف صحرائی صاحب 1944 میں سرحدی ضلع کپوارہ کے ٹکی پورہ لولاب میں پیدا ہوئے۔ وہی لولاب جہاں مشہور محدث اور عالمی شہرت یافتہ عالم دین علّامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ پیدا ہوئے تھے۔ وہی لولاب جسے حکیم الامت علّامہ اقبال ؒنے ”اے وادی لولاب” کہہ کر پکارا تھا۔ دینی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے صحرائی ؒصاحب کا مزاج اول روز سے ہی اقامتِ دین کی طرف رغبت رکھتا تھا۔ اپنے بڑے بھائیوں کی وجہ سے ان کی تربیت خاص اسلامی انداز میں انجام پائی۔ جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ساتھ وابستگی میں بھی بڑے بھائیوں کا کردار رہا۔ تاہم اس ضمن میں یہ واقعہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جماعت اسلامی کے اسلاف نے تحریک اسلامی کو خلقِ خدا تک پہنچانے کے لیے کیسے کیسے جتن کئے ہیں۔ یہ واقعہ مجھے اپنے والد صاحب کے توسط سے معلوم ہوا۔ غالباً 1960 کی دہائی کی بات ہے مولانا سعد الدین ؒامیر جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر اور سید علی گیلانیؒ امیر ضلع بارہ مولہ (ضلع کپوارہ اور ضلع بانڈی پورہ اس وقت تک بارہ مولہ کا ہی حصہ ہوا کرتے تھے) کی حیثیت سے گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ جا کر تحریکِ اسلامی کا پیغام پہنچاتے تھے۔ اسی سلسلے میں یہ دونوں حضرات لولاب بھی پہنچ گئے۔ رات کو ٹکی پورہ کی مسجد میں قیام کیا۔ عشاء کی نماز کے بعد جب سارے نمازی اپنے گھروں کی طرف چل دیئے تو یہ دونوں حضرات وہیں مسجد میں ہی آرام فرمانے لگے۔ صحرائی صاحب غالباً مسجد سے نکلنے والے آخری مقامی آدمی تھے۔ گھر پہنچ کر انہوں نے اپنے بڑے بھائی صاحب سے کہا کہ مسجد میں دو مہمان آئے تھے جو ابھی تک وہیں قیام پذیر ہیں۔ یہ سن کر ان کے بڑے بھائی بولے کہ فوراً جا کر انہیں اپنے ساتھ لے آؤ اور گھر میں ان کے قیام و طعام کا بند و بست کر دو۔ صحرائی صاحب جب واپس مسجد پہنچے تو دیکھا کہ سید علی گیلانی صاحب اذان اخبار کا گھٹا سرہانے رکھ کر سو رہے ہیں اور مولانا سعد الدین صاحب پاس ہی آرام فرما ہیں۔ چناچہ صحرائی صاحب دونوں حضرات کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور رات دیر گئے تک دونوں حضرات کے ساتھ تحریکِ اسلامی کا نصب العین اور طریقہ کار پر گفت و شنید ہوئی اور بالآخر اس طرح سے صحرائی صاحب کے خانوادے کا جماعتِ اسلامی کے ساتھ تعارف ہوا، تعارف بھی ایسا کہ تمام عمر اسی مشن کی آبیاری کرتے گزار دی یہاں تک کہ جان جانِ آفریں کو سونپ دی۔ گیلانی صاحب خود فرماتے ہیں کہ امیرِ ضلع بارہ مولہ کی حیثیت سے جب کبھی میں کپوارہ جاتا تو قیام صحرائی صاحب کے یہاں ہی کیا کرتا۔ کہتے ہیں کہ صحرائی صاحب کی والدہ نے گیلانی صاحب سے کہا تھا کہ (یہِ ہز چھی حوالہ) بیٹا یہ اب آپ کے حوالے ہے۔ گیلانی صاحب نے یہ بات گرہ میں باندھ لی اور پھر ساری عمر یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ چلتے رہے۔ 21 سال کی عمر میں پٹن بارہ مولہ میں آپ نے موئے مقدس کی گمشدگی پر تقریر کی جس میں آپ نے حکومت کے خلاف سخت لہجہ اختیار کیا۔ جمہوریت کے دعویداروں نے اس کی پاداش میں آپ کو پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیا۔ 1970 میں جب کشمیر میں شیخ محمد عبداللہ کا طوطی بول رہا تھا اور لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ شیخ محمد عبداللہ کے مد مقابل آنا کسی کے بس کی بات نہیں، اس وقت جماعت اسلامی نے شیخ عبداللہ کے بُت کو پاش پاش کرنے کے لیے صحرائی صاحب کو گاندربل میں شیخ عبد اللہ کے خلاف میدان میں اتارا۔ چنانچہ صحرائی صاحب خود فرماتے ہیں ” ہم (جماعتِ اسلامی) نے صرف شیخ عبداللہ کے بت کو توڑے کے لیے انتخاب میں حصہ لیا تاکہ لوگوں کو یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ شیخ عبداللہ کوئی ناقابلِ تسخیر شخص نہیں ہیں”۔

