شہید سیف الاسلام

خواجہ محمد شہباز عارف

کارروان جہاد میں ہمیشہ آگے‘ حزب المجاہدین کے روح رواں‘ عزم وہمت کی پہچان سیف الاسلام حیات جاوداں پا گئے۔حزب المجاہدیدین کے چیف آپریشنز کمانڈر جناب غلام حسن خان عرف انعام اللہ خان عرف سیف الاسلام اپنے رب کی رضا اور ملت مظلومہ کشمیر کے لیے عزیز جان قربان کر کے اپنے رب کی جنتوں کے مکین ہو گئے۔

نقش ہیں سب ناتمام‘ خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام‘ خون جگر کے بغیر!

غلام حسن خان شہید۱۹۴۶ء میں ضلع پلوامہ کی بستی تاچھلوشوپیاں میں محترم محمد عبداللہ خان کے گھر پیدا ہوئے گریجویشن کے بعد سرکاری ملازمت اختیارکی۔ پورے علاقے میں نیک دل افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے۔ دوران ملازمت جماعت اسلامی سے تعلق پیدا ہوا۔ آپ کی صالحیت‘صلاحیت‘قابلیت اور محنت کی وجہ سے آپ کو مختصر عرصے میں جماعت اسلامی کا رُکن بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔۸۸۹۱ء میں کشمیر میں جہادی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو محترم غلام حسن خان صاحب نے جہادی صفوں میں شامل ہو کر انعام اللہ خان کے جہادی نام سے کام شروع کیا اور ہزاروں نوجوانوں کو بھارتی جبروتسلط اور ظلم و جبر کے خاتمے اورحصول آزادی کے لیے جہاد بالسیف کا راستہ دکھایا۔ ابتدائے جہاد سے لے کر۷۹۹۱ء تک حزب المجاہدین کے پرچم تلے کئی اہم ذمہ داریوں پر بحسن و خوبی اپنے فرائض انجام دیے۔ اس عرصے میں آپ نے مجاہدین کی مضبوط صف بندی کر کے دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ نے بھارتی فوج کی صفوں کو تلپٹ کر نے کے ساتھ ساتھ گورنر سکسینہ کی ترتیب دی ہوئی کاؤنٹر انسرجسنی کوبھی ملیا میٹ کر دیا۔

۷۹۹۱ء میں مرکزی نظم کے حکم پر بیس کیمپ تشریف لائے۔ آپ کے اہل و عیال بھی جن کو بھارتی فوج نے انتہائی ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر اپنا آبائی گھر اور بستی چھوڑنے پر مجبور کر رکھا تھا‘ کسی طرح بیس کیمپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔آپ کے اعزہ و اقارب کے ساتھ ظلم و ستم کی انتہا یہ تھی کہ آپ کے چچیرے بھائی محمد ایوب خان کو انٹروگیشن کے دوران شدید ٹارچر کر کے نہ صرف شہید کیاگیا بلکہ اس کی آنکھیں بھی نکال لی گئیں۔

بیس کیمپ میں محترم انعام اللہ خان نے کئی اہم ذمہ داریاں بڑی دیانتداری، امانتداری اور خوش اسلوبی سے انجام دیں۔ ان کی عسکری صلاحیتوں کے پیش نظر حزب المجاہدین کی مرکزی کمانڈ کونسل نے ۲۰۰۱ء میں انہیں سالار اعلیٰ (چیف آپریشنل کمانڈر) مقرر کر کے دوبارہ میدان کارزار کی طرف روانہ کیا۔ پچپن سال کی عمر اور شوگر کا موذی مرض ہونے کے باوجود انہوں نے نظم کی بلاچون و چرا اطاعت کا مظاہرہ کیا‘ برف سے ڈھکی بار ہ تیرہ ہزار فٹ بلند چوٹیوں کوعبور کرتے ہوئے چند ساتھیوں کے ہمراہ وادی لہو رنگ میں قدم رکھا۔ یہاں پہنچ کر آپ نے سیف الاسلام کے جہادی نام سے مجاہدین کی از سر نو صف بندی کی اور نئی آن بان کے ساتھ جہادی سفر شروع کیا‘ دشمن فوج پر قریباً ہر روز تابڑ توڑ حملے اور بارودی کارروائیاں ہونے لگیں۔ اس طرح جہاد کشمیر کو اپنی صحیح نہج پر لا کر آپ نے اس میں نئی روح پھونک دی۔

