شہید امتیاز عالم

عادل وانی

خونِ جگر دے کر نکھاریں گے برگِ رُخِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

ہم وہ حوصلہ کہاں سے لائیں کہ تیری ہمت کو بیان کرسکیں!ہم وہ دل کہاں سے ڈھونڈیں جو تیری محبتوں کو سما سکیں!ہم وہ نظر کہاں سے تلاش کریں جو تیری بصیرتوں کی امین کہلا سکے!ہم وہ ارادہ کہاں سے مستعار لیں جو تیرے عزم کو بیان کرنے کی جرأت بھی کرے!ہمیں تو تیرے عزم و حوصلہ کے سامنے ہمالیہ بھی چھوٹا لگتا ہے۔ہمیں تو تیری محبتوں اور عظمتوں کو بیان کرنے کے لئے سمندر بھی ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔ہمیں تو تیری ثبات اور استقلال کے سامنے چٹان بھی شرمندہ نظر آتے ہیں۔ہمیں تو تیری دنوں کی شہسواری اور راتوں کی شب بیداری کے طویل اور مستقل وظیفے کے سامنے آسمان کی بلندیوں پر چمکنے اور دمکنے والے ستارے بھی محوِ رشک دکھائی دیتے ہیں۔قصہ مختصر تو یہ ہے کہ آپ نے وفا،ثابت قدمی،عزیمت،بصیرت،تڑپ،لگن،جانثاری،فقر اوردرویشی کو نئے معنٰی اور عنوان دے دئیے ہیں۔

ہمیں بھی یہ شرف اور اعزاز نصیب ہوا کہ ہم آپ کے اُس ’’مقدس جنازے‘‘ میں شریک ہوئے جس نے بے شمار زندوں کو زندگی کا ڈھنگ اور سلیقہ سمجھا دیا،جس نے اُمیدوں کے نئے جُوت جگا دئیے،جس نے جذبوں کو نئی مہمیز عطا کیں،جس نے تاریکیوں میں روشنی کا ایسا سامان فراہم کیا کہ سب نشیب و فراز کو دیکھنا ممکن ہوا،جس نے مقصد اور نصب العین کے ساتھ ہماری وابستگی کی تجدید کا بھی سامان فراہم کیا۔جس نے غیرت اور قوت کے نئے عنوان ہمارے سامنے رکھ دئیے اور خاصکر آپ کا جنازہ ہمیں یہ اہم پیغام بھی سنا کر گیا کہ ہمیں جاگتے رہنا ہے،پہرہ دیتے رہنا ہے،محتاط رہنا ہے،مربوط اور منظم رہنا ہے،کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ہے اور تمام تر مشکلات و مصائب اور جبر کے باوجود ہر حال میں اور ہر انداز میں کھڑے رہنا ہے،جمے رہنا ہے اور ڈٹے رہنا ہے۔

آپ واقعی’’امتیاز‘‘ تھے۔آپ کے کردار کا ایک ایک پہلو’’امتیاز‘‘تھا۔ہم سب بیک زبان معترف اور گواہ ہیں کہ آپ نے اپنے نام’’امتیاز‘‘ کی ایسے لاج رکھی کہ تاریخ اس نام ’’امتیاز‘‘ پر صدیوں تک فخر کرنے پر ناز کرے گی۔میرے بھائی،میرے ہمدم اور میرے دوست میری اس ندامت اور شرمندگی نے مجھے بے چین اور بے قرار کردیا ہے کہ کاش مجھے

یہ تحریر آپ کے جیتے جی لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہوتی۔یہ بھی ہمارے ذہنی بانجھ پن اور ناقدری کی علامت ہے کہ ہم زندوں کے مقابلے میں شہیدوں’’مُردوں‘‘ کی زیادہ تعریفیں کرتے ہیں۔ہم زندوں میں عیب اور مُردوں میں خوبیاں تلاش کرنے کے ماہر بلکہ فنکار ہیں!میرے دوست مجھے معاف کرنا ہم سے بھی یہ کوتاہی سرزد ہوئی ہے لیکن اب ہمارا آپ سے یہ وعدہ ہے کہ آج سے ہم شہیدوں سے پہلے’’غازیوں‘‘ کے تزکرے اور کارنامے لکھا کریں گے۔آپ سُرخرو ٹھہرے ہیں،آپ منزلِ مراد پاچکے ہیں۔آپ کو جنتوں میں اپنے رب کی رضا اور سلام مبارک ہو،آپ کو شہدا ء کا استقبال مبارک ہو،آپ کو ابدی کامیابی مبارک ہو۔ہمارا آپ سے اور لاکھوں شہدا ء سے یہ وعدہ ہے کہ ان شاء اللہ ہم بھی ہر جبر کے باوجود ہر قیمت پر اپنے مقدس مقصد اور نصب العین کی آخری سانس تک آبیاری کریں گے۔امتیاز صاحب میں ایک اور سچائی کا ببانگِ دہل اعتراف کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے دل و دماغ پر موجود بوجھ کچھ ہلکا ہوسکے۔کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ میں کس’’اعتراف‘‘ کی بات کررہا ہوں؟میں اب آپ کو پریشان بھی نہیں کرسکتا! کیونکہ اب آپ جنتوں کے مکین اور مہمان بن چکے ہیں۔ویسے آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھے لکھنے کا شوق ہے اور دہائیوں کے اس شوق نے اب میرے پاس الفاظ اور انداز کا ایک’’انبار‘‘ سا لگا دیا ہے مگر آپ وہ پہلے عزیمتوں کے مسافر ہیں کہ جس کا تذکرہ لکھتے ہوئے میرے ’’الفاظ‘‘ بھی مجھے بار بار یہ کہتے دکھائی دئیے کہ ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ اللہ حافظ