جماعتِ اسلامی کی تاریخ میں 1977 کی شوریٰ کا اجلاس ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس بارے میں محترم صحرائی صاحب فرماتے ہیں کہ ”1977 کی مجلس شوریٰ کا اجلاس علاقہ زینہ گیر کے زالُورہ گاؤں میں شیخ محمد سلیمان کے گھر پر منعقد ہوا۔ یہ اجلاس برابر چار دن تک جاری رہا جہاں بہت سارے مسائل پر بحث و تمحیص ہوئی۔ یہاں تک کہ امیرِ جماعت کو تبدیل کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور آئی اور محترم سید علی گیلانی صاحب کو امیرِ جماعت بننے کی پیشکش کی گئی جسے سن کر محترم گیلانی صاحب جذباتی ہوگئے اور انہوں نے یہ کہہ کر اپنی قمیض پھاڑ ڈالی کہ ”کیا میں امیرِ جماعت بننے کے لائق ہوں”۔ دراصل مولانا سعد الدین صاحب کے ہوتے ہوئے کوئی کسی دوسرے امیرِ جماعت کے بارے میں سوچنا آفتاب کو شمع دکھانے کے برابر تھا۔ خیر، اس اجلاس میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ جماعتِ اسلامی کو نوجوانوں کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے اور ان کی تربیت کے لیے ایک الگ تنظیم وجود میں لانی چاہیے۔ بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ نوجوانوں کی تنظیم سازی کے لیے میری قیادت میں ایک الگ تنظیم کو معرضِ وجود میں لایا جائے۔ جب اس تنظیم کا نام رکھنے کی باری آئی تو میں نے ہی یہ تجویز دی کہ جب مولانا مودودی نے پاکستان میں نوجوانوں کے لئے تنظیم بنائی تو اس کا نام اسلامی جمعیتِ طلبہ رکھا، میرے خیال میں یہ نام نہایت ہی موزوں ہے اور ہمیں بھی یہی نام برقرار رکھنا چاہیے۔چنانچہ اسلامی جمعیتِ طلبہ جموں و کشمیر کا قیام 1977 میں شوریٰ کے اجلاس میں عمل میں آیا اور مجھے جمعیت کا پہلا ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا گیا”۔ وہ دن ہے اور آج کا دن اسلامی جمعیتِ طلبہ نے الحمد للہ کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ سالوں پہلے راقم کو ایک زعیمِ جماعت نے یہ بتایا کہ 1985 میں جب جماعتِ اسلامی کے نئے امیر کا انتخاب ہوا تو محترم صحرائی صاحب جماعت اسلامی کے دوسرے امیر منتخب ہوئے لیکن موصوف اس وقت جموں جیل میں نظر بند تھے، اس وجہ سے دوبارہ انتخاب عمل میں لایا گیا اور محترم غلام محمد بٹ صاحب جماعتِ اسلامی کے دوسرے امیر منتخب ہوئے۔رہائی کے بعد صحرائی صاحب ایک عام کارکن کی طرح تحریک کے کام میں جٹ گئے۔ یہ ان کی اِطاعت امیر کا زریں نمونہ تھا۔
1987 کے انتخابات میں ریکارڈ توڑ دھاندلیوں کے نتیجے میں جب کشمیری نوجوانوں نے عسکریت کا راستہ اختیار کیا تو بھارتی ا فواج کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ کشمیریوں کا قتلِ عام کرے، جماعتِ اسلامی کی قیادت بالخصوص تختہ مشق بنائی گئی۔ آپریشن کلین اپ Operation Clean up اور کیچ اینڈ کِل Catch and Kill کے ذریعے جماعت اسلامی کے ارکان کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق نوّے کی دہائی میں جماعتِ اسلامی کے 2500 اور دوسری روایت کے مطابق 1500 ارکان کو بھارتی ا فواج نے شہید کر دیا۔ جماعتِ اسلامی کے ایک رُکن میر عبد الرزاق جو بچرو صاحب کے نام سے مشہور تھے، کولگام حلقے سے متحدہ محاذ کے ٹکٹ پر ریاستی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ انہیں آرمی میجر نے کولگام مارکیٹ میں پہلے گھسیٹا اور اس کے بعد گولی مار کر شہید کر دیا۔ کہتے ہیں گولی مارتے وقت بھارتی میجر نے بچرُو صاحب سے کہا تھا کہ اگر تم یہ کہو گے کہ میرا جماعتِ اسلامی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور میں رکنِ جماعت نہیں ہوں تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ لیکن اس مردِ آہن نے بھارتی میجر کو جو جواب دیا وہ تاریخ میں لکھنے کے قابل ہے۔ بچرو صاحب نے کہا کہ تم مجھ سے کہہ رہے ہو کہ میں اسلام چھوڑ دوں اور جماعتِ اسلامی سے خود کو لاتعلق کر لوں، لیکن یاد رکھو میرا نام میر عبد الرزاق ہے اور میں جماعتِ اسلامی کا رکن تھا، ہوں اور ان شاء اللہ مرتے دم تک رہوں گا”۔ یہ سنتے ہی اس میجر نے بچرُو صاحب کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ ان ہنگامہ خیز حالات کے دوران بھی جب جماعتیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کے احکامات تھے، صحرائی صاحب تب بھی ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اخوانی (سرکاری بندوق برداروں کی قاتل تنظیم) کو صرف اور صرف جماعتِ اسلامی کا صفایا کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا۔ اخوانیوں کا نعرہ تھا ”سو مجاہد ایک جماعتی” یعنی سو مجاہدوں کے بجائے جماعت اسلامی کے ایک رکن کو مارنا بہتر ہے کیونکہ ایک جماعتی اور سو مجاہدوں کے برابر ہے۔ ان حالات میں جب جماعتِ اسلامی کے ارکان کا قتل ریاست کی ایما پر ہو رہا تھا، محترم صحرائی صاحب نے اس وقت بھی جماعت کے ساتھ وفا نبھائی۔ ایک بار ایک زعیمِ جماعت سے پوچھا تھا کہ حضرت آپ جماعتِ اسلامی میں کیونکر آگئے۔ تو جواباً انہوں یہ واقع سنایا؛ غالباً 1967 یا 1968 کی بات ہے، جون جولائی کی گرمی تھی اور آسمان آگ برساتا محسوس ہو رہا تھا۔ میں اپنے گھر میں بیٹھا رستے کی اور دیکھ رہا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان پا پیادہ گرد و غبار سے اٹا اور پسینے سے شرابور، پیروں میں فوم کے جوتے پہنے کاندھے پر بڑا سا تھیلا اٹھائے آ رہا ہے۔ جب یہ نوجوان میرے قریب پہنچا تو اس کی حالت قابلِ رحم تھی۔ میں نے اسے روک کر پانی پیش کیا جو اس نے قبول کیا۔ علیک سلیک کے دوران میں نے اس شخص سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کون ہیں اور کہاں جانا ہے، اتنے بڑے تھیلے میں آپ کیا لے جا رہے ہیں؟ اس نوجوان نے کہا کہ میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کا رکن ہوں اور قیّمِ ضلع بارہ مولہ کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہا ہوں۔ اس تھیلے میں جماعتِ اسلامی کے ہفت روز ”اذان” کے شمارے اور سید مودودی کی کتابیں ہیں جو جماعت کے کپواڑہ دفتر پہنچانی ہیں”۔ زعیمِ جماعت صاحب فرماتے ہیں کہ یہ نوجوان اور کوئی نہیں بلکہ محمد اشرف صحرائی صاحب تھے اور اسی لمحے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں بھی جماعتِ اسلامی کے ساتھ جڑوں گا۔ بھلا، جو تنظیم نوجوانوں میں ایسا جذبہ پیدا کرتے ہو اس کا رکن بننے میں پس و پیش کیسا۔یہ صحرائی صاحب کی داعیانہ زندگی کی صرف ایک مثال ہے۔ اگر تلاش کرنے پر بیٹھ جائیں تو نہ جانے ایسے ہی اور کتنے بندگانِ خدا صحرائی صاحب کی بدولت تحریکِ اسلامی کا حصّہ بن گئے ہوں۔ قیّمِ ضلع کے علاؤہ صحرائی صاحب نے جماعتِ اسلامی میں مختلف ذمہ داریاں انجام دیں جن میں امیرِ ضلع کپواڑہ، قیّمِ جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر، نائب امیرِ جماعت اسلامی جموں و کشمیر اور ناظمِ شعبہ سیاسیات قابلِ ذکر ہیں۔
مسئلہ کشمیر کو لے کر 2004 میں جب سید علی گیلانی صاحب نے تحریکِ حریت کا قیام عمل میں لایا تو صحرائی صاحب اس کے پہلے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ سیاسی فہم و فراست اللہ تعالیٰ نے ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ بعض معاملات میں صحرائی صاحب سید علی گیلانی صاحب سے بھی زیادہ سخت موقف رکھتے تھے۔ سیاسی مدبّر ہونے کے علاؤہ صحرائی صاحب تقریر و تحریر میں بھی کمال رکھتے تھے۔ بدقسمتی سے امام گیلانی صاحب ؒکے برعکس انہوں نے کوئی کتاب تحریر نہیں کی جس سے لاکھوں تشنگانِ علم فیض حاصل کر پاتے۔
