شہید برہانؒ نے سوچ بدل دی

ایس احمد پیرزادہ

کشمیریوں کی جدوجہد کی تاریخ طویل ہے۔ حکمت عملیاں تبدیل ہوسکتی ہیں لیکن یہاں بہت سارے موقعوں پر حکمت عملی تبدیل کرنے نام پر مقصد کو ہی تبدیل کردیا گیاتھا۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں یہاں کی تمام آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا واضح نصب العین تھا کہ وہ ہندوستانی تسلط سے مکمل آزادی حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ لیکن ڈیڑھ دہائی گزرتے گزرتے ہمارے بہت سارے قائدین کی ’’لغت‘‘اور ’’اصطلاحیں‘‘ ہی تبدیل ہوگئی۔ ’’آزادی‘‘ کی جگہ ’’ مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل‘‘ نے لے لی اور ’’حق خود ارادیت کے لیے بامعانی مذاکرات‘‘ کے لیے’’قیام امن کے لیے مذاکرات‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی ہیں۔ اس طرح جدوجہد کے بیس برس گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری پوری قیادت کنفوژن کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اس طرح کی اصطلاحیں استعمال کی جانے لگی تھیں کہ عام انسان سمجھ ہی نہیں پاتا تھا کہ یہ لوگ آخر کیا چاہتے ہیں۔ 2004 ء تک آتے آتے ’’پرامن‘‘ جدوجہد کا ورد کیا جانے لگا اور جملہ حریت قیادت ہڑتال کی کال صرف اُس وقت دیتی تھی جب کہیں کوئی عام شہری فوج کی گولیوں کا نشانہ بن جاتاتھا۔ عسکریت پسند کی شہادت پر نہ کوئی ہڑتال کرتا تھا اور نہ ہی حریت لیڈران ہی کال دینے کی جرأت کرتے تھے۔ ایسے بھی مواقع آئے تھے کہ کوئی عسکریت پسند شہید ہوجاتا تھا تو اُس کی اپنی مقامی بستی میں بھی معمول کا کام کاج جاری رہتا تھا۔ اس سب میں لوگوں کی کوئی خطا نہیں تھی بلکہ حریت قائدین کا پیدا شدہ کنفوژن تھا جنہوں نے سویلین کی شہادت پر وویلا مچانالازمی قرار دیا تھا جبکہ کسی عسکریت پسند کی شہادت پر چپ سادھ لی جاتی تھی۔ گویا زبان سے نا سہی لیکن اپنے عمل سے قائدین یہ ثابت کرتے تھے کہ جنہوں نے عسکریت کی راہ اختیار کرلی ہے وہ گویا غلط راہ پر گامزن ہیں۔یہ پالیسی جان بوجھ کر اختیار نہیں کی گئی تھی بلکہ ہندوستان نے نہایت ہی شاطرانہ طریقے سے ہماری قیادت کو یہ بات ذہن نشین کرائی تھی کہ وہ پُرامن جدوجہد کریں ، تشدد کی حمایت نہ کریں کیونکہ 9/11 کے بعد دنیا میں عسکریت کا کوئی حامی و مدد گار نہیں رہاہے۔ ہماری قیادت کی ذہن سازی یہاں کے ایک ایسے طبقے سے کرائی گئی جو اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے آئے روز نئے نئے شوشے چھوڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شہیدبرہان احمد وانیؒ نے اپنی خداد اد صلاحیتوں کے ذریعے سے عسکریت کو عوامی حلقوں میں اس حد تک مقبول بنا لیا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے جہاں بھی کوئی عسکریت پسند شہید ہوجاتا ہے لوگ از خود ہڑتال کرتے ہیں۔ وہ علاقہ کئی کئی روز تک بند رہتا ہے اور احتجاجی جلسوس برآمد ہوجاتے ہیں۔ جب خود بُرہان شہادت کے منصب اعلیٰ پر فائز ہوگیا تو اُن کی شہادت سے حریت کانفرنس کے سبھی ڈھڑے اپنی اصل ڈگر پر آگئے۔ حریت کانفرنس (گ)، حریت کانفرنس(ع)، لبریشن فرنٹ وغیرہ وغیرہ سبھوں نے ہڑتال کی کال دے کر درمیان میں اختیار کی جانے والی پالیسی کو ترک کرنے کا عملی اعلان کردیا ہے۔جو سوچ ہندوستان کی مختلف ایجنسیوں نے یہاں پیدا کررکھی تھی اُس سوچ کو برہانؒ نے اپنی زندگی میں بھی اور اپنی شہادت کے ذریعے سے بھی تبدیل کردیا۔ اتنا ہی نہیں کہ حریت کے سبھی ڈھڑوں نے ہڑتال کی کال دے دی بلکہ لیڈران کرام نے اپنے اپنے پیغامات کے ذریعے سے برہان وانی کو قوم کا ہیرو قرار دیا۔ بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی نے برہان کی شہادت پر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ جوق در جوق اُن کے نماز جنازہ میں شرکت کریں اور جو لوگ ترال پہنچنے میں کامیاب نہ ہوجائیں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کریں۔ ایک اور بیان میں سید علی گیلانی نے شہید برہان وانی کو کشمیری قوم کا ہیرو قرار دیا۔حریت کانفرنس(ع) کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ’’ ہم اپنے ان نوجوان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اُن کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔‘‘ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے برہان وانی کی شہادت پر کہا کہ ’’کشمیری قوم اپنے ان عظیم محسنوں کی قربانیوں کے مقروض ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے دُعاکرتے ہیں کہ وہ اُن کی شہادت قبول کرے۔‘‘ جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ:’’ برہان کی شہادت سے تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد کو ایک نئی جہت ملی ہے۔‘‘یہ کریڈٹ شہید برہان وانی کی عسکری زندگی اور شہادت دونوں کو جاتا ہے کہ اُنہوں نے مزاحمتی قیادت کی سوچ میں پھر سے یکسوئی پیدا کردی ہے۔برہان نے عوامی سطح پر بھی عسکریت کو اس انداز سے متعارف کرایا کہ گزشتہ ادوار میں عسکریت پسندوں کی غلطیوں کی وجہ سے عوام میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوچکی تھیں وہ بھی انہوں نے اپنے طرز عمل سے دور کردی ۔ شہر و دیہات لوگوں میں از خود عسکریت پسندوں کے تئیں ہمدردیاں پیدا ہوئی ہیں۔ جس کی واضح مثال اُن کے نماز جنازوں کے مناظر ہیں اور دور دراز لوگوں کا عسکریت پسندوں کی شہادت پر سورگوار ہونا ہے۔برہان وانی نے اپنی مختصر زندگی میں کشمیر کاز کو ایک نئے رُخ پر ڈال دیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہندوستانی ایجنسیاں اُس سرے کو تلاش کرنے کی کوششیں کررہی ہیں جہاں سے ریاست جموں وکشمیر کی نسل نو میں ’’شدت پسندی‘‘ کا جذبہ پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ اُن وجوہات کو ڈھونڈنے اور ٹٹولنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال میں لائے جارہے ہیں۔ مختلف دینی جماعتوں پر نظر رکھی جانے لگی ہے حالانکہ عام کشمیریوں کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے تو اُنہیںصاف طور پر اس سب کے لیے بھارت کی حکومتوں کی ہٹ دھرمیاں ذمہ دار نظر آتی۔ظلم زیادتیوں کی ایک حد ہوتی ہے، جب ظلم حد سے گزر جاتا ہے تو کمزور سے کمزور انسان بھی آخری چارۂ کار کے طور پر پلٹ وار کرتا ہے۔