۲ اپریل ۲۰۰۳ء کو چھانہ پورہ سری نگر میں ایک اہم مشن پر جاتے ہوئے کمانڈر سیف الاسلام بھارتی درندوں کے نرغے میں آ کر اچانک گرفتار ہو گئے۔گرفتاری کے چند ہی گھنٹوں بعد بھارتی جلادوں نے کمانڈر موصوف کے جسم پر خنجر مار مارکر ان سے راز اگلوانے کی کوشش کی۔لہو کے فوارے چھوٹتے رہے‘ لیکن دشمن ان کے سینے سے کوئی راز نکالنے میں کامیاب نہ ہوا۔اپنی شکست کا اعلان کرتے ہوئے انسانیت سے عاری بزدل بھارتی فوجیوں نے صبر و ہمت کے اس کوہ گراں کی گردن پر چھری چلادی۔ اس طرح ملت مظلومہ کشمیر کے اس بطل حریت نے پیرانہ سالی میں اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے مظلوم و محکوم وطن عزیز جموں و کشمیرکی آزادی کے لیے جان عزیز قربان کر دی اور ہمیں یہ سبق یاد دلاتے ہوئے رخصت ہو گئے ؎

چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول

کمانڈر سیف الاسلام کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً ہر سو پھیل گئی۔۳اپریل کی شام کو ان کا جسد خاکی ان کے آبائی گاؤں تاچھلو شوپیاں پہنچایا گیا۔ ۴ اپریل جمعہ کے موقعے پر تیس ہزار سے زائد حریت پسند کشمیری عوام نے اپنے محبوب اور غیرت مند کمانڈر کا آخری دیدار کیا اور ان کو اشک بار آنکھوں سے اللہ کی کبریائی اور آزادی کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں مزار شہداء میں دفن کیا۔اس روز پوری ریاست جموں وکشمیر میں مکمل ہڑتال رہی۔جگہ جگہ جلسے اور جلوس نکالے اور آزادی کے حق میں نعرے بلند کیے گئے۔ بیس کیمپ میں بھی ہزاروں لوگوں نے یونیورسٹی گراؤنڈ مظفر آباد میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین‘ جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے امیر حافظ ادریس‘بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری‘ آزاد کشمیر جماعت اسلامی کے امیر جناب اعجاز افضل اور دیگر مقررین نے کمانڈر سیف الاسلام شہید کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔

حزب المجاہدین کے امیر سید صلاح الدین صاحب اپنے بے باک اور جری کمانڈ ر سیف الاسلام شہید کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