کشمیر کے اسلامی تشخص کے بارے میں بہت ہی سخت موقف رکھتے تھے اور اسے ہمیشہ اسلامی تناظر میں دیکھتے تھے۔ بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر پر تنقید کرنے سے کبھی نہیں ڈرتے تھے۔ 2018 میں جب تحریکِ حریت کے صدر ضلع اسلام آباد (اننت ناگ) میر حفیظ اللہ کو نا معلوم بندوق برداروں نے گولی مار کر شہید کر دیا تو موصوف نے حکومتِ وقت کو آڑے ہاتھوں لے کر میڈیا میں ببانگِ دہل کہہ دیا کہ ”حکومت بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے تاکہ آزادی پسند افراد بالخصوص جماعتِ اسلامی اور تحریکِ حریت کی قیادت کا خاتمہ کیا جا سکے”۔ اس موقع پر موصوف نے شیخ محمد عبداللہ پر بھی تنقید کی کہ ” شیخ محمد عبداللہ کوئی شیر وغیرہ نہیں تھے۔ انہوں نے ایسا کون سا کام کیا جس سے ان کو شیر کہا جائے”۔
ایک بار ایک صحافی کو علیٰحدگی پسند کہنے پر یہ کہہ کر جھاڑ پلائی کہ ہم علیٰحدگی پسند نہیں بلکہ کشمیر کی اصلی مین اسٹریم جماعت ہیں، جو کشمیریوں کے جائز موقف کی حمایت اور ترجمانی کرتے ہیں۔ جب ہم نے کبھی کشمیر کو بھارت کا حصہ ہی تسلیم نہیں کیا تو علحیدگی کی بات کہاں سے آ گئی۔ اصل علحیدگی پسند تو یہاں کی بھارت نواز سیاسی جماعتیں ہیں جو مسئلہ کشمیر کو اسلام سے علحیدہ کر کے بھارت کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں۔ مجھ سے سوال کرنے کے بجائے آپ کو یہ سوال بھارت نواز سیاسی جماعتوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہیں، جبکہ ہم تو صرف اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ اسی طرح جب ان کے بیٹے جنید صحرائی نے عسکریت کا راستہ اپنا کر حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی تو ایک صحافی نے محترم سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے بیٹے کو واپس آنے کا نہیں کہیں گے؟ کیا آپ کو اس کے جانے پر افسوس نہیں ہے؟ اس پر صحرائی صاحب نے جو جواب دیا اُس نے دورِ صحابہ کی یاد تازہ کردی کہ یہ شخص قولی نہیں بلکہ عملی شہادتِ حق دینے والا مرد مومن ہے۔ انہوں نے کہا ” میں کیوں کہوں، میں بے ضمیر ہوں؟ شیخ عبداللہ ہوں؟ بخشی غلام محمد ہوں؟ قاسم ہوں؟ غلام رسول کار بھی تو نہیں ہوں! میں خدا کا وہ بندہ ہوں جس کی رگ رگ میں آزادی کی تڑپ موجود ہے”۔ یہ کہہ کر انہوں نے کھلے بندوں عسکریت کی حمایت کی اور عسکریت پسندوں کو صحیح راستے پر قرار دیا۔ پھر جب بیٹے جنید صحرائی کی شہادت ہوئی تو کوئی صاحب فون پر ان سے تعزیت کا اظہار کر رہے تھے جس کا جواب انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کے یہ اشعار سنا کر دیا:
عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے یوں چندے مقیمِ آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبرِ خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
اس طرح میں بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے بیٹے کا بھی یوں خاتمہ بالخیر ہوگیا۔ اس طرح موصوف نے اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ ”انی صلاتی و نسکی و محیایا و مماتی للہ رب العالمین” کی عملی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی۔
شاید خدا کو ابھی صحرائی صاحب کی اور آزمائش کرنی منظور تھی۔ بیٹے کی شہادت کے محض دو ماہ بعد موصوف کو پی ایس اے پبلک سیفٹی ایکٹ قانون کے تحت ادھمپور جیل میں نظر بند کر دیا گیا۔قابض انتظامیہ کو بخوبی معلوم تھا کہ محترم صحرائی صاحب مختلف عوارض میں مبتلا ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی جان بوجھ کر انہیں طبعی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں جو بالآخر ان کی شہادت کا سبب بن گئیں۔ ان کی شہادت کے موقع پر ان کے بیٹے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” والد صاحب کی شہادت سے چند دن قبل فون پر ان سے بات ہوئی تھی جس میں انہوں نے اِنہیں کہا تھا کہ میں چند دن سے شدید بیمار ہوں اور مجھے کسی قسم کی طبعی سہولت بھی نہیں دی جا رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے مجھے یہاں جیل میں ہی مارنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ لہٰذا آپ میری رہائی کی کوششیں ترک کر کے اپنے کام کاج میں مشغول ہو جائیں”۔
اس طرح بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے بزرگ قائد کو زیرِ حراست شہید کر دیا۔ صحرائی صاحب کی شہادت کے صرف چار ماہ بعد ہی ان کے دوست، رفیق اور قائد جناب سید علی گیلانی صاحب بھی اپنی رہائش گاہ واقع حیدرپورہ سرینگر میں نظر گیارہ برسوں کی طویل خانہ نظر بندی کے بعدشہادت سے سرفراز ہوئے۔ اس طرح گیلانی صاحبؒ نے صحرائی صاحبؒ کی والدہ سے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ صحرائی صاحب کا خیال رکھیں گے، اسے پورا کرنے کے لیے عالمِ آخرت کی طرف بھی اپنے ساتھی اور ہمراز کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ یوں کشمیر کی تحریک آزادی کا سب سے ولولہ انگیز باب مکمل ہوا۔ تاہم کہانی ہنوز جاری ہے، اور یہ تب تک جاری رہے گی جب تک کہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا۔
شہید اشرف صحرائی صاحب سخت مزاج ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارتے تھے۔ اپنے مقصد کے ساتھ وفاداری کا عالم یہ کہ بچوں کو نصیحت کی تھی کہ آپ لوگ کسی بھی قسم کی گورنمنٹ جاب نہیں کریں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کی وجہ سے مجھے حکومت وقت کے آگے جھکنا پڑے۔ یہ ان کی خودداری ہی تھے کہ جب ان کے بیٹے کی شہادت ہوئی تو اس وقت بھی اس مردِ حر نے بیٹے کی میت حاصل کرنے کے لیے حکومت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ موجودہ دور میں ایسے مخلص لیڈران کی مثالیں ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ صحرائی صاحب جیسے مرد آہن ہی کی بدولت ممکن ہوسکا کہ لاکھوں نوجوانوں کے اندر آزادی برائے اسلام کا جذبہ منتقل ہو پایا۔ الحمد للہ یہ ناچیز بھی ان ہی لاکھوں نوجوانوں میں سے ایک ہے جنہیں صحرائی صاحب کو دیکھنے، سننے اور جاننے کا موقع نصیب ہوا۔
راقم کی تحریکِ حریت سے شناسائی اپنے والدِ محترم کی وساطت سے ہوئی۔ والد صاحب کی ہی بدولت مجھے بچپن سے ہی تحریکِ حریت، شہید امام سید علی گیلانیؒ،شہید صحرائی صاحب اور جماعتِ اسلامی جیسے نام سننے کا موقع ملا۔ اگرچہ میں بہت چھوٹا تھا لیکن گھر میں جماعتِ اسلامی، تحریکِ حریت، سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی جیسے نام ہمیشہ سے ہی زیرِ بحث ہوتے تھے۔ پھر جب سنِ شعور کو پہنچا اور ان اشخاص کی قربانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ان کی محبت نے دل میں گھر کر لیا۔
یہ 2004 کی بات ہے، تحریکِ حریت جموں و کشمیر ان دنوں نئی نئی معرضِ وجود میں آ گئی تھی۔محترم گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب تحریک کو وسعت دینے کے لیے مختلف علاقوں کے دورے کر رہے تھے اور اسی سلسلے میں محترم صحرائی صاحب ہمارے علاقے میں بھی تشریف لے آئے۔ اس دن پہلی بار میں نے صحرائی صاحب کو دیکھا۔ دوسری مرتبہ اُس وقت جب وزیرِ اعلیٰ غلام نبی آزاد نے گاندھی کو نوجوانوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا تو امام سید علی گیلانی ؒ نے آزاد صاحب کو جواباً تفہیم القرآن کا سیٹ بھیج کر یہ کہا کہ آزاد صاحب کو چاہیے کہ تفہیم القرآن کا مطالعہ کریں تاکہ انہیں محمدِ عربی صل اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا علم ہو سکے۔ ہاں اگر آزاد صاحب کے نزدیک گاندھی کی زندگی اتنی ہی قابلِ تقلید ہے تو وہ اپنا نام غلام نبی آزاد کے بجائے غلام گاندھی رکھ لے۔ اس کے بعد پھر تحریکِ حریت نے امام سید علی گیلانی کی قیادت میں تقریباً ہر ضلعے میں سیرت کانفرنسیں اور سیرتی مباحثے کے مقابلے کروائے جس میں مقررین کو انعامی رقم کے علاؤہ تفہیم القرآن کا سیٹ بھی پیش کیا جاتا۔ اسی سلسلے میں راقم کو پہلی بار گیلانی صاحب اور محترم صحرائی صاحب سے دوسری مرتبہ ملنے کا موقع نصیب ہوا۔ 2005 میں وادی کشمیر میں تباہی کن زلزلہ آیا(زلزلے کا زیادہ اثر مظفرآباد آزاد کشمیر میں ہوا جہاں تقریباً ایک لاکھ کے قریب لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے)۔ تحریک حریت نے وادی بھر میں امدادی کاروائیوں کا آغاز کیا اور اپنے محدود وسائل کے باوجود خلق خدا کی دلجوئی کی۔ ناچیز نے اپنی آنکھوں سے سید علی گیلانیؒ اور صحرائی صاحبؒ کو سیلاب زدگان کی دلجوئی کرتے اور ان کے غم میں شریک ہوتے ہوئے دیکھا۔ اسی دور آزمائش میں ہی ایک اور بار صحرائی صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے بعد حالات نے پھر کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ گیلانی صاحب کو اپنی رہائش گاہ واقع حیدرپورہ میں ہی نظر بند رکھا گیا اور محترم صحرائی صاحب سے ملنے کے لیے بھی بھارتی حکومت کی طرف سے بندشیں عائد کی ہوگئیں۔ البتہ والد صاحب اس دوران تسلسل کے ساتھ گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب کا ذکر کرتے رہتے تھے اور اُن ہی کی بدولت مجھ ناچیز کو بھی ان عظیم ہستیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔
والد صاحب بتاتے ہیں کہ جب سید علی گیلانی صاحب پر دورانِ تقریر گولی چلائی گئی تو میں اس وقت وہیں پر موجود تھا۔ جب گولی چلی تو بھگدڑ مچ گئی، کچھ نوجوان سینہ تانے سید علی گیلانی ؒ کے آگے کھڑے ہو گئے مبادا اب اگر گولی چلتی ہے تو ان کے قائد کو چھونے سے پہلے وہ انہیں لگ جائے۔ ہم نے کھینچ کر گیلانی صاحب کو نیچے بیٹھ جانے کا کہا لیکن مجال ہے جو گیلانی صاحب اپنی جگہ سے ہلے بھی ہوں۔ انہوں نے بنا رکے بغیر کسی خوف کے اپنی تقریر جاری رکھی۔ یہ کچھ ایسا ہی نظارہ تھا جب جنرل ایوب خان کے دورمیں سید مودودیؒ پر دورانِ تقریر گولی چلا دی گئی تھی اور رفقاء نے مولانا سے گزارش کی تھی کہ مولانا بیٹھ جائیے۔ جس کے جواب میں سید مودودی ؒنے کہا تھا کہ ”اگر میں بیٹھ گیا، تو کھڑا کون رہے گا”۔ بالکل اسی طرح اگر سید علی گیلانی بھی بیٹھ جاتے تو کھڑا کون رہتا۔

صحرائی صاحب سہی معنوں میں سید علی گیلانی صاحب کے سچے جانشین تھے۔ انہوں نے گیلانی صاحب کا ساتھ اس وقت بھی دیا جب جنرل مشرف کی قیادت میں پاکستانی حکومت نے گیلانی صاحب کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا۔ انہوں نے گیلانی صاحب کا ساتھ اس وقت بھی دیا جب مشرف نے گیلانی صاحب سے کہا تھا کہ میرے ساتھ جارج بش اور ٹونی بلئیر ہیں۔ انہوں نے گیلانی صاحب کا ساتھ اس وقت بھی دیا جب سرکاری بندوق بردار گیلانی صاحب کو مارنے صورہ اسپتال میں داخل ہوگئے تھے۔ انہوں نے گیلانی صاحب کا ساتھ اس وقت بھی دیا جب سارے حریت لیڈران مشرف کے چار نکاتی فارمولہ کے زیرِ دام آ گئے تھے اور اسلام آباد کی طرف سے ان پر نوازشیں ہو رہی تھیں۔ عزم و وفا کا یہ پیکرِ مجسم جب 2018 میں تحریکِ حریت کا چئیرمین منتخب ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر قوم کا حوصلہ بلند کیا کہ ”میں گیلانی صاحب کا سایہ ہوں، وہ میرے رہبر ہیں اور میں ان کے پیچھے چلنے والا ایک عام کارکن ہوں”۔
گیلانی صاحب کی طرح صحرائی صاحب بھی جری اور بیباک رہنما تھے جو اپنے سخت گیر موقف کے لیے جانے جاتے تھے۔ بلکہ گیلانی صاحب کے قریبی ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ گیلانی صاحب کے مقابلے میں صحرائی صاحب زیادہ سخت موقف رکھتے تھے۔ البتہ یہ سختی انہوں نے جائز موقف کی خاطر باطل قوتوں سے نمٹنے کے لیے اختیار کر رکھی تھی۔ جبکہ حلقہ یاراں میں وہ ریشم کی طرح نرم ہوتے تھے۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ غالباً 2001 کے آس پاس کی بات ہے، ہم لوگ صحرائی صاحب کے ساتھ ایک پروگرام میں موجود تھے۔ درس قرآن کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک نوجوان نے شہید صحرائی صاحب سے پوچھا کہ حضرت اکثر حریت قائدین عوام کو سادہ طرزِ زندگی اپنانے کی تلقین کرتے ہیں، لیکن خود آپ لوگ بڑے مہنگے اور برانڈڈ کپڑے پہنتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ صحرائی صاحب نے آرام سے اس نوجوان کا سوال سنا اور پھر میری طرف اشارہ کر کے مجھے کھڑا ہونے کا کہا۔ مارے رعب کے مجھے اپنا دل بیٹھتا محسوس ہوا۔ خیر میں کھڑا ہوگیا تو انہوں نے پہلے میرا نام پوچھا، پھر اپنے شلوار قمیض کے دامن کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر میرے سامنے کیا اور پوچھا ”بیٹے بتاؤ یہ شلوار قمیض کتنا پرانا ہوگا” میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو شلوار قمیض بالکل نیا تھا۔ اس لیے میں نے جواباً کہہ دیا کہ حضرت زیادہ سے زیادہ یہ دو سال پرانا ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر سامعین سے بھی اس باپت دریافت کیا۔ جواباً سبھی حضرات نے وہی بتایا جو میں نے کہا تھا۔انہوں نے اپنی قمیض کو تھامتے ہوئے کہا کہ یہ شلوار قمیض میں نے آج سے گیارہ سال قبل سلوایا تھا۔ اگراللہ نے چاہا تو مزید گیارہ سال تک یہی شلوار قمیض استعمال کروں گا۔ مجھ جیسے شخص کی اتنی حیثیت نہیں کہ میں ہر سال اپنے لیے نئے کپڑے خریدتا پھروں۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ وہاں بیٹھے ہر شخص کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور بعض کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ایک اور واقعہ جو راقم کو صحرائی صاحب کے آبائی گاؤں ٹِکی پورہ کے ایک شخص نے سنایا۔ یہ واقعہ صحرائی صاحب کے خاندانی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک بار اُن کی گائے نے گاؤں میں کسی ہمسائیہ کے کھیت سے گھاس کھا لی تھی، جب یہ بات صحرائی صاحب کے بڑے بھائی کو پتہ چلی تو انہوں نے اپنے ہمسائیہ کو بلایا اور تین دن کے لیے گائے ان کے حوالے کر دی کہ جاؤ اور تین دن تک گائے سے دودھ نکالو یہاں تک کہ اس کا معدہ صاف ہو جائے۔
ایک اور واقعہ جو راقم کو والد صاحب کے ایک دوست نے سنایا جو گیلانی صاحب، صحرائی صاحب اور دیگر حریت لیڈران کے ساتھ جیل میں بند تھے۔ فرماتے ہیں کہ جب کبھی ہمیں کوئی علمی مسئلہ درپیش آتا تو ہم یا تو گیلانی صاحب کی طرف رجوع کرتے یا پھر ہمارے ساتھ قید ایک عالمِ دین صاحب سے پوچھ لیتے۔ لیکن جب دونوں حضرات میں سے کوئی جواب نہیں دے پاتا تو گیلانی صاحب ہمیں صحرائی صاحب کے پاس جانے کا کہتے کہ صحرائی صاحب آپ کے تمام سوالات کے جواب دے سکتے ہیں۔ ایک دن عالِم دین صاحب ہمیں قرآن پڑھا رہے تھے اور ساتھ ہی ہاتھوں سے اپنا گھٹنا بھی سہلا رہے تھے۔ صحرائی صاحب پاس ہی بیٹھے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے عالمِ دین صاحب کو یہ کہہ کر ڈانٹ پلائی کہ ”یہ آپ کس طرح قرآن کا درس دے رہے ہیں، آپ عالم ہو کر قرآن کریم کے آداب تک نہیں جانتے، آپ کو قرآن پاک کے حقوق تک کا نہیں پتہ” یہ سن کر وہ عالم دین صاحب سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آئندہ جب تک ہم جیل میں رہے، انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا مبادا کہیں صحرائی صاحب پھر سے جھڑک نہ دیں۔
یہ عالمِ دین صاحب خود بھی ایک تنظیم کے سربراہ تھے لیکن اس کے باوجود بھی صحرائی صاحب نے ان کا لحاظ نہیں کیا اور حق بات کہنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔اس واقعے سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ شہید صحرائی صاحب کا مطالعہ کتنا وسیع تھا۔ اسلامی تعلیمات کے علاؤہ شہید موصوف کی سیاسیات،اقبالیات، فیض احمد فیض اور مرزا غالب پر بھی بڑی زبردست نظر تھی۔