برہانؒ شہید نے تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد میں کشش پیدا کی، اُنہوں نے نئی نسل میں حوصلہ، ہمت اور جواں مردی پیدا کی۔ آج جس چیز نے ہندوستانی ایجنسیوں اور پالیسی سازوں کے اوساں خطا کیے ہوئے ہیں وہ کشمیریوں کی نوجوان نسل ، خواتین اور بچوں کا انکاونٹر والی جگہ پر بے خوف ہوکر سامنے آنا ہے۔ یہ حوصلہ اور یہ جوش شہید برہان وانی ؒ کے عسکری دور میں میں پروان چڑھا ہے۔ برہان شہید نے کشمیری قوم کی نفسیات کچھ اس طرح تبدیل کردی ہے کہ اب یہاں مائیں اور والدین کے ساتھ ساتھ عزیز واقارب بھی شہادتوں پر فکر محسوس کرتے ہیں۔ شہادت میں سحر انگیز کشش پیدا ہوئی ہے۔برہان شہید کی قربانی اور اخلاص نے اُنہیں تاریخ کا پہلا انسان بنادیا جس کی نماز جنازہ ایک ہی دن میں ایک ہی جگہ پر پچاس مرتبہ ادا کی گئیں اور ہر نماز میں پانچ پانچ لاکھ سے زائد لوگ شریک ہوتے رہے۔ ہزاروں مرتبہ شہر و دیہات میں اور بیرون ملک اُن کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا گیا۔اُن کے ساتھ عوامی عقیدت کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی یہ جرأت پیدا ہوئی کہ اُنہوں نے کشمیر کی عسکری تحریک میں پہلی مرتبہ کسی عسکریت پسند کو عالمی فورم پر لیڈر کہا۔ دنیا نے بھی اُنہیں لیڈر تسلیم کرکے بھارت کے اُن ارمانوں پر پانی پھیر دیا جن کے تحت وہ کشمیریوں کی عسکری جدوجہد پر’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کرنے کے لئے رات دن ایک کررہے تھے۔