”محترم کمانڈر سیف الاسلام کی شہادت سے حزب المجاہدین اور تحریک آزادی کشمیر واقعی ایک عظیم اور باصلاحیت کمانڈر سے محروم ہو گئی۔مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی ٰ مقام عطا فرمائے۔ مرحوم نے ابتدائے تحریک سے ہی نہ صرف ہزاروں نوجوانوں کو جہاد کے لیے متحرک‘ منظم اور مسلح کرنے کی کوششیں کی ہیں بلکہ میدان کارزار میں خود مجاہدین کو ایک ولولہ انگیز اورجرات مند قیادت فراہم کی ہے۔ سیف الاسلام کی شہادت سے انشاء اللہ کاروانِ جہاد کی پیش رفت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔شہادتوں اور عزیمتوں کا یہ کاروان گزشتہ پندرہ بر سوں سے محو سفر ہے۔کمانڈر سیف الاسلام کی شہادت سے پہلے حزب المجاہدین کے بے باک جری ڈویژنل کمانڈر جعفر نعمانی چناب ڈویژن اور کمانڈرابراہیم شمالی زون اللہ رب العالمین کی راہ میں اپنا گرم گرم لہو نچھاور کرچکے ہیں۔ مرحومین نے گزشتہ پندرہ برسوں سے میدان کارزار میں بیسیوں کارروائیوں میں حصہ لے کر سینکڑوں بھارتی فوجیوں اور افسروں کو جہنم رسید کیا ہے۔ اپنی شجاعت اور بہادری اور جذبہ جہاد کا لوہا منوایا ہے‘اسی طریقے سے ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی حزب المجاہدین اوردیگر برادر جہادی تنظیموں سے وابستہ جیالے نوجوان‘ راہ حق کے صف شکن مجاہد اوراور کمانڈر یکے بعد دیگرے سرزمین وطن پر اپنا لہو نچھاور کر کے گلستان آزادی کی آبیاری کرنے میں مصروف ہیں۔اللہ رب العالمین ان سب شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے‘کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ وہ واقعی اپنی زندگی کا مشن پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے اور دین حق کی سربلندی اور وطن عزیز کی آزادی کے لیے جو کچھ ان کے پاس تھا‘ وہ سب کچھ نچھاور کر چکے ہیں۔ان کی شہادت اور ان کا مقدس لہو اور لہو کا ایک ایک قطرہ ملت مظلومہ کشمیر اور مجاہدین صف شکن پر ایک قرض ہے‘ اس لہو اور اس قربانی کی لاج رکھنا‘ ہر قیمت پر لاج رکھنا‘ ہم سب کافرض ہے‘ شہید سیف الاسلام‘ شہید جعفر اور شہید ابراہیم اور دیگر ہزاروں شہداء کا یہی پیغام ہے کہ جب تک وطن عزیز کا چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ بھارت کے پنجہ استبداد سے آزاد نہ ہو جائے تب تک قافلہ سخت جان‘ مجاہدین کا قافلہ راہ جہاد پر گامزن رہے گا اور انشاء اللہ آزادی کے حصول اور نظام حق کے قیام تک یہ جاری رہے گا اور بھارتی قابض فورسز کے خلاف کشمیرکی سر سبز وادیوں‘ برف سے ڈھکے کوہساروں‘گھنے جنگلوں میں پانیوں میں اور خشکیوں میں تیر بہدف کارروائیاں جاری رہیں گی ان شاء اللہ۔ میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آپ کے دلوں میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت موجود ہو‘اگر اللہ رب العالمین کی ذات پر جو تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کا سرچشمہ ہے اس پر کامل بھروسہ ہو‘ اور آپ کی اپنی صفوں میں کامل اتحاد ہو اور آپ کے اندر رجو الی اللہ اور اللہ کی طرف رغبت موجود ہو تو انشاء اللہ المستعان‘ اللہ کی نصرت‘ اللہ کے فرشتے اس عظیم جہاد میں آپ کے شانہ بشانہ ہوں گے۔انشاء اللہالعزیز شہید سیف الاسلام کا سفر کمانڈر غازی نصیر الدین کی قیادت میں جاری رہے گا۔اور وطن عزیز کی آزادی تک یہ سفر جاری رہے گا۔ وطن عزیز کے چپے چپے پر مجاہدین کی تیر بہدف کارروائیاں بھارتی فورسز کے خلاف جاری رہیں گی تاوقتیکہ کشمیرکی سر زمین پر آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ اللہرب العالمین ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔اللہہم سب کو قدم قدم پر‘ زندگی کے ہر موڑ پر اور میدان کارزار کے ہر مرحلے پر‘ ہر مورچے پر ہمیں اپنی رہنمائی‘ دستگیری اور فتح و نصرت عطا فرمائے۔ اللہ رب العزت کا وعدہ‘ کامیابی و کامرانی اور فتح و نصرت کا وعدہ ہمارے ساتھ ضرور پورا ہو گا۔ اللہ ہم سب کو اپنے شہداء کے چھوڑے ہوئے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق‘ ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین۔“

حزب المجاہدین کے چیف آپریشنز کمانڈر سیف الاسلام شہید کا لہو ہمیں یہی آواز دے رہا ہے کہ جس عظیم مقصد کے لیے شہیدں نے اپنا گرم گرم پاک لہو نچھاور کیا‘ ہم اس لہو کی لاج رکھیں اور اس کاروانِ حریت کو منزل مقصود سے ہمکنار کرنا ہمارا مقدس فرض ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم شاہراہ جہاد پر آخری سانس تک ڈٹے رہیں گے یا آزادی حاصل کر کے رہیں گے یا شہادت پائیں گے۔

اے ملت مظلومہ کشمیر کے عزم وہمت کے نشان‘ کمانڈر سیف الاسلام آپ کی عظیم قربانی کو سلام‘ آپ کے ہمالیائی عزم اور حوصلے کو سلام‘ آپ کے قابل رشک صبر و ثبات کو سلام‘ اس مٹی کو سلام جس پر آپ کا لہو گرا‘ ان ہواؤں اور فضاؤں کو سلام جن میں آپ کی آخری سانسیں تحلیل ہوئیں‘ اس مٹی کو سلام جس میں آپ کا جسد خاکی مدفون ہے۔ ؎

آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے