شہید اعجاز احمد

اویس بلال

اٹھارہ انیس برس کا اعجاز احمد متو عرف امجد جمیل کا تعلق ضلع کشتواڑ کے علاقے سروڑ بگڑانہ کی اس خوش نصیب سر زمین سے تھا جو ان سے پہلے محمد رفیع شہید جیسے بہادر نوجوان کی قربانی دے چکی تھی۔امجد جمیل متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ اپنے جائزحق کی بازیابی اور دین اسلام کی حفاظت کرنے کا سہرا اکثر غریب اور متوسط لوگوں کے سر رہا ہے۔امجد جمیل جب بھی بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم وستم کی خبر سنتے تو تڑپ جاتے۔اور وہ غیرت مند بھائی اور وہ باضمیر بیٹے کی طرح ظالموں اور جابروں سے انتقام لینے کے لئے بیتاب تھا ۔ آپ عسکری تربیت حاصل کرنے کا اظہار کرچکے تھے لیکن تقدیر نے ہر کام کے لئے وقت مقرر کیا ہوا ہے۔اس کے دماغ میں وادی کشمیر اور بھارت میں مظلوم مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کے قصے ،مائوںبہنوں کی آہ و بکاہ مظلوم بچوں کی چیخ و پکار ،مساجد کی بکھری ہوئی اینٹوں کی فریاد تھی۔ آخر وہ مبارک دن آگیا امجد جمیل نے اپنی سر زمین والدین عزیز واقارب کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہا اور میدان عمل میں قدم رکھا۔ان کے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ اعجاز احمد متو عرف امجد جمیل نے وادی کشمیر اور صوبہ جموں کے مختلف علاقوں میں اپنے دل کے ارمان پورے کئے۔

تحریک آزادی کشمیر کی حالیہ جدوجہد آزادی ہزاروں مجاہدین کے سرفرشانہ کارناموں سے بھری پڑی ہے ،سرفروشی کا ہر ایک واقعہ ایمان افروز اور قابلِ تقلید ہے۔ شہید امجد جمیل متو نے ضلع کشتواڑ کے علاقہ سرور بادھات کے ایک تحریکی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بگڑانہ سے حاصل کی ،دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر میں شمولیت اختیار کی۔1994ء میں تربیت پانے کے بعد آپ کو مقامی نظم نے جموں شہر کی ذمّہ داری سونپی۔جموں شہر میں ایک اچھا مضبوط نیٹ ورک قائم کرلیا۔اعجاز احمد عرف امجد جمیل متو نے 29 برس قبل 26جنوری بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ 1995ء میں جموں کے بخشی اسٹیڈیم میں ایک زور دار دھماکہ کرکے بھارتی سورماؤں کے دلوں کو ہلا کے رکھ دیا۔اس اہم تقریب میں کمال ہوشیاری اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ عین اس جگہ دھماکہ کیا جس جگہ تقریب منعقد ہو رہی تھی۔قابض بھارتی فورسز کے چودہ کمانڈوز موقعہ پر ہلاک اور کئی شدید زخمی ہوئے۔جبکہ گورنر سکسینہ زخمی ہوا۔ اس کامیاب کارروائی کا بڑا چرچا ہوا ،امجد جمیل اور آپکے ساتھیوں کی جرأت اور عسکری مہارت کا ہر جانب ذکر ہونے لگا ،ان کی گرفتاری کے لئے دشمن نے جاسوسی کا جال بچھا رکھا تھا۔ خصوصی مشن کے دوران 1996ء میں مخبری کی بناء پر جموں میں گرفتار ہوئے۔تین سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد 1999ء میں رہا ہوئے۔ایک سال گھر میں رہے والدین نے شادی کے لیے اصرار کیا ،لیکن امجد جمیل نے شادی سے صاف انکار کر دیا۔2000ء کے آغاز میں پھر آپ نے راہ جہاد میں قدم رکھا ،اس دوران انہوں نے دو بھارتی خفیہ ایجنسی اہلکاروں کو ہلاک کیا۔2000ء تک اپنے علاقے سروڑ میں کام کرتے رہے۔موصوف نے کئی اہم معرکے لڑے ،جن میں بھارتی افواج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ایک بار امجد جمیل نے بھارتی افواج کی ایک گشتی پارٹی کو اس وقت نشانہ بنایا جب بھارتی فوج ایک مجاہد کو گرفتار کرنے کے لئے جارہی تھی امجد جمیل نے گھات لگا کر ان پر ہلہ بول دیا اس اچانک اور زور دار حملے میں بھارتی فوج کے سات اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔ بھارتی فوج امجد جمیل کا نام سنتی تو علاقے کا رخ کرنے سے کتراتی تھی۔بھارتی فوج پہلے عام شہریوں سے کہتی کہ ہم فلاں علاقے کی طرف جارہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ فوج چاہتی تھی کہ مجاہدین کو اس کی خبر ہو اور وہ وہاں سے نکل جائیں۔بالآخر 2000ء کے آخری مہینے دشمن کے محاصرے میں آگئے دشمن نے ہتھیار ڈالنے کو کہا مگر ہتھیار ڈالنا مجاہد کی شان کے خلاف ہے چار پانچ گھنٹے محاصرے میں رہے اور وقفے وقفے سے لڑائی ہوتی رہی دشمن کا سخت محاصرہ تھا امجد جمیل اور آپکے ساتھی دشمن کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اس معرکے میں دشمن کے ایک میجر سمیت چھ بھارتی فوجی کے اہلکار ہلاک ہوئے۔جبکہ امجد جمیل تین ساتھیوں سمیت اپنی جاں جاں آفریں کے حوالے کرگئے۔ کشتواڑ کے غیور اور بہادر عوام نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور بڑے اعزاز و اکرام سے ان شہداء کو سپرد خاک کیا۔شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے مش کو زندہ رکھیں انہوں نے جس عظیم مقصد کے لئے قربانیاںدی ہیں ہم اس مقصد کو کبھی فراموش نہ کریں بلا شبہ انہوں نے تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہاد کی مبارک زندگی اور شہادت کی عظیم دولت سے سرفراز فرمائے آمین۔

٭٭٭