شہیدبرہان ؒ کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں مقامی نوجوانوں کو عسکریت کی جانب مائل کیا جب عسکریت کے سب سے بڑے حمایتی ملک پاکستان نے کشمیریوں کی عسکری سطح پر مدد کرنے سے قریب قریب ہاتھ کھینچ لیے تھے۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار سے ہی کشمیر کی عسکری تحریک کو سرحد پار سے سپورٹ ملنی بند ہوگئی۔ مشرف کے بعد کی آنے والی عوامی حکومتوں نے بھی عالمی اور ملکی حالات کے پیش نظر مشرف کی عسکریت کے تئیں کشمیر پالیسی کو جاری رکھا۔

برہان شہیدنے کشمیر میں مقامی نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرکے اُنہیں مقامی طور پر ہی عسکری تربیت دے کر اس خیال کو غلط ثابت کردیا کہ کشمیر کی عسکری جدوجہد پاکستان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ برہان مظفر نے یہاں کی عسکری جدوجہد کو کلی طور پر مقامی بنادیا ۔برہان نے گزشتہ دس پندرہ برسوں کے دوران پہلی مرتبہ کشمیر میں مہمان جنگجوؤں کے مقابلے میں کشمیری نوجوانوں کی تعداد اس میدان میں زیادہ کردی۔ برہانؒ نے عسکریت کی لڑائی میدان جنگ سے زیادہ نفسیاتی طور پر لڑی ہے۔ پہلی مرتبہ وادی کشمیر میں مختلف فورسز ایجنسیوں کے اعصاب پر جنگجوؤںکا خوف طاری رہنے لگا تھا۔المختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ برہانؒ مظفر وانی نے کشمیر کی عسکریت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے اِسےAtractive بھی بنادیا ہے۔اگر اُنہیں کشمیری نوجوانوں کے لیے جدید عسکریت کا موجدبھی کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے بقول جتنا کام بُرہان شہیدنے زندہ ہوکر کیا تھا اُس سے کہیں زیادہ اب اِس دنیا سے چلے جانے کے بعد اُن کی قبر کرے گی۔ جس طرح سے اُن کی شہادت کے بعد فورسز اہلکاروں نے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے ظلم و زیادتی کے تمام سابقہ ریکارڈ مات دئے ہیں ، اُس کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے اپنے عسکری ماہرین بھی کہتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہاں عسکریت کا گراف بڑجائے گا۔ بی ایس ایف کے سابق ڈی جی ، ای این رام موہن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پیلٹ کا استعمال کرکے ہم کشمیر میں بہت ہی بڑی غلطی کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کی دیکھ کر اب کشمیر میں ہزاروں نوجوان بندوق کی جانب مائل ہوں گے۔برزلہ میں ایک پڑھے لکھے زخمی نوجوان بڑے ہی پتے کی بات کہی ہے کہ:’’ یہاں ریاست جموں وکشمیر میں عسکریت کا گراف کم ہونے کے بعد ریاستی سرکار نے سیاسی قیادت کے دائرہ تنگ کیا ہے۔ حریت قائدین کو سیاسی سرگرمیاں انجام دینے سے باز رکھا جارہا ہے۔ اس پالیسی کو یہاں کی نوجوان نسل بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ہم کیوں ہندوستان کی سیاسی عمل پر اعتبار کریں جبکہ ہمیں تجربہ ہے کہ اِن کی نیت کبھی بھی صحیح نہیں رہی ہے۔ اس لیے نوجوان نسل کے لیے عسکریت ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے جس پر چل پر ہندوستان سے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ برہان کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔‘‘ یہ ایک زخمی نوجوان کے جذبات ہیں اور اِن جذبات کو دیکھتے ہوئے اچھی طرح سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مستقبل میں یہاں کی نوجوان نسل کا انتخاب کس راستے کا ہوگا۔

کشمیری قوم اپنے قومی ہیرو شہید برہان مظفر وانی کی مرہون منت رہے گی کیونکہ یہی وہ ہستی ہے جس نے یہاں مایوسیوں میں اُمید کا چراغ روشن کیا، جس نے گری ہوئی قوم کو سنبھلنے کا سلیقہ سکھا دیا، جس نے باطل کی مرعوبیت سے نکال کر یہاں کی نوجوان نسل کو حق کی آبیاری کے لیے جان نچھاور کرنے کا سبق دیا۔ اللہ تعالیٰ شہید موصوف کے سئیات کو درگزر فرماکر اُن کے حسنات کو قبول کرے۔ آمین۔