تحریکِ حریت کے بانی ارکان میں سے ایک اور گیلانی صاحب و صحرائی صاحب دونوں کے قریبی ساتھی مولانا بشیر احمد فاروقی صاحب جو کہ بڑے شعلہ بیاں مقرر تھے اور عربی زبان پر جنہیں زبردست عبور حاصل تھا، جب کبھی علّامہ اقبال کے اشعار پڑھتے تو پہلے ایک نظر صحرائی صاحب پر ڈالتے مبادا کہیں غلط شعر پڑھنے پر وہ انہیں جھڑک نہ دیں۔ ایک بار دورانِ خطاب فاروقی صاحب نے آخر شکایت کر ہی ڈالی کہ میں اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے اقبال کے یہ چند اشعار آپ کے سامنے پڑھنا چاہتا تھا لیکن سامنے بیٹھا یہ آدمی جو ہے نا (انہوں نے انگلی سے باضابطہ صحرائی صاحب کی طرف اشارہ کیا)، یہ مجھے کہتا ہے کہ تمہیں شعر پڑھنا بالکل بھی نہیں آتا، اِدھر کا مصرعہ اُدھر اور اُدھر کا اِدھر کر دیتے ہو۔ حالانکہ مولانا فاروقی صاحب بہت ہی بڑے عالم تھے جو بیک وقت کئی تفاسیر پر نظر رکھتے تھے لیکن بہرحال وہ بھی صحرائی صاحب کے علمی قد کے معترف تھے۔

راقم الحروف نے ایک بار صحرائی صاحب کے ایک قریبی ساتھی سے پوچھا کہ جماعت اسلامی یا تحریکِ حریت کی تاریخ کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں گیلانی صاحب ہی چھائے ہوئے نظر آتے ہیں جب کہ اس کے برعکس صحرائی صاحب کا سرسری سا ہی ذکر ملتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ جواباً انہوں کہا کہ دراصل صحرائی صاحب فنا فی اللہ انسان تھے، وہ کسی بھی قسم کا کریڈٹ لینا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے خود ہی کہہ رکھا تھا کہ ان کا ذکر یا تو کم ہی کیا جائے یا سرے سے ہی گول کر دیا جائے۔ اس کی دلیل میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک بار اُس وقت کے امیر جماعتِ اسلامی نے ایک کتاب کا ترجمہ کیا اور صحرائی صاحب کو اس کتاب پر نظرِ ثانی کرنے کا کہا۔ شہید صحرائی صاحب نے اس شرط پر کتاب پر نظرِ ثانی کرنے کی حامی بھری کہ جب یہ چھپ کر مارکیٹ میں آ جائے گی تو ان کا ذکر اس میں نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آ گئی اور عوام الناس میں مقبول بھی ہوگئی لیکن صحرائی صاحب کا نام اس میں کہیں نہیں آیا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ گیلانی صاحب کے پاس Masses اور عوامی مقبولیت تھی، لوگ ان کی ایک نظر دیکھنے کے لیے دیوانہ وار دوڑ پڑتے تھے لیکن تحریکِ کی منصوبہ بندی اور تنظیم سازی، مستقبل کے لیے صف بندی یہ صحرائی صاحب کرتے تھے۔ وہ بلاشبہ تحریکِ حریت کا دماغ تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں جیل میں ہی زیرِ حراست شہید کر دیا گیا تاکہ تحریکِ آزادی کو اپنے اس دور اندیش رہنما سے محروم کر دیا جائے۔
آج تحریکِ آزادی کشمیر اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ دہلی میں موجود سخت گیر بی جے پی ریاستِ جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اور کشمیر کی مزاحمتی قیادت (اگر کہیں موجود ہو) چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔بدقسمتی سے قوم کا حوصلہ بڑھانے والے امام سید علی گیلانیؒ اور محمد اشرف صحرائیؒ کی آوازیں اب خاموش ہوگئی ہیں۔ سینکڑوں قائدین دلیکی تہاڑ جیل اور بھارت کی مختلف جیلوں میں شہادت کا انتظار کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اور تحریکِ حریت کے کارکنان جیلوں میں مقید ہیں اور تحریکِ آزادی کشمیر کی کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس تحریک کو ایک بار پھر امام سید علی گیلانیؒ اور محمد اشرف صحرائیؒ جیسے جری اور بیباک رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اسے قوم کو مایوسی سے نکال کر عزیمت کی راہ پر گامزن کر سکے۔اللہ تعالیٰ کشمیری قوم کو ان دونوں رہنماؤں کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